0
Monday 16 Apr 2018 11:50

کیا شہباز شریف نون لیگ کی کشتی بھنور سے نکال پائیں گے؟

کیا شہباز شریف نون لیگ کی کشتی بھنور سے نکال پائیں گے؟
رپورٹ: ٹی ایچ بلوچ

سابق وزیراعظم نواز شریف کی نااہلی کے فیصلے کے بعد شہباز شریف سے سابق وزیر داخلہ اور مسلم لیگ کے سینیئر رہنماء چوہدری نثار علی خان نے ایک ہفتے میں تین ملاقاتیں کی ہیں، ان ملاقاتوں کا مقصد سابق وزیر داخلہ چوہدری نثار اور نواز شریف کے درمیان موجود دوریوں کو ختم کرنیکی کوشش تھا۔ چوہدری نثار اور نواز شریف کے درمیان پیدا ہونے والی اختلاف یا ابہام کی ابتداء ڈان لیکس اسکینڈل سے ہوئی، جسے سابق وزیر اطلاعات پرویز رشید نے ہوا دی اور نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز نے عروج بخشا۔ اس دوران نواز شریف کو یہ باور کروایا گیا کہ چوہدری نثار کے مشورے کے برعکس انکی "مجھے کیوں نکالا" کی پالیسی کامیاب جا رہی ہے اور عوامی حمایت میں اضافے کیساتھ ساتھ ضمنی الیکشن میں بھی کامیابی مل رہی ہے، جس کی وجہ سے پارٹی پر انکی گرفت مزید مضبوط ہو رہی ہے۔ دراصل پرویز رشید نواز شریف کو یہ باور کروانے میں کامیاب رہے کہ انہیں عدلیہ کے فیصلوں کیخلاف عوام میں جانا چاہیے، ساتھ ہی یہ تاثر برقرار رکھنا چاہیے کہ عسکری ادارے جمہوریت پر وار کر رہے ہیں، جبکہ چوہدری نثار اس پالیسی اور طریقہ کار کے حق میں نہیں تھے۔ اس مقصد کو حاصل کرنیکے لئے پرویز رشید کی تجویز پر مریم نواز کو قائدانہ رول سونپا گیا، جس کی وجہ نہ صرف چوہدری نثار بلکہ شہباز شریف کو بھی اپنا اور اپنے بچوں کا سیاسی مستقبل مخدوش نظر آنے لگا، چونکہ مریم نواز اپنے والد کو یہ سمجھانے میں کامیاب رہیں کہ انکے چچا شہباز شریف اور کزن حمزہ شہباز پانامہ اسکنیڈل کیس کو نواز شریف کیخلاف استعمال کر رہے ہیں، جسکا ثبوت انکی خاموشی تھی۔ اس لیے مسلم لیگ نون کی قیادت میں تقسیم گہری ہو گئی۔

پھر نواز شریف کو پارلیمنٹ کے ذریعے لائی جانی والی ترمیم کے ذریعے دوبارہ مسلم لیگ نون کا سربراہ بنا دیا گیا، بعد میں اسے بھی عدلیہ نے کالعدم قرار دیدیا اور نواز شریف تاحیات نااہل بھی ہوگئے۔ اب شہباز شریف کے وارے نیارے ہیں، وہ مسلم لیگ نون کا سربراہ بننے کے بعد نواز شریف کو اپنا قائد بھی کہتے ہیں اور نیب کے حق میں بیان بھی دیتے ہیں، ساتھ ہی وہ چوہدری نثار جیسے پرانے قابل اعتماد ساتھیوں کو پارٹی میں اہم مقام بھی دے رہے ہیں۔ نواز شریف اس وقت بے بس ہیں، وہ جیل بھی جا سکتے ہیں، جس سے انکی طاقت مزید کمزور ہو جائیگی اور نون لیگ شین لیگ میں ڈھل جائیگی۔ اس لئے وزیراعلٰی پنجاب اور چوہدری نثار الیکشن سے قبل ہی اسٹیبلشمنٹ کے تحفظات ختم کرنے کیلئے رابطے جاری رکھے ہوئے ہیں۔ پارٹی میں پیدا ہونے والے کسی بحران پر قبل از وقت کنٹرول مکمل کرنے کیلئے شہباز شریف نواز شریف کو بتانا چاہ رہے ہیں کہ وہ چوہدری نثار کو ساتھ لیکر چلیں گے۔ لیکن اس میں انہیں کامیابی نہیں ملی۔ اس لئے پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر اور وزیراعلٰی پنجاب شہباز شریف نے سابق وزیراعظم نواز شریف اور سابق وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کے درمیان پیدا ہونے والی خلش کو دور کرنے کے لئے کوششیں تیز کر دی ہیں، کیونکہ الیکشن نزدیک ہیں اور یہ مسئلہ حل کئے بغیر انہیں مشکلات کا سامنا ہوسکتا ہے۔ اگر شہباز شریف اسٹیبلشمنٹ کیساتھ اپنا حالات ٹھیک نہیں کرتے تو نیب کیسز، احد چیمہ کی گواہی اور ماڈل ٹاون کیس تلوار ان کے سر پر لٹکتی رہیگی۔ دوسری جانب چوہدری نثار کی پاکستان تحریک انصاف میں شمولیت کی خبریں بھی عام ہیں، اگر ہوگا تو شہباز شریف اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان پل کا کردار کوئی اور ادا نہیں کر پائے گا۔

پرویز رشید اور مریم نواز اب بھی چوہدری نثار کیخلاف ہتک آمیز رویے کے ذریعے انہیں مسلم لیگ نون اور شہباز شریف سے دور رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ میاں شہباز شریف یہ معاملہ جلد از جلد نمٹانا چاہتے ہیں۔ حال ہی میں ماڈل ٹاؤن لاہور میں چوہدری نثار علی خان سے ڈیڑھ گھنٹہ ملاقات کے بعد شہباز شریف جاتی امراء گئے اور اپنے بڑے بھائی نواز شریف سے ملاقات کی اور انہیں سابق وزیر داخلہ کے تحفظات سے آگاہ کیا۔ لیکن اس حوالے سے مسلم لیگ (ن) کے اندرونی ذرائع کا کہنا ہے کہ شہباز شریف، چوہدری نثار اور نواز شریف کے درمیان ایک پل بن کر تعلقات بہتر کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، تاہم ان کی یہ حالیہ کوششیں سود مند ثابت نہیں ہوسکیں۔ یہ خیال بھی ظاہر کیا جا رہا ہے کہ چوہدری نثار سے ملاقات کے بعد شہباز شریف کا جاتی امراء جانا اور نواز شریف سے ملاقات کرنا ایک اچھے نتائج کے طور پر ثابت ہوسکتا تھا، لیکن یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اب بھی کچھ رکاوٹیں موجود ہیں۔ ایک ہفتے کے دوران شہباز شریف اور چوہدری نثار علی خان کے درمیان یہ تیسری ملاقات تھی اور 2 اپریل کی ملاقات کے بعد وزیراعلٰی پنجاب کی جانب سے پارٹی رہنماؤں کو سابق وزیر داخلہ کے خلاف بیان دینے سے روک دیا گیا تھا۔ تاہم مسلم لیگ (ن) کے صدر کی ہدایات کو ہوا میں اڑا دیا گیا تھا اور مریم نواز کی جانب سے کہا گیا تھا کہ چوہدری نثار علی خان کو پارٹی ٹکٹ جاری کرنے کے فیصلے کا استحقاق پارٹی صدر کے پاس نہیں بلکہ ان کے والد نواز شریف کے پاس ہے۔
اس بیان پر ردعمل دیتے ہوئے چوہدری نثار علی خان نے کہا تھا کہ پارٹی ٹکٹ دینے کا مطالبہ کون کر رہا ہے اور نہ ہی انہوں نے اپنے تین دہائیوں سے زائد کے سیاسی کیریئر میں کبھی پارٹی ٹکٹ کے لئے درخواست کی اور نہ ہی مستقبل میں ان کا ایسا کوئی ارادہ ہے۔ چوہدری نثار نے کہا تھا کہ وہ اللہ سے دعا کرتے ہیں کہ وہ اس معاملے میں انہیں کسی پر انحصار کرنے والا نہ بنائے۔

سابق وزیر داخلہ نے یہ واضح کیا تھا کہ وہ مریم نواز کی قیادت میں کام نہیں کریں گے اور اگر جماعت کو ایک گھر تک محدود نہیں رکھا جاتا تو ان کی مسلم لیگ (ن) سے وابستگی جاری رہے گی۔ دوسری جانب مسلم لیگ (ن) کی جماعت میں ایک عام تاثر یہ دیکھنے میں آرہا ہے کہ جب بھی چوہدری نثار علی خان مریم نواز کے پارٹی چلانے سے متعلق کوئی بیان دیتے ہیں تو انہیں نواز شریف کے کیمپ سے کسی نہ کسی جانب سے کوئی جواب ضرور دیا جاتا ہے۔ اس حوالے سے پارٹی کے اندرونی ذرائع کا کہنا ہے کہ مریم نواز، سینیٹر پرویز رشید اور وزیر خارجہ خواجہ آصف پارٹی میں چوہدری نثار کی پرانی حیثیت بحال کرنے کے مخالف ہیں اور شہباز شریف کے لئے یہ آسان نہیں کہ وہ چوہدری نثار اور نواز شریف کو ایک میز پر بٹھا سکیں، کیونکہ اگر وہ چوہدری ںثار کو نواز شریف سے ملنے پر رضامند کر لیتے ہیں تو یہ بہت مشکل ہے کہ وہ اپنے بھائی کو اس پر رضامند کرسکیں۔ تاہم شہباز شریف کے قریبی رہنماؤں کو یہ امید ہے کہ آئندہ دنوں میں وزیراعلٰی پنجاب، ان دونوں رہنماؤں کو ایک ٹیبل پر لانے میں کامیاب ہوجائیں گے۔ اس بارے میں پارٹی کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ اس معاملے کو حل کرنے کے لئے شہباز شریف کے ہاتھوں سے وقت تیزی سے نکل رہا ہے، کیونکہ شہباز شریف اپنے بھائی نواز شریف سے اختلافات کے باعث اپنے قریبی ساتھی چوہدری نثار کو کھونا نہیں چاہتے، کیونکہ اگر چوہدری نثار پارٹی چھوڑنے کا فیصلہ کرتے ہیں تو انتخابات سے قبل مسلم لیگ (ن) کو ایک بڑا دھچکا لگ سکتا ہے۔

کیونکہ چوہدری نثار نہ صرف خود پارٹی چھوڑ دینگے بلکہ مسلم لیگ نون میں موجود ان کے ہم خیال افراد بھی کسی اور پارٹی کو جوائن کرینگے۔ جس سے شہباز  شریف کو ٹوٹی پھوٹی مسلم لیگ نون کیساتھ، اسٹیبلشمنٹ کی مخالفت، نیب اور ماڈل ٹاون کے کیسز، خادم رضوی سمیت بعض بریلوی گروپوں اور آصف علی زرداری کے ہم خیال اہل تشیع سیاسی گروہوں کا مقابلہ کرنا مشکل ہو جائیگا، کیونکہ بلوچستان میں لیگی حکومت گرانے، سینیٹ میں نواز شریف کو شکست دینے کے بعد زرادری نے چیلنج کر رکھا ہے کہ مسلم لیگ نون سے پنجاب چھیننے والے ہیں۔ ایک طرف جنوبی پنجاب سے تعلق رکھنے والے ارکان اسمبلی جنوبی پنجاب صوبہ کا کارڈ استعمال کرتے ہوئے پی ٹی آئی اور پی پی پی سے بارگیننگ میں مصروف ہیں اور دوسری طرف یہ بھی ممکن ہے کہ جماعت اسلامی کی موجودگی کے باوجود متحدہ مجلس عمل مسلم لیگ نون کا دست و بازو نہ بن سکے۔ پنجاب حکومت کے اہم رکن رانا ثناء اللہ بھی نواز شریف کے زیادہ قریب رہے ہیں اور چونکہ شہباز شریف نے انہیں مستعفی ہونیکا مشورہ دیا تھا، جس پہ انہوں نے پارٹی سربراہ نواز شریف کا نام لیتے ہوئے کہا تھا کہ وہ انکے حکم کے پابند ہیں، اب وہ بھی خادم رضوی گروپ کیساتھ معاملات طے کرچکے ہیں۔ اس لئے یہ خیال کیا جا رہا ہے کہ شہباز شریف اگر کامیاب نہیں ہوتے تو ایک بار پھر مسلم لیگ نون کی کشتی بھنور میں آ جائیگی۔
خبر کا کوڈ : 718265
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش