0
Tuesday 17 Apr 2018 16:03

شام پر ناکام فوجی حملے کے بعد امریکہ اور اسرائیل کی بگڑتی سکیورٹی صورتحال

شام پر ناکام فوجی حملے کے بعد امریکہ اور اسرائیل کی بگڑتی سکیورٹی صورتحال
تحریر: ڈاکٹر سعداللہ زارعی

ہفتہ 14 اپریل کی صبح شام پر امریکہ اور اس کے اتحادی ممالک برطانیہ اور فرانس کی جانب سے انجام پانے والے میزائل حملوں کا اہم ترین مقصد اسرائیل کی غاصب صہیونی رژیم اور خطے میں موجود اپنی فورسز کے تحفظ کو یقینی بنانا تھا۔ یہ حملہ خطے میں امریکہ، اسرائیل اور ان کی پٹھو حکومتوں کی مسلسل ناکامیوں اور شکست کے بعد انجام پایا۔ شام آرمی کی جانب سے دمشق کے نواح میں واقع مشرقی غوطہ جس کا رقبہ خود دمشق سے زیادہ ہے، کو تکفیری دہشت گرد عناصر سے چھڑوانے میں کامیابی سے ظاہر ہوتا ہے کہ شام کی مسلح افواج اور اس کے اتحادی ایک طرف تکفیری دہشت گرد عناصر کے زیر قبضہ علاقے آزاد کروانے کی طاقت رکھتے ہیں اور دوسری طرف دمشق مخالف ممالک جیسے امریکہ اور ترکی کی شام میں موجود فورسز کو بھی ملک سے نکال باہر کرنے کی صلاحیت کے حامل ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ گذشتہ تین سال کے دوران تکفیری دہشت گرد عناصر اور اسلامی مزاحمتی بلاک میں جاری جنگ کے دوران مشرقی غوطہ کا معرکہ مشکل ترین معرکہ قرار دیا گیا ہے۔ لہذا شام آرمی کی جانب سے مشرقی غوطہ کی آزادی نہ صرف تکفیری دہشت گرد عناصر کیلئے انتہائی مایوس کن ہے بلکہ ہر اس ملک اور حکومت کیلئے پریشان کن ہے جو شام کو کمزور اور ناتوان دیکھنے کی خواہاں ہے۔

درحقیقت مشرقی غوطہ سے تکفیری دہشت گرد عناصر کا خاتمہ شام حکومت کی روز بروز بڑھتی ہوئی طاقت اور اقتدار کی علامت ہے۔ اسی طرح یہ کامیابی اسلامی مزاحمتی بلاک خاص طور پر حزب اللہ لبنان کی پوزیشن مزید مضبوط ہونے کو بھی ظاہر کرتی ہے۔ امریکہ کو دہشت گردی کی بڑی موج سے شام کی آزادی کے باعث لاحق خوف پر قابو پانے کیلئے ایک بنیادی اقدام کی ضرورت تھی۔ لہذا ٹرمپ حکومت اور امریکی فوج نے ابتدا میں داعش کے بچے کھچے دہشت گرد عناصر، خطے کی بعض عرب حکومتوں اور شام کے شمالی ہمسایہ ملک کی مدد سے شام کے مشرق میں واقع علاقے "التنف" سے لے کر دمشق کے مشرقی حصے یعنی مشرقی غوطہ تک کے اسٹریٹجک علاقے پر کنٹرول قائم کرنے کی کوشش کی۔ اس مقصد کیلئے امریکہ نے اس علاقے میں ایک فوجی ہوائی اڈے سمیت کئی فوجی اڈے قائم کر کے شام کی سکیورٹی و سیاسی صورتحال پر موثر اہم ترین ملک میں تبدیل ہونے کی کوشش کی۔ یہ امریکی پالیسی شام، ایران اور روس کی جانب سے بعض اوقات شخصی اور بعض اوقات مشترکہ اقدامات کے نتیجے میں ناکامی کا شکار ہو گئی۔

اس کے بعد امریکہ نے سعودی، صہیونی، برطانوی اور ترک حکومت کے تعاون سے ایک محدود حملے کے ذریعے رائے عامہ کی توجہ اپنی گذشتہ فوجی ناکامی سے ہٹا کر ایک بظاہر بڑی کامیابی کی جانب مرکوز کرنے کی کوشش کی تاکہ اس طرح عالمی سطح پر امریکہ کی کھوئی ہوئی شان و شوکت واپس لوٹائی جا سکے۔ لیکن شام کے خلاف فوجی کاروائی کے مسئلے میں ایک ایک کر کے امریکہ کے اتحادی پیچھے ہٹتے رہے جس کے نتیجے میں 14 اپریل کو صرف دو ممالک کے تعاون سے امریکہ کو محدود میزائل حملوں پر ہی اکتفا کرنا پڑا۔ اس محدود فوجی کاروائی کے نتیجے میں اسلامی مزاحمتی بلاک اور روس کی بجائے خود امریکہ پر ہی انگلیاں اٹھنا شروع ہو گئیں اور امریکی حکومت، فوجی پالیسی ساز اداروں اور سکیورٹی اداروں کا وقار مجروح ہو گیا۔ دوسری طرف شام کے ایئر ڈیفنس سسٹم کی جانب سے تقریباً ستر فیصد میزائل مار گرائے جانے کے باعث شام اور اس کی اتحادی قوتوں خاص طور پر ایران اور حزب اللہ لبنان میں خوداعتمادی کی نئی لہر دوڑ گئی۔

اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ امریکہ کے ان دو فوجی منصوبوں کی ناکامی اور اس کے نتیجے میں اسلامی مزاحمتی بلاک کے حوصلے بلند ہو جانے کے بعد خطے میں امریکی فوجی اڈوں کی سکیورٹی صورتحال کیا نوعیت اختیار کر چکی ہے۔ اس وقت خطے میں امریکہ کے 37 مستقل جبکہ 100 موبائل اڈے ہیں جن میں اس کے طیارہ بردار بحری بیڑے بھی شامل ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس وقت ان امریکی فوجی اڈوں کی سکیورٹی کمزور ہو چکی ہے اور ان میں موجود امریکی فوجی خود کو زیادہ مشکل حالات میں محسوس کر رہے ہیں جبکہ وہ جوابی حملوں کے خطرات سے بھی دوچار ہیں۔ مذکورہ بالا فوجی مراکز میں تعینات امریکی فوجیوں کو اب ماضی نسبت اپنے اردگرد سے زیادہ چوکنا رہنا ہو گا۔ اب خطے میں امریکہ مخالف اقدامات کو زیادہ قانونی جواز حاصل ہو چکا ہے۔

دوسری طرف شام کے خلاف امریکی فوجی کاروائی کی ناکامی کے بعد اسرائیل کی غاصب صہیونی رژیم کی سلامتی کو بھی شدید دھچکہ پہنچا ہے۔ اسرائیل کے اہم ترین حامی ملک کی فوجی شکست کے نتیجے میں فلسطینیوں کے حوصلے بہت بلند ہو چکے ہیں اور خطے میں دیگر اسرائیل قوتیں بھی پہلے سے زیادہ جری ہو گئی ہیں۔ ایسے وقت میں اسرائیل کے سب سے بڑے حامی یعنی امریکہ کی فوجی ناکامی جب غزہ کے اہالی بھرپور انداز میں حق واپسی کی تحریک چلائے ہوئے ہیں اور مقبوضہ سرزمین کے گرد فولادی دیوار کے خاتمے کیلئے کوشاں ہیں، اسرائیلی حکام کیلئے اپنی سلامتی سے متعلق مزید پریشانی اور مایوسی کا باعث بنی ہے۔
خبر کا کوڈ : 718556
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش