QR CodeQR Code

ایف آئی اے سرگرم، متحدہ عرب امارات میں کھربوں کی جائیداد کے حامل پاکستانیوں کی حتمی فہرست تیار

17 Apr 2018 21:34

عوامی حلقوں کا کہنا ہے کہ کھربوں روپے ملکی سرمائے کو بیرون ملک منتقل کیا جاتا رہا اورسرکاری ادارے ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھے رہے، اب جبکہ کرپشن کے خلاف سپریم کورٹ سمیت دیگر ادارے فعال ہوئے ہیں تو لوٹے گئے سینکڑوں ارب ڈالرز کی وطن واپسی کو جلد از جلد یقینی بنایا جائے، ذمہ دار عناصر کو سخت سے سخت سزائیں دی جائیں۔


ترتیب و تدوین: ایس حیدر

فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے) کی جانب سے متحدہ عرب امارات میں کھربوں کی جائیداد رکھنے والے پاکستانیوں کی حتمی فہرست مرتب کرلی ہے، رواں سال ماہ فروری کے اوائل میں بھی انکشاف ہوا تھا کہ 7 ہزار سے زیادہ پاکستانیوں نے دبئی میں 11 سو ارب روپے سے زیادہ کی جائیدادیں بنا رکھی ہیں، جن میں سیاستدان، اداکار، وکلا، ڈاکٹر، بیوروکریٹ، کاروباری شخصیات اور بینکر بھی شامل ہیں، انکشاف ہوا ہے کہ ایف آئی اے اور اسٹیٹ بینک کے پاس اس بات کا کوئی ریکارڈ نہیں کہ یہ پیسہ پاکستان سے متحدہ عرب امارات کیسے گیا۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق متحدہ عرب امارات میں غیرقانونی طور پر جائیداد بنانے والے ہزاروں پاکستانی کاروباری شخصیات پر ایک مرتبہ پھر تحقیقات کی تلوار لٹکا دی گئی ہے۔ ایف آئی اے کراچی کی جانب سے سال 2015ء میں قیمتی زرمبادلہ کی تیزی سے بیرون ملک منتقلی کو روکنے کے سلسلے میں بیرون ملک خاص طور پر متحدہ عرب امارات میں جائیداد کی خریداری کیلئے کھربوں روپے بیرون ملک منتقل کرنے والے پاکستانی شہریوں کے خلاف پاکستان اور دبئی میں سرگرم پراپرٹی ڈیلرز اور ڈیولپرز سے ملنے والی اطلاعات کی بنیاد پر تحقیقات کا آغاز کیا گیا تھا۔ اس سلسلے میں ایف آئی اے کرائم سرکل کراچی میں انکوائری نمبر 15/28 درج کی گئی تھی، تاہم ابتدا میں 50 اور بعد ازاں مجموعی طور پر 100 پاکستانی کاروباری (کراچی اور لاہور سے تعلق رکھنے والی) شخصیات کی متحدہ عرب امارات میں جائیداد ہونے کا انکشاف کیا گیا تھا۔ ایف آئی اے کی تحقیقات کا بنیادی نکتہ یہ تھا کہ فارن ایسٹس ڈیکلیریشن ایکٹ 1972ء کے تحت کسی بھی پاکستانی شہری کو بیرون ملک پراپرٹی خریدتے وقت اسٹیٹ بینک کو آگاہ کرنا لازمی ہے۔ ایف آئی اے نے اس سلسلے میں اسٹیٹ بینک سے رابطہ کیا، تو انکشاف ہوا کہ اس قانون کے تحت تاحال ایک بھی پاکستانی نے بیرون ملک جائیداد خریدنے سے آگاہ نہیں کیا ہے۔

ایف آئی اے حکام نے وزارت خارجہ کے ذریعے اپنے پاس موجود فہرست کے مطابق پاکستانی شہریوں کی جائیداد کی تحقیق کیلئے دبئی حکام سے رابطہ کیا، تاہم تاحال 3 سال گزر جانے کے باوجود دبئی حکومت نے اس سلسلے میں خاموشی اختیار کئے رکھی، یہ وہ مقام تھا جہاں ایف آئی اے کی تحقیقات کا سلسلہ رک گیا، تحقیقات تقریباً 3 سال تک تعطل کا شکار رہی اور سینئر پولیس افسر بشیر میمن کی جانب سے ایف آئی اے کے ڈائریکٹر جنرل کا عہدہ سنبھالنے کے بعد انکوائری کو دوبارہ فعال کرنے کا عندیہ دیا گیا، تاہم اس سلسلے میں حائل قانونی رکاوٹوں، متحدہ عرب امارات کی جانب سے ایف آئی اے کو تاحال معلومات فراہم نہ کرنے اور کرپشن کا ایک نیا دروازہ کھولنے کے خدشات کے پیش نظر اس سلسلے میں غور و خوص جاری تھا کہ سپریم کورٹ نے اس سلسلے میں نوٹس لیتے ہوئے ایف آئی اے کو جامع تحقیقات کرنے کی ہدایت کی۔ اس دوران متحدہ عرب امارات میں اثاثے رکھنے والی کاروباری شخصیات کی تعداد تقریباً 5 ہزار سے تجاوز کر چکی تھی، تاہم جب مختلف ذرائع سے ملنے والی اطلاعات میں شامل ناموں کی فہرست تیار کی گئی، تو اب تک مجموعی طور پر 1200 سے 1500 کے قریب پاکستانی کاروباری شخصیات کے نام حاصل ہوئے۔ ایف آئی اے نے اس سلسلے میں لاہور میں 31 اور کراچی میں 22 نئی انکوائریاں رجسٹرڈ کیں اور اینٹی کرپشن سرکل کے ہر آئی او کو 3 انکوائریاں دی گئیں۔ ہر انکوائری میں 13 کاروباری شخصیات کے نام رکھے گئے۔ اس سلسلے میں ایف آئی اے کاروباری شخصیات کو 2 مرتبہ نوٹسز جاری کر چکی ہے، تاہم کاروباری حلقوں کا کہنا ہے کہ تحقیقات کو دوبارہ فعال کرکے ملکی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھنے والے تاجروں اور صنعتکاروں کو ہراساں کیا جا رہا ہے اور کرپشن کا ایک نیا دروازہ کھولا گیا ہے۔ بیرون ملک جائیداد رکھنے والوں میں بیوروکریٹس اور سیاستدان سرفہرست ہیں۔

سابق صدر کراچی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹریز اور لیڈنگ امپورٹر ہارون اگر نے کہا کہ سیاستدانوں کی یو اے ای، برطانیہ اور امریکا میں جائیداد کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہیں، ہر سیاسی جماعت کے چیدہ چیدہ رہنماؤں نے بڑے پیمانے پر بیرون ملک پراپرٹی میں سرمایہ کاری کر رکھی ہے، تاہم تاجر اور صنعتکاروں کی گردن پتلی ہے، اس لئے کسی بھی قسم کے احتساب کا آغاز ان سے کیا جاتا ہے اور بعد ازاں مک مکا کرکے معاملے ہی دبا دیا جاتا ہے۔ ہارون اگر نے کہا کہ سیاستدان اور بیوروکریٹس تو ملکی دولت لوٹ کر بیرون ملک منتقل کرتے ہیں، ان کی جائیداد چوری، ڈکیتی اور کرپشن کے پیسے سے خریدی جاتی ہیں، تاہم ان کے خلاف کبھی بھی کارروائی نہیں کی جاتی۔ انہوں نے کہا کہ ماضی میں بھی ایف آئی اے نے حوالہ اور ہنڈی کے نام پر کاروباری افراد کو بڑے پیمانے پر ہراساں کیا اور اب ایف آئی اے کیلئے کرپشن کا ایک نیا در کھول دیا گیا ہے۔ اس سے قبل بھی رواں سال ماہ فروری میں انکشافات ہو چکے ہیں کہ گذشتہ کچھ سالوں میں 11 سو ارب روپے سے زائد رقم خاموشی سے پاکستان سے دبئی منتقل کی جا چکی ہے، تقریباً 7 ہزار پاکستانیوں نے قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے دبئی میں جائیدادیں خریدیں، جن میں سیاست دان، اداکار، وکلا، ڈاکٹرز، بیوروکریٹس، کاروباری حضرات اور بینکرز کے علاوہ چند میڈیا مالکان، ریٹائرڈ جرنیلز اور ریٹائرڈ ججز بھی شامل ہیں۔ 2002ء سے اب تک 5 ہزار پاکستانیوں نے دبئی میں اپنے نام سے جائیدادیں خریدیں، جبکہ 2 ہزار پاکستانیوں نے اپنے فرنٹ مین کے نام پر یہ جائیدادیں لیں۔ اس مجموعی تعداد میں سے تقریباََ 780 پاکستانی دہری شہریت رکھتے ہیں یا پھر وہ پاکستان سے باہر مقیم ہیں، جبکہ باقی 6 ہزار سے زائد پاکستان میں ہی رہتے ہیں۔ پاکستانیوں نے تقریباََ 967 ولاز یا رہائشی عمارتیں گرینز کے علاقے میں خریدیں۔ پاکستانیوں کے 75 قیمتی ترین فلیٹس ایمریٹس ہلز، 165 جائیدادیں ڈسکوری گارڈنز میں، 167 فلیٹس جمیرا آئی لینڈ، 123 گھر جمیرا پارک، 245 فلیٹس جمیرا ولیج، 10 جائیدادیں پام ڈیرا، 160 پام جبل علی، 25 جائیدادیں پام جمیرا شور لائن، 234 جائیدادیں انٹرنیشنل سٹی اور 230 جائیدادیں سلیکون ویلی میں ہیں۔

دبئی کی ان جائیدادوں کی مالیت کم از کم 10 لاکھ درہم سے شروع ہوک ر ڈیڑھ کروڑ درہم تک ہیں، جن کی مالیت 3 کروڑ پاکستانی روپے سے لے کر 45 کروڑ روپے تک بنتی ہے۔ اس حوالے سے اسٹیٹ بینک نے 23 ستمبر 2015ء کو ایف آئی اے کو جواب دیا اور آگاہ کیا کہ 1990ء کے بعد کسی بھی پاکستانی نے منقولہ و غیر منقولہ جائیداد سے متعلق آگاہ نہیں کیا۔ دوسری جانب ایف بی آر کا کہنا ہے کہ 95 فیصد پاکستانیوں نے اپنے ٹیکس ریٹرنز میں دبئی کی جائیدادوں کو ظاہر نہیں کیا۔ تقریباً 2 درجن اراکین پارلیمنٹ کی بھی دبئی میں جائیدادیں ہیں اور بعض حکومتی اداروں کی عدم دلچسپی کی وجہ سے بھی تحقیقات آگے نہیں بڑھ سکیں۔ متحدہ عرب امارات خصوصاً دبئی میں جائیدادیں خریدنے کیلئے کھربوں روپے کی رقم کا بڑا حصہ حوالہ اور ہنڈی کے ذریعے ملک سے باہر بھیجا گیا۔ واضح رہے کہ دبئی میں جائیدادیں بنانے والوں میں پاکستانی تیسرے نمبر پر ہیں اور پاکستانیوں نے اس معاملے میں امریکا، برطانیہ اور دیگر امیر ممالک کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے، صرف مقامی افراد اور بھارتی پاکستان سے آگے ہیں۔ عوامی حلقوں کا کہنا ہے کہ کھربوں روپے ملکی سرمائے کو بیرون ملک منتقل کیا جاتا رہا اور سرکاری ادارے ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھے رہے، اب جبکہ کرپشن کے خلاف سپریم کورٹ سمیت دیگر ادارے فعال ہوئے ہیں، تو بیرون ملک موجود پاکستان سے لوٹے گئے سینکڑوں ارب ڈالرز کی وطن واپسی کو جلد از جلد یقینی بنایا جائے، ذمہ دار عناصر کو سخت سے سخت سزائیں دی جائیں۔


خبر کا کوڈ: 718644

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/article/718644/ایف-ا-ئی-اے-سرگرم-متحدہ-عرب-امارات-میں-کھربوں-کی-جائیداد-کے-حامل-پاکستانیوں-حتمی-فہرست-تیار

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org