0
Tuesday 24 Apr 2018 00:26

آل سعود رژیم کے کھوکھلے اقتدار کا بھانڈا پھوٹ گیا

آل سعود رژیم کے کھوکھلے اقتدار کا بھانڈا پھوٹ گیا
تحریر: محمد محمدی

شہزادہ محمد بن سلمان نے 2015ء میں سعودی عرب کے وزیر دفاع کا عہدہ سنبھالتے ہی آہستہ آہستہ اپنی فرمانروائی کے مقدمات فراہم کرنا شروع کر دیئے۔ گذشتہ سال کے اواخر میں ان کے ولیعہد بننے کے بعد دنیا کے مختلف ذرائع ابلاغ میں ان کے والد اور موجودہ سعودی فرمانروا ملک سلمان بن عبدالعزیز کی اقتدار سے علیحدگی اور محمد بن سلمان کو نیا سعودی فرمانروا بنائے جانے کی خبریں گردش کر رہی تھیں۔ لیکن تاج و تخت تک پہنچنے کیلئے کئی اہم اور بڑے قدم اٹھانے کی ضرورت تھی لہذا شہزادہ محمد بن سلمان نے پہلے قدم پر چالیس سے زیادہ سعودی شہزادوں اور وزراء کو گرفتار کر لیا۔ اگرچہ ان افراد کو کرپشن کے خلاف گرینڈ آپریشن کے نام پر گرفتار کیا گیا لیکن اکثر ماہرین اور تجزیہ کار اسے محمد بن سلمان کی جانب سے اپنے سیاسی مخالفین اور رقیبوں کو میدان سے نکال باہر کرنے کی کوشش قرار دے رہے ہیں۔

البتہ سعودی عرب کے سابق وزیر داخلہ اور ولیعہد محمد بن نائف کی معزولی نے بھی شہزادہ محمد بن سلمان کے اقتدار تک پہنچنے میں انتہائی اہم کردار ادا کیا تھا۔ اگلے مرحلے پر سعودی عرب میں ایسی اصلاحات انجام پائیں جن کا بانی محمد بن سلمان کو ظاہر کیا گیا جیسے خواتین کو ڈرائیونگ کا حق عطا کرنا۔ اگرچہ سعودی عرب کے روایتی حلقوں کی جانب سے ان اقدامات کی مخالفت کی گئی لیکن نوجوان طبقے نے ان کا خیر مقدم کیا اور یوں محمد بن سلمان کی محبوبیت میں ایک حد تک اضافہ دیکھنے میں آیا۔ سعودی ولیعہد نے ان اقدامات کے ذریعے رائے عامہ اپنی پالیسیوں کے حق میں ہموار کرنے کی کوشش کی۔

مزید برآں، محمد بن سلمان نے بین الاقوامی سطح پر بھی اپنی فرمانروائی کے مقدمات فراہم کرنا شروع کر دیئے۔ اس مقصد کیلئے انہوں نے خطے کی سطح پر ایران سے ٹکراو کو شدت بخشی، یمن کے خلاف بھرپور جنگ کا آغاز کر دیا اور اسرائیل سے اپنے خفیہ تعلقات کو اعلانیہ سطح پر لے آئے۔ اسی طرح محمد بن سلمان نے امریکی حکومت اور اسرائیلی لابی کا کھلا ساتھ دیتے ہوئے قدس شریف کو اسرائیل کا دارالحکومت قرار دینے کے منصوبے کی کھلی حمایت کی جبکہ علاقائی سطح پر بھی امریکہ، برطانیہ، فرانس اور اسپین کے دوروں کے ذریعے مغربی طاقتوں کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کی۔

سعودی عرب کے تیزی سے بدلتے حالات کے تناظر میں بارہا محمد بن سلمان کا فرمانروا بننے پر مبنی قیاس آرائیاں کی گئیں جبکہ علاقائی اور بین الاقوامی ذرائع ابلاغ نے بھی عنقریب ملک سلمان بن عبدالعزیز سے محمد بن سلمان کو طاقت کی ممکنہ منتقلی کی خبریں شائع کیں۔ البتہ ہفتے کی شام ریاض میں ملک سلمان کے محل میں وسیع پیمانے پر فائرنگ کا واقعہ پیش آیا۔ محمد بن سلمان بھی اسی محل میں قیام پذیر ہیں۔ العوجا نامی اس محل میں پیش آنے والے فائرنگ کے واقعے کے باعث ریاض آنے اور جانے والی تمام تجارتی اور فوجی پروازیں منسوخ کر دی گئیں۔ اسی طرح ملک سلمان بن عبدالعزیز اور محمد بن سلمان کو سخت سکیورٹی میں امریکہ کے زیر کنٹرول فوجی اڈے منتقل کر دیا گیا۔ واقعے کی ابتدا میں کئی قسم کی قیاس آرائیاں سامنے آئیں جن میں سے ایک سعودی عرب میں ممکنہ بغاوت پر مبنی تھی۔ دوسری طرف سعودی عرب کے حکومتی اور سکیورٹی اداروں کی پراسرار خاموشی نے بھی عوام کے ذہن میں یہ تاثر ڈالا کہ یہ مسئلہ سنجیدہ نوعیت کا ہو سکتا ہے۔

بعض ماہرین اس واقعے کو خود شہزادہ محمد بن سلمان کی کارستانی قرار دیتے ہیں۔ اس کی دلیل یہ دی جاتی ہے کہ محمد بن سلمان اس قسم کے مشکوک اقدامات کے ذریعے اقتدار تک رسائی کا مقدمہ بنانا چاہتے ہیں۔ البتہ ایک اور احتمال یہ پایا جاتا ہے کہ اس واقعے میں محمد بن سلمان کے سیاسی مخالفین ملوث ہوں۔ اس وقت آل سعود خاندان میں ایسے شہزادوں کی بڑی تعداد موجود ہے جو محمد بن سلمان کے شدید مخالف ہیں۔ چند ماہ پہلے محمد بن سلمان نے بڑی تعداد میں سعودی شہزادوں کو گرفتار کر لیا تھا اور انہیں بھاری رقوم کی ادائیگی کے بعد رہا کیا گیا۔ لہذا ممکن ہے ان میں سے کسی نے انتقامی کاروائی انجام دی ہو۔ سعودی عرب کے سرکاری ذرائع نے اعلان کیا ہے کہ اس فائرنگ کی اصل وجہ یہ تھی کہ ایک کھلونا ہیلی کاپٹر اڑتا اڑتا سعودی محل کی حدود میں داخل ہو گیا تھا جسے محافظوں نے فائرنگ کر کے گرا دیا۔ البتہ آزاد ذرائع سے اس خبر کی تصدیق نہیں ہو سکی۔

ہفتے کی رات ریاض میں فائرنگ کے اس واقعے نے ثابت کر دیا کہ سعودی عرب میں کہیں بھی امن و امان نہیں اور شہزادہ محمد بن سلمان جس کھوکھلے اقتدار کا اظہار کرتے ہیں وہ کانچ کی طرح نازک ہے اور ہر لمحہ خطرے سے دوچار ہو سکتا ہے۔ یہ واقعہ ظہران میں عرب لیگ کے اجلاس کے کچھ ہی دن بعد پیش آیا۔ یہ اجلاس بھی انصاراللہ یمن کی جانب سے میزائل حملوں کے خوف سے ریاض کی بجائے ظہران میں منعقد کیا گیا۔ ظہران سعودی عرب کے انتہائی مشرقی حصے میں واقع ہے۔ اس سے بھی دارالحکومت ریاض کے محفوظ نہ ہونے اور خراب سکیورٹی صورتحال کی نشاندہی ہوتی ہے۔

دوسری طرف ٹویٹر پر سعودی حکومت مخالف معروف شخص "مجتہد" نے فاش کیا ہے کہ سعودی بادشاہی محل پر ہونے والی فائرنگ ایک ایسی گاڑی سے کی گئی جس پر مشین گن نصب کی گئی تھی۔ اس نے مزید لکھا کہ مختلف ذرائع سے معلوم ہوتا ہے کہ اس حملے کا نشانہ سعودی ولیعہد محمد بن سلمان تھا۔ فائرنگ کے اس تبادلے میں دونوں طرف سے سات افراد ہلاک ہوئے ہیں جبکہ حملہ آور بھاگنے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔
خبر کا کوڈ : 720079
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش