0
Wednesday 25 Apr 2018 11:45

لبنان اور عراق میں پارلیمانی انتخابات اور اسلامی مزاحمتی بلاک کا کردار

لبنان اور عراق میں پارلیمانی انتخابات اور اسلامی مزاحمتی بلاک کا کردار
تحریر: امیر حسین رجبی معمار

اگلے ماہ مغربی ایشیائی خطے میں دو اہم اور حساس واقعات رونما ہونے والے ہیں جو علاقائی اور بین الاقوامی سیاسی کھلاڑیوں کیلئے بہت زیادہ اہمیت کے حامل ہیں۔ یہ واقعات لبنان اور عراق میں پارلیمانی الیکشن ہیں۔ عراق اور لبنان میں پارلیمانی نظام حکومت قائم ہے لہذا پارلیمنٹ کے انتخابات آئندہ حکومت کی تشکیل میں انتہائی بنیادی کردار ادا کرتے ہیں۔ مغربی ایشیا کے دو اہم ممالک ہونے کے ناطے یہ الیکشن اسلامی مزاحمتی بلاک کیلئے بھی اور مغربی عربی محاذ کیلئے بھی بہت زیادہ اہمیت رکھتے ہیں۔ خطے کی موجودہ پرآشوب اور رقابت پر مبنی فضا میں، خاص طور پر تکفیری فتنے کے خاتمے کے بعد، بغداد اور بیروت میں مختلف سیاسی قوتوں کی محاذ آرائی انجام پا رہی ہے۔ تکفیری عناصر کا خاتمہ عراق پر براہ راست جبکہ لبنان پر بالواسطہ طور پر اثرانداز ہو رہا ہے۔ یہ اہم تبدیلی بہت حد تک مغربی ایشیا میں مستقبل میں طاقت کے توازن کی تصویر پیش کر سکتی ہے۔

یہ حقیقت کسی پر پوشیدہ نہیں کہ سعودی عرب کی سربراہی میں امریکی صہیونی بلاک سے سازباز کی پالیسی پر گامزن محاذ، عراق اور لبنان میں الیکشن کے تناظر میں پیدا ہونے والے مواقع سے اپنے حمایت یافتہ عناصر اور قوتوں کو آگے لانے کیلئے بھرپور فائدہ اٹھانے کی کوشش کرے گا۔ اس وقت عراق اور لبنان اسلامی مزاحمتی بلاک کے اہم اور اسٹریٹجک ٹھکانے تصور کئے جاتے ہیں جبکہ یہ دونوں ممالک اسلامی جمہوریہ ایران کے اصلی اتحادی بھی شمار ہوتے ہیں۔ سعودی سربراہی میں عرب اتحاد کی کوشش ہو گی کہ وہ ان دو ممالک کی اہم سیاسی شخصیات پر اثرانداز ہونے کے ذریعے پارلیمنٹ جیسے اہم حکومتی ادارے میں ایسے عناصر بھیجے جو ان ممالک کو اسلامی مزاحمتی بلاک سے دور کرنے کی کوشش کریں۔ یہ مقصد اسی صورت میں حاصل کیا جا سکتا ہے جب ان ممالک کے پالیسی ساز اداروں سے ایسی پالیسیاں بن کر باہر نکلیں جو اسلامی مزاحمتی اصولوں سے اختلاف رکھتی ہوں اور سعودی صہیونی بلاک سے سازباز کی پالیسی پر استوار ہوں۔

عراق میں حشد الشعبی کے خلاف جاری سازشیں
عراق ایک ایسا ملک ہے جہاں مختلف اقوام اور مذاہب کے لوگ آباد ہیں۔ یہاں بڑی تعداد میں سیاسی پارٹیاں موجود ہیں جنہوں نے پارلیمنٹ کے الیکشن میں حصہ لینے کیلئے آپس میں گٹھ جوڑ کر رکھا ہے جس کے نتیجے میں بہت سے سیاسی اتحاد ابھر کر سامنے آئے ہیں۔ اگرچہ گذشتہ سال کی نسبت اس سال پارلیمانی الیکشن میں حصہ لینے والی سیاسی پارٹیوں کی تعداد میں کمی واقع ہوئی ہے لیکن اس کے باوجود چند اصلی سیاسی اتحادوں کے درمیان رقابت کا سلسلہ شدت سے جاری ہے۔ گذشتہ پارلیمانی انتخابات 2014ء میں انجام پائے تھے جس میں 277 مختلف سیاسی پارٹیوں نے 36 سیاسی اتحاد تشکیل دیئے تھے جبکہ اس سال منعقد ہونے والے پارلیمانی الیکشن میں شرکت کیلئے 143 سیاسی پارٹیاں 27 سیاسی اتحادوں کی صورت میں جبکہ 61 سیاسی پارٹیاں خودمختار حیثیت سے موجود ہیں۔

عراق کے پارلیمانی انتخابات میں حصہ لینے والے چند اصلی سیاسی اتحادوں میں موجودہ وزیراعظم حیدر العبادی کی سربراہی میں "نصر" اور "صلاح"، ابو حسن عامری کی سربراہی میں "فتح" جس میں زیادہ تر اسلامی مزاحمتی گروہ خاص طور پر بدر آرگنائزیشن شامل ہیں، عراق کے نائب صدر اور سابق وزیراعظم نوری مالکی کی سربراہی میں "قانون کی حکومت"، ایاد علاوی کی سربراہی میں "الوطنیہ" کا نام قابل ذکر ہے۔ واضح ہے کہ تکفیری دہشت گرد گروہ داعش کے خاتمے کے بعد ایسی صورتحال میں جب عراق کے زیر انتظام کردستان کی خودمختاری کی سازش بھی ناکامی کا شکار ہو چکی ہے، بغداد اور اربیل میں اختلافات اپنے عروج پر ہیں اور کرکوک جیسے متنازعہ علاقے حساس صورتحال اختیار کر چکے ہیں۔

ایسے میں سعودی عرب اور خطے میں اس کے اتحادی عرب ممالک، عراق میں موجود اختلافات کو ہوا دے کر کسی بڑے سیاسی اتحاد کی تشکیل میں رکاوٹ ڈالنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ان کا مقصد یہ ہے کہ عراق کا کوئی بھی سیاسی اتحاد پارلیمنٹ میں فیصلہ کن اکثریت حاصل نہ کر پائے اور مستقبل میں ایک مضبوط مرکزی حکومت تشکیل نہ پا سکے۔ ان کی نظر میں بغداد میں کمزور مرکزی حکومت کا نتیجہ عوامی رضاکار فورس حشد الشعبی کی کمزوری کی صورت میں ظاہر ہو گا۔ ریاض سے وابستہ ذرائع ابلاغ کی سرگرمیوں نیز سعودی ولیعہد کی جانب سے بغداد کا دورہ کرنے کی کوشش جو عوامی اعتراض کے باعث کینسل کر دیا گیا کو اسی تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔

لبنان میں حزب اللہ لبنان کے خلاف سازشیں
اس میں کوئی شک نہیں کہ آل سعود رژیم اور خطے میں اس کی لابی لبنان میں ایک ہی اہم اور بنیادی ہدف کی خاطر کوشاں ہے اور وہ اس ملک کے سیاسی میدان میں اسلامی مزاحمتی تنظیم حزب اللہ لبنان کے کردار کو کم کر کے اس پر دباو میں اضافہ کرنا ہے۔ گذشتہ برس جب سعودی حکمرانوں نے لبنانی وزیراعظم سعد حریری کو اغوا کیا ہوا تھا اور انہیں ریاض میں جبری استعفی نامہ پڑھنے پر مجبور کیا تھا تو اس کا اصل مقصد بھی لبنان میں انارکی پھیلا کر اس ساری صورتحال کا ذمہ دار حزب اللہ لبنان کو ظاہر کرنا تھا۔ اس وقت حزب اللہ لبنان اور لبنان کی دیگر سیاسی جماعتیں غیر معمولی عقل مندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے انتہائی خوبصورت انداز میں اس مسئلے کو سلجھانے میں کامیاب ہو گئیں لیکن سعودی حکام نے سازشوں کا سلسلہ بند نہیں کیا۔

اب جبکہ اسلامی مزاحمتی بلاک نے تکفیری فتنے کو جڑ سے اکھاڑ کر امریکی صہیونی عربی محاذ کے اس فوجی پراجیکٹ کا خاتمہ کر دیا ہے، آل سعود رژیم ایک بار پھر میدان میں اتر چکی ہے اور 14 مارچ گروپ کے ذریعے اپنے سیاسی اہداف کے حصول کیلئے کوشاں ہو گئی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ لبنان کے سیاسی حالات اسلامی مزاحمتی بلاک کی طاقت پر براہ راست اثرانداز ہوتے ہیں لہذا حزب اللہ لبنان کی سربراہی میں 8 مارچ گروپ اور اس کی دیگر اتحادی سیاسی جماعتوں کا کردار انتہائی اہم ہے۔ لبنان کے سیاسی میدان میں اسلامی مزاحمت کی حامی قوتوں کی برتری کا نتیجہ خطے کی سیاسی صورتحال پر بھی ظاہر ہو گا۔

نتیجہ
ایسا دکھائی دیتا ہے کہ علاقائی طاقتوں کے درمیان رقابت، مغربی ایشیا میں عالمی طاقتوں کی بھرپور موجودگی، شام میں اسلامی مزاحمت کے حق میں تیزی سے رونما ہونے والی تبدیلیوں، خلیج تعاون کونسل میں اختلافات اور دیگر وجوہات کی بنا پر خطے میں واحد عرب محاذ تشکیل دینے میں سعودی عرب کی ناکامی اور بعض دیگر مسائل کے باعث عراق اور لبنان میں عنقریب منعقد ہونے والے پارلیمانی انتخابات خاص اہمیت اور حساسیت اختیار کر چکے ہیں۔ ان دو ممالک میں منعقد ہونے والے ان پارلیمانی انتخابات کے نتائج نہ صرف اندرونی سطح پر سیاسی قوتوں کی پوزیشن بلکہ مغربی ایشیا خطے کی سطح پر پیدا ہونے والے سیاسی اور سکیورٹی قوتوں کے توازن پر بھی اثرانداز ہوں گے۔ اسی طرح آئندہ چند سالوں تک خطے کی جیوپولیٹیکل صورتحال کا انحصار بھی انہیں انتخابات کے نتائج پر ہے۔ لہذا اسلامی مزاحمتی بلاک سے وابستہ سیاسی گروہوں اور افراد کو بہت زیادہ سیاسی بصیرت اور شعور کا مظاہرہ کرنا ہو گا اور آپس کے فرعی اختلافات بھلا کر ایک مضبوط مرکزی حکومت کی تشکیل پر زور دینا ہوگا۔
خبر کا کوڈ : 720387
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش