0
Saturday 28 Apr 2018 22:25

کوئٹہ ٹارگٹ کلنگ، محبت گولیوں سے بو رہے ہو

کوئٹہ ٹارگٹ کلنگ، محبت گولیوں سے بو رہے ہو
تحریر: ارشاد حسین ناصر

آج ایک بار پھر کوئٹہ کے ہزارہ اپنی دکان پر بیٹھے نشانہ بن گئے، چچا بھتیجا جعفر علی سید اور محمد علی نامی دو شیعہ مسلمانوں کو جمال الدین افغانی روڈ پہ ان کی الیکٹرک کی دکان پہ موٹر سائیکل سواروں نے نشانہ بنایا اور اس مصروف شاہراہ پر کارروائی کے بعد بڑے آرام سے نکل گئے، اس سے قبل اسی ماہ کے آغاز میں بھی اسی ایریا میں قندھاری بازار کے پاس ایک پیلی ٹیکسی میں سوار پانچ شیعہ ہزارہ کو ٹارگٹ کیا گیا، جس میں ایک شیعہ نذیر حسین شہید اور ایک زخمی ہوا جبکہ دیگر لوگ محفوظ رہے، جبکہ چار دن قبل مغربی بائی پاس پر دو شیعہ ہزارہ محمد علی رضائی اور محمد زمان کو بھی نشانہ بنایا گیا تھا، کوئٹہ میں یہ ٹارگٹ کلنگ اب پھر تیزی سے جاری ہے، کچھ عرصہ وقفہ کے بعد قاتلوں کا گروہ پھر سے منظم کارروائیاں کرنے لگا ہے، بلوچستان کے حالات سے آگاہ لوگ جانتے ہیں کہ یہاں پر حکومت کا ان معاملات (سکیورٹی وغیرہ) کے حوالے سے کتنا عمل دخل ہوتا ہے اور حکومت رکھنے والے ان معاملات کے بارے ہر دور میں ہاتھ کھڑا کرتے دکھائی دیئے ہیں، ملکی سکیورٹی کے ادارے، فورسز اور خفیہ ایجنسیوں کے ہاتھوں میں یہ سارے معاملات کسی سے ڈھکے چھپے نہیں، جب سے بلوچوں کے نام پہ مسلح بغاوت شروع ہوئی ہے اور فورسز کو نشانہ بنایا جانے لگا ہے تب سے یہ معاملات فورسز اور ایجنسیز کے ہاتھوں میں ہی رہے ہیں اسی وجہ سے جب بھی کسی بھی گروہ پر کوئی اس طرح کی مصیبت آئی ہے تو انگلیاں فورسز پہ ہی اٹھی ہیں، شیعہ ہزارہ کلنگ کا ایشو کوئی نیا نہیں ہے، یہ ایک پرانا مسئلہ ہے جسے حل کرنے کی کوئی سنجیدہ کوشش ہی نہیں کی گئی، افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے حکمرانوں اور اداروں کے ذمہ داران نے اس مسئلہ میں بےحد کوتاہی کا مظاہرہ پیش کیا ہے اور شدید تعصب کا شکار نظر آئے ہیں، انسانی حقوق کی ایک غیر جانبدار تنظیم کی رپورٹ کے مطابق بلوچستان میں گذشتہ پانچ برس میں شیعہ ہزارہ افراد کو بے دردی سے شہید کیا گیا ہے، ان کی تعداد 509 ہے جبکہ 627 لوگ ان واقعات میں زخمی ہوئے ہیں، زخمیوں کی حالت کا اندازہ لگانا بےحد دردناک ہوتا ہے اس لئے کہ یہ لوگ اپاہج ہو جاتے ہیں، کسی کی ٹانگ کٹ جاتی ہے کسی کا بازو، کسی کے پیٹ میں گولیاں اور بارود ہوتا ہے کسی کی آنکھیں ضائع ہو جاتیں ہیں۔ حقیقت میں ان کی جان بچ بھی جائے تو یہ ورثاء کیلئے بہت بڑا بوجھ اور ہمیشہ کا درد بن جاتے ہیں، جو ماہرین کے مطابق شدید نفسیاتی مسائل کا شکار ہو جاتے ہیں اور اہل خانہ کیلئے بوجھ بن جاتے ہیں۔

ہم سب جانتے ہیں کہ موجودہ آرمی چیف نے افواج پاکستان کی کمان سنبھالنے کے بعد آپریشن ردالفساد کا اعلان کیا اور قبائلی و رہائشی ایریاز میں یکساں طور پہ دہشت گردوں کے خاتمے اور ان کے سہولت کاروں کیخلاف آپریشن کرنے کا اعلان کیا، اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ بہت سے ایسے قبائلی ایریاز میں افواج پاکستان کو کامیابیاں بھی ملیں اور دہشت گرد اپنے انجام کو بھی پہنچے، بہت سوں کو پھانسی کی سزا بھی دی گئی، اور ہزاروں کی تعداد میں گرفتاریاں بھی سامنے آئیں، افواج پاکستان کی ان کارروائیوں اور آپریشنز کو عوامی سطح پر بھی حمایت حاصل رہی اور لوگوں نے افواج پاکستان کی دہشت گردی کے خلاف قربانیوں کو نا صرف تسلیم کیا، بلکہ عملی طور پہ سراہا گیا، ہم ملت تشیع اس دہشت گردی کا اولین شکار رہے ہیں اور چلے آ رہے ہیں، ہماری طرف سے بھی آپریشن ضرب عضب کے بعد آپریشن ردالفساد کی بھرپور حمایت سامنے آئی اور یہ توقع کی گئی کہ ہمارے ہزاروں لوگوں کے قاتل دہشت گردوں کو بھی ان کے کئے کی سزا دی جائے گی، اور ہماری ملت کے قاتلوں کو بھی ایسے ہی لٹکایا جائے گا، جیسے افواج پاکستان کے قاتلوں کو سزا دی گئی اور پھانسیوں پہ لٹکایا گیا، تاکہ دہشت گردوں کے اندر خوف پیدا ہو اور وہ فرقہ وارانہ قتل و غارت کے ذریعے ملک کے مستقبل کو دائو پہ نہ لگا سکیں، خصوصی طور پہ ہمارے کوئٹہ کے شیعہ ہزارہ قبائل، ڈیرہ اسماعیل خان، پشاور، ہنگو، اور کئی دیگر شہروں میں اہل تشیع کا تسلسل سے قتل و غارت گری و دہشت گردی کے سامنے پل باندھیں گے، مگر ہم نے دیکھا کہ یہ سلسلہ تھم نہ سکا، آج تک یہ سلسلہ اسی طرح جاری ہے، کوئٹہ تسلسل سے ٹارگٹ کلنگ کا شکار ہے، ڈیرہ اسماعیل خان بھی ایک عرصہ سے اسی کیفیت سے دوچار ہے، دیگر شہروں میں بھی کسی بھی وقت بٹن آن کر دیا جاتا ہے، بلوچستان میں چونکہ حکومت سے زیادہ فورسز کا کنٹرول ہے اور صاحبان اختیار حقیقت میں وہی سمجھی جاتی ہیں اس لئے ہم سمجھتے ہیں کہ جب بھی عوام کا احتجاج ہوتا ہے، تو نظریں وردی والوں کی طرف ہی جاتی ہیں، ابھی حالیہ واردات کے بعد سوشل میڈیا کو وزٹ کیا تو ہر طرف سے یہی نعرہ سننے کو مل رہا تھا کہ یہ جو دہشت گردی ہے۔۔اس کے پیچھے وردی ہے۔۔آخر کیا وجہ ہے کہ پختون نیشنلسٹ احتجاج کریں تو ان کی طرف سے یہی نعرہ سننے کو ملتا ہے اور اگر ہزارہ دہشت گردی کا شکار ہو کر جنازوں کو اٹھا کر احتجاج کریں تو وہاں بھی یہی نعرہ سننے کو ملتا ہے، کیا واقعی ایسا ہے؟ یہ ایک سوال ہے جو ذہن میں گردش کر رہا ہے، یہ ایک احساس ہے جو بار بار ابھر رہا ہے ۔۔کیوں ۔۔آخر کیوں ؟

ممکن ہے بہت سے لوگ اس کا جواب سوچے سمجھے بغیر یہی دیں کہ یہ غیر ملکی سازش ہے اور اس کے پیچھے را ہے افغان ایجنسی ہے۔ میرے خیال میں اس کا جواب یہ نہیں کہ یہ الزام دے دیا جائے کہ اس کے پس پردہ را ہے، اس کے پس پردہ NDS افغان ایجنسی ہے، ہاں یہ تو ضرور ہے کہ اس قتل و غارت کے پیچھے را ہو سکتی ہے، افغان ایجنسی ہو سکتی ہے، مگر جن کے گھر اجڑ گئے ہیں، جن کے پیارے ان سے چھن گئے ہیں، جن کا لہو بہایا جا رہا ہے، جنہیں تسلسل سے دہشت گردی کا شکار کیا جا رہا ہے، جنہیں چن چن کے مارا جا رہا ہے، جو آہ و بکا کرتے ہیں تو کوئی سنتا نہیں، جو مدد کیلئے پکارتے ہیں تو جاتا نہیں، جو اس ملک و ریاست کے وفادار ہیں، جو اس ملک کی عزت و توقیر بڑھانے والے ہیں، جو ملک کیلئے دیار غیر سے تمغے لانے والے ہیں، جنہوں افواج پاکستان میں بے پناہ قربانیاں دی ہیں، جو جنرل موسی رکھتے ہیں، جو میجر محمد علی شہید رکھتے ہیں، انہیں آپ را سے نہیں جوڑ سکتے، یہ اس ملک کی توہین ہو گی، یہ اس قوم کی توہین ہو گی، یہ ان اعلٰی سول و فوجی اعزازات کی توہین ہو گی، جو اس قوم کے فرزندان نے پائے ہیں، حقیقت یہ ہے کہ ہم بطور ریاست اس قوم کی خدمات کا اعتراف ہی نہیں کر سکے، ہم نے اس قوم کو انصاف ہی نہیں دیا، ہم نے اس قوم کو مایوسی کے سوا کیا دیا ہے، ہماری عدالتیں جو ہر چھوٹے بڑے مسئلہ پر ازخود نوٹس لینے سے نہیں ہچکچاتی، انہوں نے شیعہ ہزارہ کلنگ پر ایک ازخود نوٹس لینا گوارا نہیں کیا، موجودہ اعلٰی عدلیہ میں کئی ججز کا تعلق بھی بلوچستان سے ہے اور اس سے قبل افتخار محمد چودھری کا اپنا تعلق کوئٹہ سے تھا انہوں نے بھی شیعہ ہزارہ کلنگ پر کوئی پھرتی نہیں دکھائی۔ یہ سوالیہ نشان ہے کہ جو عدلیہ فورسز کے سربراہان کو اس حد تک لے آتے ہیں کہ وہ پارلیمنٹ اور سپریم کورٹ میں پیش ہو کر دہشت گردی کے حقائق پر بریفنگ دیں، وہی عدلیہ اس اہم ترین ایشو پر خاموش بلکہ مجرمانہ طور پہ خاموش دکھائی دیتی ہے۔ اسی ماہ کہ 10اپریل کے اخبارات اٹھا کے دیکھیں کہ شیعہ ہزارہ کلنگ پر موجودہ چیف جسٹس کو ہزارہ سول سوسائٹی کے افراد کے ایک وفد نے کوئٹہ رجسٹری میں ملاقات کر کے اپنی تشویش کا اظہار کیا اور نوٹس لینے کا مطالبہ کیا۔ افسوس موجودہ عدلیہ نے اپنی آزادی کا ڈھول تو ضرور پیٹا ہے مگر اس اہم ترین ایشو پر کوئی کردار ادا نہیں کیا، جس کے بعد مقتولین کے ورثاء کو یہ نعرے لگانا پڑ رہے ہیں کہ یہ جو دہشت گردی ہے۔۔اس کے پیچھے وردی ہے، عملی طور پر اس کے ذمہ دار وہ تمام حلقے ہیں جن کی ذمہ داری بنتی تھی کہ تحفظ دیتے اور قاتلوں و دہشت گردوں کو لگام دیتے، مگر انہوں نے قاتلوں کو تحفظ دیا، انہیں قومی حلقے میں لانے کے نام پر کھلی چھوٹ دے دی، افسوس کہ ہماری ریاست نے ہر دور میں ان دہشت گردوں، کرائے کے قاتلوں سے اپنا تعلق کسی نا کسی صورت گانٹھ کے رکھا ہے ،کل اگر یہ لوگ افغانستان میں روس کو روکنے کیلئے ہماری فورسز کے زیر سایہ تھے تو بعد ازاں یہی گروہ امریکہ کو حد میں رکھنے کیلئے ہماری پشت پناہی اور سرپرستی میں داخل ہو گئے، اب انہی ہمارے قاتلوں، دہشت گردوں اور ملک کے لٹیروں کے ذریعے ملک میں امن و امان اور سلامتی کی ضمانت چاہی جا رہی ہے۔ ایسا کل ہوا تھا اور نا اب ہوگا،ملک اسی وقت محفوظ ہوگا جب اس ملک کے حقیقی وارث و باوفا فرزندان کو ان کے جائز حقوق دیئے جائیں گے، اور ریاست ان کے خلاف متعصبانہ رویہ ترک کرے گی، جب قائداعظم کے فرامین کی روشنی میں ملک آگے بڑھے گا، جب اقبال کے خوابوں کی تعبیر بن کے سامنے آئے گا۔جب ہر ایک کو مساوی انصاف ملے گا، جب کلمہ لاالہ الا اللہ کی بنیاد پر حاصل کیا گیا، ملک اسلام کے زریں اصولوں برابری و مساوات، انصاف و عدل کا بول بالا ہوگا اور اگر ہمیں انصاف نہیں ملے گا تو یہ مت بھولیں کہ ہم گوشت پوست کے بنے انسان نہیں، ہم بھی گوشت پوست کے بنے ہیں، ہم پر بھی حالات کا اثر ہوتا ہے، ہم بھی جذبات رکھتے ہیں، ہم بھی احساسات رکھتے ہیں، یہ احساسات کسی بھی وقت طوفان بن سکتے ہیں، ایسا طوفان جو سب کچھ بہا کر لے جائے گا چونکہ:
محبت گولیوں سے بو رہے ہو
وطن کا چہرہ خون سے دھو رہے ہو
گماں تم کو کہ رستہ کٹ رہا ہے
یقیں مجھ کو کہ منزل کھو رہے ہو
خبر کا کوڈ : 721168
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش