1
0
Sunday 29 Apr 2018 11:10

افغانستان میں داعش کے نام پر سرگرم دہشتگرد عناصر اور پس پردہ حقائق

افغانستان میں داعش کے نام پر سرگرم دہشتگرد عناصر اور پس پردہ حقائق
تحریر: سید حسام رضوی

ایک عرصے سے عالمی ذرائع ابلاغ میں تکفیری دہشت گرد گروہ داعش سے وابستہ عناصر کو عراق اور شام سے افغانستان منتقل کئے جانے کی خبریں شائع ہو رہی ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ افغانستان میں داعش نے اپنا کام کہاں سے شروع کیا ہے اور اس ملک میں داعش کے اہداف اور سرگرمیاں کیا ہیں؟ شام اور عراق میں داعش کی تشکیل کے بعد اس گروہ کے سرکردہ رہنماوں نے عالمی حکومت تشکیل دینے کے نطریئے کے تحت افغانستان کے طالبان سمیت دیگر جہادی گروہوں سے رابطہ کرنا شروع کر دیا۔ اس بارے میں طالبان کے بعض رہنماوں کی تیسرے ملک میں داعش کے رہنماوں سے ملاقات کی بعض غیر مصدقہ خبریں بھی موصول ہوئی ہیں، لیکن اس کا کوئی نتیجہ ظاہر نہیں ہوا اور دونوں گروہوں کے رہنماوں کے درمیان ملاقات اور بات چیت حاصل خیز ثابت نہ ہوسکی۔

اس کے بعد داعش اور طالبان میں ٹکراو پیدا ہونا شروع ہوگیا اور طالبان کے سابق سربراہ ملا اختر محمد منصور نے داعش کے سربراہ ابوبکر بغدادی کو ایک کھلا خط لکھا، جس میں داعش سے وابستہ عناصر کی افغانستان میں سرگرمیوں کی مذمت اور انہیں ختم کرنے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ شام میں بحران کے آغاز سے چار سال بعد افغانستان میں داعش کی موجودگی کی علامات ظاہر ہونا شروع ہوگئیں۔ افغانستان کے مختلف حصوں جیسے ننگرہار، فراہ اور غور کے صوبوں میں داعش سے وابستگی کا دعویٰ کرنے والے عناصر نے کالے جھنڈے بلند کئے اور خود کو داعش کی ولایت خراسان کا حصہ ظاہر کیا۔ اسی وقت بی بی سی جیسے ذرائع ابلاغ نے بھی افغانستان میں داعش کی موجودگی کا اعلان کیا اور افغانستان میں ہونے والے خودکش دھماکوں اور دہشت گردانہ حملوں کو داعش کی کارستانی قرار دیا۔

یہ ایک واضح امر ہے کہ افغانستان میں داعش کے نام پر سرگرم دہشت گرد عناصر کا شام اور عراق میں موجود داعش نیٹ ورک سے کوئی تنظیمی یا باقاعدہ رابطہ نہیں بلکہ افغانستان میں موجود دہشت گرد عناصر داعش جیسے "بڑے نام" سے فائدہ اٹھا کر اس ملک میں دوبارہ جنگ کی آگ جلانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس مقصد میں بعض حکومتیں ان کا ساتھ دے رہی ہیں۔ سب سے اہم اور بڑا ملک جو افغانستان میں نئی جنگ شروع ہونے کو اپنے لئے فائدہ مند تصور کرتا ہے اور براہ راست دہشت گردوں کی حمایت اور کمان کر رہا ہے امریکہ ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اپنی قومی سلامتی اسٹریٹجی کے تحت خطے کے ممالک جیسے ایران، چین اور روس کو شدت سے علاقائی مسائل میں الجھانے کی پالیسی پر گامزن ہیں۔ لہذا افغانستان میں داعش کے نام سے سرگرم دہشت گرد عناصر درحقیقت امریکی حمایت اور کمان کے تحت کام کر رہے ہیں، جن کی جانب سے نہ صرف امریکی مفادات کو کوئی خطرہ نہیں بلکہ وہ ڈونلڈ ٹرمپ کی نئی ڈاکٹرائن کو عملی جامہ پہنانے میں مصروف ہیں۔

اگر امریکی حکام طالبان کے ذریعے اپنے حریف ممالک کو افغانستان میں مصروف کرسکتے تو شاید اس ملک میں داعش کے نام سے نیا دہشت گرد گروہ تشکیل نہ پاتا، لیکن ان کی جانب سے گذشتہ کئی سالوں سے طالبان کو اس بات پر راضی کرنے کی تمام کوششیں ناکام ثابت ہوچکی ہیں، جس کے بعد واشنگٹن نے افغانستان میں نیا دہشت گرد گروہ تشکیل دے کر ان سے اپنے سیاسی مفادات حاصل کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ اس نئے تشکیل پانے والے دہشت گرد گروہ کو ایک "بڑے نام" کی ضرورت تھی، تاکہ مختصر مدت میں بعض بڑی کامیابیاں حاصل کر پائے، لہذا شام اور عراق میں داعش کی مشہوری کے پیش نظر اسے بھی داعش کی ایک شاخ ظاہر کر دیا گیا۔ اس بڑے نام کی بدولت خطے میں ایسے سرگردان شدت پسند عناصر جن کا دہشت گردی اور تخریبی کارروائیوں کے علاوہ کوئی اور کام نہیں اور وہ شام اور عراق بھی جانے سے قاصر تھے فوراً اس نئے دہشت گردانہ نیٹ ورک کا حصہ بن گئے۔

افغانستان اور پاکستان کے سرحدی علاقوں میں موجود یہ سرگردان دہشت گرد عناصر اپنی بقا کی خاطر اس نئے دہشت گرد گروہ میں شامل ہونے پر مجبور تھے۔ امریکہ کی جانب سے حمایت اور مدیریت، عرب حکومتوں کا پیسہ، مغربی ذرائع ابلاغ کی جانب سے افغانستان میں داعش کی موجودگی پر مبنی پروپیگنڈہ اور ہوائی راستوں کے ذریعے اسلحہ کی سپلائی ایسے اسباب تھے، جن کا نتیجہ افغانستان میں نئی داعش کی تشکیل کی صورت میں ظاہر ہوا۔ البتہ اس داعش کا شام اور عراق میں سرگرم داعش سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ گروہ اپنے حامی ممالک اور حکومتوں کی توقعات پر پورا نہیں اتر سکا اور وہ کامیابیاں حاصل نہیں کر پایا، جس کی وہ توقع کر رہے تھے۔ اس ناکامی کی بھی اپنی کچھ وجوہات ہیں، جو تحریر حاضر کے وسعت دامن سے خارج ہیں اور انہیں بیان کرنے کیلئے علیحدہ تحریر کی ضرورت ہے۔

دوسری طرف کچھ ایسی خبریں بھی سننے میں آ رہی ہیں کہ خود افغان حکومت نے بھی اس نئے دہشت گرد گروہ کو کنٹرول کرنے میں کوئی موثر کردار ادا نہیں کیا۔ اسی طرح بعض رپورٹس میں شام اور عراق میں سرگرم داعش سے وابستہ بعض دہشت گرد عناصر کا افغانستان میں اس نئے گروہ سے الحاق کا ذکر بھی کیا گیا ہے۔ اس کے بارے میں کہا جا سکتا ہے کہ امریکہ نے جب دیکھا کہ شام اور عراق میں داعش کا خاتمہ قریب ہے تو وہاں سے باقیماندہ دہشت گرد عناصر کو افغانستان منتقل کرنا شروع کر دیا۔ دوسری طرف ترکی نے بھی شام کے ساتھ سرحدی علاقوں میں اپنی حدود کی سکیورٹی اور کرد عناصر کو اپنی حدود سے دور کرنے کیلئے فوجی آپریشن کا آغاز کر دیا۔ اگرچہ ترکی اور شام کے سرحدی علاقوں میں موجود النصرہ فرنٹ اور القاعدہ سے وابستہ عناصر ترک حکومت کیلئے خطرہ تصور نہیں کئے جاتے بلکہ وہ ترک حکومت سے تعاون بھی کرتے ہیں، لیکن ترکی ان پر اعتماد نہیں کرتا اور لمبے عرصے تک ان کی موجودگی سے پریشان ہے، لہذا ہوائی راستے سے انہیں افغانستان منتقل کرنے میں مصروف ہے۔
خبر کا کوڈ : 721204
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Pakistan
سلام از پاکستان
بہ بہ سید جان۔ خوش اومدی
ہماری پیشکش