0
Wednesday 2 May 2018 21:24

مشرق وسطیٰ میں امریکہ کا نیا پلان۔ ایران ترنوالہ ثابت نہیں ہوگا

مشرق وسطیٰ میں امریکہ کا نیا پلان۔ ایران ترنوالہ ثابت نہیں ہوگا
تحریر: تصور حسین شہزاد

امریکہ نے جب سے مشرق وسطیٰ میں قدم رکھے ہیں، تب سے جہاں مشرق وسطیٰ میں امن و امان کی صورتحال مخدوش ہوئی ہے، وہیں امریکہ کی اپنی معیشت بھی تباہی کے دہانے پر پہنچ گئی ہے۔ اوپر سے امریکیوں کی بدقسمتی کہ انہیں ڈونلڈ ٹرمپ جیسا صدر مل گیا۔ عراق اور شام میں عبرتناک شکست کے بعد اب امریکہ نے اپنی پالیسی تبدیل کر لی ہے۔ امریکہ کا اصل ہدف ایران ہے۔ امریکہ اس کوشش میں ہے کہ کسی نہ کسی طرح ایران کو اپنا نشانہ بنا لے، مگر ایران امریکہ کیلئے کسی بھی موقع پر تر نوالہ نہیں بنا اور نہ ہی مستقبل میں ایسے کوئی امکانات دکھائی دے رہے ہیں کہ امریکہ ایران کو نیچا دکھا لے گا۔ اگر امریکہ یہ سمجھتا ہے کہ وہ ایران کو عدم استحکام کا شکار کرکے مشرق وسطٰی میں امن قائم کر لے گا تو یہ اس کی خام خیالی ہے۔ اب صورتحال ایسی دکھائی دیتی ہے کہ جب سے سعودی عرب اور اسرائیل دوست بنے ہیں، امریکہ پر دباؤ بڑھ گیا ہے۔ دونوں ملک (اسرائیل اور سعودی عرب) خود تو ایران سے خوفزدہ ہیں، لیکن حرکتوں سے بھی باز نہیں آتے اور آگے امریکہ کو کر دیتے ہیں۔ اب بھی مشرق وسطیٰ میں اسرائیل اور سعودی عرب مل کر امریکہ کو ایران کی ’’کچھار‘‘ میں دھکیلنے کے درپے ہیں۔ اطلاعات ہیں کہ امریکہ ایران میں حکومت کی تبدیلی کے منصوبے پر عمل پیرا ہے۔ امریکہ میں مقرر ہونیوالے قومی سلامتی کے جان بولٹن کا تو پہلے دن سے ہی یہی موقف رہا ہے کہ ایران میں علماء کی حکومت کو تبدیل کئے بغیر مشرق وسطٰی میں تبدیلی نہیں آسکتی۔

اس حوالے سے امریکہ اپنے تئیں کوششیں کرتا رہتا ہے مگر اُسے اس ’’مشن‘‘ میں کبھی کامیابی نہیں مل سکی، کیونکہ اگر امریکہ یہ سمجھتا ہے کہ اپوزیشن کو مضبوط کرکے ایرانی حکومت کا تختہ الٹا جا سکتا ہے تو یہ امریکہ کی جہالت کے سوا اور کچھ نہیں۔ کیونکہ امریکہ کی جانب سے اگر کوئی ایسی کوشش ہوتی ہے تو ایرانی عوام ایسی اپوزیشن سے لاتعلق ہو جاتے ہیں اور امریکی منصوبہ خاک میں مل جاتا ہے۔ اگر امریکہ یہ سمجھتا ہے کہ وہ کالعدم ’’مجاہدین خلق‘‘ کو ایرانی حکومت کیخلاف استعمال کر لے گا تو یہ بھی خواب ہی ہوسکتا ہے، کیونکہ مجاہدین خلق صدام کیساتھ مل کر 8 سال تک ایران کیخلاف کوشش کرتے رہے ہیں مگر کامیاب نہیں ہوسکے۔ امریکہ کی جانب سے ایران میں مختلف گروہوں کو بغاوت پر اُکسانے کی کوششیں بھی اسلامی حکومت کیلئے نئی نہیں، کیونکہ حالیہ دنوں میں امریکہ نے یہ کارڈ بھی استعمال کرکے دیکھ لیا ہے، جب ایران میں حکومت مخالف مظاہرے شروع ہوگئے تھے، تو جواب میں حکومت نے اپنے حامیوں کو مظاہرے کرنے کی کال دے دی تھی تو مخالفین اور باغی جھاگ کی طرح بیٹھ گئے اور اب ان کا کہیں نام و نشان تک نہیں، حالانکہ امریکہ اور اس کے نمک خوار ایرانی حکومت مخالف مظاہروں کے دوران خوشی سے پھولے نہیں سما رہے تھے، کہ اب اسلامی حکومت گئی، مگر اسلامی حکومت تو قائم ہے، باغی گدھے کے سر سے سینگوں کی طرح غائب ہوچکے ہیں۔

امریکہ نے ایران کے اندر بھی بغاوت پیدا کرنے کا ناکام تجربہ کرکے دیکھ لیا ہے، جس میں اسے کامیابی کی بجائے الٹا نقصان ہوا ہے۔ امریکہ کو یہ بات ذہن نشین رکھنی چاہیے کہ ایران عراق، افغانستان اور مشرق وسطٰی کے ممالک میں چاہے تو اتنا عدم استحکام پیدا کرسکتا ہے جتنا امریکہ، سعودی عرب اور اسرائیل مل کر بھی ایران میں پیدا نہیں کرسکتے۔ ایران میں نظام ولایت فقیہہ ہے، جس کے باعث ایران مضبوط ہے۔ ایران کا یہ نظام اتنا موثر ہے کہ ملک کے اندرونی بحرانوں کو آسانی سے ہینڈل کر لیتا ہے جبکہ ایران کے برعکس امریکہ کے کاسہ لیس عرب ممالک میں ایسا کوئی نظام نہیں، وہاں کے حکمرانوں اور عوام میں بھی خلا ہے، عوام اپنے حکمرانوں اور امریکہ کیخلاف ہیں۔ یہ تاثر امریکہ کیلئے خطرناک ہے۔ خطے سے داعش کا صفایا کرنے میں بھی ایران کا اہم کردار ہے، جس سے عرب عوام ایران کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ امریکہ ایران کے نظام ولایت سے شکست کھا چکا ہے۔ شام میں امریکہ کی عبرتناک شکست اس کی زندہ مثال ہے، امریکہ کو ایران نے شام کے محاذ پر ایسی شکست دی ہے کہ میڈیا کے جھوٹے پروپیگنڈہ کے باوجود امریکہ کو ایسا طمانچہ پڑا ہے کہ جس کی تاب ابھی تک امریکہ نہیں لا سکا۔ اب نظام ولایت فقیہہ سے شکست کے بعد امریکہ نے اپنی پالیسی تبدیل کر لی ہے۔

اب امریکہ افغانستان اور سعودی عرب کیساتھ مل کر ایران، روس اور چین میں عدم استحکام پھیلانا چاہتا ہے۔ امریکہ کا ہدف ایران اور روس ہیں۔ امریکہ کی نئی منصوبہ بندی یہ ہے کہ مشرق وسطٰی کو عدم استحکام کا شکار کرنے کے بعد وہ روس کو نشانہ بنائے گا تھا، ساتھ ہی چین کو نشانہ بنانے کیلئے پاکسان میں سی پیک کا منصوبہ بگاڑنے کیلئے بلوچستان میں دہشتگردی کو فروغ دے گا۔ ہزارہ کی ٹارگٹ کلنگ بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ جسے پاکستان کے غیور ہزارہ نے ناکام بنا دیا ہے۔ آرمی چیف نے کوئٹہ میں سکیورٹی کے خصوصی انتظامات کی ہدایت کی ہے اور کلبھوشن نیٹ ورک کی باقیات کیخلاف بھی بڑے پیمانے پر آپریشن کا فیصلہ کر لیا گیا ہے۔ امریکہ کا ہدف بنیادی طور پر ایران، روس اور چین ہیں۔ چین کیساتھ پاکستان کو بھی اس منصوبے کا شکار کیا جانا ہے۔ اس حوالے سے ایران اور روس نے اپنی تیاریاں مکمل کر رکھی ہیں۔ روس کی وزارت خارجہ کے شعبہ ایشیئن کے سکینڈ ڈائریکٹر زمیر کبولوف کا کہنا ہے کہ ہم امریکہ اور افغانستان سمیت سعودی عرب کی پالیسیوں اور رابطوں پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔ ایران کی جانب سے بھی اس کا دفاعی نظام موثر ہے۔ ایران بھی امریکہ کی ہر سازش سے نمٹنے کی مکمل تیاری میں ہے۔ رہا چین! تو چین نے اپنے دفاع کو اپنی معیشت سے بھی زیادہ مضبوط بنا رکھا ہے۔ امریکہ اگر یہ سمجھتا ہے کہ وہ سعودی عرب اور افغان صدر کو ساتھ ملا کر خطے میں کوئی نیا پلان شروع کرسکتا ہے تو اس سے اسے سوائے پچھتاوے کے اور کچھ نہیں ملے گا۔ اس صورتحال میں چونکہ امریکہ کا ہدف ایران، روس اور چین ہیں تو ان تینوں ممالک کو بھی مشترکہ دفاعی پالیسی بنا کر اس کو کاؤنٹر کرنا ہوگا، کیونکہ ایک ایک ہوتا ہے اور دو گیارہ۔
خبر کا کوڈ : 721977
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش