0
Thursday 10 May 2018 21:23

افسر شاہی کی نااہلی و نظام کی ابتری، سندھ کو ٹیکس وصولی میں 7 ارب 65 کروڑ کا نقصان

افسر شاہی کی نااہلی و نظام کی ابتری، سندھ کو ٹیکس وصولی میں 7 ارب 65 کروڑ کا نقصان
رپورٹ: ایس حیدر

ٹیکس نظام کی ابتری، افسر شاہی کی نااہلی اور بعض دیگر اسباب کے باعث سندھ میں ہر سال اخراجات کے مقابلے میں وصولیوں میں کمی بڑھتی جا رہی ہے، جبکہ ایک اندازے کے مطابق رواں مالی سال میں یہ خسارہ 9 فیصد ہونے کا امکان ہے۔ وصولیوں میں مسلسل کمی کا ایک سبب سندھ حکومت کے ٹیکس نظام میں خرابیاں اور افسر شاہی کی نااہلی ہے، جس کے باعث اخراجات کے مقابلے میں وصولیاں ہر سال کم ہوتی جا رہی ہیں، آڈیٹر جنرل آف پاکستان کی ایک رپورٹ کے مطابق دیگر صوبائی محکموں کے علاوہ سندھ میں ٹیکس وصول کرنے اور وصولیوں کو بڑھانے کیلئے ذمہ دار سرکاری ادارے بھی ٹیکسز کی عدم وصولی کے باعث ہونے والے اربوں روپے کے نقصان کے ذمہ دار ہیں۔ رپورٹ کے مطابق صوبائی و صولیاں بڑھانے کیئے ذمہ دار ادارے سندھ ریونیو بورڈ نے صرف ایک سال کے دوران صوبائی سیلز ٹیکس کی مد میں وصولیاں نہ کرکے سرکاری خزانے کو 5 ارب 32 کروڑ 49 لاکھ روپے کا نقصان پہنچایا، جبکہ اسی عرصے کے دوران مذکورہ ادارے کی جانب سے خدمات پر سیلز ٹیکس کی عدم وصولیوں کے باعث بھی سرکاری خزانے کو 2 ارب 33 کروڑ کا نقصان ہوا۔

آڈٹ رپورٹ کے مطابق ادارے نے جولائی 2015ء سے جون 2016ء کے دوران مختلف رجسٹرڈ لوگوں اور کمپنیوں سے صوبائی سیلز ٹیکس کی مد کم وصولیاں کیں، یہ وصولیاں کمشنر 1 سے کمشنر 5 کے دفاتر کو کرنی تھیں۔ اسی طرح خدمات پر سیلز ٹیکس کی مد میں ہونے والا نقصان بھی مذکورہ دفاتر کی جانب سے کم وصولیوں کے باعث ہوا۔ اسی طرح بورڈ آف ریونیو کی جانب سے بھی سیلز ٹیکس کی مد میں وصولیاں نہ کرنے کے باعث 2 کروڑ 85 لاکھ روپے کا نقصان ہوا، جبکہ ادارے نے انکم ٹیکس کی کم وصولی کی وجہ سے بھی سرکاری خزانے کو 89 لاکھ روپے کا نقصان پہنچایا، مختلف ٹیکسز کی عدم وصولی کے باعث ہونے والے نقصان کا صوبائی محکمہ ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن بھی ذمہ دار ہے۔سال 15-2014ء اور سال 16-2015$ کے دوران محکمہ ایکسائز نے پروفیشنل ٹیکس کی مد میں 2 کروڑ 29 لاکھ روپے وصول نہ کرکے سرکاری خزانے کو نقصان پہنچایا۔ آڈٹ رپورٹ کے مطابق محکمہ ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن نے ٹھیکیداروں سے مقررہ شرح کے حساب سے سیلز ٹیکس کی وصولی نہ کرکے بھی قومی خزانے کو 2 کروڑ 12 لاکھ روپے کا نقصان پہنچایا۔ صوبے کے تمام محکموں و سرکاری اداروں کو رقوم کی تقسیم اور حساب کیلئے ذمہ دار محکمہ خزانہ نے صرف خدمات پر سندھ سیلز ٹیکس کی مد میں عدم کٹوتیوں کے باعث محکمہ خزانہ نے قومی خزانے کو 38 کروڑ 33 لاکھ روپے کا نقصان پہنچایا۔

رپورٹ کے مطابق اتنا بڑا نقصان اس لئے ہوا کہ محکمہ خزانہ کے ماتحت ضلعی اکاﺅنٹس آفسز نے مالی سال 15-2014ء اور سال 16-2015ء کے دوران ٹھیکیداروں سے مقررہ شرح کے حساب سیلز ٹیکس کی کٹوتی نہیں کی۔ اسی عرصے کے دوران محکمہ خزانہ نے مختلف ٹھیکیداروں کے بل انکم ٹیکس کی کٹوٹی کے بغیر کلیئر کر دیئے، جس سے سرکاری خزانے کو 16 کروڑ 84 لاکھ روپے کا نقصان ہوا۔ آڈٹ رپورٹ کے مطابق محکمہ خزانہ نے اسی عرصے کے دوران جنرل سیلز ٹیکس کی مد میں مقررہ شرح کے حساب سے کٹوتی نہ کرنے کی وجہ سے بھی سرکاری خزانے کو 2 کروڑ 47 لاکھ روپے کا نقصان پہنچایا، محکمہ خزانہ کے ماتحت سندھ بورڈ آف انویسٹمنٹ نے بھی اسٹیمپ ڈیوٹی کی مد میں کم وصولیاں کی جس سے سرکاری خزانے کو 60 لاکھ روپے کا نقصان پہنچا۔ آڈٹ رپورٹ کے مطابق محکمہ زراعت کے ماتحت ڈائریکٹر ایگریکلچر انجنیئرنگ حیدرآباد اور ڈی جی ایگریکلچر انجینئرنگ اینڈ واٹر مینجمنٹ حیدرآباد کے حکام نے مالی سال 16-2015ء کے دوران انکم ٹیکس کی مد میں 17 لاکھ روپے کی وصولی نہ کرکے قومی خزانے کو نقصان پہنچایا۔ مذکورہ حکام نے انکم ٹیکس 4.5 فیصد کی شرح سے کٹوتی کی، جبکہ یہ شرح 7.5 فیصد اور 10 فیصد بنتی تھی۔ اسی طرح محکمہ زراعت کے مذکورہ دفاتر اور ٹنڈو جام میں واقع زرعی بیج کے تحققیقی مرکز کی جانب سے سال 16-2015ء میں سیلز ٹیکس کی مقرر شرح کے حساب سے وصولیاں نہ کرکے قومی خزانے کو 48 لاکھ روپے کا نقصان پہنچایا۔

انکم ٹیکس کی وصولی کی مد میں بے نظیر بھٹو شہید ہیومن ریسورسز ریسرچ ڈیولپمنٹ بورڈ نے بھی سال 15-2014ء میں 25 لاکھ روپے کم وصول کیے، مذکورہ ادارے کو متعلقہ ٹھیکیدار سے 10 فیصد کی شرح سے انکم ٹیکس کی کٹوتی کرنی تھی، لیکن 7 فیصد کے حساب سے کی گئی۔ آڈٹ رپورٹ کے مطابق محکمہ ترقی و منصوبہ بندی نے انکم ٹیکس کٹوتی کی مد میں 2 کروڑ 50 لاکھ کی رقم وصول کی، لیکن یہ رقم سرکاری اکاؤنٹ میں جمع نہیں کرائی گئی، جب متعلقہ محکمے سے پوچھا گیا، تو کوئی جواب نہیں دیا گیا، مذکورہ عرصے کے دوران محکمہ تعلیم نے بھی ٹھیکیداروں سے مقررہ شرح کے حساب سے سیلز ٹیکس کی کٹوتی نہیں کی، جس سے قومی خزانے کو 3 کروڑ 35 لاکھ روپے کا نقصان ہوا، اسی طرح جنرل سیلز ٹیکس کی مد میں بھی محکمہ تعلیم کی جانب سے 2 کروڑ 20 لاکھ روپے کا نقصان پہنچایا گیا۔ محکمہ تعلیم کے کراچی، نواب شاہ اور نوشہروفیروز دفاتر کی جانب سے مقررہ شرح کے حساب سے ٹھیکیداروں کے بلوں سے کٹوتی نہیں کی گئی۔ محکمہ تعلیم میں اسی عرصے کے دوران اسٹیمپ ڈیوٹی کی مد میں بھی 64 لاکھ روپے کی کٹوتی نہیں کی گئی، اس مد میں سب سے بڑا نقصان سندھ ٹیکسٹ بک بورڈ جام شورو کے حکام نے پہنچایا، جنہوں نے اسٹیمپ ڈیوٹی وصول کئے بنا 48 لاکھ روپے کے معاہدے کئے۔ اسی عرصے کے دوران محکمہ توانائی کے ماتحت تھر کول واٹر ورکس ڈویزن نے بھی انکم ٹیکس کی مد میں سرکاری خزانے کو 4 کروڑ 80 لاکھ روپے کا نقصان پہنچایا۔
خبر کا کوڈ : 723768
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش