6
Monday 14 May 2018 18:30

عراق کے پارلیمانی انتخابات پر ایک نظر

عراق کے پارلیمانی انتخابات پر ایک نظر
تحریر: عرفان علی

عراق کی پارلیمان مجلس النواب کے نئے اراکین کو منتخب کرنے کے لئے عام انتخابات 12 مئی 2018ء بروز ہفتہ کو منعقد ہوئے۔ اس سے سے قبل دیگر ممالک میں مقیم اہل عراقی ووٹرز اور مسلح افواج و سکیورٹی اہلکار دو الگ مرحلوں میں اپنے ووٹ کاسٹ کرچکے تھے۔ عراق میں اہل ووٹرز کی کل تعداد کم و بیش 18.2 ملین یعنی تقریباً ایک کروڑ بیاسی لاکھ ہے۔ یوں تو عراق کی قومی اسمبلی یعنی قانون ساز ادارے کے اراکین کی کل تعداد 329 ہے، لیکن پاکستان ہی کی طرح وہاں بھی یہ نشستیں عام اور مخصوص نشستوں میں تقسیم ہیں۔ تمام جماعتیں پابند ہیں کہ وہ خواتین امیدواروں کے لئے پچیس فیصد نشستیں انتخابی اضلاع کی مناسبت سے مخصوص کریں۔ عراق کے انتخابی قوانین جو 2013ع میں ترمیمی شکل میں منظور ہوئے تھے ، اس کے مطابق عام نشستیں 320ہیں یعنی خواتین کے لئے جونشستیں مخصوص ہیں وہ بھی ان عام نشستوں میں ہی شمار کی جاتی ہیں جس پر ووٹرز براہ راست ووٹ دے کر اپنے نمائندے منتخب کرتے ہیں (یا یوں کہہ لیں کہ ان نمائندوں کی جماعت کی انتخابی فہرست کے حق میں ووٹ ڈالتے ہیں اور جماعت کو ملنے والے ووٹوں کی تعداد کے حساب سے نشستیں ملتی ہیں)۔ اقلیتوں کے لئے 9 نشستیں مخصوص ہیں۔ اقلیتی نشستوں میں 5 برائے مسیحی نمایندگان جبکہ ایک ایک نشست برائے فعلی کرد، ایزدی (یزیدی)، شبک اور مندائیہ کے لئے مخصوص ہیں۔ ان نشستوں کے لئے یہ انتخابات عراق کے کل 18 صوبوں میں منعقد ہوئے۔ اگر ایران کی سرحدی پٹی سے شروع ہوں تو عراق کے صوبے بصرہ، میسان، واسط، دیالہ، کرد اکثریتی صوبے سلیمانیہ، اربیل و دھوک جو ایران کے بعد ترکی کی سرحدی پٹی پر واقع ہیں، اسی طرح پھر ترکی کے بعد عراق و شام و اردن کی سرحدی پٹی پر عراق کے صوبے نینوا، انبار ہیں اور غالباً یہ الانبار جو عراق میں پاکستان کے صوبہ بلوچستان کی طرح کا رقبے کے لحاظ سے بڑا صوبہ ہے، یہ سعودی عرب کی سرحدی پٹی سے بھی ملحق ہے اور اسی طرح صوبہ نجف کا بھی ایک سرا اسی پٹی پر سعودی عرب سے مل رہا ہے اور نجف کے ساتھ سرحدی پٹی پر مثنیٰ صوبہ بھی ہے۔ غالباً مثنیٰ و بصرہ والی پٹی پر ہی دوسری طرف کویت واقع ہے۔ ان صوبوں کے دوسرے سرے ذی قار، قادسیہ، کربلا، بابل، بغداد، صلاح الدین اور کرکوک سے ملتے ہیں۔ عراق کے ان انتخابات میں 87 انتخابی پلیٹ فارم (جماعتوں اور اتحاد) کی جانب سے 6990 امیدوارمقابلہ کر رہے تھے۔

عراق کی سیاست میں امریکی سامراج اور اس کے اتحادیوں کی مداخلت کا نتیجہ یہ ہے کہ اس ملت کو تین بڑے واضح گروہوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ عربوں کو سنی اور شیعہ میں جبکہ عربوں کے مقابلے میں عجمی کردوں کو انکی لسانی و ثقافتی شناخت کی وجہ سے تیسرا بڑا گروہ بنا دیا گیا۔ عراق میں شیعہ عرب اکثریت میں ہیں، لیکن اس کے باوجود ڈیموگرافی کی سامراجی سیاست کے تحت یہاں بھی شیعہ آبادی کی تعداد کو کم کرکے دنیا کے سامنے پیش کیا جاتا ہے۔ اس بدقسمت ملک پر پہلے برطانوی سامراج کا تسلط ہوا کرتا تھا اور اس کے بعد امریکہ یہاں مسلط رہا۔ صدام بھی امریکی ایجنڈا پر ہی عمل پیرا رہا اور کام نکل جانے پر منظر سے ہٹا دیا گیا۔ امریکی منصوبہ یہ تھا کہ عراق پر یا کوئی نیا صدام مسلط کر دیا جائے یا پھر ماضی کی طرح کوئی شاہ یہاں کا فرماں روا بنا دیا جائے۔ نوح فیلڈمین جیسے یہودی پروفیسر کو یہاں کے آئین کی تدوین کا ٹھیکہ دیا گیا، لیکن عراق کے عوام کی غالب اکثریت نے شیعہ مرجعیت کی رہنمائی میں امریکہ کی ان تمام چالوں کا مقابلہ کیا اور قدم بہ قدم مرحلہ بہ مرحلہ جمہوریت کے قیام کی راہ ہموار کی۔ عبوری سیٹ اپ لایا گیا، آئین کی منظوری اور سیاسی نظام کے تعین کے لئے بھی عوام سے ریفرنڈم میں رائے لی گئی اور بالآخر مل جل کر ایک جمہوری سیاسی نظام کو نافذ کیا گیا۔ نوح فیلڈ مین کے مقابلے میں مرجعیت کی رہنمائی میں یہ شق بھی آئین میں لکھوائی گئی کہ قرآن سے متصادم قانون سازی نہیں کی جاسکے گی۔

جتنا ہوسکتا تھا، عراق کے غیرت مند فرزندوں نے عراق کی عرب اور اسلامی شناخت دونوں کا دفاع کیا۔ کردوں کے ساتھ شیعہ عربوں کی صدیوں پر محیط قربتیں کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ یہی وجہ تھی کہ صدام جس کے دور میں شیعہ عرب اور کردوں کو کچلا جاتا رہا، اس کی حکومت کے سقوط کے بعد شیعہ اور کرد دونوں نے مفاہمت کی اور عراق کے سیاسی نظام میں شراکت اقتدار کے فارمولے کے تحت کردوں کو جثے سے زیادہ بڑا حصہ دیا گیا۔ سنی عربوں کے لئے بھی شیعہ عربوں نے وسعت قلبی کا مظاہرہ کیا۔ عراق کا وزیراعظم شیعہ عرب ہے تو اس کے دو نائب وزرائے اعظم میں سے ایک سنی عرب ہے تو دوسرا کرد ہے۔ عراق کا صدر کرد ہے تو اس کے دو نائب صدور میں ایک شیعہ عرب ہے اور ایک سنی عرب۔ پارلیمان کا سپیکر سنی عرب ہے۔ کردستان کی نیم خود مختار اسمبلی بھی ہے اور حکومت بھی۔ لیکن اس کے باوجود عراق کے دشمنوں کو یہ فارمولا بھی ایک آنکھ نہیں بھایا اور دنیائے عرب کی اس مثالی جمہوریت کے خلاف سازشوں کا سلسلہ جاری رکھا گیا۔ کردوں کو عربوں کے خلاف بھڑکا کر عراق کی تقسیم کی سازش پر عمل کیا گیا۔ عراق کے قومی وسائل کو عربوں اور مسلمانوں کے دشمنوں کے مفاد میں استعمال کرنے کی سازش پر عمل کیا گیا۔ لیکن کافی حد تک یہ سازش عراق کے غیرت مند فرزندوں نے ناکام بنا دی۔ اسی پس منظر میں عراق کے یہ انتخابات منعقد ہوئے۔ عراقی سمجھ چکے ہیں کہ داعش کس مائنڈ سیٹ کا نام ہے، کس کی ایجاد ہے اور کون کون داعش کے خاتمے کے لئے کوشاں ہے تو کون انکی پیٹھ میں چھرا گھونپ رہا ہے۔

عراقیوں کو پہلے سے معلوم ہے کہ سال 2003ء کے بعد جتنے بھی الیکشن ہوئے ہیں، ان میں شیعہ عرب جماعتوں نے جو انتخابی اتحاد بنائے، وہ فرقہ پرستانہ بنیاد پر نہیں بنائے گئے تھے بلکہ ان میں سنی عرب اور دیگر اسٹیک ہولڈرز جماعتیں اور رہنما بھی انکے ساتھ تھے، انکے اتحادی تھے۔ لیکن پوری دنیا کے سامنے عراق کا امیج مسخ کیا جاتا رہا اور اس پر فرقہ پرستی کا جھوٹا لیبل چسپاں کیا جاتا رہا۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ اس مرتبہ عراق کے انتخابات کے موقع پر وہ اسٹیریو ٹائپ بے بنیاد پروپیگنڈا کسی حد تک تبدیل کر دیا گیا ہے۔ اب اس مرتبہ مغربی ذرایع ابلاغ کا یک نکاتی ایجنڈا یہ ہے کہ عراق کے ان عام انتخابات کو امریکی اور ایرانی امیدواروں کے درمیان معرکہ قرار دیں۔ ماننا پڑے گا کہ مغربی ذرایع ابلاغ کی یہ چال کامیاب رہی ہے اور ہر شخص ان انتخابات کو اسی مخصوص زاویے سے دیکھ رہا ہے، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ عراق کی حزب الدعوہ کے ابراہیم جعفری نے بھی امریکی جنگ کی مخالفت کی تھی اور انکا وزیراعظم بننا امریکہ کو ناگوار گزرا تھا۔ اپنی خفت مٹانے کے لئے امریکہ نے سازشیں کیں اور ابراہیم جعفری کو ہٹا کر انہی کی جماعت کے نوری ال مالکی وزیراعظم بنے، لیکن جب انہوں نے بھی عراقی عوام کے جذبات کی ترجمانی کرتے ہوئے امریکی افواج کو انخلاء پر مجبور کر دیا تو ان پر بھی فرقہ پرستی کا جعلی لیبل چسپاں کرکے انہیں بدنام کیا گیا اور امریکی فوجی انخلاء کا انتقام اس طرح امریکہ نے لیا کہ داعش کے ذریعے عراق کو عدم استحکام سے دوچار کر دیا۔ پھر نوری مالکی کی جگہ انہی کی جماعت کے حیدر ال عبادی کو وزیراعظم مقرر کیا گیا۔

کیا حیدر العبادی کے ہوتے ہوئے امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے عراق کے شہریوں پر امریکہ داخلے پر پابندی کا حکم صادر نہیں کیا تھا۔ یہ حیدر العبادی کی حکومت ہی تھی، جس نے جوابی کارروائی کی دھمکی دی تھی۔ یہ حیدر العبادی ہی ہیں، جنہیں اب سعودی عرب مدعو کیا جاتا ہے جبکہ کل تک انہی کے خلاف باتیں کی جاتیں تھیں۔ یہ وہی شیعہ مقتدیٰ الصدر ہیں، جن سے سعودی وہابی علماء اور سعودی حکمران ملاقاتیں کر رہے ہیں۔ کل یہی مقتدیٰ الصدر ان کی آنکھوں کا شہتیر بنے ہوئے تھے۔ کل یہی شیعہ وزیراعظم سعودی بادشاہت کو ناپسند تھے، حالانکہ یہ عرب ہی ہیں۔ سعودی عرب اور امریکہ کی ان تمام تر چالوں کے باوجود عرب لیگ کے اجلاسوں میں لبنان کے مسیحی وزیر خارجہ اور صدر کے ساتھ یہی شیعہ عرب عراقی وزیراعظم و وزیر خارجہ ہیں، جو سعودی عرب اور امریکہ کی ایران دشمن اور حزب اللہ دشمن قراردادوں کی اور فیصلوں کی مخالفت و مذمت کرتے رہے ہیں۔ اس لئے مغربی میڈیا کا حیدر العبادی اور ان کے انتخابی اتحاد کو امریکہ کے کھاتے میں ڈالنا اور ھادی ال امیری اور ان کے انتخابی اتحاد الفتح کو ایران کا امیدوار قرار دینا، یہ عالمی رائے عامہ کو گمراہ کرنے کے لئے ہے۔ حزب الدعوہ بھی شیعہ عرب جماعت ہے، جس کے مذکورہ دو معروف رہنما دو مختلف انتخابی اتحاد بناکر سنی عربوں کے ساتھ مل کر الیکشن لڑے ہیں۔ ھادی العامری اور عمار الحکیم دونوں کا تعلق باقر الحکیم کی جماعت سے تھا، لیکن ایک نے الفتح بنائی اور دوسرے نے پچھلے سال الحکمہ بنائی۔ دونوں ہی شیعہ عرب مسلمان رہنما اور جماعتیں ہیں اور ان دونوں کے ساتھ بھی سنی عرب اور دیگر اتحادی بھی ہیں۔ ماضی میں سعودی عرب اور امریکہ کی کوشش یہ رہی تھی کہ العراقیہ جماعت کے سیکولر شیعہ ایاد علاوی کو جتوا کر عراق کا وزیراعظم بنایا جائے، جس میں وہ ناکام رہے۔ ایاد علاوی نے الوطنیہ اتحاد بنایا ہے اور سنی عرب اسپیکر سلیم الجبوری اور عراقی محاذ جماعت کے صالح المطلق ان کے اتحادی ہیں۔ سنی تاجر خامس الخنجر اور متحدون کے سابق سربراہ جو آجکل عراق کے نائب صدر اور ماضی میں اسپیکر تھے، یہ دونوں ال قرار العراقی اتحاد بناکر میدان میں اترے۔

کردوں میں بہرام صالح جمہوریت و انصاف جماعت، عمر سعید علی گورران (تحریک تبدیلی)، علی بپیر کومل مذہبی جماعت اور مسعود بارزانی کرد جمہوری جماعت کی قیادت کرتے ہوئے انتخابات میں حصہ لیا ہے۔ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ کردستان کے رکن اسمبلی آلا طالبانی کو بغداد سے تحالف بغداد عرب پلیٹ فارم سے الیکشن میں امیدوار نامزد کیا گیا۔ الانبار کا سنی عرب خلف الجلیباوی ھادی العامری کی الفتح کا گرویدہ ہے اور اس پلیٹ فارم سے الیکشن لڑا ہے۔ امریکہ یا سعودی عرب یا انکا میڈیا اس پر کیا کہے گا؟ حزب اسلامی کا سنی عرب رافع فھداوی حیدر العبادی کے النصر اتحاد سے امیدوار تھا۔ یہ صرف الانبار تک محدود نہیں بلکہ صلاح الدین صوبے میں بھی اسی طرح ہوا ہے۔ عراقیوں نے کرد علاقوں سے عرب اور عرب علاقوں سے کرد امیدوار کھڑے کئے، شیعہ علاقوں سے سنی اور سنی علاقوں سے شیعہ امیدوار کھڑے کئے۔ عراق تو فرقہ واریت کو دفن کرچکا ہے۔ آج الفتح ہو یا النصر ہو یا دیگر سبھی اس لئے عوام کے سامنے خود کو پیش کر رہے ہیں کہ وہ داعش کے خلاف جنگ، موصل اور دیگر علاقوں کی آزادی کہ وجہ سے عوام میں مقبول ہوئے ہیں۔ مقتدیٰ الصدر کی السائرون نے عراق کی کمیونسٹ پارٹی سے اتحاد کیا ہے اور ابھی بغداد میں وہ پہلے نمبر پر آ رہی ہے، لیکن حتمی نتائج سے پتہ چلے گا کہ پارلیمنٹ میں نمبر گیم میں کون پہلے اور دوسرے نمبر پر ہے۔ موجودہ رجحان یہ سمجھنے کے لئے کافی ہے کہ مقاومتی بلاک کے حامیوں کی ساکھ عراق میں بھی مستحکم ہی دکھائی دے رہی ہے۔

اس وقت عراق میں احتجاج ہو رہا ہے۔ ایاد علاوی کے انتخابی اتحاد کا مطالبہ ہے کہ ووٹر ٹرن آؤٹ کم ہے، اس لئے نتائج کالعدم قرار دے کر نگران حکومت قائم کی جائے۔ علی ال مالکی کا کہنا ہے کہ الیکٹرانک ووٹنگ اور رائے شماری کا طریقہ درست نہیں، اس لئے ماضی کی طرح ووٹ گنے جائیں اور اعداد و شمار مرتب کئے جائیں۔ اس مرتبہ الیکٹرانک ووٹنگ کی وجہ سے اور ایک بڑی تعداد میں بائیو میٹرک شناختی کارڈ کا اجراء نہ ہونے کی وجہ سے بھی ووٹرز کی بڑی تعداد ووٹ کاسٹ کرنے کے حق سے محروم رہی ہے۔ لیکن اس کے باوجود ٹرن آؤٹ چوالیس فیصد سے زائد آیا ہے۔ الیکٹرانک ووٹنگ اور رائے شماری میں دھاندلی کے امکانات زیادہ ہونے کے باوجود اب تک کی صورتحال میں جو نتیجہ نکالا جاسکتا ہے، وہ یہ ہے کہ عراق کے عوام اپنے ملک کے سیاسی نظام میں دلچسپی لیتے ہیں اور انہوں نے ملک کے دشمنوں بالخصوص داعش کے خاتمے کے لئے حشد الشعبی اور عراقی حکومت کی قربانیوں کے اعتراف میں ان جماعتوں اور امیدوارں کو ترجیح دی ہے۔ پارلیمنٹ میں اکثریت مجموعی طورپر انہی لوگوں کی ہوگی، جنہوں نے اپنے مادر وطن کا دفاع کیا ہے۔ جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ ایران اور امریکہ کے امیدواروں کے مابین معرکہ تھا، انہیں مایوسی ہوگی کیونکہ ایران کے اثر و رسوخ کو عراق سے مائنس کرنا ممکن نہیں ہے اور عراقیوں کی اقتصاد اور دفاع میں ایران کی مدد و معاونت ایک ایسی حقیقت ہے، جو عام عراقیوں سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ اسی طرح امریکی اور انکے اتحادیوں کی عراق میں مداخلت بھی سبھی پر آشکارا ہے، کم از کم پڑھے لکھے باشعور عراقی یہ کبھی نہیں بھول سکتے کہ صدام نے جو ان پر ظلم و ستم کئے، امریکہ اور اس کے عرب اتحادی اس میں صدام کے ساتھ کھڑے تھے!
(نوٹ: یہ تحریر حتمی نتائج کے اعلان سے قبل لکھی گئی ہے
خبر کا کوڈ : 724700
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش