0
Tuesday 15 May 2018 10:42

ڈان لیکس 2، پاکستان کیخلاف سازش

ڈان لیکس 2، پاکستان کیخلاف سازش
رپورٹ: ٹی ایچ بلوچ
 
سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف نے گزشتہ روز کے قومی سلامتی کمیٹی کے اعلامیے کو مسترد کر دیا ہے، ان کا کہنا ہے کہ یہ اعلامیہ غلط فہمی پر مبنی ، بڑا خوفناک اور تکلیف دہ ہے۔ اسلام آباد کے احتساب کورٹ میں پیشی کے موقع پر انہوں نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے مزید کہا کہ کوئی ملک ہے جو آج ہمارے ساتھ کھڑا ہے، آج دنیا میں ہم تنہا ہوگئے ہیں،اتنا پیارا ملک ہے ہمارا، یہ کیا بن گیا ہے؟نواز شریف کا کہنا ہے کہ قومی کمیشن بننا چاہیے تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے۔ جب کہ پاکستان خطرات میں اس وقت گھرا ہے جب ہماری افواج پولیس اور قوم کے ہر طبقے نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بے پناہ قربانیاں دے کر ملک کو دہشت گردی سے پاک ہی نہیں کیا، داخلی سیاست کے حوالے سے عملاً اپنی سوچ اور انداز بھی تبدیل کر ڈالا۔ ہوسکتا ہے 10 یا 5 فیصد کوئی ایسا عنصر اب بھی ہو، لیکن یہ تبدیلی  3مرتبہ اور فوج کی مدد اور اشیرباد سے وزیراعظم بنے شخص کو نظر نہیں آئی۔ جہاں تک نوازشریف کی پریشانی اور بلند تر درجے کی مایوسی کا عالم ہے، ان سے زیادہ بہتر کوئی نہیں جانتا کہ و ہ ان کے اپنے کرتوتوں کا نتیجہ ہے۔ اب تو نااہل نوازشریف کا انداز سیاست اور اس کا مقصد اور ان کے ناطے اور ان کا مقصد سب کچھ بے نقاب ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ملکی سلامتی کو زک پہنچانے والا تحریری مواد یا کلام ابلاغ عامہ کا پیغام بن سکتا ہے؟ میڈیا لاز دنیا کی ہر جمہوری ریاست میں ہوتے جو ہنگامی حالات اور ملکی سلامتی کے خطرات میں سخت ترین بھی ہو جاتے ہیں۔ پاکستان کے آئین و قانون میں اس کی گنجائش ہے؟ لمحہ فکریہ ہے کہ فوج کی پشت بانی سے بنا ہمارا عوامی لیڈر جو ملکی عدلیہ کے مقابلے میں ہجوم از سماجی پسماندگی کو عوامی عدالتیں کہتا ہے۔

کیا سابق وزیراعظم اور اخبار انتظامیہ یہ نہیں جانتے کہ اس کے چھپے جس مواد کو دشمن ملک سفارتی مہمات اور پاکستان کو دہشت گرد ملک قرار دینے کیلئے موثر ٹول کے طور پر استعمال کررہا ہے، اس کی اشاعت کیسی پیشہ واریت ہے؟ سرل المیڈا ایسا رپورٹر ہے، جو ارینجنڈ رپورٹنگ کیلئے ضلعی صدر مقامات پر جا کر رپورٹنگ کرتا ہے اور نیوز لیکس میں جس کا یقین کی حد تک مشکوک کردار آزادی صحافت کے احترام میں نظر انداز کردیا گیا۔ اب پھر وہ اس کو دہرا رہا ہے اور اسی سیاسی محاذ سے جو ریاستی عدلیہ کے مقابلے عوامی عدلیہ کے بیانیے کو عام کرنے کے جرم کا مرتکب ہے۔ نوازشریف پریشان اور مایوس ہیںتو اپنے کرتوتوں پر۔ سو ان کا بیانیہ فقط مایوسی اور بیٹی کے وزیراعظم بننے کے راستے بند ہونے کے غم کا ہی اظہار نہیں۔ یہ قابل مذمت ہی نہیں قابل گرفت ہے۔ لیکن اس کی ضرورت نہیں، آئین میں سزا آرٹیکل 6کی سزا سے زیادہ سخت ہوگی۔ وہ پہلے ہی گرفت میں ہیں جس کا سامان انہوں نے خودکیا ہوا ہے۔ بہرحال اس کا توڑ یہ ہی ہے کہ بھارتی میڈیا، وہاں کے بنیاد پرستوں اور جہاں جہاں نوازشریف کا پریشانیہ، دہلی کا بیانیہ بن کر پہنچایا جارہا ہے، وہاں وہاں یہ پہنچایا جائے کہ نوازشریف ہماری عدالتوں سے ثابت شدہ جھوٹا ہے۔ جس وزیراعظم کی پارلیمان میں قوم کی وضاحتی تقریر کو عدالتی کارروائی میں اس کا وکیل سیاسی قرار دے دے، وہ جھوٹا نہیں تو اور کیا۔ جو پارلیمان کی اتنی رسمی لگی بندھی تقریر کو حقائق کے طور اون نہ کرے، اس کا دستاویزاتی ریکارڈ کا جھوٹ پارلیمان میں مفصل وضاحت کے مقابل ہیچ ہے۔ ایسے جھوٹے لیڈر کا ہر بیان جھوٹ ہوسکتا ہے۔ نوازشریف کو جھوٹ پر ہی ہماری اعلیٰ عدلیہ نے نااہل قرار دیا ہے۔

تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ ہمیں یہ دنیا کو بتانا ہوگا کہ پاکستان پر حملہ اور ٹیلر میڈ بیانیہ نوازشریف کا ٹیلر میڈ پریشانیہ ہے، جو پاکستان میں سپریم کورٹ سے قرار دیئے گئے واحد جھوٹے ہیں۔ ان کایہ اعتراف کہ پاکستان سے دہشت گرد بھیجے گئے، ہماری تاریخ کاایک ایسا سانحہ ہے جس کے نہ صرف بین الاقوامی سطح پر اثرات مرتب ہوں گے اور پاکستان کے بار ے میں تاثر یا امیج خراب سے خراب تر ہوگا، بلکہ اب ہندوستان کو بھی ایک ایسا ہتھیار ہاتھ آگیا ہے، جس سے وہ پاکستان پر مسلسل فائرنگ کرتا رہے گا۔ اب ہندوستان پاکستان کو اس بیان کے ذریعے مسلسل دبائو میں رکھے گا اور اس دبائو سے فائدہ اٹھاکر نہ صرف اپنے آبی منصوبے پایہ تکمیل تک پہنچائے گا بلکہ مقبوضہ کشمیر کی جدوجہد آزادی پر بھی پاکستانی مداخلت کا غلاف چڑھائے گا۔ میاں شہبازشریف کہتے رہیں کہ میاں صاحب کے بیان کوتوڑ موڑ کر پیش کیاگیا ہے اور مسلم لیگ کی قیادت ہزار تاویلیں گھڑے سچ یہ ہے کہ میرے نزدیک یہ بیان ایک سانحے سے کم نہیں ہے۔ میاں صاحب کی نظریاتی پہچان کے حوالے سے مجھے حیرت اور ذہنی اذیت اس وقت ہوئی جب لندن سے واپسی کے بعد لاہور کی ایک تقریب میں موجود ہندوستانیوں اور ہندوئوں کو دیکھ کر انہوںنے کہا کہ ہم ایک جیسا لباس پہنتے ہیں، ایک جیسی خوراک کھاتے ہیں، پھر یہ درمیان میں لکیر کہاں سے آگئی۔ یہ اس لکیر کی طرف اشارہ تھا جس کے طفیل وہ پاکستان کے تین بار وزیراعظم بنے ورنہ ہندوستان متحد رہتاتو نہ وہ لیڈر بنتے اور نہ ہی اتفاق فونڈری کی بنیاد رکھ سکتے۔ 

معروف تجزیہ نگار ڈاکٹر صفدر محمود کا کہنا ہے کہ میاں صاحب کی اس نظریاتی شفٹ (Shift) سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ وہ غلط، سطحی، سیکولر اور ہندوستان نواز مشیروں میں گھر گئے ہیں، جو بقول ہارون الرشید نہ تحریک پاکستان کا شعور رکھتے ہیں اور نہ ہی قائداعظم بارےکلمہ خیر کہتے ہیں۔ یہ بیان محض سجن جندل سے دوستی یا کاروباری رشتوں کا شاخسانہ نہیں تھا، بلکہ یہ میاں صاحب کی ذہنی اور نظریاتی سوچ کو آشکارہ کرتا تھا، کیونکہ وہ خود مطالعے اور غور و خوض کے عادی نہیں اس لئے مشیروں کے نظریات کے زیراثر رہتے ہیں۔ ایک واقف حال کا کہنا ہے کہ وہ اقتدار سے محرومی کا انتقام ان قومی اداروں سے لے رہے ہیں، جنہیں وہ اقتدار سے محرومی کا ذمہ دار سمجھتے ہیں۔ ایک محب وطن ایسا نہیں سوچ سکتا اور چاہے بھی تو ایسا نہیں کرسکتا۔ لگتاہے وہ کچھ غلط قسم کے مشیروں اور خوشامدیوں کے زیراثر ہیں۔ اس سوچ کے آثار پہلی بار ان کے وزیراعظم بننے سے قبل لاہور کی ان دو تقریبات سے ظاہر ہوئے، جہاں انہوں نے تقسیم ہند کو محض لکیر قرار دیا اور دوسری بار وہ آثار نیوز لیکس کی صورت میں ظاہر ہوئے۔ یہ محض اتفاق نہیں کہ نیوز لیکس کے ڈرامے کا مرکزی کردار ہی اب اس انٹرویو کا اسکرپٹ رائٹر ہے، جس انٹرویو نے پاکستان آرمی کے پاک دامن کو داغدار ثابت کرنے کی جسارت کی ہے۔

نیوز لیکس کے پس پردہ مشیران ہی اگر اس افسوسناک انٹرویو کے پس پردہ ہوں، تو ہرگز حیرت نہیں ہوگی۔ بظاہر حقانی سازش، نیوز لیکس اور موجودہ اعتراف ایک ہی سلسلے کی کڑیاں نظرآتی ہیں، کیونکہ ان سب کا مقصد فوجی قیادت کو تھلے لگانا تھا۔ میاں صاحب کے بیان کے بعد ہندوستانی میڈیا کی چیخ و پکار اور چنگھاڑ جو جنگی بخار کی فضا پیدا کررہا ہے اور ممبئی سانحے کےساتھ پٹھان کوٹ حملے کو ملاکر پاکستانی آرمی پر حملے کر رہاہے۔ اس تناظر میں امریکہ کی ایک معروف صحافی کم بارکر کی یہ کتاب TALIBAN SHUFFLE پڑھنے کے لائق ہے۔ کم بارکر امریکی صحافی کی حیثیت سے 2002ء میں افغانستان آئی تھی۔ وہ شکاگو ٹریبون کی نمائندہ تھی۔ پھر سائوتھ ایشیا کی انچارج بن کر کچھ عرصہ اسلام آباد میں مقیم رہی۔ ممبئی حملے کے بعد اس نے اجمل قصاب کے بارے تحقیق کرنے کےلئے رابطے کئے، کیونکہ اس وقت پاکستان اجمل قصاب کو اپنا شہری تسلیم کرنے کےلئے تیار نہیں تھا، جبکہ ہندوستان اجمل قصاب کو اس سانحے کا مرکزی کردار قرار دے کر پاکستان پر الزامات کی بوچھاڑ کر رہا تھا۔ ہندوستانی میڈیا کا موقف تھاکہ پاکستان آرمی نے دہشت گرد تنظیمیں پال رکھی ہیں، جنہیں ہندوستان کے خلاف استعمال کیا جاتا ہے۔ اسی کے نتیجے کے طور پر حافظ سعید اور مسعود اظہر پر اقوام متحدہ کی جانب سے بھی پابندیاں لگ چکی ہیں اور امریکہ کا عتاب بھی نازل ہو چکاہے۔ کم بارکر جو آج کل نیویارک ٹائمز سے منسلک ہے، بنیادی طور پر تحقیقی صحافت سے تعلق رکھتی ہے۔

کم بارکر کے بقول ممبئی سانحے کے بعد اس نے میاں نواز شریف سے رابطہ کیا اور انٹرویو لینے رائے ونڈ پہنچ گئی، جہاں نہایت پرتکلف دعوت اس کی منتظر تھی۔ اس وقت میاں صاحب تیسری بار وزیراعظم نہیں بنے تھے، لیکن پنجاب میں ان کا براردر ِ خورد خادم اعلیٰ پنجاب بن چکا تھا۔ کم بارکر نے اس کتاب میں لکھاہے کہ انٹرویو میں میاں صاحب نے اجمل قصاب کو پاکستانی تسلیم کیا اور پھر کم بارکر کی خواہش پر اسے پنجاب پولیس کی حفاظت میں اجمل قصاب کے گائوں نوید کوٹ بھیجا، جہاں وہ اس کا گھر دیکھ کر اور محلے والوں سے مل کر آئی۔ اس وزٹ کی بنیاد پر اس نے شکاگو ٹربیون کے لئے تحقیقی رپورٹ لکھی اور پہلی باراجمل قصاب کا اصلی چہرہ دنیا کو دکھایا۔ ممبئی حملے پربہت سی کتابیں لکھی گئی ہیں، جن میں ایک یہودی لکھاری ڈیوڈسن کی کتاب اور دوسری ہندوستانی پولیس افسر کی کتاب کرکرے کو کس نے قتل کیا؟، قابل ذکر ہیں۔ان کتابوں نے یہ ثابت کیا تھاکہ ممبئی حملہ ہندوستانی حکومت کی سازش تھی۔ ان کتابوں نے ہندوستانی رائے عامہ کو بھی تقسیم کردیا تھا۔ میاں صاحب کے اعتراف نے پاکستان کو واحد مجرم بنا کر عالمی دہشت گردوں کی قطار میں لاکھڑا کیا ہے۔ پاکستان کو قومی سلامتی اور خاص طور پر امریکی رویے کے باعث جس طرح کے چیلنجز کا سامنا ہے، وہ قومی اتحاد کا تقاضا کرتے ہیں لیکن اس بیان نے قومی اتحاد کا شیرازہ بکھیر دیاہے۔ حیرت اس میں ہے کہ میاں صاحب نے انتخابات سے تھوڑا عرصہ قبل ایسا بیان کیوں دیا ہے، جو سارے سیاسی کھیل کو بگاڑنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ یہ سازش یا بے وقوفی نہ صرف ملک کے خلاف ہے، بلکہ مسلم لیگ نون کے مستقبل کیلئے بھی خطرناک ہے۔
خبر کا کوڈ : 724802
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش