0
Friday 18 May 2018 04:33

ڈیرہ اسماعیل خان میں اہل تشیع پہ کیا بیت رہی ہے(1)

ڈیرہ اسماعیل خان میں اہل تشیع پہ کیا بیت رہی ہے(1)
تحریر: آئی اے خان

اسلام ٹائمز۔ ڈیرہ اسماعیل خان میں مکتب اہلبیت (ع) کے نام لیواؤں پہ دائرہ حیات اتنا تنگ کر دیا گیا ہے کہ وہ اب گھروں کی چاردیواری کے اندر محصور ہونے کے باوجود بھی عدم تحفظ کا شکار ہیں۔ جہاں گلیوں، شاہراؤں پہ درجنوں سی سی ٹی وی کیمروں کی موجودگی میں دہشتگرد ان کے خون کی ہولی کھیلتے ہیں تو چار دیواری کے اندر ہر وقت یہ خطرہ انہیں لاحق رہتا ہے کہ چادر و چار دیواری کے تقدس کو پامال کرتے ہوئے قانون کے ’’رکھوالے‘‘ کہیں انہیں بھی اٹھا کر نہ لے جائیں اور تین تین ماہ تک نامعلوم مقام پہ غیر انسانی وحشیانہ تشدد کا نشانہ بنانے کے بعد دہشتگرد، قاتل کے طور پہ دنیا کے سامنے نہ پیش کریں۔ ڈی آئی خان کے تازہ حالات و واقعات پہ بات کرنے سے قبل اس شہر میں شیعہ قتال کا مختصر پس منظر آشکارا کرنا ضروری ہے۔ گرچہ یہ حالات کسی سے ڈھکے چھپے نہیں تاہم اس پس منظر کے بیان سے یہ بتانا بھی مقصود ہے کہ گزشتہ دو دہائیوں سے یہاں کے باسی بالخصوص تشیع کمیونٹی کن حالات سے نبرد آزما ہے اور آج بھی ادارے اس کیساتھ کونسا سلوک روا رکھے ہوئے ہیں۔

پس منظر
ڈیرہ اسما عیل خان صوبہ خیبر پختونخوا کا دوسرا بڑا شہر ہے۔ یہاں کی آبادی زیادہ تر سرایئکی زبان بولنے والوں پر مشتمل ہے۔ اس شہر کے باسی بغیر کسی مسلکی تفریق کے پیار و محبت کے ساتھ زندگی بسر کرتے آ رہے ہیں۔ شیعہ، سنی، بریلوی، دیوبندی سب کے ایک دوسرے کے ساتھ قریبی تعلقات اور رشتہ داریاں ہیں لیکن فرقہ ورانہ کالعدم تنظیم (سپاہ صحابہ) کے قیام کے بعد ڈیرہ اسماعیل خان بھی ان بد نصیب شہروں میں سے ایک ہے جس میں سب سے پہلےاس تنظیم نے اپنے غلیظ قدم رکھے۔ اپنے قیام کے پہلے ہی سال پیر حیدر شاہ متولی سرکار فقیر (عیدگاہ) اور ۲۲ مارچ  1987ء  کو نوروز کے موقع پر ایک اور اہل تشیع اللہ ڈتہ  ملنگ کو شہید کرکے اس پر امن شہر کو عملی طور پر فرقہ واریت کی آگ میں جھونک دیا۔ اسی سال ہی عاشورہ محرم کے مرکزی جلوس کے روٹ کو صوبائی و مرکزی حکومت کی سرپرستی میں  تبدیل کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔ ڈیرہ اسماعیل خان کے جلوس کے روٹ کو ٹیسٹ کیس کے طور پر تبدیل کرنے کی سازش کی گئی تا کہ اس کے روکنے کے بعد پورے پاکستان کے جلوسوں کو روک کرعزاداری کو چار دیواری کے اندر محدود کر دیا جائے۔ اس وقت ملت تشیع کے عظیم قائد شہید علامہ عارف حسین الحسینی نے اس سازش کو بھانپ لیا۔ آپ نے 6 جولائی 1987ء کو مینار پاکستان لاہور پر قرآن و سنت کانفرنس اور  پھر پورے ملک کے دورہ جات کرکے ملت کو بیدار کیا۔ اسی سلسلے میں ڈیرہ اسماعیل خان میں 17 جون 1988ء کو قران و سنت کانفرنس کا انعقاد ہوا۔ آپ نے ڈیرہ اسماعیل خان کا دورہ کیا اور صوبائی و مرکزی حکومت کو متنبع کیا کہ ایسی کسی سازش کو کامیاب نہیں ہونے دیا جائے گا۔

شائد کہ حکومت نے بھانپ لیا تھا کہ شہید قائد کی موجودگی میں اہل تشیع کے خلاف ہر قسم کی سازش ناکامی سے دوچار ہوگی چنانچہ قائد شہید کو 5 اگست  1988ء کو پشاور میں شہید کر دیا گیا اور جاری سازشوں میں تیزی آگئی۔ اسی سال محرم الحرام کے جلوس کے روٹ پر پابندی لگا دی گئی اور کہا گیا کہ روایتی روٹ کی بجائے دوسرے راستے سے جلوس نکالا جائے۔ اس مطالبے کو شیعان ڈیرہ اسماعیل خان نے ٹھکرا دیا اور احتجاجاً تعزیعے امام بارگاہوں میں روک دئیے گئے۔ 40 دن تک یہ احتجاج جاری رہا۔ اس دوران تحریک جعفریہ و امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے مسئولین کے وفدنے  قائد  شہید کے چہلم پر راولپنڈی میں نو منتخب قائد تحریک  جناب علامہ سید ساجد علی نقوی  صاحب سے ملاقات کی اور اپنے مسائل سے انہیں آگاہ کیا۔ علامہ ساجد نقوی نے اسی چہلم پر ہی اعلان کیا کہ روٹ بحال نہ کرنے کی صورت میں 30 ستمبر 1988ء کو پورے پاکستان سے مومنین ڈیرہ اسماعیل خان پہنچ کر مقررہ روٹ سے جلوس برآمد کریں گے۔ حکومتی پابندیوں کے باوجود ملت کے غیور افراد ڈیرہ پہنچے۔ 30 ستمبر کے دن ملت تشیع نے اپنی بھرپور طاقت کا مظاہرہ کیا اور پورے پاکستان کو جام کر دیا۔ قائد تحریک کی طرف سے علامہ افتخار حسین نقوی اور ڈاکٹر محمد علی نقوی ڈیرہ پہنچے۔ انہوں نے قیادت کی۔ آئی ایس او کے جوانوں نے ان کا بھرپور ساتھ دیا۔ جلوس کے بستی استرانہ سے  نکلتے ہی ایف سی کی طرف سے براہ راست فائرنگ کی گئی جس سے 10 مومنین شہید اور 40 زخمی ہوئے جبکہ سینکڑوں اہل تشیع کو جیل میں بند کر دیا گیا، تاہم یہ قربانی رائیگاں نہیں گئی اور شہر کا کنٹرول فوج نے سنبھال لیا اور عاشورہ کا مرکزی جلوس اپنے روایتی روٹ سے برآمد ہوا۔ اس طرح سپاہ  صحابہ اور ان کے حواریوں کی  یہ سازش ناکام ہوئی اور پھر کسی دوسری جگہ ان کو ہمت نہ ہوئی کہ عاشورہ کے جلوس کے روٹ کوتبدیل کرنے کا مطالبہ کریں۔

30 ستمبر کے واقعہ کے بعد دشمن نے اپنی شکست کا بدلا لینے کیلئے ایک نئی حکمت عملی وضع کی۔ جس کے تحت ڈیرہ اسماعیل خان میں مکتب اہلبیت ّ کے سرکردہ سیاسی, مذہبی, سماجی شخصیات کو شہید کرنا شروع کر دیا۔ ابتدا میں ہر ۲،۳ ماہ بعد کسی نہ کسی ڈاکٹر، انجنئیر، پروفیسر، ذمیندار، وکیل یا عالم دین کو شہید کیا جاتا رہا۔ انتظامیہ کی پشت پناہی کی وجہ سے یہ سلسلہ طول پکٹرتا گیا اور ایک وقت آیا کہ ہر روز کہیں نہ کہیں شیعہ ہونے کے جرم میں شہید کر دیا جاتا۔ حتیٰ کہ صحابہ کے نام لیوائوں نے اپنی بربریت اور بذدلی کی انتہاء کرتے ہوئے اس مکتب کی خواتین کو بھی گولیوں کا نشانہ بنایا۔ ان شہید ہونے والی خواتین میں دختر شہید خورشید انور ایڈوکیٹ، اہلیہ شہید جاوید باقر، دختر شہید ماسٹر محمد یونس اور اہلیہ شہید اکرم پٹواری قابل ذکر ہیں۔ اس قتل وغارت میں دہشت گردوں نے نہ صرف شیعہ سرکردہ شخصیات کو قتل کیا بلکہ اس مکتب سے تعلق رکھنے والے مشہور اور طاقتور خاندانوں کو نشانہ بنایا۔ ان خاندانوں کے کئی کئی افراد شہید کئے گئے تاکہ یہ مظلوم قوم سیاسی قوت سے بھی محروم ہو جائے۔ ظلم و بربریت کا نشانہ بننے والے ان خاندانوں  میں چاہ سید منور شاہ کا زیدی خاندان، کوٹلہ سیدان کا کاظمی خاندان، حاجی مورہ کا جھمکانہ، بلوچ  اور نقوی سادات خاندان، سٹی کا شیرازی، عمرانی اور سپل خاندان سرفہرست ہیں۔

ابھی قتل و غارت کا سلسلہ جاری تھا کہ سپاہ صحابہ کو ساتھ عالمی دہشت گرد نیٹ ورکس طالبان، القاعدہ کی مدد حاصل ہوگئی اور لشکر جھنگوی و دیگر دہشتگرد گروہ منظر عام پہ آگئے۔ پہلے جہاں قتل و غارت گری سے مومنین بے حال تھے وہاں اب اس منحوس اتحاد کی بدولت اغوا برائے تاوان کا ایک طویل سلسلہ شروع ہو گیا، جس میں ایک ایک مغوی اہل تشیع کی رہائی کے بدلے ایک ایک کروڑ تک کا تاوان دینا پڑا۔ ایک تخمینہ کے مطابق 30 کے قریب مومنین اغواء کئے گئے جن سے 25 کروڑ تک کا تاوان وصول کیا گیا۔ یہ تاوان اس ملت مظلوم کے غریب و نادار لوگوں نے اپنی جمع پونجی بیچ کر اور قرض لے کر ادا کیا۔ ابھی اغوا برائے تاوان کا یہ سلسلہ نہیں تھما تھا کہ بم بلاسٹ اور خود کش حملے شروع ہو گئے اور ان نام نہاد صحابہ کے ماننے والوں نے بزدلی کی انتہا کرتے ہوئے شہداء کے جنازوں کو خودکش حملوں کا نشانہ بنایا۔ 19 اگست  2008ء ڈیرہ کی تاریخ کا وہ سیاہ دن ہے کہ جس دن ایک پلاننگ کے ساتھ ایک  سید زادے سید باسط رضا زیدی کو  گولیوں سے چھلنی کیا گیا اور جب اس سید زادے کو ڈسٹرکٹ ہاسپٹل کے ایمرجنسی وارڈ میں لایا گیا اور اس کے عزیز و اقارب و دوسرے مومنین وہاں پہنچےتو نسل یزید سے تعلق رکھنے والے ایک خودکش حملہ آور نے اپنے آپ کو وہاں دھماکے سے اڑا دیا، جس سے ہسپتال کی دیواریں بے گناہ سادات و مومنین کے خون سے رنگین ہو گئیں۔ 29 مومنین موقع پر شہید ہوئے۔ ان میں سے 22 نوجوان سید زادے تھے۔ اسی طرح 20 فروری کو ایک اور مومن شیر زمان کو شہید کیا گیا اور جب اس کے جنازے کو علم حضرت عباس (ع) کے سائے میں یاحسین (ع) یا حسین (ع) کرتے ہوئے تدفین کیلئے قبرستان کی طرف لے جایا جارہا تھا تو راستے میں خودکش حملہ کردیا گیا، جس سے انسانی عضاء فضاء میں بکھر گئے۔ کئی مومنین شہید اور سینکڑوں زخمی روڈ پر زخموں سے چور لبیک یاحسین (ع) کی صداء بلند کرتے رہے۔
 
اسی طرح نومبر 2008ء میں شاہد شاہ نامی ایک دکاندار کو پہلے شہید کیا گیا اور جب اس کا جنازہ تدفین کیلئے لے جایا جارہا تھا تو ڈائیوو اڈے کے سامنے ریموٹ کنٹرول بم دھماکہ کیا گیا، جس میں آٹھ اہل تشیع نوجوان موقع پہ اور تین زخمی چند روز بعد خالق حقیقی سے جا ملے۔ اسی محرم الحرام کے جلوسوں، نوحہ خوانوں  اور عزاداروں پر بم بلاسٹ کئے گئے۔ جس کی بدترین مثال 25 نومبر  2012ء کو عاشورہ کے مرکزی جلوس میں پلانٹیڈ بم دھماکہ تھا۔ یہ دھماکہ اس وقت ہوا جب عزاداران امام حسین (ع) نوحہ خوانی کرتے ہوئے کمشنری بازار میں چوگلہ کے نزدیک پہنچے تھے۔ اس دھماکے سے بھی دسیوں مومنین شہید اور زخمی ہوئے۔ الغرض کوئی ایسا گاؤں، قصبہ، سڑک، بازار اور گلی و کوچہ ایسا نہیں کہ جو اہل تشیع کے بے گناہ لہو سے رنگین نہ ہوا ہو۔ یہ معاملہ یہیں تک نہیں رکا بلکہگھروں اور مسجدوں پر بھی حملے شروع ہوگئے۔ ان اعصاب شکن حالات سے عاجز کئی متاثرہ خاندان اپنی جائدادیں، کاروبار اور ملازمتیں چھوڑ کر ڈیرہ سے ہجرت کرکے دوسرے پرامن علاقوں کا رخ کرنے پر مجبور ہو گئے۔ اس سارے معاملے کا افسوسناک پہلو یہ ہے کہ اس ظلم و ستم میں انتظامیہ اور دیگر اداروں نے بھی ان دہشتگردوں کو کوئی نکیل ڈالنے کی کوشش نہیں کی بلکہ الٹا متاثرہ کمیونٹی کو ہی مورد الزام ٹھہرا کر نام نہاد بیلنس پالیسی کا ڈھونگ رچایا۔ ٹارگٹ کلنگ کے ابتداء میں اہل تشیع نے اپنے قاتلوں پر ڈائریکٹ ایف آئی آر چاک کرائیں لیکن کوئی دہشت گرد نہیں پکڑا گیا۔ اگر کچھ پکڑے گئے تو ان کو آزاد کیا گیا۔ ظلم و بربریت کی انتہا ملاحظہ فرمائیں کہ مقتولین کے کیسز لڑنے والے وکلاء ہی شہید کر دئیے گئے اور اسی اہل تشیع مکتب سے تعلق رکھنے والے کئی بے گناہ نوجوانوں کو جھوٹے مقدمات میں پابند سلاسل کردیا گیا۔ یہاں تک کہ جن تشیع نوجوانوں نے دہشتگردوں کو رنگے ہاتھوں پکڑ کر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے حوالے کیا، ان نوجوانوں کو بھی شہید کر دیا گیا اور گرفتار دہشتگرد رہا کر دیئے گئے۔
                                                   (جاری ہے)
خبر کا کوڈ : 725484
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش