1
1
Sunday 20 May 2018 19:21

پاراچنار، الیکشن کے افق پر ابھرنے والے چہرے(1)

پاراچنار، الیکشن کے افق پر ابھرنے والے چہرے(1)
تحریر: سجاد علی ساجد بنگش

پورے ملک میں انتخابات کی تیاریاں ہو رہی ہیں۔ پارٹیوں کے ساتھ ساتھ آزاد امیدوار بھی انتخابی دنگل میں کودنے کی تیاریوں میں مصروف ہیں۔ ملک کے دیگر علاقوں کی طرح کرم ایجنسی کا پورا علاقہ بھی انتخابی امیدواروں کے اشتہارات، جھنڈوں اور فینافلیکسز سے سج گیا ہے۔ کرم ایجنسی کے در و دیوار کو اپنے انتخابی اشتہارات سے سجانے میں سید اقبال سید میاں، ایم این اے ساجد حسین طوری، سابقہ بیوروکریٹ محترمہ علی بیگم صاحبہ، ائر مارشل سید قیصر کے بھائی ریٹائرڈ آئی جی پولیس سید ارشاد حسین، سینیٹر سجاد حسین طوری کے بھائی محمد حسین طوری، عنایت حسین طوری آف پیواڑ، ابرار جان طوری، جمیل حسین طوری شبلان اور ممتاز بھائی سرفہرست ہیں۔ ان میں سے اول الذکر یعنی سید اقبال میاں کو پی ٹی آئی نے ٹکٹ دیا ہے۔ اسکے علاوہ ساجد حسین طوری کا بھی دعویٰ ہے کہ وہ پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر الیکشن لڑیں گے، جبکہ باقی امیدوار آزاد حیثیت سے الیکشن لڑنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ کون کتنے پانی میں ہے، اس حقیقت کا تجزیہ آنے والی سطور میں ملاحظہ فرمائیں۔

1۔ سید اقبال میاں:
سید اقبال میاں کا تعلق لوئر کرم کے علاقے غربینے کے معروف سید خاندان (شاہ فیمیلی) سے ہے۔ پچھلی مرتبہ بھی تین اہم، معروف اور مضبوط امیدواروں میں سے ایک تھے۔ 2013ء کے الیکشن میں انہوں نے تقریباً 21663 ووٹ حاصل کرکے تیسری پوزیشن حاصل کی تھی۔ پچھلی مرتبہ کی نسبت اس مرتبہ انکی پوزیشن کافی مضبوط ہے۔ اسکی بھی کئی وجوہات ہیں۔
1۔ اس مرتبہ پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر الیکشن لڑ رہے ہیں جبکہ پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان واحد شخص ہیں، جنہوں نے گذشتہ سال ہونے والے دھماکوں کے بعد پارا چنار کے تاریخی دھرنے میں شرکت کی تھی۔ چنانچہ اگر عمران خان نے انتخابی مہم میں انکے حق میں جلسہ کیا تو انکی حمایت میں اضافہ ہوسکتا ہے۔
2۔ میاں خاندان کا اپنا ایک حلقہ مریداں ہے، جنکا ایک خاص ووٹ بینک ہے۔ اس میں کمی کی گنجائش نہایت کم ہے، جبکہ اس میں اضافہ ہوسکتا ہے۔ اگرچہ شاہ فیمیلی میں بھی بعض شخصیات (جیسے سید محمود میاں) کا اپنا ایک مزاج ہے۔ ان کی حمایت سے شاید وہ محروم رہیں، جیسا کہ پچھلی مرتبہ ہوا تھا۔ چنانچہ ان کی یا دیگر ایسے ہی افراد کی مخالفت کی صورت میں وہ دو ہزار سے زائد ووٹوں سے محروم رہ سکتے ہیں۔
3۔ شاہ فیمیلی اور اپنے حلقہ مریداں سے قطع نظر اقبال میاں دیگر حلقوں میں بھی کافی مقبولیت رکھتے ہیں، کیونکہ کرم ایجنسی کے کسی بھی شخص کو اسلام آباد میں جب بھی کوئی مسئلہ درپیش ہوا ہے، اقبال میاں نے دیگر تعاون کے علاوہ اسے اپنے گھر میں بھی ٹھہرایا ہے۔ چنانچہ اس مد میں بھی انکو کافی ووٹ ملنے کی توقع ہے۔
4۔ پچھلی مرتبہ مرکزی جامع مسجد کے سابق پیش امام کی جانب سے ان کے مدمقابل امیدوار کی حمایت کیوجہ سے انکا پلڑا جو ہلکا رہا، اس مرتبہ انکے خلاف وہ پتہ استعمال نہیں ہو رہا۔ چنانچہ اس کا فائدہ بھی اقبال میاں کو حاصل ہوگا۔

ساجد حسین طوری:
ساجد حسین طوری کرم ایجنسی کے حلقہ این اے 37 (حالیہ 46) سے دو مرتبہ قومی اسمبلی کے ممبر رہ چکے ہیں۔ اس وقت بھی قومی اسمبلی کے ممبر ہیں۔ پچھلی مرتبہ 30 ہزار 500 ووٹ لیکر ممبر منتخب ہوئے۔ دس سال تک ممبر رہ کر، سیاست میں انکو کافی تجربہ حاصل ہوگیا ہے۔ عوام یعنی ووٹرز کے ساتھ ڈیل کرنے میں انکو ید طولیٰ حاصل ہے۔ پہلی مرتبہ یعنی 2008ء میں وہ اپنی محنت اور پالیسی کی بنیاد پر نیز اپنی ٹیم کی کارکردگی کی بنیاد پر منتخب ہوئے، جبکہ دوسری مرتبہ یعنی 2013ء میں انہوں نے مرکز کارڈ استعمال کرکے خود کو تو جتوا دیا، تاہم ان کی یہ جیت قوم کے ٹکڑے ٹکڑے ہونے کا سبب بن گئی۔ مرکز میں شدید بحران پیدا ہوگیا۔ اسکے نتیجے میں جامع مسجد کے پیش امام شیخ نواز عرفانی پہلے جلا وطن ہوئے اور پھر جلاوطنی کے دوران شہید ہوگئے۔ چنانچہ انہی کو اس بحران کا باعث سمجھ کر کافی لوگ ان سے نالاں ہیں۔ چنانچہ اس مرتبہ انہیں وہ حمایت حاصل نہیں۔ تاہم پیسہ خرچ کرنے کا کھیل انہیں خوب آتا ہے۔ اس وقت بھی کرم ایجنسی کی اکثر سماجی اور سیاسی شخصیات کو اپنے ارد گرد جمع کرنے میں کامیابی حاصل کرچکے ہیں۔ لہذا انکی پوزیشن اس مرتبہ بھی کافی مضبوط ہے۔

انکے ایک نہایت ہی قریبی سیاسی دوست کا کہنا ہے کہ اس مرتبہ بھی ہر حربہ استعمال کرکے ساجد طوری کو جتوایا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ ایک اہم پتہ آخری پندرہ بیس دنوں کے لئے ریزرو رکھا ہے۔ جسے انتخابات سے صرف چند دن قبل ہی نکال کر پھینک دیا جائے گا۔ یہ پتہ کونسا ہوگا۔ اسکا پتہ انتخابات سے پندرہ بیس دن پہلے ہی لگ جائے گا۔ اسکے علاوہ ایک اہم بات یہ کہ اس مرتبہ ایک کریڈٹ انکو اور بھی حاصل ہوسکتا ہے، وہ یہ کہ اس مرتبہ انہیں پیپلز پارٹی کا ٹکٹ ملنے کی توقع ہے، جبکہ کرم ایجنسی میں طوری بنگش قبائل میں سے اکثریت کو پیپلز پارٹی خصوصاً بے نظیر بھٹو کے ساتھ والہانہ لگاؤ اور محبت ہے۔ چنانچہ پیپلز پارٹی کی ٹکٹ ملنے کی صورت میں اگر کسی قدآور شخصیت مثلاً آصف زرداری یا ان کے فرزند بلاول نے انکی انتخابی مہم کے دوران ان کے جلسے میں تقریر کی تو نتیجتاً انہیں 2000 سے زائد ووٹ حاصل ہونے کی توقع ہے۔ ان سب عوامل کو ملا کر ساجد طوری اس مرتبہ بھی ایک مضبوط امیدوار ثابت ہوسکتے ہیں۔
۔۔جاری ہے۔۔
خبر کا کوڈ : 725999
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

iftikhar Ali
Asia/Pacific Region
said iqbal said mian is the best
ہماری پیشکش