0
Sunday 20 May 2018 13:39

اسرائیل، فلسطین اور مسلم امہ

اسرائیل، فلسطین اور مسلم امہ
تحریر: طاہر یاسین طاہر

اسرائیل ایک غاصب ریاست ہے، اس میں دوسری رائے نہیں۔ عربوں کی سرزمین پہ دنیا بھر سے یہودیوں کو جمع کرکے منصوبہ بندی کے تحت لایا جانا بجائے خود اس خطے میں سامراجی مقاصد کو عیاں کرتا ہے۔ اس خطہ میں یہودیوں کو لا کر بسانا یہود کی مذہبی تاریخ کے تناظر میں بھی آسان تھا۔ عالمی تعلقات، مذاہب عالم اور تہذیبوں کے اتار چرھائو کے طالب علم جانتے ہیں کہ ہولو کاسٹ نظریئے کے بعد عالمی برادری کس طرح کے دبائو سے گذر رہی تھی اور اس دبائو کو کم کرنے کے لئے اسے کیا کرنا ضروری تھا۔ یہ امر بھی واقعی ہے کہ ابھی تک کئی ممالک ہولو کاسٹ کو تسلیم نہیں کرتے۔ وہ اسے زیب داستاں بھی سمجھتے ہیں مگر یہ ہمارا موضوع نہیں، نہ ہی کالم کا دامن کسی مقالے کو سمیٹ سکتا ہے۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ یہودیوں پر ظلم اگر جرمنی میں ہوا اور ہٹلر نے کیا تو ان کی داد رسی کا یہ کون سا طریقہ نکالا گیا کہ انہیں یورپ میں ہی انصاف فراہم کرنے کے بجائے اٹھا کر عربوں کے کندھوں پر بٹھا دیا گیا۔ عربوں کو جب تک احساس ہوتا اس وقت تک اسرائیل خطے میں مضبوط ہوچکا تھا۔ عالمی برادری کے سارے طاقتور اسرائیل کے آج تک پشتی بان ہیں۔ تعصب اور مذہبی وابستگی سے اوپر اٹھ کر تجزیہ کیا جائے تو اسرائیل کو مضبوط کرنے میں خود عربوں اور فلسطینیوں کا بھی ہاتھ ہے۔

تاریخی حوالوں کو دیکھا جائے تو اسرائیل اور عربوں کی جو جنگیں ہوئیں، ان میں فاتح اسرائیل ہی رہا۔ حتیٰ کہ بیشتر عرب ممالک کے اسرائیل سے سفارتی و تجارتی تعلقات قائم ہوچکے ہیں۔ حال ہی میں سعودی عرب نے بھی اسرائیل کے ساتھ اپنے تعلقات کو مزید وسعت دی اور تل ایبب کے لئے پروازوں کا اعلان کیا۔ اسرائیل کو حالیہ تاریخ میں جس عرب ملک سے زیادہ خطرہ تھا وہ شام ہے، کیونکہ شام فلسطین کی آزادی کی تحریکیوں کی کھل کر حمایت کرتا آرہا ہے اور ان تحریکیوں کی مالی و عسکری مدد بھی کر رہا تھا۔ لیکن پھر عرب بہار کی لہر نے شام کو یوں اپنی لپیٹ میں لیا کہ برسوں اس ملک کو سنبھلنے میں لگیں گے۔ یوں اسرائیل کا خطے میں دبدبہ بڑھتا ہی چلا جا رہا ہے اور امریکی و یورپی حمایت اسرائیل کو کھلم کھلا حاصل ہے۔

اسرائیل کی جانب سے تشدد کی تازہ لہر مارچ سے شروع ہے۔ امریکی صدر جنھیں بیک وقت کئی عارضے لاحق ہیں، انھوں نے اپنے سفارت خانے کو یروشلم منتقل کرنے کا اعلان کیا اور گذشتہ دنوں امریکہ نے اپنا سفارتخانہ منتقل بھی کر دیا۔ دنیا کی سب سے بڑی جیل غزہ کے محصورین بھرپور احتجاج کر رہے ہیں اور خوب کر رہے ہیں کہ ان بے چاروں کے پاس سوائے احتجاج کے رہا ہی کیا ہے۔ وہ اپنے گھروں کو لوٹنا چاہتے ہیں، مگر عالمی امن کے نام نہاد ٹھیکیداروں کے ضمیر اسرائیل کے حق میں خاموش ہوچکے ہیں۔ عالمی برادری سے شکوہ بجا مگر وہ تین درجن سے زائد مسلم ممالک کا عسکری اتحاد آج کل کہاں ہے؟ کیا اس اتحاد کو غزہ میں گرتی لاشیں نظر نہیں آرہی ہیں؟ کیا اس نام نہاد عسکری اتحاد کا مقصد صرف مسلم ممالک کو ہی ڈرانا ہے یا یہ اتحاد کبھی اسرائیل کی طرف بھی آنکھ اٹھا کر دیکھ سکے گا؟ نہیں یہ اتحاد ایسا کبھی نہیں کرے گا، نہ ہی اس کی تشکیل کے مقاصد میں سے یہ تھا۔

مسلم ممالک کی ایک بے آواز سی تنظیم او آئی سی بھی ہوا کرتی ہے، اس کے اجلاس بھی ہوتے ہیں، لیکن اس تنظیم کی شاید ہی کبھی عالمی سطح پر کوئی موثر حیثیت رہی ہو۔ عرب ممالک کی الگ سے ایک تنظیم موجود ہے، لیکن اس عرب لیگ کے اپنے اندرونی اہداف اس قدر وحشت ناک ہیں کہ یہ تنظیم اب عربوں کا کوئی مسئلہ حل نہیں کرسکے گی، البتہ نئے مسائل ضرور جنم دے گی اور یہ کام عرب لیگ بڑی توجہ اور یکسوئی سے کر رہی ہے۔ اقوام متحدہ نام کا ادارہ اپنی افادیت کھو چکا ہے۔ ہمیں اس امر میں کیا کلام ہے کہ اس ادارے کے کریڈٹ پر کئی اہم کام ہیں۔ تیسری دنیا کے ممالک میں صحت و تعلیم کے کئی پروجیکٹ اقوام متحدہ کے ذیلی اداروں کی معاونت سے چل رہے ہیں۔ لیکن یہ کافی نہیں۔ اقوام متحدہ دنیا میں امن کے قیام میں اپنا کردار ادا کرنے میں ناکام رہا۔ اس ادارے پر طاقتوروں کا غلبہ ہے۔ امریکہ تو سلامتی کونسل کی کسی بھی قرارداد کو جو امریکی مفادات سے ٹکراتی ہو، خاطر میں ہی نہیں لاتا۔ عراق پر حملہ اور کیمیائی حملوں کے بہانے شام پر گذشتہ ماہ امریکی حملہ سلامتی کونسل کی قراردادوں کی منظوری کے بغیر ہوا۔

اسی طرح اسرائیل کی حمایت اور اس کی وحشتوں کو فروغ دینے میں بھی امریکہ اپنے یورپی اتحادیوں کی مدد سے اقوام متحدہ کے پلیٹ فورم کو استعمال کرتا آرہا ہے۔ یہ بات راز نہیں کہ مشرق وسطیٰ میں اسرائیل امریکی مفادات کا محافظ اور نگہبان ملک ہے۔ لہٰذا یہ تصور کرنا کہ طیب اردغان اپنے جذباتی نعروں سے اسرائیلی وحشتوں سے غزہ کے مظلومین کو بچا لے گا، ایک خواب کے سوا کچھ بھی نہیں۔ طیب اردغان کیا، کوئی بھی مسلم تنظیم یا ملک ایسا نہیں کر پائے گا۔ کیوںکہ زمینی حقائق بتاتے ہیں کہ پاکستان اور ایران جو اسرائیل کے سب سے بڑے مخالف ہیں، عالمی بدمعاشوں کے گھیرے میں ہیں۔ مذہبی جماعتیں اپنی مقدور بھر آواز اٹھا رہی ہیں، لیکن یہ حل نہیں۔ مسلم برادری کو چاہیے کہ تمام تر تحفظات کے باوجود عالمی برادری بالخصوص، چین، روس اور دیگر یورپی ممالک کو اسرائیلی وحشتوں کے نتیجے میں مسلم امہ کے ممکنہ ردعمل اور ان نقصانات کے بارے آگاہ کریں، جس سے دنیا دوچار ہوسکتی ہے۔

تکلیف دہ بات یہی ہے کہ غزہ ہو یا کشمیر،"امہ نامی" گروہ سوائے احتجاج کے اور کر بھی کیا سکتا ہے؟ علم، تحقیق اور جدید ٹیکنالوجی سے دور یہ گروہ فتوے بیچنے کے ہنر میں یکتا ہے اور بس۔ دنیا کا امن کشمیر و فلسطین سے ہو کر گذرتا ہے۔ کیا کوئی مسلم ملک عالمی برادری کے عدل پسندوں کو یہ باور کرا سکے گا؟ یا یونہی ہماری مذہبی تنظیمیں، احتجاجی ریلیاں اور فائیو سٹار ہوٹلوں میں مظلوم فلسطین کے نام کے سیمینارز کرکے، عالم خواب میں فلسطین کو آزاد کراتی رہیں گی۔ اسرائیل ظالم ملک ہے، بے شک ظالم ہے مگر بخدا زمینی حقائق، امہ نامی گروہ فلسطین کے حق میں اسرائیل سے زیادہ ظالم ہیں۔ اگر صرف عرب ممالک ہی یکجان ہو جائیں تو اسرائیل کے ہوش ٹھکانے آجائیں۔
خبر کا کوڈ : 726110
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش