0
Wednesday 23 May 2018 11:35

فہم قرآن ضروری ہے مگر کیسے؟

فہم قرآن ضروری ہے مگر کیسے؟
تحریر: محمد حسن جمالی

آج کے اس پر آشوب دور میں انسان تعلیمات قرآن کا زیادہ محتاج ہے، کیونکہ دور جدید کے علم اور ٹیکنالوجی کی بدولت جہاں انسان کی زندگی میں برق رفتار ترقی ممکن ہوئی ہے وہاں ٹیکنالوجی کے وسائل سے انسان کی گمراہی کے عوامل میں بھی بے پناہ اضافہ ہوا ہے، چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ جدید وسائل خاص طور پر انٹرنیٹ سے استفادہ کرنے والے لوگ دو طرح کے ہیں، بعض اس سے مثبت استفادہ کرتے ہیں، وہ اسے تعلیم اور تربیت کا اہم ذریعہ سمجھتے ہوئے اس کی مدد سے علم اور معلومات حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور کچھ لوگ اسے منفی سرگرمیوں کے لئے استعمال کرتے ہیں، وہ انٹرنیٹ پر فحش ویڈیوز دیکھ کر وقتی لذت حاصل کرتے ہیں، گانے سنتے ہیں اور دوسرے گناہ والی سرگرمیوں میں ملوث رہتے ہوئے اپنا ابدی ٹھکانہ جہنم بنا دیتے ہیں-

بدون تردید اس وقت انٹرنیٹ کے ذریعے انسان بہت کچھ سیکھ سکتا ہے۔ پرانے زمانے میں انسان کی تحصیل کا واحد ذریعہ مدرسہ، اسکولز اور کتاب و اساتذہ ہوا کرتے تھے، جو لوگ سکول یا مدرسے میں داخلہ لے کر استاد کے پاس حاضر ہو سکتے تھے فقط وہی علم کا خوگر بھی ہو سکتے تھے اور تربیت یافتہ بھی، لیکن آج کی ترقی اور انٹرنیٹ کی سہولیات نے ان تمام حدود و قیود کو اٹھا کر تعلیم و تربیت کی راہ کو ہر اس انسان کے لئے کھول رکھی ہے، جس کی جیب میں ایک عدد نیٹ چلنے والا موبائل ہو، وہ اگر چاہے تو تعلیم یافتہ بھی بن سکتا ہے اور تربیت یافتہ بھی، کیونکہ آج کل ہزاروں کی تعداد میں اسلامی اور مذہبی ویب سائٹس بنی ہوئی ہیں، جن میں ضروری عقائد، اخلاق اور احکام کی جامع معلومات موجود ہیں۔ اسی طرح بہت سی ویب سائٹس پر قرآن مجید کی تفاسیر کے مطالعے کی سہولت دستیاب ہے، انسان چاہے تو بآسانی ان سائٹس سے خوب استفادہ کرسکتا ہے۔ البتہ اس کام کے لئے ضروری ہے کہ جوان اپنے اندر اس احساس کو اجاگر کریں کہ ہم مسلمان ہیں، متدین ہیں، ہمیں اپنے مذہب کی تعلیمات سے آشنا ہونا ضروری ہے، دین کی معرفت حاصل کرنا ہمارے بنیادی فرائض میں شامل ہے۔

توجہ رہے دائرہ اسلام میں داخل ہونے کے بعد روزمرہ مبتلا بہ احکامات اور اعتقادات کی تعلیم حاصل کرنے سے اب کوئی یہ بہانہ تراش کر جان نہیں چھڑا سکتا کہ دین میں کوئی جبر نہیں، کیونکہ دائرہ اسلام میں آنے کے بعد ان چیزوں کی تعلیمات حاصل کرنا انسان کے لئے ضروری ہوتا ہے جن سے فرار ممکن نہیں۔ تمام مراجع عظام کا یہ متفق علیہ فتوی ہے کہ ہر بالغ مکلف انسان کے لئے مبتلا بہ احکام کی تعلیم سیکھنا واجب ہے۔ انٹرنیٹ پر جہاں دینی اور اسلامی مفید معلومات موجود ہیں، وہیں مسلمانوں کو گمراہ اور دین سے منحرف کرنے والے مواد بھی فراوان پائے جاتے ہیں۔ اسلام اور مسلمانوں کے دشمنوں نے مسلم جوانوں کو خراب کرنے کے لئے انواع و اقسام کی رنگ برنگی فحش ویڈیوز سے لے کر گمراہ کن تحریری مواد براہ راست انٹرنیٹ پر دیکھنے اور پڑھنے کی سہولیات فراہم کر رکھی ہے اور یہ طے ہے کہ کمزور اعتقاد والے جوان و نوجوان ان شیطانی جالوں میں پھنسے بغیر نہیں رہ جاتے، جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ مختصر مدت کے بعد وہ جادہ حق سے باہر نکلتے ہیں اور دین سے منحرف ہوکر زندہ انسانوں کے درمیان ایک چلتی پھرتی لاش بن کر "خسر الدنيا والآخره" کا مصداق بن جاتے ہیں۔ ہمارے تعلیم یافتہ جوانوں کو اس نکتے سے بھی غافل نہیں رہنا چاہیئے کہ مسلم جوانوں کو صراط مستقیم سے ہٹانے کے لئے اسلام کے دشمنوں کا سب سے کارآمد اور کامیاب حربہ إلقاء شبہات ہے، وہ جوانوں کے شفاف ذہنوں میں طرح طرح کے شبھات ایجاد کرکے ان کے اعتقادات کو متزلزل کرنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں اور ہمیں ماننا پڑے گا کہ وہ اس راہ سے جوانوں کو راہ حق سے دور کرنے میں تقریباً کامیاب ہوگئے ہیں۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ ہمارے جوانان انٹرنیٹ پر موجود اعتقادی شبھات سے جلد متاثر ہونے کے بجائے ان کا حل تلاش کریں۔ ہمارے مذہب شناس کلامی متخصص، محققین نے ان شبھات کے علمی جوابات اپنی کتابوں اور ویب سائٹس پر دیئے ہوئے ہیں، بس تھوڑا وقت نکال کر سرچ کرنے کی ضرورت ہے اور یہ کام ضرور کیجیے۔ اللہ تعالی نے بشریت کی ہدایت کے لئے جو کتاب نازل کی ہے اس کا نام قرآن ہے، اب ظاہری سی بات ہے کہ قرآن مجید سے ہدایت حاصل کرنے کے لئے اسے سمجھنا ضروری ہے، جب تک ہم قرآن کو نہیں سمجھیں گے اس سے ہدایت لینا ممکن نہیں۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم قرآن کو کیسے سمجھیں؟ کیا قرآن کو سمجھنے کے لئے کسی دینی ادارے میں رہ کر دینی تعلیم حاصل کرنا ضروری نہیں؟ کیا یونیورسٹی اور کالج میں زیرتعلیم طلباء بھی فہم قرآن پیدا کرسکتے ہیں؟ کیا پرائمری حد تعلیم حاصل کرکے کاروبار سے منسلک ہونے والے افراد بھی قرآن کو سمجھ سکتے ہیں؟ اگر جواب ہاں ہے تو راہ کیا ہے؟ جواب یہ ہے کہ قرآن مجید کو ترجمے کی حد تک سمجھنا ہر تعلیم یافتہ انسان کے لئے ممکن ہے اگرچہ اس بحر بیکراں میں غوطہ ور ہوکر اس سے لؤلؤ و مرجان نکالنا ہر کسی کے بس کا کام نہیں۔ قرآنی آیات کے معانی سمجھنے کے لئے کافی ہے کہ انسان اس کے ترجمے پر توجہ کرے۔ اسی ہدف کے پیش نظر بہت سارے علماء کرام نے مختلف زبانوں میں قرآن کا ترجمہ کیا گیا ہے، اردو زبان میں اس کے متعدد تراجم منظر عام پر آ چکے ہیں جن میں سے سب سے عام فہم قرآن مجید کا سادہ ترجمہ شیخ محسن نجفی صاحب کا ہے، جس سے زیادہ روان اور سلیس ترجمہ اب تک نظر نہیں آتا اور شیخ صاحب کا ترجمہ قرآن اور تفسير الکوثر انٹرنیٹ پر موجود ہے، جوانان ضرور اس سے بھرپور استفادہ کریں۔

انسان اگر قرآن مجید کی اہمیت اور خصوصیات کو جان لیں تو وہ خود بخود اس سرچشمہ دین سے فیضیاب ہونے کی پوری کوشش کریں گے، پس فہم قرآن ضروری ہے اور سادہ ترین راہ انٹرنیٹ ہے۔ کلام الٰہی کی خصوصیات اور اہمیت کے بارے میں مولی متقیان حضرت علی (ع) کے کچھ اقوال نقل‌ کرتے ہیں جو نہج البلاغہ کے اندر موجود ہیں اور میں ذیلی ویب سائٹ سے نقل کررہا ہوں۔ http://balaghah.net/old/nahj-htm/urdo/id/maq/62.htm

قرآن کی خصوصیات
1۔ کلام حق:
کلام الٰہی، قرآن تمہارے درمیان ایسا بولنے والا ہے جس کی زبان حق کہنے سے تھکتی نہیں ہے، اور ہمیشہ حق کہتی ہے، اور ایسا گھر ہے کہ جس کے ارکان منہدم نہیں ہوتے ہیں، اور ایسا صاحب عزت ہے کہ جس کے ساتھی کبھی شکست نہیں کھاتے ہیں۔
آشکار نور اور محکم رسی ہے:
تمہارے لئے ضروری ہے کہ قرآن پر عمل کرو کہ یہ اللہ کی محکم رسی، آشکار نور، اور شفا بخش ہے کہ جو تشنگی کو ختم کر دیتا ہے، جو اس سے تمسک کرے اس کو بچانے والا اور جو اس سے متمسک ہو جائے اس کو نجات دینے والا ہے، اس میں باطل کو راہ نہیں ہے کہ اس سے پلٹا دیا جائے، تکرار اور آیات کی مسلسل سماعت اس کو پرانا نہیں بناتی ہیں اور کان اس کو سننے سے تھکتے نہیں ہیں۔
قرآن ہدایت ہے:
جان لو! قرآن ایسا نصیحت کرنے والا ہے جو دھوکہ نہیں دیتا، اور ایسا ہدایت کرنے والا ہے جو گمراہ نہیں کرتا، اور ایسا قائل ہے جو جھوٹ نہیں بولتا، کوئی بھی قرآن کا ہم نشین نہیں ہوا مگر یہ کہ اس کے علم میں اضافہ اور دل کی تاریکی اور گمراہی میں کمی ہوئی۔ جان لو کہ! قرآن کے ہوتے ہوئے کسی اور چیز کی ضرورت نہیں رہ جاتی اور بغیر قرآن کے کوئی بےنیاز نہیں ہے، پس اپنے دردوں کا قرآن سے علاج کرو اور سختیوں میں اس سے مدد مانگو، کہ قرآن میں بہت بڑی بیماریوں کفر، نفاق، سرکشی، اور گمراہی کا علاج موجود ہے۔ پس قرآن کے ذریعہ سے اپنی خواہشوں کو خدا سے طلب کرو، اور قرآن کی دوستی سے خدا کی طرف آؤ، اور قرآن کے ذریعہ سے خلق خدا سے کچھ طلب نہ کرو اس لئے کہ خدا سے قربت کے لئے قرآن سے اچھا کوئی وسیلہ نہیں ہے، آگاہ رہو! کہ قرآن کی شفاعت مقبول، اور اس کا کلام تصدیق شدہ ہے۔ قیامت میں قرآن جس کی شفاعت کرے وہ بخش دیا جائے گا، اور قرآن جس کی شکایت کرے محکوم ہے، قیامت کے دن آواز لگانے والا آواز لگائے گا۔
جان لو! جس کے پاس جو بھی پونجی ہے اور جس نے جو بھی کاٹا ہے اس کو قرآن پر تولا جائے گا''پس تم کو قرآن پر عمل کرنا چاہیئے، قرآن کی پیروی کرو اور اس کے ذریعہ خدا کو پہچانو، قرآن سے نصیحت حاصل کرو اور اپنی رائے و نظر کو قرآن پر عرضہ کرو۔

اہمیت قرآن
قرآن دلوں کی بہار:
جان لو! خداوند عالم نے کسی شخص کو قرآن سے بہتر کوئی نصیحت نہیں فرمائی ہے، کہ یہی خدا کی محکم رسی، اور اس کا امانتدار وسیلہ ہے۔ اس میں دلوں کی بہار کا سامان اور علم کے سرچشمہ ہیں، دلوں کی بہار اور علم و حکمت کا چشمہ ہے ...
قرآن بندوں پر خداکی حجت:
جان لو! قرآن امر کرنے والا بھی ہے اور روکنے والا بھی، وہ خاموش بھی ہے اور گویا بھی، اور وہ مخلوقات پر خدا کی حجت ہے۔
دردوں کی شفا:
قرآن سے بات کر کے دیکھو، یہ خود نہیں بولے گا بلکہ میں تم کو اس کے معارف سے مطلع کروں گا۔ جان لو کہ! قرآن میں آئندہ کا علم....تمہارے دردوں کا سامان ...
فرقان:
قرآن ایسا نور ہے جو مدہم نہیں ہو سکتا، ایسا چراغ ہے جو بجھ نہیں سکتا۔ وہ سمندر ہے جس کی اتھاہ نہیں مل سکتی، اور ایسا راستہ ہے جس پر چلنے والا بھٹک نہیں سکتا، ایسی شعاع ہے جس کی ضو تاریک نہیں ہو سکتی، اور ایسا حق و باطل کا امتیاز ہے جس کا برہان کمزور نہیں ہو سکتا،...اور ایسی شفا جس میں بیماری کا کوئی خوف نہیں ہے، ایسی عزت ہے جس کے انصار پسپا نہیں ہو سکتے ہیں، اور ایسا حق ہے جس کے اعوان بےیار و مددگار نہیں چھوڑے جا سکتے ہیں۔
علوم کا دریا:
قرآن ایمان کا معدن و مرکز، علم کا چشمہ اور سمندر عدالت کا باغ اور حوض، اسلام کا سنگ بنیاد اور اساس، حق کی وادی اور اس کا ہموار میدان ہے، یہ وہ سمندر ہے جسے پانی نکالنے والے ختم نہیں کر سکتے ہیں اور وہ چشمہ ہے جسے الجھنے والے خشک نہیں کر سکتے ہیں۔ وہ گھاٹ ہے جس پر وارد ہونے والے اس کا پانی کم نہیں کر سکتے ہیں، اور وہ منزل ہے جس کی راہ پر چلنے والے مسافر بھٹک نہیں سکتے ہیں، وہ نشان منزل ہے جو راہ گیروں کی نظروں سے اوجھل نہیں ہو سکتا ہے؛
قرآن کو بھلا دینا:
پیغمبر اسلام (ص) کا ارشاد گرامی ہے، ایک ایسا وقت آئے گا کہ جب لوگوں کے درمیان قرآن صرف نشانی کے طور پر اور اسلام سوائے نام کے باقی نہ رہ جائے گا۔ ان کی مسجدیں آباد ہونگی لیکن ہدایت سے خالی ہونگی...
خبر کا کوڈ : 726450
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش