0
Sunday 27 May 2018 12:10

محسنہ اسلام

محسنہ اسلام
تحریر: سیدہ ایمن نقوی

حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا خویلد بن اسد بن عبد العزی بن قصی بن کلاب کی بیٹی تھیں۔ آپ پہلی خاتون تھیں جنہوں نے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعوت کو قبول کیا تھا اور اپنی ساری دولت اسلام کی سربلندی میں خرچ کر دی تھی۔ حضرت خدیجہ مکہ کی ایک مالدار خاتون تھیں, اسی بنا پر وہ ایک امین شخص کی تلاش میں تھیں کہ جو ان کے سرمائے کی حفاظت کر سکے حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا نے حضرت ابو طالب علیہ السلام کو واسطہ قرار دیا تاکہ وہ اپنی تجارت کے امور کو اور تمام سرمائے کو محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سپرد کر دیں۔ حضرت خدیجہ (س) خاص قسم کے عقل و خرد کی مالک تھیں وہ نہ صرف انسانی فضائل اور اخلاقی کمالات کی مالک تھیں بلکہ انہوں نے اپنا سارا مال و دولت اسلام کی ترویج کیلئے پیغمبر اسلام (ص) کے اختیار میں دے دیا اور عمر بھر پیغمبر اسلام (ص) کا ساتھ دیا۔ پیغمبر اسلام (ص) کی امانتداری سے حضرت خدیجہ (س) بہت متاثر تھیں، اسی لئے آپ نے پیغمبر اسلام(ص) سے شادی کی خواہش کا اظہار کیا، چونکہ حضرت خدیجہ (س) ایک پاکدامن خاتون تھیں اس لئے پیغمبر اسلام (ص) نے شادی کی اس پیشکش کو قبول کرلیا۔ حضرت خدیجہ (س) پہلی خاتون تھیں جو پیغمبر اسلام (ص) پر ایمان لائیں اور تمام مشکلات میں پیغمبر اسلام(ص) کا ساتھ دیا۔  

حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا نے خود پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے شادی کی بات کرتے ہوئےکہا کہ میں آپ کی کنیزی کے لئےحاضر ہوں۔ اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے چچا حضرت ابوطالب علیہ السلام سے کہا تو انہوں نے حضرت خدیجہ کا پیغمبر اسلام کے لئے رشتہ مانگ لیا، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا کے بارے میں فرمایا تھا کہ "اللہ کی قسم؛ اللہ نے خدیجہ سے بہتر مجھے کوئی زوجہ عطا نہیں کی ہے؛ جب سب لوگوں نے مجھے چھوڑ دیا اور مجھ سے دور ہو گئے تو خدیجہ نے میری مدد کی اور اپنا پورا مال میرے اختیار میں دے دیا۔ جب سب لوگ مجھے جھٹلایا کرتے تھے اس نے میری تصدیق کی اور اللہ کی جانب میری دعوت پر لبیک کہا"۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا کے اخلاص کے بارے میں فرمایا ہے کہ "اس نے اپنی پوری دولت اسلام کی راہ میں خرچ کر دی تھی" اس سے معلوم ہوتا ہے کہ خدیجہ نے اللہ کی رضا کے حصول کے بغیر یہ عظیم سرمایہ خرچ نہیں کیا تھا۔

درحقیقت انہوں نے اللہ کے ساتھ معاملہ کیا تھا، اسی بنا پر حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا کی رحلت کے وقت جبرائیل امین جنت سے کفن لے کر آئے تھے اور آ کر عرض کی، یا رسول اللہ؛ اللہ تعالٰی فرماتا ہے کہ خدیجہ نے اپنا پورا مال مجھے دیا ہے لہٰذا میں خود اس کے کفن کی ذمہ داری لیتا ہوں۔ شعب ابی طالب میں محاصرے کے چند مہینے بعد ہی دس ماہ مبارک رمضان کو حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا کی وفات ہوگئی۔ ام فضل نے حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا کو غسل دیا اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے دستہائے مبارک کے ساتھ حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا کو قبرستان حجون ﴿قبرستان ابوطالب﴾ میں نمازجنازہ پڑھے بغیر دفن کیا تھا کیونکہ اس وقت تک نماز جنازہ واجب نہیں ہوئی تھی۔ اس مصیبت کے بعد پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر اتنا غم طاری ہوا کہ آپ نے اس سال کو "عام الحزن" یعنی غم کا سال قراردیا تھا۔ حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا کی رحلت کے کئی سال بعد جب بھی پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو آپ کی یاد آتی تو آپ کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو جاتے تھے۔

حضرت خدیجہ سلام اللہ علیھا نبوت و ولایت کی پہلی محافظ:
حضرت خدیجہ نبوت و ولایت کی پہلی محافظ تھیں۔ عنوان حضرت خدیجہ سلام اللہ علیھا عنوان اسلامی ہے نہ کہ شیعہ۔ لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ مسلمانوں کے درمیان اس عظیم خاتون کی صحیح شناخت پیدا ہی نہیں کی گئی۔ حضرت خدیجہ سلام اللہ علیھا طول تاریخ میں ظلم و ستم کا شکار رہی ہیں، آپ نے ۲۵ سال پیغمبر اکرم (ص) کے ساتھ زندگی گزاری۔ یہ عظیم خاتون پہلی مسلمان، ام المومنین اور اماموں کی ماں ہیں۔ شیعہ و سنی میں حضرت خدیجہ سلام اللہ علیھا کی صحیح شناخت پیدا نہیں کی گئی۔ ان کا نام مسلمانوں میں بہت کم لیا جاتا ہے اور ان کے نام سے مساجد بھی بہت کم ہیں۔ اس عظیم خاتون نے اپنی پوری زندگی اسلام کی سربلندی کے لئے وقف کر دی اور زندگی کے تمام نشیب و فراز میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ساتھ دیا اور کہیں بھی انہیں تنہا نہیں چھوڑا۔ حضرت خدیجہ سلام اللہ علیھا ولایت و نبوت کی سب سے پہلی محافظ تھیں اور حضرت علی علیہ السلام جیسی عظیم ہستی کی انہوں نے تربیت کی۔ پیامبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کی وفات کے بعد ساری زندگی ان کی اسلام کے لئے کی جانے والی خدمات کے معترف رہے۔

پیغمبر اسلام (ص) کی کامیابی کے اسباب:
حضرت خدیجہ (س) کی ثروت اور حضرت علی (ع) کی شجاعت صدر اسلام میں پیغمبر اسلام (ص) کی کامیابی کے اسباب ہیں۔ حضرت خدیجہ(س) کی ثروت اور حضرت علی(ع) کی شجاعت کی وجہ سے صدر اسلام میں پیغمبر اسلام (ص) کو کامیابیاں نصیب ہوئیں۔ پیغمبر اسلام (ص) حضرت خدیجہ (س) کا بہت زیادہ احترام کرتے تھے اور جب تک حضرت خدیجہ (س) زندہ رہیں آپ نے دوسری شادی نہیں کی۔ حضرت خدیجہ (س) بہت زیادہ فداکار خاتون تھیں۔ انہوں نے تین سال تک شعب ابی طالب میں پیغمبر اسلام (ص) کا انتہائی سختی میں ساتھ دیا۔ جب حضرت خدیجہ (س) کا انتقال ہوا تو جبرائیل بہشت سے آپ کیلئے کفن لائے اور حضرت خدیجہ(س) کو بہشتی کفن کے ساتھ قبرستان ابوطالب (ع) میں دفن کیا گیا۔

خدا کی قسم اس نے مجھے ‏خدیجہ کا نعم البدل نہیں دیا:
پيامبر صلى اللہ عليہ و آلہ وسلم گھر سے نہیں نکلتے تھے مگر یہ کہ حضرت خدیجہ (س) کو یاد کرلیا کرتے تھے اور ان کو نیکی کے ساتھ یاد کرتے اور ان کی مدح و ثناء بیان کرتے؛ جناب عائشہ کہتی ہیں، ایک روز مجھے زنانہ غیرت نے آ ہی لیا اور میں نے کہا: "وہ ایک بڑھیا کے سوا کچھ بھی نہ تھیں اور خدا نے اس سے بہتر خاتون (یعنی عائشہ) آپ کو عطا کی ہے". چنانچہ رسول اللہ (ص) غضبناک ہوئے یہاں تک کہ شدت غضب سے آپ (ص) کے ماتھے کے اوپر کے بال ہل رہے تھے اور اسی حالت میں آپ (ص) نے فرمایا: نہیں! "خدا کی قسم! ان سے بہتر مجھے خدا نے ان کے عوض کے طور پر عطا نہیں کیا ہے؛ وہ مجھ پر ایمان لائیں جبکہ لوگ کافر تھے اور انہوں نے میری تصدیق کی جبکہ لوگ مجھے جھٹلارہے تھے اور اپنے اموال میرے مقصد کے لئے قربان کردئیے جبکہ لوگوں نے مجھے میرے اپنے اموال سے محروم کیا اور خدا نے مجھے ان سے فرزند عطا کئے جبکہ دوسری زوجات سے مجھے خدا نے اولاد کے حوالے سے محروم رکھا، ان ہی کے بطن سے خدا نے مجھی فاطمہ زہراء – مصداق سورہ کوثر – عطا فرمائی"۔
  
اسلام کے سب سے پہلے محسن اور حضور اکرم ﷺکے سب سے پہلے محافظ و مربی حضرت ابو طالبؑ اور حضرت خدیجہ الکبریؑ ہیں۔ حضرت ابوطالبؑ نے اپنی قوت و حشمت و مقام اور اپنی اولاد اور حضرت خدیجہ الکبریؑ نے اپنے پاکیزہ مال و دولت کے ذریعے شجر اسلام کو ایسی توانائی عطا کی کہ اس کا سایہ پوری کائنات پر ہوا اور آج تک اسلام کی ترویج و ترقی حضرت خدیجہ الکبریؑ کی قربانیوں کی مرہون منت ہے۔ ملیکتہ العرب، ام المومنین حضرت خدیجہ الکبریؑ نے خواتین میں سب سے پہلے اسلام قبول کرکے اور تصدیق رسالت کرکے ایک دانشمند خاتون ہونے کا ثبوت دیا۔ ان کی دانشمندی کا بارز نمونہ یہ ہے کہ رسالت کی اقتصادی بنیادوں کو مضبوط کرنے کے لئے اقدامات کئے یہ ان کی زیرکی کی بہت بڑی دلیل ہے۔ اپنے اس عمل اور اپنے جذبہ صادق سے اسلام کی بنیادیں استوار کیں۔

آپ نے اپنے پاکیزہ مال سے نبوت کو ایسا سہارا عطا کیا جس کے بعد اسلام کو اطراف و اکناف عالم میں پھیلنے کا موقع ملا، اس وقت جب دین اسلام اپنے ابتدائی مراحل طے کر رہا تھا، جب پیغمبر اکرمﷺ تن و تنہا حق کی تبلیغ میں مصروف تھے، جب کفار و قریش اپنے مال، طاقت اور افرادی قوت سے نبی اکرم ﷺ کے مقابل آ گئے تو ایسے میں جناب خدیجہ الکبریؑ نے حضور اکرم ﷺ سے اپنا دائمی رشتہ جوڑ کر ایسا لازوال اور غیر متزلزل سہارا فراہم کیا جس کے ممنون خود پیغمبر گرامیؐ رہے۔ اس بی بی نے واقعی آنحضرتؐ کی رفیقہ حیات ہونے کا ثبوت دیا چونکہ پیغمبر اکرمؐ کی ذات اقدس اللہ کے راستے اور عبادت و ریاضت سے عبارت تھی جبکہ ام المومنین پیغمبر اکرمؐ کے دکھ درد میں برابر شریک رہیں اور زندگی کے تمام فرائض میں بھرپور حصہ لیا۔ موجودہ دور میں مسلمانوں کا وظیفہ ہے کہ تمام طبقات انہی متبرک و مقدس ہستیوں کے اعلٰی و پاکیزہ کردار سے سبق سیکھیں۔ جاگیر دار، صنعتکار اور سرمایہ دار اپنے دین اور اپنے وطن کی خدمت کا درس حضرت خدیجہ الکبریؑ سے حاصل کریں۔ دین و ملک کو لوٹنے اور اپنی تجوریاں بھرنے کی بجائے اپنا مال و دولت بھی دین اسلام اور ملک و ملت کے لئے صرف کریں، اسی میں خوشنودی خدا و رسول خدا اور اخروی نجات اور اپنے اور ملک کی کامیابی و ترقی کا راز مضمر ہے۔
 
منتظرین کے لئےحضرت خدیجہ(س) کی میراث:
ظہور کے منتظرین کو حضرت خدیجہ کبٰری سلام اللہ علیہا کو اپنا آئیڈیل قرار دے کر غیبت اور ظہور کے وقت اپنے ایمان کی حفاظت کرنی چاہیئے کہ جب امام مہدی علیہ السلام کو جھٹلانے والوں کی کثرت ہوگی، امام زمانہ عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف جب ظہور کریں گے تو سب لوگ انہیں قبول نہیں کریں گے اور دشمن جھٹلائیں گے۔ بنابریں ظہور کے منتظرین کو حضرت خدیجہ کبرٰی سلام اللہ علیہا کو اپنا  آئیڈیل قرار دے کر غیبت اور ظہور کے وقت اپنے ایمان کی حفاظت کرنی چاہیئے تاکہ جب امام مہدی علیہ السلام کو جھٹلانے والوں کی کثرت ہو گی وہخود کو ایمان پر استوار رکھ سکیں۔۔ منتظرین کو اپنے مہدوی طرز زندگی میں حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا کو آئیڈیل اس لئے بھی قرار دینا چاہیئے کہ اگر امام حکم کرے تو اپنا پورا مال امام زمانہ علیہ السلام کے اختیارمیں دے دیں اور یہ فقط مال و دولت کے ساتھ مختص نہیں ہے بلکہ ایک شخص اپنے قلم، عزت وآبرو، ثقافتی کاموں اور اپنی جان کے ذریعے بھی ایثار کرکے ظہور کی راہ ہموار کرسکتے ہیں۔

حضرت خدیجہ (س) مجاہدین اسلام کیلئے بہترین نمونہ عمل ہیں:
مجاہدین اسلام کیلئے حقیقی نمونہ عمل حضرت خدیجہ (س) کی ذات گرامی ہے۔
آپ (س) نے اسلام کی بقاء کیلئے سب کچھ قربان کردیا جس کے نتیجہ میں خداوند عالم نے آپ کو خاتون جنت جیسی بیٹی عطا کی، جو آئمہ طاہرین (ع) کی مادر گرامی ہے۔ اس عظیم الشان خاتون نے راہ رسول خدا میں استقامت کا عظیم مظاہرہ کیا ہے چنانچہ جب تک وہ زندہ رہی ہیں رسول خدا  (ص) نے دوسری شادی نہیں کی ان کی وفات کے بعد مصلحت الٰہی کے تحت رسول خدا نے دوسری خواتین کے ساتھ عقد فرمایا ہے۔ اسلام میں جتنی بھی عظیم خواتین پیدا ہوئی ہیں انہوں نے حضرت خدیجہ(س) کو ہی اپنے لئے نمونہ عمل قرار دیا ہے۔ اس خاتون کی اتنی بڑی عظمت ہے کہ خداوند عالم فرشتوں کے سامنے اس بی بی کی عظمت کو بیان کرتا ہے۔ حضرت خدیجہ (س) کا ایمان بہت ہی کامل تھا اس لئے وہ زندگی کے آخری لمحات تک رسول خدا (ص) کے شانہ بشانہ کھڑی رہی ہیں، اور مجاہدانہ وار آپ (ص) کے ساتھ ہر قسم کے سخت حالات کا مقابلہ کیا، آپ کی ڈھال بنیں، آپ کو غم و اندوہ میں تسلی دیتیں، آپ (س) محسنہ اسلام ہیں، آج اسلام کا جو تناور درخت ہمیں نظر آ رہا ہے یہ آپ کی مخلصانہ کوششوں کی وجہ سے ہے، لہٰذا کیا ہی اچھا ہو جو آج کی عورت بی بی خدیجہ (س) جیسی ہستی کو اپنے لئے نمونہ عمل بنائے۔
خبر کا کوڈ : 727437
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش