QR CodeQR Code

قیادت۔۔۔۔۔۔ ملت تشیع پاکستان کا سب سے گھمبیر مسئلہ!

27 May 2018 01:49

اسلام ٹائمز: پیشوائے اول امام معصوم ہوتے ہوئے مسلمانوں کے درمیان پیدا ہونیوالے امکانی اختلافات کے سدباب کیلئے پچیس سال منصب خلافت سے کنارہ کش ہوکر گوشہ نشینی اختیار کرکے پس پشت مسلمانوں کی ہدایت اور رہبری کا فریضہ انجام دے سکتے ہیں تو موجودہ قائد محترم بھی ملت تشیع پاکستان کے درمیان وقوعی اختلافات کے سدباب کیلئے علی ابن ابیطالب کے نقش قدم پر چلتے ہوئے قیادت سے دستبردار ہو جائیں تو کوئی حرج نہیں۔


تحریر: محمد حسن جمالی

اس حقیقت سے کوئی باشعور انسان انکار نہیں کرسکتا کہ لیڈر اور قائد کے بغیر کوئی بھی قوم فلاح کی منزل تک رسائی حاصل نہیں کرسکتی۔ قیادت نہ فقط انسان سے مختص ضرورت کا نام ہے بلکہ شعور اور عقل سے عاری حیوانات بھی اپنی حیوانی زندگی کو پرسکون بنانے کے لئے قیادت کے محتاج ہیں۔ بکریوں کا ریوڑ ہو یا گوسفند کا گلہ اس کے ہمراہ قائد ہوگا تو وہ نہ راستہ گم کرے گا اور نہ ہی اسے دشمنوں کی جانب سے کوئی گزند پہنچے گا، بلکہ ہر طرف سے وہ مکمل تحفظ کا احساس کرتے ہوئے اپنے قائد کے ساتھ چراگاہ کی طرف روانہ ہوگا اور پورے سکون و اطمینان سے جی بھر کر کھائے گا، پئے گا، پھر شام کو ٹہلتے ہوئے اپنی منزل کی جانب لوٹے گا، جب قیادت کی ضرورت سے حیوانات بے نیاز نہیں تو صاحب عقل و شعور انسان بطریق اولٰی رہبر اور قائد کا محتاج ہے، اس میں کوئی دو رائے نہیں۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا حیوان اور انسان کی قیادت ایک جیسی ہے؟ کیا ان کا رہبر یکساں ہے؟ اگر نہیں تو ان میں فرق کیا ہے؟ جواب یہ ہے کہ اس مسئلے کو واضح طور پر سمجھنے کے لئے ضروری ہے کہ بشر پہلے خود انسان اور حیوان کے فرق کو سمجھے۔ منطق کی کتابوں میں یہ لکھا گیا ہے کہ علم کی چار قسمیں ہیں۔ علم حسی، علم خیالی، علم وہمی، علم عقلی۔

ابتدائی تین قسموں میں انسان اور حیوان دونوں شریک ہیں، لیکن علم عقلی جسے علم اکمل بھی کہا جاتا ہے، میں حيوان انسان سے جدا ہوتا ہے، یعنی حيوان علم عقلی کا حامل نہیں، وہ قوہ عقل اور سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سے عاری ہے۔ یہ فقط انسان کا طرہ امتیاز ہے کہ وہ علم حسی، خیالی اور علم وہمی کے علاوہ علم عقلی سے بھی مالا مال ہے۔ اس فرق کو سمجھنے کے بعد انسان اور حیوان کے رہبر میں تفکیک پیدا کرنا آسان ہوگا۔ حیوانوں کا قائد مسلطی ہوتا ہے یعنی اس کے انتخاب میں ان کا کوئی عمل دخل نہیں ہوتا، جو بھی ان کا رہبر بنے گا اسے قبول کرنے پر وہ مجبور ہوتے ہیں، لیکن انسانوں کا قائد انتخابی ہوتا ہے۔ ہر کس و ناکس قوم کا لیڈر نہیں بن سکتا۔ انسانوں کی قیادت کے لئے بہت ساری شرائط اور معیارات ہیں، جو بھی ان معیارات پر پورا اترے فقط اسی کو قوم کی قیادت سنبھالنے کا حق ہوتا ہے، جن شرائط میں سرفہرست علم اور بصیرت کا حامل ہونا ہے۔

 ملت تشیع پاکستان ہر دور میں اپنے لئے باصلاحیت قائد کا چناؤ کرتی رہی، جس کی زیر قیادت پاکستانی شیعہ قوم آگے بڑھتی رہی ہے، مفتی جعفر حسین مرحوم اور شہید عارف الحسینی مرحوم کے دور قیادت میں ملت تشیع پاکستان عزت اور سربلندی سے اپنی زندگی کے لمحات گزارتی رہی، وہ پورے اخلاص اور فداکاری کا مظاہرہ کرتے ہوئے پاکستان کے اندر شیعہ قوم کی رہبری اور راہنمائی کا کام سنگین حالات میں سرانجام دیتے رہے، ہر موڑ پر انہوں نے شیعہ قوم کی ترقی وپ یشرفت کی راہ میں حائل رکاوٹوں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا، ظالم اور ستمگر حکمرانوں کے سامنے سینہ تان کر شیعہ قوم کے حقوق کی جنگ لڑی اور وہ حکومت وقت کو للکارتے رہے۔ انہوں نے ہر چیز کو مصلحت پر حمل کرکے گوشہ نشینی اختیار کرکے چپ کا روزہ رکھنے کے بجائے میدان عمل میں اس کا حل ڈھونڈنے کی جدوجہد کو ترجیح دی۔ انہوں نے شیعہ قوم کو تقسیم کرنے کے بجائے متحد و منظم رکھا، وہ اتحاد بین  المسلمين کے علمبردار ضرور تھے، مگر اس بات کے ہرگز قائل نہیں تھے کہ اتحاد بین المؤمنين کو پاؤں تلے روند کر فقط اتحاد بین المسلمین کا نعرہ بلند کرنا چاہیے، بلکہ وہ تو اس بات کے معتقد تھے کہ اتحاد بین المومنین ملت تشیع پاکستان کی اساس اور بنیاد ہے۔

شیعہ قوم کے اندر اختلافات ڈالنا نہ فقط روا نہیں بلکہ یہ ملت تشیع پاکستان کو موت کی طرف دھکیلنے کے مترادف ہے، جو کسی بھی صورت میں جائز نہیں۔ چنانچہ انہوں نے سب سے پہلے اپنی صفوں میں اتحاد کو مستحکم کیا اور عوام و خواص دونوں کو یہ باور کروایا کہ ملت تشیع پاکستان کی کامیابی کا سنگ بنیاد آپس کا اتحاد ہے۔ جب تک مومنین اتحاد کا مضبوط قلعہ نہیں بنیں گے، دوسرے فرقوں سے تعلق رکھنے والوں کے ساتھ اتحاد کرنے کا ہمیں کوئی ثمرہ ملنے والا نہیں۔ اپنوں میں اختلافات ڈال کر غیروں سے اتحاد کرنا بالکل ایسا ہی ہے، جیسا کہ ایک آدمی اپنے گھر والوں میں اختلافات کی آبیاری کرکے گھر کے افراد کی زندگی کو جہنم بنا دے، لیکن اپنے پڑوسی یا ہمسایوں سے اتحاد کرتا پھرے۔

 اللہ کی لاریب مقدس کتاب نے تو ہر اہم کام کا آغاز اپنے گھر سے کرنے کا انسان کو حکم دیا ہے، پیغمبر اسلام سے مخاطب ہوکر اللہ نے فرمایا: تبلیغ اسلام اپنے گھر اور رشتہ داروں سے شروع کیجیے(وانذر عشیرتک الأقربین وخفض جناحک لمن اتبعک من المؤمنين) اور پیغمبر آپ اپنے رشتہ داروں کو ڈرایئے اور جو صاحبان آپ کی اتباع کر لیں، ان کے لئے اپنے شانوں کو چھکا دیجئے۔ اسی طرح قرآن میں دوسری جگہ خدا فرماتا ہے: ایمان والو، آپ نفس اور اپنے اہل کو اس آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہوں گے۔۔۔۔ غرض یہ اور ان جیسی دوسری آیات کا بغور مطالعہ کرنے سے یہ قاعدہ ہمارے ذھن میں رچ بس جاتا ہے کہ اپنوں کو چھوڑ کر غیروں کے دامن سے متمسک رہنا ہرگز مفید نہیں اور اپنوں سے رشتہ مضبوط کرنے کے بعد دوسروں کے ساتھ اتحاد کرنے کی سعی کرنا باکمال انسان کی نشانی ہے، جس کی عملی تصویر قائد ملت تشیع پاکستان علامہ شہید عارف حسینی نے پیش کی۔

 آپ کی شہادت سے شیعہ قوم کا اتنا بڑا نقصان ہوا، جس کا آج تک جبران نہیں ہوسکا، قائد مرحوم عارف حسینی کی شہادت کے بعد پاکستان کے شیعہ اکابر علماء کرام نے علامہ سید ساجد علی نقوی صاحب کو قیادت سنبھالنے کا امر کیا، جسے انہوں نے خوش و خرم قبول کیا اور قائد کے عنوان سے شیعہ قوم کی خدمات سرانجام دینا شروع کیں، لیکن کچھ مدت گزرنے کے بعد ان کی قیادت اختلاف کا سرچشمہ بنی، جس کے اسباب و علل کی لمبی داستان ہے اور شیعہ قوم کا شیرازہ آہستہ آہستہ پارہ ہوا، شیعہ قوم مختلف گروہوں میں تقسیم ہوئی، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ملت تشیع پاکستان کی اجتماعی طاقت مسلسل کمزوری کی طرف رواں دواں ہوئی، جس سے پاکستان کی سرزمین پر شیعہ قوم کی مشکلات و مسائل میں بے پناہ اضافہ ہوا اور ملت تشیع اپنے آپ کو لاوارث سمجھتی ہوئی ہر طرح کے مصائب اور مشکلات کے سامنے سر جھکانے پر مجبور ہوئی۔

دوسری جانب سے دشمنوں نے بھی شیعہ قوم کے اختلافات سے بھرپور فائدہ اٹھایا، انہوں نے ملت تشیع کے خلاف ہر موڑ پر محاذ کھولا، دہشتگردوں کی تربیت کرنے والے تکفیری ٹولوں نے اپنے دہشتگردوں کے ذریعے پاکستان کی سرزمین سے شیعہ قوم کا صفایا کرکے دم لینے کا فیصلہ کیا۔ چنانچہ انہوں نے کبھی ہماری عزاداری کے جلوسوں کو نشانہ بنوایا تو کبھی ہماری مساجد کے اجتماعات میں دھماکے کروائے اور پاکستان کی سرزمین سے  شیعہ وکیل، ڈاکٹرز، صحافی و باصلاحیت افراد کو چن چن کر شہید کروایا گیا، بہت سوں کو بلا جرم و خطا شیعہ مذہب سے تعلق رکھنے کی وجہ سے دن دھاڑے مختلف شہروں سے اٹھا کر غائب کر دیا گیا۔ یاد رہے ان سالوں میں سب سے زیادہ پاراچنار کے اہل تشیع اور کوئٹہ کے اندر ہزارہ برادری تکفیری دہشتگرد گروہ کا نشانہ بنتی رہی۔ انصاف کا تقاضا تو یہ تھا کہ ملت تشیع پاکستان کے بزرگان سر جوڑ کر شیعہ قیادت جیسے اہم مسئلے پر غور کرتے اور مختلف گروہوں میں بٹی ہوئی شیعہ قوم کو دوبارہ وحدت کی لڑی میں پرو دیتے، مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ ابھی تک اس حساس مسئلے پر ہمارے اکابرین نے مل بیٹھ کر سنجیدگی سے نظرثانی کرنے کی زحمت نہیں کی، جو واقعتاً سب کے لئے لمحہ فکریہ ہے۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا شیعہ قوم کو دوبارہ متحد اور منظم کرنا ممکن ہے؟ ہاں میں جواب ہونے کی صورت میں انہیں متحد کرنے کی راہ کیا ہے؟ اس سوال کے جواب میں لوگوں کے آراء اور نظریات مختلف ہوسکتے ہیں، ہماری نظر میں یہ کوئی مشکل اور پیچیدہ مسئلہ ہرگز نہیں۔ بکھری ہوئی شیعہ قوم کو دوبارہ اتحاد کے زیر سایہ جمع کرکے منظم کرسکتے ہیں، البتہ اس کام کے لئے شیعہ قوم کے درمیان موجود اختلافات کے اصلی سبب کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا ضروری ہے اور کون نہیں جانتا کہ شیعہ قوم کے اختلافات کا اصلی سبب قیادت والا مسئلہ ہے، جسے حل کرنے کے لئے دو ممکنہ راہ حل ہوسکتے ہیں، پہلی راہ یہ ہے کہ ملت تشیع پاکستان موجودہ قائد کی سابقہ کمزوریوں پر پردہ ڈالتے ہوئے، ان کی قیادت پر اتفاق کر لے، البتہ اس کا امکان بہت کم ہے، جس کی بنیادی وجہ موجودہ قائد کا جھکاؤ سیاست کی طرف زیادہ اور شیعہ قوم کے مذہبی امور و مسائل کے حل کی طرف توجہ کم کرنا ہے، خصوصاً حالیہ مینار پاکستان پر فضل الرحمن کے ساتھ ہونے والے پرجوش اتحاد کے مظاہرے نے شیعہ قوم کی اکثریت کو مزید ناامید اور مایوس کر دیا ہے۔ خاص طور پر اس جمع غفیر میں ایک صاحب نے فضل الرحمن کی محبت میں آپے سے باہر ہوکر یہ اعلان کر دیا کہ میرے اور میرے قائد دونوں کے قائد جناب فضل الرحمن ہیں، اس جملے نے شیعہ قوم کے اندر جلتی پر تیل کا کام کیا اور اہل تشیع کے دل و دماغ میں نفرت کو دو چنداں کیا ہے۔

اگرچہ بعد میں انہوں نے اپنے جملے کی تاویل کرنے کی سرتوڑ کوشش کرتے ہوئے کہا کہ قائد سے میری مراد سیاسی قائد ہے، ایم ایم اے کا قائد ہے، نہ کہ مذہبی قائد، مگر مزے کی بات یہ ہے کہ دوسرے روز ہی تحریک کے دفتر سے یہ رنگین اشتہار چھپا کہ ایم ایم اے میں قائد نہیں ہوتا بلکہ صدر ہوتا ہے۔ بہر صورت اسے ٹھوس اشتباہ کہا جائے یا غلطی اس کا نتیجہ بہت برا نکلا ہے۔ دوسری راہ یہ ہے کہ بزرگان باعزت طریقے سے موجودہ قائد سے قیادت کا عہدہ واپس لے لیں اور قیادت کسی ایسی شخصیت کے سپرد کر دی جائے، جس کی قیادت پوری یا شیعہ قوم کی اکثریت کے لئے قابل قبول ہو۔ یاد رہے کہ موجودہ قائد محترم کے قیادت سے ہاتھ لینے سے نہ ان کی عزت میں کمی واقع ہوگی اور نہ ہی یہ ان کی شان کے خلاف کوئی کام متصور ہوگا، بلکہ وہ مولائے متقیان کی سیرت طیبہ پر چلنے والوں میں ہی شمار ہوں گے۔

سب کے علم میں ہے کہ حضرت علی ابن ابی طالب (ع) نے پچیس سال گوشہ نشینی اختیار فرمائی، جس کی اصلی وجہ مسلمانوں کے درمیان اختلاف پیدا ہونے کا خوف تھا، پیشوائے اول امام معصوم ہوتے ہوئے مسلمانوں کے درمیان پیدا ہونے والے امکانی اختلافات کے سدباب کے لئے پچیس سال منصب خلافت سے کنارہ کش ہوکر گوشہ نشینی اختیار کرکے پس پشت مسلمانوں کی ہدایت اور رہبری کا فریضہ انجام دے سکتے ہیں تو موجودہ قائد محترم بھی ملت تشیع پاکستان کے درمیان وقوعی اختلافات کے سدباب کے لئے علی ابن ابیطالب کے نقش قدم پر چلتے ہوئے قیادت سے دستبردار ہو جائیں تو کوئی حرج نہیں۔ آنجناب پس پردہ رہ کر بھی اپنی خدمات بحسن و خوبی سرانجام دے سکتے ہیں۔ مذکورہ دو آپشن میں سے کسی ایک پر عمل پیرا ہوئے بغیر منتشر شیعہ قوم کو متحد کرکے دوبارہ شیعہ قوم کی اجتماعی طاقت کو بحال کرنا ناممکن نہ ہو تو مشکل ضرور ہے۔ یاد رکھیں قیادت والا مسئلہ ملت تشیع پاکستان کا سب سے گھمبیر مسئلہ ہے، جب تک شیعہ قوم ایک قائد کی قیادت کے زیر سایہ جمع ہوکر نہیں چلے گی، فلاح کی منزل ان کے ہاتھ آنے والی نہیں ہے۔


خبر کا کوڈ: 727531

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/article/727531/قیادت-ملت-تشیع-پاکستان-کا-سب-سے-گھمبیر-مسئلہ

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org