0
Sunday 27 May 2018 15:31

فاٹا انضمام کے تاریخی فیصلہ کیبعد عملی اقدامات ضروری

فاٹا انضمام کے تاریخی فیصلہ کیبعد عملی اقدامات ضروری
رپورٹ: ایس علی حیدر

بالآخر پاکستان کی قومی اسمبلی نے اپنے آخری ہفتے میں دو تہائی اکثریت سے فاٹا کو خیبر پختونخوا میں ضم کرنیکی منظوری دیکر ایک نئی تاریخ رقم کر دی۔ اسطرح سینیٹ نے بھی اس آئینی ترمیم کی منظور دیدی۔ فاٹا اصلاحات کی 1976ء سے آنے والی مختلف رپوٹس پر پارلیمنٹ نے بالآخر مہر ثبت کر دی۔ فاٹا سے بدنام زمانہ قانون ایف سی آر اب قصہ پارینہ بن جائے گا، اس کا کریڈیٹ تمام جمہوری قوتوں کو جاتا ہے۔ صرف مولانا فضل الرحمٰن کو اور نان اسٹیک ہولڈر محمود اچکزئی کیلئے یہ شکست کے مترادف ہے، مگر جمہوریت میں اختلاف رائے کو بھی مقدم جانا جاتا ہے، چاہے وہ منفی یا غلط کیوں نہ ہو۔ بہرحال قبائلی علاقہ جات کو صوبہ خیبر پختونخوا کا حصہ بنانے کیلئے اتوار کے روز آئین کے آرٹیکل 293 شق 5 کے تحت خیبر پختونخوا اسمبلی کا اجلاس آج طلب کیا جا چکا ہے۔ امر واقعہ یہ ہے کہ پاکستان کی سیاسی و عسکری قیادت قبائلی علاقوں کے صوبہ خیبر پختونخوا میں انضمام چاہتے تھے۔ گذشتہ ہفتے کے روز قومی سلامتی کمیٹی نے کئی گھنٹوں تک جاری رہنے والے اجلاس کے کافی دیر بعد اعلامیے میں کہا گیا تھا کہ تمام جزیات کا تفصیل سے جائزہ لینے کے بعد کمیٹی قبائلی علاقوں کو صوبہ خیبر پختونخوا میں ضم کرنے اور وہاں قوانین، عدالتی نظام اور انتظامی ڈھانچہ متعارف کروانے کی توثیق کرتی ہے۔

حکومت کو اس اصلاحاتی بل پر اپنی 2 حلیف جماعتوں جمیعت علماء اسلام (ف) اور پختونخوا ملی عوامی پارٹی کی طرف سے شدید مخالفت کا سامنا رہا، مگر اس کو آڑے آنے نہیں دیا گیا۔ ہفتہ کو ہی پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان تحریک انصاف سمیت دیگر پارلیمانی جماعتوں اور قبائلی علاقوں سے تعلق رکھنے والے قانون سازوں کی مشاورت بھی ہوئی، جو ایک اور نشست کے بعد اس بل کو پارلیمان میں پیش کرنے کا عندیہ دے چکے ہیں۔ حکومت نے یہ بل گذشتہ جمعہ کو پیش کرنا تھا، لیکن حزب مخالف نے یہ موقف اختیار کیا کہ اس میں صرف انضمام کی بجائے تمام ضروری آئینی شقیں شامل کی جائیں، جس کے بعد یہ بل موخر کر دیا گیا تھا، مگر جمعرات کو 25 مئی کو علاقہ غیر کے نام سے موسوم فاٹا کو قومی دائرہ میں لانے کیلئے مشکل ترین مرحلہ طے ہوچکا ہے، اس کا کریڈٹ موجودہ حکومت کو خصوصاََ جاتا ہے، جو اپنی آئینی مدت 31 مئی کو مکمل کرنے جا رہی ہے اور اس کی کوشش تھی کہ اس سے قبل ہی قومی اسمبلی کے الوداعی سیشن میں یہ قانون سازی مکمل ہو جائے، قبائلی علاقوں کے عوام کے اس دیرینہ مطالبے کو بالآخر عملی جامہ پہنانے کیلئے دیکھی جانے والی سنجیدگی خوش آئند ہے۔

یہ خوش آئند اس لئے ہے کہ قبائل کو آئنی حقوق میسر ہو جائیں گے اور جو باقی ملک کے قوانین ہیں، وہ بھی وہاں لاگو ہو جائیں گے۔ ایف سی آر جیسے کالے قانون سے ان کی جان تقریباََ چھوٹ گئی ہے، کہا جاتا تھا کہ انضمام کیلئے آئینی ترمیم ایک پیچیدہ مرحلہ ہے، مگر باآسانی حل ہوگیا۔ اب اس پر عمل درآمد ایک بڑا چیلنج ہوگا، اس پر بہت زیادہ نشیب و فراز دیکھنے کو ملیں گے، کیونکہ ان قبائل کی طویل محرومیوں کا ازالہ کرنا ضروری ہے، صحت، تعلیم اور انفراسٹرکچر کی بحالی پر توجہ دینا ہوگی۔ لوگوں کو وہ تمام سہولیات فراہم کرنے کیلئے وسائل کا رخ اس طرف موڑنا ہوگا۔ فاٹا کا خیبر پختونخوا میں انضمام پر اختلاف کے باجود مولانا فضل الرحمٰن کو اب اکثریت کا فیصلہ قبول کرنا ہوگا، ان کو چاہیئے کہ فاٹا انضمام کے متعلق خیبر پختونخوا اسمبلی سے بل کے حق میں ان کی جماعت کے ممبران صوبائی اسمبلی ان کے حق میں ووٹ کیونکہ باقی تمام جماعتوں نے اختلافات اس آئنی ترمیم کی حمایت کی ہے۔ ان کی جماعت کی حمایت کے بغیر یہ بل صوبائی اسمبلی سے منظور ہو کر صدر مملکت کو توثیق کیلئے پیش کیا جائے گا۔ اس بل کو منظور کرنے کیلئے خیبر پختونخوا اسمبلی کے کم از کم 83 اراکین اسمبلی کی حمایت باآسانی حاصل ہو جائے گی جو منظوری کیلئے ضروری ہے۔

صوبائی حکمران جماعت کے پاس اسوقت اکثریت نہیں، لیکن جے یو آئی (ف) کے علاوہ اپوزیشن کی تمام سیاسی جماعتیں اس بل کے حق میں ووٹ دے رہی ہیں اور شنید یہ ہے کہ بل با آسانی منظور ہو جائے گا۔ فاٹا کے خیبر پختونخوا میں انضمام کے بعد اکتوبر میں بلدیاتی انتخابات منعقد کروائے جائیں گے، جس میں فاٹا کے عوام پہلی بار مقامی سطح ہر اپنے نمائندوں کا انتخاب کرے گی۔ اسپیکر خیبر پختونخوا اسمبلی کے مطابق انضمام کے ایک سال کے اندر صوبائی اسمبلی کی نشستوں کیلئے بھی الیکشن ہوگا، ان کے مطابق اس کیلئے اپریل 2019ء کا وقت مقرر کیا گیا ہے۔ آئندہ 5 سال تک فاٹا کی قومی اسمبلی میں 12 نشستیں ہونگی جبکہ آئندہ 5 سال سینیٹ میں بھی اس علاقے کی 8 مختص نشستیں برقرار رہیں گی۔ صوبائی حکومت کی عملداری سے صدر اور گورنر کے خصوصی اختیارات ختم ہو جائیں گے۔ فاٹا کو این ایف سی ایوارڈ کے تحت سالانہ 3 فیصد رقم ملے گی۔ فاٹا کیلئے آئندہ 10 سال کیلئے ہر برس 10 ارب یعنی مجموعی طور پر 100 ارب روپے ترقیاتی فنڈ کی مد میں دیئے جائیں گے۔ فاٹا کو دیئے گے یہ ترقیاتی فنڈ کسی اور علاقے میں استعمال نہیں ہوسکیں گے۔ فاٹا کے خیبر پختونخوا میں انضمام کے بعد انتظامی امور کیلئے ایک عبوری ریکوزیشن نافذ کیا گیا ہے، جسے فاٹا ان ٹیرم گورننس ریگولیشن 2018ء کا نام دیا گیا ہے۔

یہ عارضی طور پر فاٹا کے مکمل انضمام تک نافذ العمل رہے گا جبکہ ایف سی آر کا مکمل خاتمہ ہو جائے گا۔ مزید برآں فاٹا کی تمام ایجنسیوں کو اب قبائلی اضلاع جبکہ موجودہ تحصیلوں اور فرنٹیئر رینجنز کو ذیلی اضلاع کا درجہ حاصل ہوگا۔ فاٹا میں شامل ان علاقوں کے پولیٹیکل ایجنٹس اب ڈپٹی کمشنرز ہوں گے، اسسٹنٹ کمشنر کے پاس مجسٹریٹ کے اختیارات ہوں گے، سپریم کورٹ رجسٹری اور پشاور ہائیکورٹ کا دائرہ کار فاٹا تک بڑھایا جائے گا، کسی قسم کی جارحیت یا ریاست کے خلاف کسی سرگرمی میں ملوث کسی بھی شخص یا گروہ کی گرفتاری، حراست میں رکھنے کے حکم سمیت اس پر پاکستان کی بندوبستی علاقے میں آنے پر پابندی لگانے کا اختیار ڈپٹی کمشنر کے پاس ہوگا۔ سرحدی دیہات کے دفاع کیلئے شہریوں کے پاس رائفل اور دیگر اسلحہ رکھنے سے متعلق قواعد وضع کرنے کا اختیار گورنر کے پاس ہوگا۔ صدر اور گورنر کے اختیارات ختم ہو جائیں گے، مگر گورنر کے پاس پہلے، تیسرے اور چوتھے شیڈول میں ترمیم کا اختیار بھی ہوگا۔ قانونی اور سیاسی اصلاحات کے بعد ان علاقوں کے انتظامی امور کی نگرانی اس ایک دفتر کیلئے ممکن نہیں ہوگی، اس لئے ملک کے دیگر علاقوں کی طرح یہاں بھی سول سروس کا ڈھانچہ ترتیب دیا جائے گا۔ ابتدائی طور پر ملک کے باقی علاقوں سے یہاں خدمات انجام دینے کیلئے آنے والے افسروں کو اضافی تنخواہ دی جائے گی، قبائلی علاقوں میں امن عامہ اور سرحدوں کی حفاظت کی ذمہ داری آہستہ آہستہ لیویز کو منتقل کی جائے گی۔

اس مقصد کیلئے لیویز میں مزید 20 ہزار افراد بھرتی کئے جائیں گے اور انہیں تربیت دینے کے علاوہ ساز و سامان سے لیس کیا جائے گا، اس کے علاوہ پولیس کو بھی جدید تربیت، اسلحہ اور عمارات فراہم کی جائیں گی، ضرورت پڑنے پر نئی نیم فوجی دستے بھی تعینات کئے جاسکیں گے۔ قبائلی علاقوں میں تعمیرات اور بحالی کے کام کیلئے 10 سال کیلئے 100 ارب روپے مختص کئے جائیں گے۔ نیشنل فنانس کمیشن کے تحت فاٹا کیلئے ہر سال 3 فیصد فنڈز ڈی ویزیبل پول سے جاری کئے جائیں گے اور کوئی بھی حکومت اس رقم کو کم یا ختم نہیں کر پائے گی۔ یہ رقم فاٹا میں تعمیر نو کے علاوہ وہاں معاشی سرگرمیوں کیلئے بھی استعمال کی جائے گی۔ ان میں قبائلی علاقوں میں مارکیٹس اور دیگر معاشی انفراسٹرکچر کی تعمیر بھی شامل ہے۔ اس کے علاوہ ان علاقوں میں عام اشیاء کی قیمتیں کم کرنے کیلئے وہاں نافذ راہداری یا پرمٹ کا نظام ختم کیا جائے گا، لہٰذا اس ضمن میں اب تاریخی اقدامات بھی اٹھانا ہوں گے۔
خبر کا کوڈ : 727598
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش