0
Tuesday 29 May 2018 18:06

گلگت بلتستان کے مسائل، صحافی برادری کی نگاہوں سے اوجھل کیوں؟

گلگت بلتستان کے مسائل، صحافی برادری کی نگاہوں سے اوجھل کیوں؟
تحریر: محمد حسن جمالی

مسائل حل کرنے اور بڑھانے میں اہل قلم کا اہم کردار رہا ہے، کیونکہ قلمی طاقت تیز تلوار کی طاقت پر بھی بھاری ہوتی ہے۔ اب یہ اہل قلم کی منشاء پر موقوف ہے کہ وہ اس عظیم طاقت کو کس راہ میں استعمال کرتے ہیں؟ مظلوم کے دفاع میں یا ظالم کی حمایت میں۔ وہ اسے قوم کو شعور دینے کے لئے استعمال کرتے ہیں یا اسے غفلت کی ابدی نیند میں سلانے کے لئے۔ وہ اسے انسانیت کی خدمت کے لئے استعمال کرتے ہیں یا مختصر رقوم وصول کرکے حکمرانوں کی خوشامد اور چاپلوسی کی راہ میں۔ اس کا اختیار قلمکار کے قبضہ قدرت میں ہے، وہ چاہے تو اپنی قلمی قوت کو خدمت خلق کی راہ میں صرف کرکے دنیا و آخرت دونوں میں سعید و خوشبخت  ہوسکتا ہے اور اپنی مرضی سے اس عظیم طاقت کو انسانیت کے خلاف استعمال کرکے دونوں جہاں کی بدبختی بھی کسب کرسکتا ہے۔

توجہ رہے کہ ملکی، قومی اور معاشرتی مسائل کی درست نشاندہی کرکے ان کی گتھیاں سلجھانے کی کوشش کرنا ہی صحافیوں کا فرض منصبی ہوتا ہے، البتہ مانتا ہوں کہ یہ بہت ہی دشوار اور سخت کام ہے، لیکن میدان صحافت میں وارد ہونے کے بعد نہ چاہتے ہوئے بھی اس فریضے پر عمل کئے بغیر صحافی اپنے ہدف تک رسائی حاصل نہیں کرسکتے، لیکن آج کے اس ترقی یافتہ دور میں انگشت شمار صحافیوں کے علاوہ ہمارے قلمکاروں کی اکثریت اپنی ذمہ داریوں سے دور دکھائی دیتی ہے، ان کا قلم مسائل حل کرنے کی راہ میں کم اور مسائل بڑھانے کے لئے زیادہ استعمال ہوتا نظر آتا ہے۔ آج کل اکثر صحافی سیاسی رنگ میں اخلاقی حدود سے بھی باہر ہوکر ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنے کو اپنی پہچان بناتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں اور جیسے جیسے الیکشن کا وقت نزدیک آرہا ہے، کرائے کے لکھاری عوام الناس کے افکار کو مشوش کرکے ان کے دل و دماغ میں سیاسی اشرافیہ طبقوں کے لئے جگہ بنانے کی کوشش کرنے میں مصروف نظر آتے ہیں، جس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔

 یہ نکتہ بھی ہماری سمجھ سے بالا ہے کہ جو صحافی معمولاً قومی ایشوز پر قلم اٹھاتے رہتے ہیں، ان کی نگاہوں سے خطہ بے آئیں گلگت بلتستان کے مسائل ہمیشہ اوجھل کیوں رہتے ہیں؟ اس خطے کے حوالے سے میڈیا کی مجرمانہ خاموشی تو دائرہ تعجب سے خارج نہیں، کیونکہ ہمارا میڈیا بکا ہوا ہے، جس پر کچھ احساس مسئولیت سے تہی افراد کا قبضہ ہے، جس کی باگ ڈور مفاد پرست سیاستدانوں کے ہاتھ میں ہے، اسے چلانے والے انسانیت سے نہیں روپے پیسے سے محبت کرنے والے ہیں تو اس سے مجرمانہ خاموشی کے علاوہ کسی چیز کی امید رکھنا ہی فضول ہے، لیکن صحافی برادری سے سکوت مطلق کی توقع بہرحال نہیں کی جا سکتی، کیونکہ یہ طبقہ پڑھا لکھا باشعور طبقہ ہوتا ہے، جس کا وظیفہ ہی متنوع مجہول مسائل پر تجزیہ و تحليل کرکے انہیں معلوم میں بدلنا ہوتا ہے، جس کا بنیادی ہدف قومی، لسانی اور مذہبی تعصبات سے بالاتر ہوکر ظلم و ستم کے خلاف قیام کرنا ہوتا ہے، مگر اس کے باوجود گلگت بلتستان کے گوناگون مسائل کے حوالے سے ان کی بے توجہی واقعاً جائے تعجب اور توقع کے خلاف ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ہمارے اہل قلم جہاں کہیں بھی ناانصافی اور عدم مساوات کے حامل افعال اور حرکات و سکنات مشاہدہ کریں، فوراً اپنی تحریروں کے ذریعے ان کا نوٹس لے لیتے اور ناانصافی و ظلم کے خلاف اپنی قلمی قوت کے ذریعے جہاد کرتے، مگر خطہ بے آئین گلگت بلتستان، پاکستان کا وہ واحد خطہ ہے، جس کے مسائل پر ہمارے لکھنے والوں کی توجہ بہت کم رہتی ہے۔

 پاکستان کے معروف کالم نگار جاوید چودھری صاحب بیشتر اوقات فرضی کہانیاں، قصے یا سفری روداد انتہائی خوبصورت انداز میں لکھ کر قارئین کو مفید نتائج دینے کی کوشش کرتے رہتے ہیں، انہیں گلگت بلتستان کے زندہ حقیقی مسائل پر کبھی کبھار بھول کر بھی دو سطر لکھنے کی توفیق کیوں نہیں ہوتی؟ عطا الحق قاسمی جیسے زبردست سینیئر کالم نگار نااہل قرار پانے کے بعد بھی نواز شریف کی مدح و ستائش میں زمین و آسمان کے قلابے ملاتے نہیں تھکتے، کیا انہوں نے خطہ بے آئین کے حوالے سے کبھی اپنے قلم کو جنبش دی ہے؟ کیوں آخر کیوں؟ کیا ہماری صحافی برادری کی نظر میں گلگت بلتستان کے عوام مظالم کی چکی میں نہیں پس رہے ہیں؟ کیا ان کا آئینی حقوق کا مطالبہ کرنا غلط ہے؟ کیا خطہ بے آئین کے مسائل انسانی مسائل نہیں؟ کیا اس خطے کے باسی پاکستان سے محبت کرنے والے نہیں؟ کیا انہوں نے پاکستان کی حفاظت کرنے میں کوئی کوتاہی کی ہے؟ کیا جی بی عوام آئین پاکستان کو تسلیم نہیں کرتے ہیں؟ کیا یہ خطہ امن کے بجائے فساد کا گہوارہ ہے؟ کیا گلگت بلتستان کے عوام کو حقوق ملنے سے پاکستان کے عام شہری کے حقوق میں کمی آنے کا خوف ہے؟ اور ہزاروں سوالات.....

ہمارا دانشمند طبقہ اچھی طرح جانتا ہے کہ گلگت بلتستان کے عوام پورے ستر سالوں سے طرح طرح کے مظالم کا شکار اور بنیادی انسانی حقوق سے محروم ہیں۔ اس خطے کے مکینوں کے ساتھ جو سب سے بڑا ظلم ہوا ہے، وہ یہ ہے کہ پاکستانی ریاست ابھی تک اسے آئینی حقوق دینے سے انکاری ہے، وہ گلگت بلتستان سے تعلق رکھنے والوں کو ابھی تک پاکستانی شہری تسلیم نہیں کرتی، وہ اس خطے کے جوانوں کی بے بديل قربانیوں کو یکسر طور پر نظر انداز کرکے گلگت بلتستان کے عوام کو نت نئے کالے قانون کی قید میں بند کر رہی ہے۔ ستم بالائے ستم یہ ہے کہ حکومتِ پاکستان نے گلگت بلتستان والوں کے آئینی مطالبہ پاس کرنے کے بجائے آرڈر 2018ء جاری کرکے جی بی عوام کے ساتھ کھل کر ناانصافی کی انتہا کر دی اور ان کو مکمل طور پر مایوسی کے کنویں میں پھینک دیا گیا ہے۔ جی بی عوام کی جہد مسلسل کے صلے میں اس کالے قانون کا اعلان کرکے وقت کے نااہل حکمرانوں نے گلگت بلتستان کے ساتھ سوتیلی ماں سے بھی بدتر سلوک کیا اور گلگت بلتستان کو غلامی و جبر مطلق کے زندان میں ہمیشہ کے لئے بند رکھنے کی سعی لاحاصل کی گئی ہے۔ خطہ بے آئین کے لئے جو نیا کالا قانون نامہ پکڑایا گیا ہے، اس میں گلگت بلتستان کے عوام، منتخب نمائندوں، سیاسی و قانونی اداروں کے تمام اختیارات کو سلب کرکے جی بی عوام کو تمام حقوق (سیاسی، انسانی، معاشی، معاشرتی قانونی) سے یکسر محروم کر دیا گیا ہے۔ ایسے میں اس خطے کے حوالے سے ہمارے صحافیوں کی خاموشی باعث حیرت نہیں ہے تو کیا ہے؟ کیا میں اپنے قلمکار احباب سے یہ سوال کرسکتا ہوں کہ گلگت بلتستان کے مسائل صحافی برادری کی نگاہوں سے اوجھل کیوں ہیں۔؟
خبر کا کوڈ : 728220
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش