0
Tuesday 29 May 2018 22:47

مردوں کے معاشرے میں عورت آج بھی تنہا

مردوں کے معاشرے میں عورت آج بھی تنہا
تحریر: نادر بلوچ

عورت جمال، عورت حسن و سلوک، عورت عواطف کا مجموعہ، عورت مہر و وفا، عورت کہیں ممتا، کہیں ہمشیرہ تو کہیں شریک حیات، بیٹی کی شکل میں رحمت، اہلیہ کی صورت نصف ایمان اور اس سے بڑھ کر یہ کہ جنت اس کے قدموں تلے۔ عورت نہ ہوتی تو عشق و محبت کے جذبات کی زمین بنجر ہو جاتی ہے، عورت نہ ہوتی تو ہر طرف نفرتوں کا راج ہوتا، مہر و محبت جیسے جذبات دلوں میں وجود ہی نہ رکھتے، عورت کے بغیر تصور کائنات ہی ممکن نہ ہوتا، شائد اقبال نے اسی وجہ سے کہا تھا کہ
وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ
اسی کے ساز سے ہے زندگی کا سوزِدروں

ان سب حقیقتوں کے باوجود  عورت آج بھی مردوں کے معاشرے میں تنہا ہے، اس کی سوچ پہ پہرے ہیں، مرد اسے اپنے سے کم عقل سمجھتا ہے، وہ چاہتا ہے کہ عورت کی سوچ گھر کی دہلیز سے آگے ہی نہ بڑھ سکے۔

وہ چاہتا ہے کہ عورت اپنی آنکھوں سے کائنات کو نہ دیکھ سکے، عورت کیلئے علم و ہنر کی راہ میں دیوار کھڑی کرتا ہے، اس کے جذبات کا قتل کرتا ہے، اس کی سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیتیں ضبط کرنا چاہتا ہے، مرد چاہتا ہے کہ جو وہ دیکھے عورت بھی وہی دیکھے، جو وہ سوچے عورت بھی وہی سوچے، ہر طرف مردانہ سوچ کا راج دکھائی دیتا ہے۔ مرد جو معیارات اور قوانین عورت کیلئے مقرر کرتا ہے، اس سے اپنے آپ کو آزاد تصور کرتا ہے، آخر مرد کی غیرت فقط عورت پر ہی کیوں جاگتی ہے۔ غیرت کے نام پر قتل اور شک کی بنیاد پر کئی حوا کی بیٹیاں منوں مٹی تلے جا چکی ہیں، لیکن یہی مرد زنا کرے، عزتیں پائمال کرے تو اس سے کوئی جوابدہی نہیں، وہ کسی کو جوابدہ نہیں سمجھتا۔ وہ اپنے آپ کو ہر قاعدے قانون سے آزاد سمجھتا ہے، حد تو یہ ہے کہ عورت کے قتل پر معاشرہ قاتل کا طرف دار دکھائی دیتا ہے، اس کی تعریف و توصیف کرتا دکھائی دیتا ہے، اسے غیرت مند کہا جاتا ہے اور ہار تک پہنائے جاتے ہیں۔

ایچ آر سی پی کی رپورٹ کے مطابق فقط 2016ء سے لیکر جون 2017ء تک 280 خواتین کو غیرت کے نام پر موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ پاکستان میں سینکڑوں لڑکیاں اس لئے قتل کر دی گئیں کہ انہوں نے پسند کی شادی کرنے کی خواہش کا اظہار کیا، اس کی تازہ مثال اطالوی نژاد ثنا چیمہ ہے، جسے والد اور بھائی نے خاندان میں شادی نہ کرنے پر گلا دبا کر قتل کر دیا۔ سندھ میں خواتین پر مظالم کی کئی دستانیں رقم ہیں، جن پر کوئی آواز تک نہیں اٹھاتا، جائیدادوں کے بٹوارے کو ذہن میں رکھ کر لڑکیوں کی قرآن مجید سے شادی کر دی جاتی ہے یا پھر الزام لگا کر غیرت کے نام پر موت کی وادی میں پہنچا دیا جاتا ہے۔ منافقت کی اس سے بڑھ کر کیا دلیل ہوگی کہ جہیز کے معاملے پر مرد حریص دکھائی دیتا ہے، لیکن حق مہر کے معاملے پر اسے  فوراً اسلام یاد آجاتا ہے۔ پاکستان میں خواتین کے تحفظ اور غیرت کے نام پر قتل کے حوالے سے قوانین تو موجود ہیں، لیکن اس پر دیگر قوانین کی طرح عمل درآمد ایک خواہش سے بڑھ کر نہیں۔ سچ یہ ہے کہ مردوں کے معاشرے میں عورت آج بھی تنہا ہے، اس کے نام پر بننے والی این جی اوز بھی اسی کا استحصال کر رہی ہیں۔
خبر کا کوڈ : 728230
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش