0
Wednesday 30 May 2018 19:29

اسلامی مزاحمت کی جانب سے صدی کے معاہدے پر کاری ضرب

اسلامی مزاحمت کی جانب سے صدی کے معاہدے پر کاری ضرب
تحریر: احمد کاظم زادہ

اسرائیل کی غاصب صہیونی رژیم کی جانب سے غزہ پر جارحانہ حملوں کے نتیجے میں اسلامک جہاد کے تین مجاہد شہید ہو گئے جس کے بعد اسلامی مزاحمت نے اسرائیل کی یہودی بستیوں کو مارٹر اور راکٹ حملوں کا نشانہ بنایا۔ ان حملوں کے نتیجے میں 2014ء کے بعد پہلی بار مقبوضہ فلسطین کے جنوبی حصے میں واقع یہودی بستیوں میں خطرے کے سائرن بجنے لگے اور صہیونی حکام سراسیمہ ہو گئے۔ یہ حملے درحقیقت غاصب صہیونی رژیم کو ایک وارننگ تھی کہ اسلامی مزاحمتی گروہ اس کے جارحانہ اقدامات پر خاموش نہیں بیٹھیں گے اور اس کی ہر گستاخی کا منہ توڑ جواب دیں گے۔
 
موجودہ صورتحال میں بحران کی شدت میں اضافہ اور غزہ میں ممکنہ جنگ کا آغاز اسرائیلی اقدامات پر منحصر ہے۔ اگر غاصب صہیونی رژیم اپنے جارحانہ اقدامات جاری رکھتی ہے تو جنگ شروع ہونے کا امکان بہت زیادہ ہے۔ اگرچہ گذشتہ گیارہ برس سے جاری غزہ کا ظالمانہ محاصرہ اس خطے میں شدید تناو کا باعث بنا ہے لیکن حال ہی میں امریکہ، اسرائیل اور ان کے پٹھو عرب حکمرانوں کی جانب سے "ڈیل آف سینچری" نامی سازش کے فاش ہو جانے کے بعد غزہ کا بحران نیا رخ اختیار کر چکا ہے۔ اس بات کے پیش نظر کہ اس منصوبے میں فلسطینی مہاجرین کے حق واپسی کو یکسر نظرانداز کر دیا گیا ہے فلسطینیوں کی جانب سے اس کے خلاف شدید ردعمل سامنے آیا ہے۔
 
1948ء میں جلاوطن ہونے والے فلسطینی مہاجرین کا حق واپسی اقوام متحدہ کی متعدد قراردادوں اور دیگر عالمی قوانین کی روشنی میں ایک طے شدہ اور یقینی امر ہے۔ اسی وجہ سے صدی کے معاہدے کے خلاف فلسطینیوں کا ردعمل انتہائی شدید ہے اور امریکہ کی جانب سے اپنا سفارتخانہ تل ابیب سے مقبوضہ بیت المقدس منتقل کئے جانے کے اعلان کے بعد غزہ میں بڑے پیمانے پر احتجاجی مظاہرے شروع ہو گئے تھے جو اب تک جاری ہیں۔ اسرائیلی سکیورٹی فورسز کی فائرنگ سے اب تک 130 فلسطینی شہری شہید جبکہ 12 ہزار زخمی ہو چکے ہیں۔ یہ مظاہرے اب ساحلی علاقوں تک بھی پھیل گئے ہیں۔
 
اس بارے میں انتہائی اہم اور قابل غور نکتہ یہ ہے کہ ان احتجاجی مظاہروں نے غزہ کی پٹی میں مقیم فلسطینیوں کا 1948ء کی مقبوضہ سرزمین خاص طور پر حیفا میں مقیم فلسطینیوں سے رابطہ مستحکم کر دیا ہے۔ یوں مستقبل قریب میں ان دونوں کے درمیان تعاون اور ہمکاری کی نئی مثالیں قائم ہونے والی ہیں۔ اس طرح غزہ کی پٹی اور مقبوضہ فلسطین کے اندر مقیم فلسطینی مغربی کنارے میں بسنے والے فلسطینیوں سے سبقت لے چکے ہیں جبکہ "صدی کے معاہدے" میں جو شقیں شامل ہیں ان کا زیادہ نقصان مغربی کنارے میں رہنے والے فلسطینیوں کو برداشت کرنا پڑے گا۔ اس معاہدے کی رو سے مغربی کنارہ ہمیشہ کیلئے مقبوضہ فلسطین سے ملحق ہو جانا ہے اور وہاں نئی یہودی بستیاں تعمیر کی جانی ہیں۔
 
ڈیل آف سینچری نامی سازش کے تحت نئی فلسطینی ریاست صرف غزہ کی پٹی اور صحرائے سینا کا بعض حصہ اس سے ملحق کئے جانے کی صورت میں تشکیل پائے گی۔ اس طرح فلسطین ہمیشہ کیلئے بیت المقدس سے محروم ہو جائے گا اور قبلہ اول ہمیشہ کیلئے مسلمانوں سے چھین لیا جائے گا۔ چونکہ غزہ کی پٹی پر اسلامی مزاحمت کی حکمرانی ہے لہذا اس وقت غاصب صہیونی رژیم اور امریکی حکومت غزہ کی پٹی کو اسلامی مزاحمت کے کنٹرول سے نکال باہر کرنے کی بھرپور کوششوں میں مصروف ہے۔ اس مقصد کے حصول کیلئے اسرائیلی حکام ایک طرف تو حماس اور فلسطین اتھارٹی کے درمیان اختلافات کو ہوا دے رہے ہیں جبکہ دوسری طرف حماس کی جانب سے مذاکرات پر تیار نہ ہونے کی صورت میں غزہ پر فوجی حملے کا منصوبہ بنا رہے ہیں۔
 
1948ء میں جنگ کے دنوں کی طرح آج ایک بار پھر فلسطین کا تشخص اور موجودیت خطرے سے روبرو ہو چکی ہے۔ ڈیل آف سینچری درحقیقت سائیکس پیکو معاہدے کی ہی نئی صورت ہے۔ لہذا اسلامی مزاحمتی گروہوں کی جانب سے اسرائیلی جارحیت کا منہ توڑ جواب درحقیقت اس گہری سازش پر کاری ضرب ہے۔ فلسطینی مجاہدین کی جوابی کاروائی اس قدر موثر اور شدید تھی کہ اسرائیل کی غاصب صہیونی رژیم نے فوراً جنگ بندی کی درخواست دے دی۔ صدی کی ڈیل نامی اس نئی سازش کی روشنی میں مقبوضہ فلسطین میں اسلامی مزاحمتی گروہوں کی اہمیت ہر دور سے زیادہ ابھر کر سامنے آئی ہے اور سب اس نتیجے پر پہنچ چکے ہیں کہ فلسطین کی آزادی مسلح جدوجہد سے ہی ممکن ہے۔
 
خبر کا کوڈ : 728461
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش