0
Thursday 31 May 2018 12:46

صلح حسن اور جنگ حسین کیوں۔۔۔!؟

صلح حسن اور جنگ حسین کیوں۔۔۔!؟
تحریر: عظمت علی

دین اسلام میں جنگ دوسرے مرحلہ میں ہے، پہلے صلح ہے۔ جہاں تک اور جب تک صلح و مصالحت کارآمد ثابت ہو وہاں شعلہ جنگ بھڑکانا شریعت کے عین مخالف ہے۔ خون بہانا کبھی بھی عقل و شریعت کے ساتھ نہیں رہا ہے۔ بس مصالحت میں یہ بات ذہن نشین رہے کہ کہیں اس سے حمایت باطل اور مخالفت حق تو نہیں ہو رہی ہے۔ اسلام حق کا حامی ہے اور باطل کو کسی بھی صورت نہیں قبول کرتا۔ رسول اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات طیبہ سے یہ بات آشکارا ہے کہ آپ ہمیشہ امن پسندی کے خواہاں رہے ہیں۔ آپ نے ہر گز بھی جنگ و جدل میں دلچسپی نہیں دکھائی ہے۔ مکہ میں آپ پر بہت ظلم و تشدد کئے گئے، مشرکوں نے آپ پر طاقت آزمائی، پتھر پھینکے، خش و خاشاک ڈالے، مگر آپ خاموشی سے راہ گزر جاتے بلکہ بڑھیا کی عیادت کو بھی گئے، جب تشدد نے زور پکڑ لیا۔ ان کے دل سیاہ ہو گئے اور کوئی بات قبول نہ کرتے تو آپ نے وحی الٰہی کے اشارہ پر ہجرت کا منصوبہ بنایا اور مدینہ کی راہ پکڑ لی۔ وہاں پہنچنے پر بھی ان کے شدت ظلم میں کوئی کمی نہ آئی اور وہ وقفہ وقفہ سے جنگ کے شعلے بھڑکاتے رہے۔ ان کی سرتوڑ کوشش تھی کہ وہ کسی بھی صورت پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور مسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ کردیں۔ چھوٹی بڑی جھڑپیں بھی ہو چکی تھیں، اب حالات بدل چکے تھے۔ صبر کا پیمانہ لبریز ہو چلا تھا، اب ترکی بہ ترکی کے جواب کے سوا کوئی اور چارہ نہ رہا، مزید خاموشی جرم کے مترادف شمار کی جاتی۔ اب خاموشی برتی تو آپ کو اور مہاجرین و اںصار کو خطرہ درپیش تھا۔ پھر بھی آپ نے جنگ و پیکار سے ماوراء محض دفاع کیا ہے، بدر، احد اور خندق یہ سب مدافعانہ ہیں، پہل دشمن نے کی ہے۔

آپ کے بعد امام علی علیہ السلام کا دور امامت آیا، آپ نے بھے بالکل وہی سیرت اپنائی جو آنحضرت نے اپنائی تھی۔ اوائل اسلام کا زمانہ تھا، آپ کو اقتدار سے محروم کر دیا گیا تھا باوجود اسکے کہ حق آپ کا تھا، پھر بھی پچیس برس صبر کی زندگی بسر کی۔ اگر آپ میدان میں اتر آتے تو کمین گاہ میں بیٹھا دشمن، اسلام پر حملہ آور ہو جاتا۔ دین کو مٹانا تو محال تھا۔ ہاں! گزند رسانی میں اپنی کی سی ضرور کوشش کر جاتا، آپ کا دامن خاموشی سے متمسک رہنا بھی مثل صلح ہے۔ آپ کی لب بستگی ہرگز بھی کسی کے حق پر ہونے کو نہیں ثابت کرتی۔ بلکہ صرف اسلام اور مسلمانوں کی خاطر آپ نے سکوت کا سہارا لیا اور اپنے حق سے چشم پوشی کی۔ ورنہ وہ شخص جس کی شجاعت و دلیری کی دھاک جمی ہوئی تھی عربوں پر وہ کیوں کر گھر میں بیٹھ جاتا۔۔۔!؟ اسلام کا یک و تنہا سورما وقت آنے پر صبر کی مضبوط رسی پر تکیہ کر لیتا ہے۔ نفس پر قابو پا لینا ہی جہاد اکبر ہے۔ تاریخ نے ہنگام جنگ آنے پر دیکھ ہی لیا ہے اور ان مواقع کو خوب اچھی طرح سے محفوظ کیا ہے کہ جب بات سے نہیں بنی تو آپ ایک بار پھر اسلام کے بچاو میں اپنی دلاوری کا مظاہرہ کیا ہے۔ جمل، صفین، نہروان میں حق کے دفاع کی خاطر آپ کو تلوار اٹھانی پڑی۔ کل تک جن سے صبر سے کام لیا، آج انہیں کے مقابل جنگ میں نظر آ رہے ہیں۔ اس لئے اب صبر کا ہنگام نہیں تھا۔ اب ترکی بہ ترکی جواب کا وقت آن پہنچا تھا۔ حالات کم و بیش ویسے ہی آن پڑے تھے، جیسے آنحضرت کی زندگی میں تھے۔ آپ نے مکہ میں مشرکوں کے مظالم سہے اور بدر، احد اور خندق میں آپ کو انہی سے نبرد آزما ہونا پڑا اور پھر حدیبیہ میں انہی کے ساتھ  صلح کا معاہدہ طے پایا۔

تعجب انگیز ہیں یہ باتیں ۔۔۔؟ تعجب خیز بالکل بھی  نہیں۔ بس ہمارا زاویہ نگاہ الگ ہے۔ اسلام میں صلح اور جنگ دونوں کا وجود ہے۔ حالات زمانہ جنگ اور صلح کو متعین کرتے ہیں اور حالات کو صاحبان عصمت سے بہتر کوئی اور مشخص نہیں کر سکتا کہ کب کس کا موقع آن پڑا ہے۔ وہ موقع شناس ہونے کے ساتھ ساتھ دشمن شناس بھی تھے۔ امام حسن علیہ السلام کے متعلق ایک فکر کا یہ نظریہ ہے کہ آپ صلح پسند اور امام حسین علیہ السلام جنگ طلب تھے۔ یعنی ان کے کہنے کے مطابق اگر امام حسن علیہ السلام کی جگہ امام حسین علیہ السلام ہوتے تو وہ صلح کی بجائے جنگ کرتے۔ اسی طرح اگر امام حسین علیہ السلام کے موقع پر امام حسن علیہ السلام ہوتے تو کربلا میں بجائے جنگ کے صلح کا معاہدہ لکھا جاتا۔ مذکورہ نظریہ کسی بھی طرح درست نہیں، چونکہ دونوں امام کے مواقع الگ الگ تھے۔ امام حسن علیہ السلام کا دور امام حسین علیہ السلام کے عہد سے مکمل طور پر مختلف تھا۔
حضرت علی علیہ السلام کے بعد منصب خلافت و حکومت آپ کے سپرد ہوا۔ آپ منصب حکومت پر مقرر تھے، جبھی معاویہ نے اندرونی خلفشار و سراسیمگی کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے آپ پر جنگ تھوپ دی، چونکہ اس گھڑی عراق حالات کی ابتری کا شکار تھا۔ وہاں اندرونی طور پر آفتوں کی بہتات تھی۔ یہ دور بھی مشابہ تھا حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مکی ایام اور حضرت امیرالمومنین علی ابن ابی طالب علیہما السلام کے پچیس سالہ عرصہ حیات سے۔ پدر گرامی اور جد بزرگوار نے ان حالات میں برداشت اور تحمل سے کام لیا۔ لہٰذا گذشتہ ادوار کے پیش نگاہ آپ نے بھی وہی سیرت اختیار کی جو امام علی علیہ السلام اور حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنائی تھی، اگر اس موقع پر اتنا سب کچھ جاننے کے بعد بھی آپ میدان کارزار میں اتر آتے تو وقت، دولت، جنگی سازوسامان سمیت مسلمانوں کے لہو کی ندیاں بہہ جاتیں اور بہت ممکن تھا کہ معاویہ پھر سے کوئی سیاسی چال چل کرل وگوں کو گمراہی میں رکھتا، جیساکہ صفین کے معرکہ میں ہوا تھا۔ نتیجہ قتل و غارت گری اور اسلام و مسلمانوں کے نقصان کی صورت میں سامنے آتا۔

دوسری جانب اسلام دشمن عناصر اس تاک میں لگے بیٹھے تھے کہ دونوں میں آپسی جنگ کا بازار گرم ہو اور ہم مملکت اسلامیہ اور اقتدار امت مسلمہ کو ہتھیا لیں۔ لیکن امام حسن علیہ السلام کی سیاسی بصیرت  نے اسلام اور مسلمانوں دونوں کو بچا لیا۔ اگر معرکہ آرائی ہوتی تو ممکن تھاکہ مسلمانوں کی جان سمیت آپ بھی شہید ہو جاتے۔ آپ کی شہادت یعنی خلیفہ کا قتل اور مرکز اسلام کا درہم و برہم ہو جانا۔ جس کی آسرے پر اسلام دشمن شریر ٹولی گھات میں بیٹھی انتظار کی گھڑیاں گن رہی تھی کہ موقع ملے اور اسلامی اقدار کو لوٹ کھسوٹ لے جائیں۔ امام کی مستقبل نگاہی تھی کہ آپ نے حال کے آئینہ میں دشمن کی درپردہ سازشوں کو عیاں طور پر دیکھ لیا اور بر وقت ان کی روباہی طشت از بام کر دی۔ امام حسین علیہ السلام کا زمانہ آپ سے یوں جدا تھا کہ آپ ظاہری طور پر زمام اقتدار نہیں سنبھالے تھے کہ آپ کا قتل خلیفۃ المسلمین اور مرکز اسلام کے تہہ و بالا کا سبب قرار پاتا۔ آپ حقیقی خلیفہ رسول اور امت مسلمہ کے امام ضرور تھے مگر زمام حکومت آپ کے ہاتھ میں نہ تھا۔

دوسری بات آپ سے مطالبہ بیعت کا تھا۔ بیعت کرنا یعنی کسی کے حق پر ہونے کی تائید کرنا ہے جو کہ فرزند رسول کے ناممکن تھا۔ اگر آپ بیعت کرلیتے تو نظام اسلام زیر و زبر ہو جاتا اور بنام شریعت کچھ نہ بچتا۔ تیسری بات آپ نے جنگ کی۔ کیوںکہ وہ صلح پر راضی نہ تھا۔ آپ نے جنگ سے قبل خاتمہ جنگ کی بات اور کوشش کی کہ آپسی صلح و مصالحت سے کام بن جائے، مگر سامنے والا مصر تھا جنگ پر۔ حکومت کا نشہ چڑھا تھا دماغ پر۔ آپ نے کئی ایک جاں سے عزیز لوگوں کی شہادت کے بعد بھی صلح کی پیش کش رکھی، مگر اب بھی جواب منفی رہا۔ لہٰذا، آپ کو میدان جنگ میں اترنا ہی پڑا۔ آپ کے نزدیک بھی مسلمانوں کے خون عزیز تھے۔ بہتر اصحاب باوفا تھے پھر بھی آپ ان کے سلسلے سے کافی مشوش تھے کہ کسی طرح ان کی جانیں محفوظ رہ جائیں۔ اسی واسطہ آپ نے اپنے اصحاب کو تاریکی شب میں اور چراغ گل کرکے فرمایا، جسے جانا ہو وہ جائے۔ جنت کی ضمانت میرے ذمہ! مگر کسی کے لب نے منفی سمت جنبش نہ کی۔ سب نے ہاں کہا۔ جس طرح امام حسین علیہ السلام اپنے اصحاب اور مسلمانوں کے نفس کے فکرمند تھے بالکل اسی طرح امام حسن علیہ السلام بھی ان کے حق میں بھلا چاہ رہے تھے اور ان کی خیر و عافیت کے خواہاں تھے، پھر کیوں کر یہ ممکن تھا کہ آپ صلح نہ کرتے اور اسلام و مسلمان کو رسوائی و ہلاکت کی نذر کر دیتے۔۔۔! 
خبر کا کوڈ : 728653
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش