0
Monday 4 Jun 2018 18:41

سندھ میں ٹکٹوں کی تقسیم پر جیالے ناراض، باغی گروپس سامنے آنے لگے، پیپلز پارٹی شدید مشکلات کا شکار

سندھ میں ٹکٹوں کی تقسیم پر جیالے ناراض، باغی گروپس سامنے آنے لگے، پیپلز پارٹی شدید مشکلات کا شکار
رپورٹ: ایس حیدر

سندھ میں ٹکٹوں کی تقسیم پر جیالے ناراض ہوگئے، کراچی تا کشمور پیپلز پارٹی میں باغی گروپس سامنے آنے لگے، مخدوم جمیل الزمان، ملک اسد سکندر، علی گوہر مہر اور نادر مگسی سمیت متعدد رہنماؤں نے اپنے علیحدہ گروپس بنا لئے ہیں، دوسری جانب ماضی میں پیپلز پارٹی کا گڑھ اور قلعہ تصور کئے جانے والے ضلع بدین میں پیپلز پارٹی کو اپنے ہی باغی رہنما ڈاکٹر ذوالفقار مرزا اور ان کی اہلیہ سابق اسپیکر قومی اسمبلی ڈاکٹر فہمیدہ مرزا اور ان کے فرزند سابق رکن سندھ اسمبلی حسنین مرزا کے مقابلے میں مضبوط امیدوار لانے میں سخت مشکلات کا سامنا ہے، جبکہ عمران خان اور ذوالفقار مرزا گروپ کے گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس سندھ سے انتخابی اتحاد و سیٹ ایڈجسٹمنٹ بھی پریشانی کا باعث بنتا نظر آ رہا ہے۔ تفصیلات کے مطابق پاکستان پیپلز پارٹی کیلئے آئندہ انتخابات میں ٹکٹوں کی تقسیم درد سر بن گئی، جس کو مرضی کے مطابق ٹکٹ نہ ملا، وہ ناراض ہو گیا۔ پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما اور سروری جماعت کے روحانی پیشوا مخدوم جمیل الزمان نے ٹکٹوں کے اجراء پر اپنی ناراضگی کا اظہار پارلیمانی بورڈ کے سامنے بھی نہ آکر کیا۔ ملک اسد سکندر جامشورو میں اپنا گروپ لانے پر بضد ہیں۔ گھوٹکی کے مہر سرداروں کے مابین آئندہ انتخابات کیلئے متفقہ لائحہ عمل طے نہ ہونے پر مہر خاندان سیاسی طور پر دو حصوں میں تقسیم ہوگیا ہے۔ سردار علی گوہر خان مہر پیپلز پارٹی سے راہیں جدا کرکے اس وقت گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس سندھ کا حصہ بن چکے ہیں۔ اس طرح گھوٹکی میں مہر خاندان سیاسی طور پر دو حصوں میں بٹ گیا ہے۔ ذرائع کے مطابق ڈاکٹر ذوالفقار مرزا کے گڑھ بدین میں پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما کمال چاند، علی نواز چانڈیو اور محمد بخش عرف پپو شاہ ٹکٹ کی تقسیم پر نالاں ہیں، تو قمبر شہداد کوٹ میں نادر مگسی بھی پیپلز پارٹی کی اعلیٰ قیادت سے سخت ناراض ہیں۔

میرپورخاص سے ممبر صوبائی اسمبلی علی نواز شاہ نے اپنا گروپ بنا لیا۔ سانگھڑ میں جام مدد علی کو ٹکٹ دینے پر اصغر جونیجو ناراض ہیں۔ شکارپور میں امتیاز شیخ کو ٹکٹ دینے کے امکان پر پرانے جیالوں نے احتجاج کا فیصلہ کیا ہے۔ دادو میں بریگیڈیئر طارق لاکھیر کی انٹری نے عمران ظفر لغاری اور فیاض بٹ کو پریشان کر دیا ہے۔ حیدرآباد میں پیپلز پارٹی چار حصوں میں تقسیم ہو گئی ہے، جام خان شورو، مولا بخش چانڈیو اور علی نواز شاہ رضوی گروپس میں تقسیم ہو گئے ہیں۔ نواب شاہ میں ڈاہری گروپ تشکیل دینے کی تیاریاں شروع کر دی ہیں۔ نوشہروفیروز میں ضیاءالحسن لنجار کو ٹکٹ دینے کے امکان پر پارٹی کی مقامی قیادت نے علیحدگی اختیار کرنے کا اعلان کیا ہے۔ تھرپارکر میں مہیش کمار ملہانی، کھٹو مل جیون اور نور محمد شاہ جیلانی ٹکٹ نہ ملنے پر گھر بیٹھ گئے ہیں۔ پیپلزپارٹی کے تھر میں ناراض لوگوں نے ارباب گروپ کو مضبوط کر دیا۔ کراچی کے علاقے لیاری میں نبیل گبول کی مخالفت شروع ہوگئی، پیپلز پارٹی کے سابق رکن قومی اسمبلی شاہجہان بلوچ ناراض ہوگئے، لیاری میں شاہجہان بلوچ نے اپنا گروپ بنا لیا ہے۔ پیپلز پارٹی اور شیرازی برادران میں جاری مذاکرات بغیر نتیجے کے ختم ہوگئے، جس کے باعث سجاول اور ٹھٹھہ میں دلچسپ مقابلے کا امکان پیدا ہوگیا ہے۔ شیرازی برادران کو پیپلز پارٹی شامل کرنے کے متعلق پیپلز پارٹی اور شیرازیوں کے درمیان جاری مذاکرات بغیر کسی نتیجے ختم ہوگئے ہیں۔ ذرائع کے مطابق پیپلز پارٹی قیادت نے سجاول اور ٹھٹھہ اضلاع میں خسارے سے بچنے کیلئے شیرازیوں کو دونوں اضلاع ایک ایک صوبائی نشست دینے کی پیشکش کی تھی، جبکہ شیرازیوں نے تین نشستیں دینے کا مطالبہ کیا، جو کہ پیپلز پارٹی کی قیادت نے ماننے سے انکار کر دیا، جس پر شیرازی گروپ کے رہنما اور سابق ضلع ناظم ٹھٹھہ سید شفقت حسین شاہ شیرازی نے پیپلز پارٹی کی پیشکش قبول نہ کرتے ہوئے آئندہ انتخابات میں پیپلز پارٹی کے مقابل امیدوار کھڑے کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس سے دونوں اضلاع میں صورتحال انتہائی دلچسپ ہوگئی ہے۔

ماضی میں پیپلز پارٹی کا گڑھ اور قلعہ تصور کئے جانے والے ضلع بدین میں پیپلز پارٹی کو اپنے ہی باغی رہنما ڈاکٹر ذوالفقار مرزا اور ان کی اہلیہ سابق اسپیکر قومی اسمبلی ڈاکٹر فہمیدہ مرزا اور ان کے فرزند سابق رکن سندھ اسمبلی حسنین مرزا کے مقابلے میں مضبوط امیدوار لانے میں سخت مشکلات کا سامنا ہے۔ پیپلز پارٹی کی قیادت نے بلدیاتی انتخاب میں ڈاکٹر ذوالفقار مرزا گروپ کی کامیابی کے بعد ان کی سیاسی گرفت کو کمزور کرنے اور ان کے مقابلے کیلئے ضلع بھر کی پیپلز پارٹی مخالف شخصیات کو پیپلز پارٹی میں شامل کرکے ضلع کے سرکاری محکمے، ہائی ویز ایرکیشن، میونسپل کمیٹی، تحصیل، کونسلز کے ترقیاتی مالی اور دیگر معاملات ان کے حوالے کر دیئے، جس پر پارٹی کی مقامی قیادت اور جیالوں نے شدید احتجاج اور تحفظات کا اظہار بھی کیا، پارٹی میں شامل کئے گئے نئی شخصیات کو بھی پارٹی قیادت کی امیدوں پر پوری نہ اترتا ہوا دیکھ کر پارٹی قیادت نے ضلع سے باہر کی شخصیات سابق ایم این اے اور قوم پرست رہنما گل محمد جھکرانی کو بدین کا کوارڈینیٹر مقرر کیا، عام انتخابات کی تیاریوں اور کاغذات نامزدگی کی وصولی اور جمع کرانے کا سلسلہ شروع ہونے کے باوجود پیپلز پارٹی ڈاکٹر ذوالفقار مرزا گروپ کے مقابلے میں مضبوط امیدواروں کو سامنے لانے میں ناکام دکھائی دے رہی ہے، این اے 230 پر سابق اسپیکر قومی اسمبلی ڈاکٹر فہمیدہ مرزا کے مقابلہ کیلئے پیپلز پارٹی قیادت نے پہلے سابق ایم این اے بشیر احمد ہالیپوٹو کو تیاری کی ہدایت کی، جبکہ تازہ اطلاع کے مطابق پرویز مشرف کی قریبی ساتھی اور سنیٹر یاسمین شاہ کو، جبکہ پی ایس 73 ٹنڈو باگو سے ڈاکٹر ذوالفقار مرزا کے فرزند سابق ایم پی اے حسنین مرزا کے مقابلے کیلئے جام صادق ارباب اور مشرف دور کے وزیر سید علی بخش پپو شاہ کو تیاری کی ہدایت کی گئی ہے۔

پیپلز پارٹی کے اس فیصلے پر پارٹی عہدیداروں اور جیالوں کی جانب سے شدید احتجاج اور تحفظات کا اظہار بھی کیا گیا ہے اور سوشل میڈیا میں پیپلز پارٹی کے گروپ ہی ایک دوسرے کے خلاف مہم چلا رہے ہیں، پی ایس 74 بدین میں مرزا گروپ کے مقابلہ کیلئے پیپلز پارٹی نے پہلے عمرکورٹ سے تعلق رکھنے والے ارباب گروپ کے رہنما معروف ٹھیکیدار اور پارٹی قیادت کے قریبی سراج قاسم سومرو کو بدین سے الیکشن کی تیاری کا اشارہ دیا، جس پر پیپلز پارٹی میں شامل ہونے والے تاجر رہنما اور گزشتہ انتخاب میں پیپلز پارٹی کے امیدوار سنیٹر ڈاکٹر سکندر مندرو کا مقابلہ کرنے والے حاجی تاج محمد ملاح گروپ نے سخت احتجاج اور تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ سومرو برادری کی اکثریت ڈاکٹر ذوالفقار مرزا کی حمایتی ہے، اس لئے پارٹی ٹکٹ مقامی اور ملاح برادری کو دیا جائے، پارٹی قیادت نے برادری تنازع اور کشمکش کو دیکھتے ہوئے مختلف برادریوں اور حلقوں کی حمایت کے علاوہ سندھ کی ایک معروف پیر اور مذہبی شخصیت کے حمایت یافتہ قاضی فاروق میمن کو الیکشن کی تیاری اور کاغذات نامذدگی جمع کرانے کی ہدایت کی ہے، پیپلز پارٹی کو بدین میں ڈاکٹر ذوالفقار مرزا کی عوامی مقبولیت اور گرفت کو کمزور کرنے سب سے بڑی رکاوٹ اپنوں کے اختلافات، پرانے جیالوں کی ناراضگی اور خاموشی کے علاوہ ضلع بھر میں ترقیاتی کام نہ کرانا، کرپشن اور افسر شاہی کا راج اور پانی کی بدترین قلت ہے۔ ایک طرف سندھ میں انتخابی صورتحال دلچسپ ہوتی جا رہی ہے، الیکشن میں دلچسپ مقابلے کا امکان نظر آ رہا ہے، تو دوسری جانب پیپلز پارٹی سندھ میں آئندہ انتخابات میں ٹکٹوں کی تقسیم پر جیالوں کی ناراضگی، باغی گروپس بننے، عمران خان اور ذوالفقار مرزا گروپ کے گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس سندھ سے انتخابی اتحاد و سیٹ ایڈجسٹمنٹ کی وجہ سے شدید مشکلات کا شکار نظر آتی ہے، اب مفاہمت کے بادشاہ آصف علی زرداری پارٹی کو اس مشکل صورتحال سے نکال کر آئندہ عام انتخابات میں کامیابی کیسے حاصل کرتے ہیں، اس کا فیصلہ تو آنے والا وقت ہی کریگا۔
خبر کا کوڈ : 729537
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش