0
Tuesday 5 Jun 2018 01:13

اسرائیل کیجانب سے شام سے ایران کے انخلاء پر اصرار کی وجوہات

اسرائیل کیجانب سے شام سے ایران کے انخلاء پر اصرار کی وجوہات
تحریر: حسن ہانی زادہ
گذشتہ چند روز اور ہفتوں کے دوران شام حکومت اور اس کے اتحادی ممالک جیسے اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف اسرائیلی حکام کی ہرزہ سرائی اور دھمکی آمیز بیانات میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ اس دوران وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو سے لے کر وزیر دفاع اویگڈور لیبرمین تک اسرائیل کے مختلف سطح کے حکام نے شدت پسندانہ بیانات دیئے ہیں۔ اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو نے تل نوف فوجی ایئربیس پر فوجی کمانڈرز سے خطاب کرتے ہوئے کہا: "اسرائیل ایران کو شام میں فوجی اڈے قائم کرنے کی اجازت نہیں دے گا اور اس مقصد کے حصول میں اسرائیل ایئرفورس اہم کردار ادا کرے گی۔" اسی طرح بنجمن نیتن یاہو نے شام کے امور میں واضح مداخلت کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیل شام میں ایران کی فوجی موجودگی برداشت نہیں کر سکتا۔ اسرائیلی وزیراعظم نے حال ہی میں اپنے قریب الوقوع جرمنی، فرانس اور برطانیہ دوروں کی خبر دیتے ہوئے اس بات پر زور دیا ہے کہ وہ ان دوروں میں یورپی رہنماوں سے شام میں ایران کے کردار کے بارے میں گفتگو اور مذاکرات کریں گے۔

البتہ اس سے پہلے بھی اسرائیلی وزیراعظم اسلامی جمہوریہ ایران اور شام میں اس کے کردار کے خلاف کئی دورے انجام دے چکے ہیں۔ انہوں نے اپنے روس دورے کے دوران روسی صدر ولادیمیر پیوٹن سے اس بارے میں بات چیت کی اور ان سے مطالبہ کیا کہ وہ اپنا اثرورسوخ استعمال کرتے ہوئے شام میں ایران کی فوجی موجودگی کا خاتمہ کریں۔ بنجمن نیتن یاہو کے علاوہ دیگر صیہونی حکام نے بھی تہران اور دمشق کے خلاف سفارتی سرگرمیوں کا آغاز کر رکھا ہے۔ ان میں سے ایک اسرائیلی وزیر دفاع اویگڈور لیبرمین ہیں جن کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا ہے اور وہ تہران اور دمشق کو جنگ کی دھمکیاں تک دے چکے ہیں۔ طے پایا ہے کہ وہ ایران کے خلاف اپنی مہم کے دوران روس کا دورہ کریں گے اور روسی حکام سے اس بارے میں بات چیت کریں گے۔ ان دشمنانہ اقدامات کے ساتھ ساتھ امریکہ اور سعودی عرب بھی شام میں اپنی تخریبی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔

گذشتہ چند ہفتوں اور مہینوں میں شام کے فوجی میدان میں رونما ہونے والی تبدیلیوں نے اس ملک کی سیاسی صورتحال میں وسیع تبدیلیاں رونما کی ہیں جبکہ شام بحران کے حل کیلئے انجام پانے والی کوششیں بھی نئے مرحلے میں داخل ہو گئی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ تکفیری دہشت گرد عناصر اور ان کی حامی قوتیں تین محاذوں پر شدید شکست کا شکار ہوئی ہیں۔ مشرقی غوطہ، الحجر الاسود اور یرموک پناہ گزین کیمپ۔ دارالحکومت دمشق کے گرد و نواح میں یہ تین اہم محاذ تھے جہاں تکفیری دہشت گرد عناصر کو شام آرمی اور اسلامی مزاحمتی فورسز کے مقابلے میں شدید شکست کا شکار ہونا پڑا جس نے ان کی تمام امیدوں پر پانی پھیر دیا۔ ان مسلسل ناکامیوں کے بعد شام کے مختلف حصوں میں تکفیری دہشت گرد عناصر میں پھوٹ پڑ گئی اور وہ آپس میں لڑنے لگے۔ لہذا امریکی اور صیہونی حکام اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ موجودہ حالات میں "دمشق حکومت کی سرنگونی" پر مبنی منصوبہ آگے بڑھانا تقریباً ناممکن ہے۔

اس وقت امریکہ، سعودی عرب اور غاصب صیہونی رژیم شام میں تکفیری دہشت گرد گروہوں پر مبنی اپنے منحوس منصوبے کی شکست کا یقین کر چکے ہیں لہذا انہوں نے شام میں اسلامی مزاحمتی بلاک کا مقابلہ کرنے کیلئے نئے پراجیکٹ کا آغاز کر دیا ہے۔ اس نئے پراجیکٹ کے تحت واشنگٹن، تل ابیب اور ریاض نے اسلامی جمہوریہ ایران کو نشانہ بنا رکھا ہے۔ تینوں ممالک کے اعلی سطحی حکام طے شدہ منصوبے کے تحت آپس میں مکمل ہم آہنگی کے ساتھ شام سے ایران کے انخلاء کا ڈھنڈورا پیٹتے نظر آتے ہیں۔ یہ پہلے سے طے شدہ اور نامعقول مطالبہ ایسے وقت کیا جا رہا ہے جب ایران شام حکومت کی سرکاری درخواست پر وہاں موجود ہے اور اب تک یعنی شام میں شروع ہونے والے سکیورٹی بحران کو آٹھ سال کا عرصہ بیت جانے کے دوران دہشت گردی اور دہشت گرد گروہوں کے خلاف جنگ میں بہت زیادہ جانی و مالی نقصان برداشت کرچکا ہے۔

لہذا اس میں کوئی شک نہیں کہ شام سے اسلامی جمہوریہ ایران کا انخلاء صرف اس وقت انجام پائے گا جب شام حکومت اس کا مطالبہ کرے گی۔ اسلامی مزاحمت کے دشمنوں کو بھی اچھی طرح جان لینا چاہئے کہ جب تک شام میں تکفیری دہشت گرد عناصر موجود اور سرگرم ہیں اسلامی جمہوریہ ایران وہاں سے نکل کر اسے امریکی، سعودی اور صیہونی حکام کے حوالے نہیں کر سکتا۔ ایسے وقت جب تکفیری دہشت گرد اور ان کی حامی قوتیں جن میں امریکی فوجی، سعودی اور صیہونی ایجنٹ شامل ہیں شام میں موجود ہیں ایران کس طرح وہاں سے باہر نکل سکتا ہے؟ صیہونی حکام کی جانب سے شام سے ایران کے فوجی انخلاء پر حد سے زیادہ تاکید کرنے کی بڑی وجہ یہ ہے کہ وہ شام میں تمام دہشت گرد گروہوں کو ملا کر ایک متحدہ دہشت گرد فوج بنانے کی سازش کر رہے ہیں۔

اسرائیلی حکام کی اس سازش کا مقصد شام کے ساتھ اپنی مشترکہ سرحدوں اور مقبوضہ گولان ہائٹس سے لے کر درعا تک کے علاقے کی سکیورٹی کو یقینی بنانا ہے۔ درحقیقت صیہونی حکام اپنی اس سازش کی کامیابی کیلئے شام سے ایران کے فوجی انخلاء کو ضروری سمجھتی ہے کیونکہ اسے یقین ہے کہ جب تک شام میں ایران کے فوجی مشیر موجود ہیں اس کی کوئی سازش کامیاب نہیں ہو سکتی۔ اسرائیلی حکام متحدہ دہشت گرد فوج تشکیل دینے اور اس میں شامل عناصر کو ٹریننگ دینے کے ذریعے گولان ہائٹس میں اسلامی مزاحمت کے مقابلے میں اپنے مفادات کے تحفظ کو یقینی بنانا چاہتے ہیں۔ لہذا اس میں کوئی شک نہیں کہ امریکہ اور اسرائیل کے حالیہ منصوبوں میں سے ایک تکفیری دہشت گرد عناصر کی ایک متحدہ فوج تشکیل دینا ہے تاکہ وہ شام میں تل ابیب کے دستورات اجرا کر سکے۔

اسرائیلی حکام نے اپنے مقصد کے حصول یعنی شام سے ایران کے فوجی انخلاء کیلئے سفارتی میدان میں بھی سیاسی سرگرمیوں کا آغاز کر دیا ہے۔ تہران اور دمشق کے بارے میں روسی حکام سے ان کی بات چیت اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ البتہ روس کا اسرائیل سے کوئی تنازعہ نہیں اور شام اور ایران کے بارے میں ان کے درمیان اختلاف رائے پایا جاتا ہے۔ اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو نے اپنے روس کے حالیہ دورے میں روسی صدر ولادیمیر پیوٹن سے ملاقات کی اور ان سے مطالبہ کیا کہ وہ شام حکومت پر دباو ڈال کر اس ملک سے ایران اور حزب اللہ لبنان کے انخلاء کو یقینی بنائیں۔ اسرائیلی حکام کی جانب سے روسی حکام کی طرف رجوع کرنے کی اصل وجہ یہ ہے کہ وہ سمجھتے ہیں روس ان کے ساتھ اپنے مشترکہ مفادات کو دمشق اور تہران کی حمایت پر قربان نہیں کرے گا۔ لہذا ہم دیکھتے ہیں کہ شام کے بارے میں اسرائیلی حکام اور روسی حکام کے درمیان انجام پانے والے مذاکرات کی ناکامی کے باوجود یہ کوششیں جاری ہیں۔

اسرائیلی حکام کی جانب سے شام سے ایران کے فوجی انخلاء کی کوششوں کے ساتھ ساتھ امریکی حکام بھی صدر بشار اسد کی سربراہی میں شام حکومت کے خلاف اپنے دشمنانہ اقدامات جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اسی سلسلے میں امریکہ نے اپنے 2 ہزار سے زائد میرینز شام کے مشرقی علاقے البوکمال میں تعینات کر دیئے ہیں۔ یہ علاقہ شام اور عراق کی سرحد کے قریب واقع ہے۔ امریکی فوجی اس علاقے میں دہشت گرد عناصر کو ٹریننگ دینے میں مصروف ہیں۔ ان کا مقصد بھی دہشت گردوں پر مشتمل ایک فوج تشکیل دینا ہے۔ امریکہ شام میں حزب اللہ لبنان اور اسلامی مزاحمتی قوتوں کو خطے سے متعلق اپنے منصوبوں کی راہ میں بڑی رکاوٹ سمجھتا ہے۔ لہذا امریکہ نے تمام بین الاقوامی قوانین کو بالائے طاق رکھتے ہوئے شام کے کچھ علاقوں پر فوجی قبضہ جما رکھا ہے۔
خبر کا کوڈ : 729611
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش