0
Tuesday 5 Jun 2018 18:08

امیرالمومنین علی (ع) کے درد و پیغامات

امیرالمومنین علی (ع) کے درد و پیغامات
تحریر: محمد اشرف ملک

کوئی قوم و ملک تب ترقی کر سکتا ہےجب اس ملک اور اس قوم کے افراد بہترین راہنما اور رہبر کی باتوں کو سنیں اور ان پر عمل کریں، کچھ لوگ ایسے ہیں کہ جو اچھا پروگرام رکھتے ہیں، اچھا منصوبہ رکھتے ہیں، کمال کی سیاست اور پالیسی رکھتے ہیں لیکن کوئی ان کی بات کو سننے اور اس پر عمل کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتا۔ یہ ایک ایسا درد ہوتا ہے کہ جس کی تکلیف وہی درک کر سکتا ہے کہ جو اس سے گزر رہا ہو۔ امیرالمومنین کے کئی دردوں میں سے ایک مہم ترین درد یہ بھی تھا۔

اپنی  فوج اور لشکر کے سامنے درد بیان کرنا
امیرالمومنین حضرت علی(ع) کی زندگی میں اکثر لوگوں نے ان کی مخالفت کی اور آپ کے احکامات پر عمل کرنا تو کجا بعض اوقات گفتگو کو سنا بھی نہیں کرتے تھے، اگر سنتے بھی تھے تو بہت کم ایسے تھے کہ جو اس کے مطابق عمل کرتے تھے۔ یہ مولا کا ایک بہت بڑا درد تھا جس کو آپ نے کئی مقامات پر بیان بھی کیا ہے جن میں سے ایک مقام نہج البلاغہ کے خطبہ نمبر ۹۶ ہے، جس میں شامی فوج کی طرف اپنی فوج کو مخاطب کرتے ہوئے فرماتے ہیں: "یہ قوم تم پر غلبہ حاصل کر لے گی اس لئے نہیں کہ وہ تم سے زیادہ حق پر ہیں بلکہ اس لئے کہ وہ اپنے باطل حکمران کی فوری اطاعت کر لیتے ہیں جبکہ تم میرے حق میں سستی سے کام لیتے ہو۔ دنیا کی قومیں اپنے حکمرانوں کے ظلم سے ڈرتی ہیں جبکہ میں اپنی رعیت کے ظلم سے ڈرتا ہوں۔ میں نے تم کو جہاد کے لئے آمادہ کیا لیکن تم آمادہ نہ ہوئے، میں نے تمہیں جو سنانے کی ضرورت تھی وہ سنایا لیکن تم نے نہ سنا۔ ہر حوالے سے تمہیں بلایا لیکن تم نے میری بات کا جواب نہ دیا اور اسے قبول نہ کیا۔

تمہیں نصیحت کی تم نے اسے بھی قبول نہ کیا۔ تمہارا حضور و غیاب ایک جیسا ہے، یعنی ہونا نہ ہونا برابر ہے۔ تم ایسے اطاعت کرنے والے ہو کہ گویا خود مالک ہو، میں تمہارے لئے حکمت والی باتیں کرتا ہوں اور تم بیزار ہو جاتے ہو۔ بہترین نصیحت کرتا ہوں اور تم چلے جاتے ہو اور متفرق ہو جاتے ہو۔ تم کو باغیوں کے جہاد پر آمادہ کرتا ہوں اور ابھی بات مکمل نہیں کر چکا ہوتا کہ تم قوم سبا کی طرح منتشر اور جدا ہو جاتے ہو۔ اپنی محفلوں میں پلٹ جاتے ہو اور ایک دوسرے کو دھوکہ دیتے ہو۔ صبح تم کو سیدھا کرتا ہوں تو شام کو تم ٹیڑھے ہو جاتے ہو۔ تمہیں سیدھا کرنے والا عاجز آ گیا ہے اور تمہاری اصلاح بھی ناممکن ہو چکی ہے۔ اے لوگو! تمہارے بدن تو حاضر ہیں لیکن عقلیں اور ذہن غائب ہیں۔ تمہاری خواہشات مختلف ہیں اور تمہارے حکمران تمہاری بغاوت میں مبتلا ہیں۔ تمہارا امیر اللہ کی اطاعت کرتا ہے جبکہ تم اس کی مخالفت کرتے ہو، شام کا حاکم اللہ کی مخالفت کرتا ہے جبکہ اس کی قوم اس کی اطاعت کرتی ہے۔ اللہ گواہ ہے کہ مجھے یہ بات پسند ہے کہ معاویہ کے ساتھ تمہارا دینار و درہم کی طرح سودا کر لوں کہ وہ تم جیسے دس لیکر اپنا ایک دے دے۔

اے اہل کوفہ تم تین طرح کی خصوصیات اور دو طرح کی کیفیات رکھتے ہو۔ قوت سماعت رکھنے کے باوجود بہرے ہو، صاحب کلام ہونے کے باوجود گونگے ہو، آنکھیں رکھنے کے باوجود اندھے ہو۔ تمہاری کیفیت یہ ہے کہ نہ میدان جنگ کے سچے جوان مرد ہو اور نہ ہی مصیبت کے وقت قابل اعتماد ساتھی ہو۔ تمہاری قوتیں خاک میں مل جائیں، تمہاری مثال ان اونٹوں کی طرح ہے کہ جن کے چرانے والے غائب ہو گئے ہوں اور یہ اونٹ ایک طرف سے جمع کئے جائیں تو دوسری طرف منتشر ہو جائیں، خدا کی قسم تمہارے بارے میں میرا گمان ایسے ہے گویا کہ تمہیں دیکھ رہا ہوں کہ اگر جنگ تیز ہو گئی اور میدان جنگ گرم ہو گیا تو تم ابوطالب کے بیٹے کو انتہائی بے شرمی کے ساتھ چھوڑ کر چلے جاو گے۔(1) کسی شخص، قوم اور ملک کو اگر بہترین رہبر اور راہنما مل جائے تو وہ شخص، قوم اور ملک سالوں کی ترقی اور کمال کے راستے دنوں اور راتوں میں طے کیا کرتے ہیں۔ جس گھر کا سربراہ، جس ادارہ کا رئیس کمال کا آدمی ہو وہ گھر اور وہ ادارہ بھی کمال کا بن جایا کرتا ہے، لیکن اس تمام امر میں شرط یہ ہے کہ گھر کے افراد گھر کے سربراہ  اور ادارہ کے افراد ادارہ کے رئیس کی باتوں کو مان کر اس پر عمل کریں۔ اگر مسلمان اور مومنین کرام مولا علی (ع)کی باتوں کا مطالعہ ہی نہ کریں یا مطالعہ تو کریں لیکن ان پر عمل نہ کریں تو نتیجہ یہی ہوتا ہے کہ جو ہوا اور ہو رہا ہے۔

اوصیکما و جمیع ولدی و اهلی و من بلغه کتابی:
امام اپنے اس وصیت نامے میں اپنے دونوں بیٹوں امام حسن(ع) اور امام حسین(ع) کو پھر تمام اولاد اور گھر والوں کو اور ہر اس شخص کو کہ جس تک امام کا یہ وصیت نامہ پہنچے خطاب فرما رہے ہیں۔ امام حسن اور امام حسین کو جداگانہ خطاب فرمانا یہ ظاہرا ان دو کے مقام عظمت کی بنیاد پر ہے۔ امام یہاں پر اپنی ساری اولاد اور سارے گھر والوں کے لئے امام المتقین اپنی زندگی کے آخری لمحات میں انتہائی مہم ترین نکات بیان فرما رہے ہیں۔ مولا کی سیرت کا یہ نکتہ انتہائی مہم ہے جو اس بات کی طرف متوجہ کرتا ہے کہ اولاد اور گھر والوں کی تربیت کی ذمہ داری  والدین کی گردن پر ہے اور یہ کام اتنا مہم ہے کہ انسان اپنی زندگی کے آخری ترین لمحات تک اس امر سے غافل نہ رہے۔ امیرالمومنین(ع) کی شب ضربت سے لیکر روز شہادت تک اگر اللہ نے مولا کے مراسم میں ہمیں توفیق دی ہے اور ہم چودہ سو سال کے بعد مولا کو یاد کر رہے ہیں تو مولا نے بھی آج سے چودہ سو سال پہلے ہماری سعادت اور ہدایت کا نظم اور سسٹم بناتے ہوئے جہاں پر امام حسن اور امام حسین اور اپنی باقی اولاد و گھر والوں کو یاد کیا ہے تو اپنے ماننے والوں کو بھی وہیں پر یاد فرماتے  اور ان  کو بھی وہی نصیحت کرتے ہیں جو اپنی اولاد کو کرتے ہیں۔

بتقوی اللَّه:
انسان عام طور پر زندگی کے آخری لمحات میں اپنی زندگی  اور تجربات  کا ما حصل  دوسروں کو بیان کرتا ہے اور اگر وہ جن سے بیان کیا جا رہا ہے اپنی اولاد اور  خاص افراد ہوں تو  انسان عام طور پر اہم  و مہم میں سے فقط اہم چیزوں کو بیان کرتا ہے۔ مولائے کائنات کی نگاہ میں تقوٰی یعنی عظمت خدا کے سامنے اپنے آپ کو کچھ نہ سمجھنا اور سب امید اور تمنا کا مرکز اسے قرار دے کر اس کی عظمت  کے سامنے یہ اقرار کرنا کہ الٰہی و ربی من لی غیرک، تیرے علاوہ میرا کون ہے؟ انسان اپنے دل کی تمرین اور مختلف مشقوں سے یہ کیفیت بنائے کہ یہ دل قیامت کے دن کے عذاب سے خوف کھائے، دل میں خشیت خداوندی پیدا ہو اور انسان اللہ کے علاوہ کسی سے نہ ڈرے۔ اس منزل اور مقام کے حصول کا بہترین طریقہ اپنے واجبات پر عمل کرنا اور محرمات سے پرہیز کرنا ہے۔ خواہشات نفسانی پر قابو پانا ہے، بے لگام ہو کر زندگی نہیں گزارنا بلکہ اپنی لگام عقل اور وحی الٰہی کے سپرد کرنی ہے۔ اس کام کے حاصل کرنے کی ایک بہترین راہ ماہ مبارک کے روزے رکھنے ہیں اور اللہ نے ان روزو کا فلسفہ بھی تقوٰی کا حصول بتایا ہے۔ تقوٰی ہی قرآن مجید سے ہدایت حاصل کرنے کی بنیادی شرط قرار پایا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امیرالمومنین اپنی زندگی کے آخری لمحات میں اپنے ماننے والوں کو جو قیمتی ترین نسخہ بتا رہے ہیں وہ تقوی خداوندی ہے۔ آج عالم اسلام کی، اہل علم کی، علماء کی حتٰی مدارس دینیہ اور حوزہ ہای علمیہ کی سب سے بڑی مشکل تقوٰی سے خالی ہونا ہے۔ اگر انسان کے وجود اور اس کے دل کے اندر تقوٰی آجائے تو یہ دل ایسا خدائی ایٹم بم بنتا ہے کہ جو  تباہی نہیں بلکہ تباہی پھیلانے والے تمام امکانات اور ان کے بنانے والوں پر غالب آکر دنیا کو خیر و برکت اور صلح و امن کی نوید دیتا ہے۔

و نظم امرکم:
امیرالمومنین حضرت علی(ع) اپنی زندگی کے آخری لمحات میں اور جس اہم کام کی طرف متوجہ کرتے ہیں وہ اپنے امور میں نظم دینا اور ان کو منظم کرنا ہے۔ کائنات کی ہر شئ اللہ کے دیئے ہوئے اور بنائے ہوئے ایک نظام کے تحت منظم ہے جبکہ بہت سارے انسانوں کی زندگی غیر منطم ہوا کرتی ہے۔ غیر منطم زندگی میں جہاں پر  وقت اور عمر کا اتلاف ہوتا ہے وہاں پر بہت سارا مادی اور معنوی سرمایہ بھی ضائع ہوتا ہے۔ آج اسلامی ممالک کی اندر بے نظمی اور ناامنی کی کیفیت سب کے سامنے ہے۔ کوئی بلند مدت منصوبہ بندی نہیں ہوتی، آراء اور پروگرام منتشر و پراکندہ ہوتے ہیں، ملکر ایک نظم کے تحت زندگی گزارنے کے لئے کوئی حاضر ہی نہیں ہے۔ افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑتا ہے کہ اداروں کے اندر قوموں کی ترقی اور بلندی کی منازل طے کرنے کے لئے منظم منصوبہ بندی بہت کم ہوتی ہے۔ دینی افراد اور مدارس کے مدرسین و پرنسپلز اس مہم ترین کام سے غافل ہیں۔ حقائق کو بیان کرنا آج اس زمانے میں انتہائی ضرورت ہے، میری زندگی کا ایک طویل عرصہ جو اٹھارہ  سال پر مشتمل ہے حوزہ علمیہ قم میں گزرا ہے اور کسی حد تک حوزہ علمیہ نجف کے حالات سے بھی آگاہی ہے، اہلسنت جماعت کے بھی جامعات اور بڑی سطح کے مدارس سے اجمالی آگاہی ہے، ان تمام تعلیمی دینی اداروں میں بھی جس چیز کی طرف کوئی خاص توجہ نہیں دی جاتی وہ امور میں نظم ہے۔

بیس، تیس سال افراد کے ان مدارس میں گزرتے ہیں لیکن ان کے نہ اپنے امور میں نطم ہوتا ہے اور نہ یہ افراد اپنی قوموں میں کوئی نظم ایجاد کر سکتے ہیں۔ اگر کوئی تنظیمیں بھی بناتے ہیں تو وہ تنظیمیں بھی بے نظمی کا شکار ہوتی ہیں۔ اس طرح کتنا سرمایہ ضائع ہونے کے ساتھ ساتھ کتنے افراد کی عمریں اور زندگیاں ضایع ہو جاتی ہیں۔ البتہ امیرالمومنین حضرت علی(ع) کی زندگی کے آخری لمحات کی وصیت پر جب امام خمینی عمل کرتے ہیں اور اپنی زندگی کے تمام امور میں ایسا نظم دیتے ہیں کہ اپنے مطالعہ، قرآن مجید کی تلاوت، اللہ کی عبادت، شخصی زندگی کے امور، اجتماعی سیاسی اور ملکی امور، سونے اور جاگنے کے معمولات، حتٰی اپنی ورزش اور سیر کے اوقات کو ایسا منظم کرتے ہیں کہ لوگ ان کے منظم شدہ اوقات پر منظم شدہ کاموں کو دیکھ کر اپنی گھڑیوں کے اوقات درست کیا کرتے تھے۔ اسلام میں نماز کے اوقات، ماہ رمضان کے روزہ کے اوقات، حج کے معین دن اور پھر حج کے اعمال کے معین اوقات اگر کئی اور اہداف  و فوائد رکھتے ہیں تو ان میں سے ایک انسانی زندگی میں نظم پیدا کرنا ہے۔ اگر انسانی زندگی میں نظم آ جائے تو یہی انسان جو آج پریشان و حیران ہے اس کی زندگی میں اور قوموں کی زندگی میں انقلاب پیدا ہو سکتا ہے۔

و صلاح ذات بینکم:
صلاح ذات، بعض معاملات میں صرف اتحاد کی حد تک نہیں ہے بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ آپس میں ہمدلی ایجاد ہو، دل میں ایک دوسرے کے بارے میں محبت، ہمدردی اور خیرخواہی ایجاد ہو، ایک دوسرے کے بارے میں ذہن صاف  ہوں۔ ایک دوسرے کی تکلیف و درد کو اپنی تکلیف و درد سمجھیں۔ امیرالمومنین، پیغمبر اکرم(ص) کی ایک حدیث کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ: (فَإِنِّی سَمِعْتُ جَدَّکُمَا یَقُولُ: صَلاَحُ ذَاتِ الْبَیْنِ أَفْضَلُ مِنْ عَامَّةِ الصَّلاَةِ وَالصِّیَامِ) آنحضرت نے فرمایا آپس میں اصلاح کی کوشش نماز اور روزہ جیسی عبادت سے افضل ہے، یعنی اگر ایک شخص لوگوں کے دل آپس میں قریب کرنے کی اور ان کے ذہنوں سے کدورت اور نفرتیں ختم کرتا ہے اور دوسرا شخص مستحب نمازیں اور مستحب روزے رکھتا ہے تو، جو شخص لوگوں کے درمیان صلح کی کوشش کر رہا ہے اس کا ثواب مستحب نمازیں اور مستحب روزے رکھنے والے سے کئی گنا زیادہ ہے. یہ ایک ایسا کام ہے جس کی موجودہ دور میں اہمیت بہت زیادہ ہے۔ آج ہر گھر کے اندر، میاں اور بیوی کے درمیان، اولاد اور والدین کے درمیان، بہن اور بھائیوں کے درمیان، ایک تنظیم و ایک ادارہ میں ہمدردی و محبت ختم ہوتی جا رہی ہے اور اس کا نقصان اتنا زیادہ ہے کہ جس کو تقریبا ۹۵ فیصد لوگ اپنی زندگیوں میں محسوس کر رہے ہیں۔ پریشانی، بے چینی، اختلافات اور دوریاں روز بروز اتنی بڑہتی جا رہی ہیں کہ رکنے کا نام ہی نہیں لیتیں، بعض لوگ دوسروں کی کردار کشی پر اترتے ہیں تو بعض تو اس حد تک انسانی حدوں کو عبور کر جاتے ہیں کہ مخالفین کو چھوٹی چھوٹی باتوں پر صفحہ ہستی سے مٹانے کے منصوبے بنا لیتے ہیں۔ مولا علی علیہ السلام اس امر کی طرف متوجہ تھے اسی لئے اپنے اولاد کے ساتھ ساتھ ہر اس شخص کو بھی کہ جس تک مولا کا یہ پیغام پہنچے اپنی زندگی کے حساس ترین لمحات میں ان سب کو  فرما رہے ہیں کہ لوگوں کے درمیان صلح و ہمدردی کی فضا ایجاد کریں۔

شہادت:
آج شب، شب قدر اور  امیرالمومنین حضرت علی(ع) کی شہادت کی رات ہے، آج رات مولا امام حسن(ع)، مولا امام حسین(ع) کے کوفہ میں اور خصوصا حضرت زینب(ع) و ام کلثوم(ع) اور علی(ع) کی باقی اولاد کے یتیم ہونے کی رات ہے۔ آج رات سادات، مومنین اور پوری امت مسلمہ کے یتیم ہونے کی رات ہے، اس لئے کہ پیغمبر اکرم نے فرمایا کہ میں اور علی اس امت کے باپ ہیں۔ اس رات کو جب مولا کی نازک حالت کو دیکھ کر امام حسن گریہ کرتے تو مولا ان کو تسلی دیتے اور امام حسن سے کہتے کہ ان کو تسلی دیں اور جب مولا امام حسین گریہ کرتے تو یہی امام حسن سے فرماتے، لیکن جب ایک دفعہ بی بی زینب و کلثوم کا گریہ بلند ہوا تو مولا تحمل نہ کر سکے اور خود بھی گریہ کرنا شروع کر دیا۔ مولا آپ آج اپنے گھر میں زینب کا گریہ نہ سن سکے جب روز عاشور ہو گا اور آپکی یہی زینب ہو گی اس وقت کیا حال ہو گا۔ بارگاہ رب العزت میں دعا کرتے ہیں کہ پروردگارا بحق امیرالمومنین ہم سب کو آج رات، واقعا شب قدر کو درک کرنے کی توفیق عطا فرما، پروردگارا  ہم سب کو تقوٰی، اپنے امور میں نظم اور مومنین کے درمیان صلح و صفا برقرار کرنے کی توفیق عطا فرما۔ میرے اللہ پریشان حال مومنین کی پریشانیوں کو مولا علی کے صدقہ ختم فرما اور ہم سب کو مولا کا حقیقی اور عملی شیعہ بننے کی ہمت عطا فرما، آمین۔
منبع و مآخذ:
(1)۔ خطبہ ۹۶ نہج البلاغہ
خبر کا کوڈ : 729755
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش