0
Wednesday 6 Jun 2018 14:46

کاش کوئی مجھے سمجھتا؟

شب شہادت امیر المومنین (ع) کی مناسبت سے ایک درد کے مارے انسان کا فسانہ غم
کاش کوئی مجھے سمجھتا؟
تحریر: سید نجیب الحسن زیدی

 ایک محزون، شکستہ دل، ناتواں اور لٹے ہوئے انسان کے رباب قلب سے چھڑا ہوا فسانہ غم جو کہ جو اپنے آپ کو دنیا کا سب سے  زیادہ بےکس اور محزون و غمگین انسان سمجھتا تھا لیکن جب اسے پتہ چلا اس کائنات میں ایک ایسا شخص بھی ہے جو فخرکائنات ہوتے ہوئے بھی خود اس سے زیادہ مغموم و محزون ہے، اس سے زیادہ مظلوم ہے، اس سے زیادہ درد کا مارا ہے، تو اس شخص کا سر شرم سے جھک گیا، اس نے اپنے آنسوئوں کو اپناخزانہء بےبہا بنا لیا اور دولت غم کو سینے سے لگا کر بلک بلک کر رو پڑا مگر خود پر نہیں بلکہ اس فخر کائنات پرجو خود اس سے زیادہ غمگین تھا۔
میں ایک ایسا پھول ہوں جو بکھر گیا
میں ایک ایسا جام جو ٹوٹ گیا

میں وہ ناتوان انسان جس نے بےحسی کے گھٹے ہوئے ماحول میں اگر ہلکی سی احساس کی گرمی پائی تو پگھل کر پانی پانی ہو گیا، میں آنسوؤں میں منجمد شدہ وہ پیکر کہ ہمدردی کی ہلکی سی حرارت پا کر پانی پانی ہو جاتا لیکن برف کا تودہ بنا پڑا رہا اور احساس کی ہلکی سی آنچ سے بھی محروم رہا، میں شکستہ دل،          میں ایک ایسا انسان جسکے نشیمن میں دھوئیں اور چند جلے ہوئے تنکوں کے سوا کچھ بھی نہیں۔ میں ایک تنہا، اکیلا، درد کا مارا، ٹوٹا ہوا نسان۔ ایک ایسا انسان جسے کبھی کسی نے سمجھنے کی کوشش نہ کی، ہر ایک میرے شادمان چہرے کو دیکھ کر، میرے لبوں پر سجی مسکراہٹ کو دیکھ کر، میری خوشحال زندگی کا بیان سمجھ  کر مجھ سے حسد کرتا رہا، لیکن کسی نے بھی میرے  اس بکھرے  ہوئے وجود کے اندر جھانک کر نہ دیکھا۔

اور میں اپنی آنکھوں میں ضبط کا بندھ باندھے جیتا رہا لیکن کسی نے بھی میرے وجود کے اندر پائے جانے والے تلاطم کو سمجھنے کی کوشش نہ کی۔
کاش........ کوئی میرے اندر پائے جانے والے اضطراب کو سمجھتا!
کاش ........ کوئی میرے جذبات کی گہرائیوں تک اتر سکتا!
کاش........ کوئی میری کتاب دل کے لہو سے رنگین اوراق کو پڑھتا
کاش....... کوئی میرے احساسات و جذبات کو خود سے ہم کلام ہونے کی مہلت دیتا
مگر افسوس! کسی نے مجھے نہیں سمجھا اور کسی نے بھی مجھے سمجھنے کی کوشش نہ کی، خدا کی اتنی بڑی کائنات میں ایک کاغذ کے ٹکڑے کی طرح ادھر ادھر پڑا اپنی بے بضاعتی اور لوگوں کی بے مروتی پر آنسو بہاتا رہا۔ مجھے اس بات کا تو افسوس ہے ہی کہ کسی نے بھی مجھے نہ سمجھا لیکن اس سے زیادہ مجھے رونا اپنے اوپر اس لئے آتا ہے کہ میرے معبود! یہ تونے میرا کیسا امتحان لیا ہے کہ جب میرے درد میرے احساس کوئی سمجھنے والا کوئی نہیں، تو پھر تونے مجھے ایسا دل کیوں دیا جو کسی مرجھائے پھول کو دیکھے تو غمگین ہو جائے۔ کسی درخت سے پتوں کو جھڑا دیکھے تو رو پڑے، کسی گھر سے دھواں اٹھتا دیکھے تو دل تھام کر بیٹھ جائے، کسی کبوتر کو تنھا دیکھے تو اسکے ساتھ پرواز کی طلب کرے۔ مالک! یہ تونے مجھے کیسا احساس عطا کیا ہے کہ میں جس منظر کی طرف دیکھتا ہوں، بس چند لمحے ہی مجھے اس میں شادابی نظر آتی ہے، سو چند لمحوں کے لئے خفیف سی معنی خیز مسکراہٹ میرے لبوں پر آ کر چلی جاتی ہے لیکن فورا ہی مجھے ایسا لگتا ہے جیسے وہ منظر آنسو بہا رہا ہو، رو رہا ہو اور مجھ سے کچھ کہنا چاہ رہا ہو۔

میرے لئے کائنات کی کوئی خوشی، خوشی نہیں ہے جبتک اسمیں میرے آنسوؤں کی آمیزش نہ ہو تو میں خوشی کے مفھوم سے نابلد ہوں، مجھے نہیں معلوم لوگ کیوںکر ہنستے ہیں؟ اور کیوںکر قہقہ لگاتے ہیں؟ معبود! جب تونے ایسا ہی دیا ہے تو کاش تونے مجھے آنسو بنایا ہوتا میں لوگوں کی آنکھوں میں چمکتا.....دامن پر گرتا..... اور پھر....... فنا ہو جاتا، لیکن تونے یہ مجھے کون سا احساس دیا ہے مالک! کہ تونے مجھے ایک ایسا انسان بنا دیا کہ جو انسان ہو کر بھی ایک قطرۂ اشک کے برابر نہیں، اور ایک ایسا قطرۂ اشک بھی نہیں، جو فرط غم سے آنکھوں میں جگمگائے اور تھوڑی ہی دیر میں رونے والے کے دامن پر گر کر فنا ہو جائے اور خود کو پرسکون کر لے
میرے لئے تو ہر ایک دن غموں کا نیا سورج طلوع ہوتا ہے، جو درد و الم کی نئی تڑپتی روشنی لیکر افق دل کی کتاب کے تمام صفحات کو شام  سی رنگینی عطا کر کے چلا جاتا ہے۔
اف میرے مالک! میں اتنے غم نہیں سہہ سکتا
معبود! میں اتنے غموں کا بار نہیں اٹھا سکتا
یہی سب سوچتے سوچتے مجھے جانے کب نیند آئی، پتہ ہی نہ چلا جب آنکھ کھلی تو اذان کی آواز کانوں میں آ رہی تھی اللہ اکبر ... میں نے مالک کی کبریائی کا اعتراف کرتے ہوئے خدا کی عظمت و بزرگی کی گواہی دی، آج میں نے  اللہ اکبر کے فقرے کو اپنے وجود کی گہرائیوں میں اترتا ہوا پاہا، میں بستر سے اٹھا وضو کرنے کے لئے آمادہ ہوا کانوںمیں فقرے ٹکرائے اشہد ان محمد رسول اللہ میں نے اللہ کے رسول کی رسالت کی گواہی دی اور اپنے ہاتھوں کو دھویا جیسے ہی میں نے وضو کرتے ہوئے اپنے چہرے پر پانی ڈالا میرے کانوں میں آواز آئی، اشہد ان علیا ولی اللہ میں اس نے فقرہ کو دہرایا لیکن اس فقرے کو دہراتے ہوئے میری سسکیاں بندھ گئیں، میں یکا یک چونکا آج اکیسویں ماہ مبارک ہے، میری نظروں میں مسجد کوفہ کا سماں بندھ گیا، وہ انیس کی شب، وہ علی  کا بے چین ہو کر کبھی حجرے میں کبھی صحن خانہ میں آنا، وہ ام کلثوم کا بابا کو دیکھ کر تڑپنا، وہ مرغابیوں کا علی  کو گھیر کر نوحہ و نالا کرنا، وہ زنجیر در کا ردا سے الجھنا  وہ....۔

مالک! آج شب قدر ہے استغفار کی رات توبہ کی رات گناہوں کے اعترا ف کی رات علی کی مظلومیت پر رونے کی رات میرے ذہن کے پردے پر انیسویں کی دردناک رات کی تصویروں کے ساتھ ہی یہ خیال جیسے ہی آیا میں نے دست دعا بلند کیئے معبود کیا، اس شبھا کے صدقہ میں میری تقدیر بدل سکتی ہے، مالک کیا مجھے غموں سے رہائی مل سکتی ہے؟ ابھی میرے لبوں پر یہ فقرے آئے ہی تھے کہ تاریخ میرے سامنے مجسم ہو گئی اور میری ہر سوچ کا انداز بدل گیا، شب قدر میں کی گئی اس دعا کے بعد جب بھی میں سوچتا ہوں، تاریخ درد و غم مصیبت و الم پر جب نگاہ ڈالتا ہوں تو میرے اوپر سب کچھ واضح ہو جاتا ہے، تمام غم مجھے اپنے لگنے لگتے ہیں۔ اسرار بلاء و مصائب مجھ سے گفتگو کرتے ہیں اور یہ اسوقت ہوتا ہے جب تاریخ کی انگلی تھامے میں ایک غریب، بےکس، فقیر شخص کے پاس پہنچتا ہوں یہ غریب شخص کچھ کھجور کے درخت لگا رہا ہے، جسم پسینے سے شرابور ہے، جب یہ شخص اپنا کام ختم کر لیتا ہے تو بیلچہ اٹھا کر کنارے رکھتا ہے اپنا چہرہ اپنے دامن سے پوچھتا ہے لیکن یہ کیا! جب وہ اپنی پیشانی سے اپنے پسینہ کو صاف کرتا ہے تو  ایک عجیب و غریب دلفریب سی مہک فضا کو معطر کر جاتی ہے اور اسکے پسینہ کے قطروں سے کچھ موتی بن کر زمین پر گرتے ہیں، تاریخ سے پوچھتا ہوں یہ کون ہے تو تاریخ مجھے کچھ نہیں بتاتی لیکن میں تاریخ کی انگلی نہیں چھوڑتا ہوں اسے لیکر آ گے بڑھتا ہوں۔ "پرانا لباس اپنے تن پر کئے ایک شخص خستہ حال گھر میں جاتا ہے وہاں جا کر تنور روشن کرتا ہے اس گھر میں کچھ یتیم بچے ہیں یہ شخص ان کے لئے روٹیاں بناتا ہے اور بچوں کی ماں کو دلاسا دیتا ہے اور ان کے لئے مزید آذوقہ پہنچانے کا وعدہ کر کے چل پڑتا ہے، میں تاریخ سے سوال کرتا ہوں کہ یہ شخص کون ہے؟ لیکن تاریخ مجھے کچھ نہیں بتاتی وہ خاموش نگاہوں سے مجھے بس تکتی  رہتی ہے۔

رات کی تاریکی ہے ایک غریب انسان اپنی پشت پر روٹیوں کی بوری لادے ہوئے دھیرے دھیرے کوفہ کی تاریک اور پتلی پتلی گلیوں میں چل رہا ہے، ٹوٹے ہوئے گھر اور خرابوں میں جاتا ہے اور بھوک سے بلک بلک کر سو جانے والے چھوٹے چھوٹے بچوں کے پاس روٹیاں رکھ کر انہیں محبت آمیز نگاہوں سے دیکھتا ہے، ان کے سروں پر دست شفقت پھیرتا ہے اور اٹھ جاتا ہے میں تاریخ سے پوچھتا ہوں کہ یہ کون ہے؟ لیکن تاریخ یہاں پر بھی اپنے لبوں پر مہر سکوت لگائے خاموش ہے۔ کھانے کا وقت ہے ایک تھکا ہارا انسان پسینے میں شرابور ہو کر گھر پہنچتا ہے بچے اس کے منتظر ہیں کہ بابا کے آنے پر کچھ کھانے کا انتظام ہو سکے لیکن وہ خالی ہاتھ ہے اس کے پاس کچھ بھی نہیں ہے، اس کی نگاہ جب بچوں کے کمہلائے ہوئے چہروں پر پڑتی ہے تو اس کے دل میں ایک ٹھیس سی اٹھتی ہے، کچھ سوچ کر کوئی چیز اپنے ہاتھ میں اٹھاتا ہے اور گھر سے نکل پڑتا ہے اسے گروی رکھتا ہے، کچھ پیسے ہاتھ آتے ہیں جنہیں لے کر بازار کی طرف چل پڑتا ہے کہ بچوں کے لئے کچھ کھانے کا بندوبست کر سکے، راستہ میں ایک فقیر ملتا ہے آپس میں جانے کیا بات ہوتی ہے سارے پیسے اس فقیر کے حوالے کر دیتا ہے اور خود خالی ہاتھ گھر پہنچ جاتا ہے، بچے بابا کا انتظار کرتے کرتے سو چکے ہیں رات کافی ہو چکی ہے اپنی زوجہ سے کچھ دیر گفتگو کرتا ہے اور پھر خود بھی بھوکا سو جاتا ہے، میں تاریخ سے سوال کرتا ہوں یہ کون ہے؟ لیکن تاریخ یہاں پر بھی خاموش ہے۔

رات کا تیسرا پہر ہے مجھے ایک تاریک کنویں سے کسی کے رونے کی آواز آ رہی ہے کوئی بہت ہی کربناک انداز میں گریہ کر رہا ہے، میں تاریخ کی انگلی تھامے کنوئیں کے قریب پہنچتا ہوں ایک غریب شخص نظر آتا ہے جو کنوئیں میں سر ڈالے تاریک کنوئیں سے درد دل کر رہا ہے میں تاریخ سے پوچھتا ہوں کہ یہ کون ہے اور کیوں رو رہا ہے لیکن تاریخ اس بار بھی مجھے کوئی جواب نہیں دیتی۔ رات دھیرے دھیرے اپنی منزل کی طرف گامزن ہے، ایک بیابان اور سنسان صحرا سے کسی کے رونے کی آواز آ رہی ہے آواز میں پیدا ہونے والے ارتعاش سے رونے والے کے درد و اضطراب کو محسوس کیا جاسکتا ہے میں تاریخ کی انگلی تھامے رونے والے شخص کے کچھ اور قریب جاتا ہوں تو یہ فقرات سنتا ہوں ''اللہم انی اسئلک الامان یوم لا ینفع مال و لا بنون۔۔۔ و اسئلک الامان یوم لا یجزی والد عن ولدہ ولا مولود ھو جاز عن والدہ شیئاً، و اسئلک الامان یوم یعرف المجرمون بسیماھم  فیوخذ بالنواصی والاقدام ...و اسئلک الامان یوم یفر المرء من اخیہ و امہ و ابیہ و صاحبتہ و بنیہ ۔۔۔ کلا انھا لظی نزاعة للشوی ... یا مولای انت المولیٰ و انا العبد و ھل یرحم العبد الا المولیٰ''۔ ''مالک تیرے حضور اس دن سے امان چاہتا ہوں جب نہ مال کام آئے گا نہ اولاد اور اس دن سے امان چاہتا ہوں جب نہ باپ کو بیٹے کی جزا دی جائے گی اور نہ بیٹا باپ کی جگہ لے سکے گا .... مالک اس دن سے امان چاہتا ہوں جب مجرموں کو انکے چہروں سے پہچانا جائے گا اور انکی پیشانی کی بالوں کو پکڑ کر انہیں تیرے حضور لایا جائے گا.... مالک اس دن سے امان چاہتا ہوں جب انسان اپنے بھائی ماں باپ زوجہ اور اولاد سے بھاگے گا ... مالک  جب کسی کے لئے کوئی پناہ گاہ نہ ہو گی، جہنم وہ جلانے والی آگ ہے جو کھال کو جلا دے گی..۔۔مالک تو میرا مالک ہے اور میں تیرا بندہ، کیا اپنے غلام پر مالک کے علاوہ اور کوئی رحم کرتا ہے ....''

اب ہچکیوں کے درمیان صرف یا مولای یا مولای کی کی صدا سنی جا سکتی ہے، دھیرے دھیرے یہ آواز آنا بھی بند ہو جاتی ہے، شاید شدت گریہ کے رونے والا بیہوش ہو گیا ہے لیکن کچھ ہی دیر بعد پھر رونے والے کی درد میں ڈوبی آواز پوری فضا کو مغموم کر دیتی ہے... ''یا الٰہی و بحمدک تسمع فیہا صوت عبد مسلم سجن فیہا بمخالفتہ و ذاق طعم عذابہا بمعصیتہ و حبس بین اطباقہا بجرمہ و جریرتہ... ام کیف تؤلمہ النار و ھو یامل فضلک؟ ام کیف یحرقہ لہیبہا و انت تسمع صوتہ و تریٰ مکانہ"۔ ''معبود  میں تیری حمد کرتا ہوں کہ تو اپنے اس بندہ مسلمان کی آہ و زاری کی آواز کو سنے گا جسے تیرے احکامات کی مخالفت کی بنیاد پر دوزخ کے طبقوں میں قید کر دیا گیا ہے اور وہ بلکتے ہوئے تڑپ تڑپ کر تجھے پکار رہا ہے۔۔۔ مالک تو اسے کیسے اسے جلائے گا جبکہ وہ تیری طرف امید لگائے ہوئے ہے، مالک کیونکر آگ اسے جلا سکتی ہے جبکہ تو اسکی آواز کو سن رہا ہے اور اسکی جگہ کو دیکھ رہا ہے؟ ...'' میں یہ فصیح کلام سن کر لرز جاتا ہوں کوئی ان کلمات کا سہارا لے کر بھی مالک کے حضور مناجات کر سکتا ہے، میں تاریخ سے پوچھتا ہوں کہ آخر یہ کون ہے کہ اتنے خوبصورت الفاظ میں اپنے مالک سے درد دل کر رہا ہے؟ لیکن تاریخ خاموش ہے۔ آج رمضان المبارک کی ١٩ویں شب ہے، میں تاریخ کی انگلی تھامے مسجد کوفہ پہنچتا ہوں، انیسویں رمضان کی شب وقت سحر ایک درد سے ڈوبی ہوئی آواز بلند ہوتی ہے، جس سے شہر کوفہ کے در و دیوار دہل جاتے ہیں ''فزت و رب الکعبة'' اور محراب مسجد کسی کے خون ناحق سے رنگین ہو جاتی ہے میں تاریخ سے سوال کرتا ہوں یہ نعرہ کس نے بلند کیا اور یہ کس کے خون سے محراب مسجد کو رنگین کر دیا گیا؟ لیکن تاریخ خاموش ہے۔

رمضان المبارک کی ٢٠ تاریخ ہے، لوگ ایک گھر کے باہر جمع ہیں گھر کے اندر کل وقت سحر زخمی ہونے والا شخص بستر استراحت پر ہے کہ یکا یک شور اٹھتا ہے، ایک مجرم کو جسکے ہاتھ بندھے ہیں، مشکیں کسی ہیں، گھر میں لایا جاتا ہے لوگ دیکھ رہے ہیں کہ اب کیا ہوگا کل جس شخص نے ضربت لگائی تھی اسے پکڑ لیا گیا ہے، اسے زخمی شخص کے پاس لایا جاتا ہے، زخمی شخص کے ہاتھ میں ایک دودھ کا گلاس ہے جو وہ اپنے قاتل کی طرف بڑھا دیتا ہے اور مشکیں ڈھیلی کرنے کا حکم دیتا ہے، اپنے بیٹے سے کہتا ہے کہ اس نے میرے سر پر ایک ہی ضربت لگائی ہے اگر میں زندہ رہا تو ٹھیک ہے میں خود دیکھوں گا مجھے کیا کرنا ہے، اگر دنیا سے رخصت ہو گیا تو تم بھی ایک ہی ضربت لگانا۔۔۔ میں یہ سنتا ہوں تو دل کٹنے لگتا ہے میں تاریخ سے سوال کرتا ہوں، یہ کون ہے جو اپنے دشمن کے ساتھ بھی انصاف چاہتا ہے؟ جو اپنے دشمن کیلئے بھی کاسہ شیر پیش کر رہا ہے لیکن تاریخ یہاں بھی خاموش ہے، رمضان المبارک کی بیسویں تاریخ دھیرے دھیرے گزر رہی ہے، میں تاریخ کی انگلی تھامے اس جگہ پہنچتا ہوں، جہاں اچانک ایک شور اٹھتا ہے لوگ ہراساں و پریشاں ادھر ادھر بھاگ رہے ہیں، کسی طبیب کو لایا گیا ہے لوگ حسرت بھری نگاہوں سے اسے دیکھ رہے ہیں، طبیب ان سے  پرسکون رہنے کی گزارش کرتے ہوئے گھر میں داخل ہوتا ہے، ایک گوسفند ذبح کرکے اسکی سفید رگ لانے کو کہتا ہے، گوسفند ذبح ہوتا ہے سفید رگ لے کر زخمی انسان کے سر کے زخمی حصہ پر رکھتا ہے اور کچھ ہی دیر میں اٹھا لیتا ہے، رک کے ساتھ میں مغز کے ذرات بھی آ جاتے ہیں، اف کتنا دردناک منظر ہے طبیب کی آنکھوں میں مایوسی کی پرچھائیاں ہیں، زخمی شخص سے وصیت کرنے کے لئے کہتا ہے اور ہاتھوں کو دعا کے لئے اٹھا دیتا ہے، ساتھ ہی یہ بھی کہتا ہے کہ زہر کا اثر بہت زیادہ ہو چکا ہے، ایسی حالت میں کافی نقاہت ہو جاتی ہے اسلئے دودھ کا انتظام ہو جائے تو بہت ہے، جیسے ہی یہ خبر باہر نکلتی ہے ننھے ننھے بچے دودھ کے کوزے لئے دوڑ پڑتے ہیں، میں تاریخ سے سوال کرتا ہوں آخر دلوں پر حکومت کرنے والا یہ زخمی شخص کون ہے جسکی تکلیف ان یتیم بچوں سے نہیں دیکھی جاتی، لیکن یہاں بھی تاریخ کوئی جواب نہیں دیتی۔

رمضان المبارک کی اکیس تاریخ ہے، شہر کوفہ ماتم کدہ بنا ہوا ہے، ہر طرف سیاہ کپڑے ہیں لوگ سیاہ کپڑے پہنے ہوئے ہیں، ہر ایک کی آنکھوں میں آنسو ہیں ہر ایک حیران و پریشان اداس نظر آرہا ہے میں تاریخ سے پوچھتا ہوں کہ آخر ماجرا کیا ہے اور کیا ہوا لیکن تاریخ ہمیشہ کی طرح اب بھی خاموش ہے۔ رات کی تاریکی ہے، شہر کوفہ کے ایک بوسیدہ مکان سے ایک جنازہ نکل رہا ہے، جنازہ سے نور ساطع ہو رہا ہے اس تاریک رات میں اگر کوئی چیز روشن ہے تو وہ نور ہے جو جنازہ سے ساطع ہے۔ جنازہ کے پیچھے پیچھے جہاں اور بھی افراد ہیں وہیں کچھ یتیم بچے بھی نظر آ رہے ہیں جن کے ہاتھوں میں دودھ سے بھرے کوزے ہیں اور وہ جنازے کے پیچھے پیچھے دوڑ رہے ہیں، ان کی آنکھوں میں اداسی کے بادل ہیں اشکوں کی رم جھم ہے اور ہونٹوں پر وا علیاہ وا علیاہ کی صدائیں ہیں، اس بار میں تاریخ سے کچھ نہیں پوچھتا ہوں اس لئے کہ مجھے معلوم ہے کہ تاریخ گونگی ہے وہ مجھے کچھ نہیں بتا سکتی بلکہ میں ان یتیم بچوں کی آنکھوں میں دیکھتا ہوں جہاں مجھے نظر آرہا ہے کہ ایک شخص کبھی ان کے سروں پر ہاتھ پھیر رہا ہے تو کبھی باپ بن کر ان کو دلاسہ دے رہا ہے، کبھی ان کے لئے گھوڑا بن رہا ہے اور بچے اس کی پشت پر سوار چہک رہے ہیں، کبھی ان کے لئے تنور روشن کر رہا ہے کبھی انہیں اپنے ہاتھوں سے نوالہ دے رہا ہے کبھی اپنے زانوں پر ان کے سر رکھ کر انہیں سلا رہا ہے ... اب تاریخ کی کڑیاں خود ایک دوسرے سے مل جاتی ہیں، جب تاریخ کی کڑی سے کڑی ملتی ہے تو اب سب کچھ سمجھ میں آ جاتا ہے کہ یہ کون ہے اب مجھے تاریخ سے پوچھنے کی ضرورت نہیں کہ ''فزت و رب الکعبة'' کا نعرہ بلند کرنے والا شخص کون ہے؟ اس لئے کہ یہ عہد ساز تاریخی جملہ تاریخ انسانیت کی مظلوم ترین شخصیت علی بن ابی طالب کے سوا اور کون کہہ سکتا ہے۔؟

اب جبکہ ساری حقیقت میرے سامنے عیاں ہے تو تاریخ میرے سامنے مجرم بنی کھڑی سپاٹ نظروں سے مجھے دیکھ رہی ہے، اس کے ماتھے پر شرمندگی کے پسینے کی بوندیں ہیں، تاریخ شرمندہ ہے ایک ایسے شخص کی حیات کے مختلف گوشوں کو ظاہر نہ کرنے پر جس کے فضائل خود بخود زباں زد خاص و عام ہو گئے۔ کیا آج تک کوئی عطر کی خوشبو اور نکہت کو چھپانے میں کامیاب ہو سکا ہے؟ لیکن میرے لئے اور تاریخ کا مطالعہ کرنے والے ہر دل رکھنے والے حساس انسان کے لئے ایک مسئلہ ابھی تک حل نہیں ہوا ہے اور وہ یہ کہ علی کی حقیقی زندگی اور روزمرہ کی آپکی فعالیت عاشقان علی سے کیوں پوشیدہ ہے؟ اس کے علاوہ میری سمجھ میں یہ بات نہیں آتی کہ علی تاریخ انسانیت کی مظلوم ترین شخصیت کیوں ہے؟ علی پر اتنے مظالم کیوں ہوئے؟ اور پھر علی کی شہادت کے بعد شام میں لوگوں نے شہنائیاں کیوں بجائیں؟ علی کی شہادت کی خبر ملنے پر شامی ایک دوسرے سے تعجب کے عالم میں کیوں پوچھ رہے تھے کہ علی اور مسجد میں؟ ان تمام سوالوں کے علاوہ میرا سب سے بنیادی سوال بھی ابھی تک حل نہیں ہو سکا اور وہ یہ کہ علی کی شخصیت میں وہ کون سا راز پوشیدہ ہے کہ جس نے آپ کی ذات کو ابھی تک لوگوں سے پوشیدہ رکھا ہے؟ یہ تمام سوالات میرے ذہن میں ہیں، جو بےچینی اور الجھن کی کیفیت ایجاد کر رہے ہیں ان کے سامنے میں اپنی زندگی سے ملنے والے اپنے دکھوں کو بھول چکا ہوں اب مجھے اپنی زندگی سے لگے زخموں پر کوئی حرف نہیں اور نہ ہی اپنے درد و الم کا شکوہ ہے اور ہو بھی کیوں؟ جبکہ میرے کانوں میں بار بار کوئیں میں سر ڈالے علی کے رونے کی آواز کے ساتھ ساتھ یہ صدا آ رہی ہے کہ کاش کوئی مجھے سمجھتا؟...
خبر کا کوڈ : 729758
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش