0
Friday 8 Jun 2018 01:06

یوم القدس۔۔۔ قدس شريف کا عالمی دن

یوم القدس۔۔۔ قدس شريف کا عالمی دن
تحریر: ڈاکٹر سید شفقت حسین شیرازی

ہر سال ماہ مبارک رمضان کے آخری جمعہ کو یہ دن سرزمین مقدس فلسطین اور قدس شریف پر صہیونیوں کے ناجائز قبضے کی یاد میں منایا جاتا ہے. اس دن بے بس و بے سہارا فلسطینیوں پر ڈھائے جانے والے اسرائیلی مظالم کے خلاف دنیا بھر میں تمام حریت پسند بالخصوص مسلمان اور فلسطینی مہاجرین مظاہرے کرکے اور ریلیاں نکال کر دنیا بھر کے انسانوں کے ضمیر کو جگانے کی کوشش کرتے ہیں۔ متعدد مقامات پر  کانفرنسوں نیز اسرائیلی مظالم اور فلسطینیوں کی مظلومیت کی تصویری نمائش کا بھی اہتمام کیا جاتا ہے۔ یاد رہے کہ 1948ء سے پہلے دنیا کے نقشے پر اسرائیل نامی کوئی ریاست نہیں تھی. صدیوں سے فلسطین میں فلسطینی آباد تھے، ان میں اکثریت مسلمانوں کی تھی۔ اسکے بعد اکثریت کے لحاظ سے دوسری آبادی عیسائیوں کی تھی اور جبکہ یہودی اقلیت بھی آباد تھی۔ یہ ملک بھی تقریباً چار سو سال خلافت عثمانیہ کے زیر اثر رہا۔ پہلی عالمی جنگ کے بعد اس سرزمین پر برطانوی استعمار نے قبضہ جما لیا۔ مسلمانوں نے آزادی کی تحریکیں چلائیں اور اسی اثناء میں ایک پرانی صہیونی سازش، جس میں امریکہ اور یورپی ممالک سب یہودیوں کے ساتھ اس جرم میں شریک تھے، اسے عملی جامہ پہنانے کے لئے تیزی سے اقدامات کئے گئے۔ مسلمانوں اور عیسائیوں کی زمینوں پر مختلف حیلوں بہانوں سے یہودیوں کے قبضے کروائے گئے. مقامی باشندوں پر ظلم و تشدد اور انہیں ہجرت پر مجبور کیا گیا۔ یہودیوں کے فلسطینیوں پر ظلم، لوٹ مار اور عزتوں پر حملوں کے سبب پہلے ملک کے اندر ہجرت ہوئی اور پھر ہمسایہ ممالک میں ہجرت پر انہیں مجبور کیا گیا اور انکی جگہ دنیا کے مختلف ممالک میں آباد یہودیوں کو مراعات دے کر لایا گیا اور سرزمین فلسطین پر آباد کیا گیا۔ 1948ء کو برطانیہ کے انخلاء کے چند منٹ بعد ہی طے شدہ منصوبہ کے مطابق سرزمین فلسطین پر صہیونی ریاست اسرائیل کے قیام کا اعلان کر دیا گیا، جسے چند منٹوں بعد ہی امریکہ نے سب سے پہلے تسلیم کرنے کا اعلان کر دیا۔

*سرزمین فلسطین اور قدس کی اہمیت*
سرزمین مقدس فلسطین سب مسلمانوں کے لئے ایک مقدس سرزمین ہے، جس میں ہزاروں انبیاء کرام علیہم السلام کے مزارات ہیں۔ حدیث شریف میں آیا ہے کہ "بیت المقدس کی تعمیر انبیاء علیہم السلام نے اپنے ہاتھوں سے کی اور کوئی چپہ زمین کا ایسا نہیں، جہاں انہوں نے نمازیں نہ پڑھی ہوں اور عبادت نہ کی ہو۔"
* بیت المقدس مسلمانوں کا پہلا قبلہ ہے، جس کی طرف رسولِ کریم صلی الله عليه وآلہ وسلم اور انکے صحابہ نے نمازیں پڑھیں۔ اسکے بعد اللہ نے کعبہ شریف کی طرف رخ کرکے نمازیں پڑھنے اور اسے قبلہ قرار دینے کا حکم دیا۔
* حدیث شریف میں آیا ہے کہ معراج کی رات انبیاء کرام نے ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امامت میں اسی مسجد اقصٰی میں نماز پڑھی تھی۔ اب آیئے یوم القدس منانے کے مقصد پر کچھ بات کرتے ہیں۔

*یوم القدس منانے کا مقصد*
1۔ بین الاقوامی سطح پر فلسطینی عوام کے قانونی حقوق کا مطالبہ کیا جائے، جو مسلسل 70 سال سے ظلم و ستم کا نشانہ بن رہے ہیں۔
2۔ ان در بدر ٹھوکریں کھانے والوں کے حقوق کا مطالبہ کیا جائے، جنھیں مجبوراً جان بچا کر ہجرت کرنا پڑی اور آج بھی انکے گھروں کی چابیاں انکے پاس ہیں اور وہ واپس جانا چاہتے ہیں، لیکن انکے گھر لوٹ کھسوٹ کا شکار ہوکر تباہ ہوچکے ہیں اور جب یہ نہتے واپس اپنے گھروں کا رخ کرتے ہیں، سامنے سے آنسو گیس کے شیل، زہریلی گیسسز اور سیدھی گولیاں چلائی جاتی ہیں۔
3۔ یہ دن اس لئے منایا جاتا ہے اور جلوس نکالے جاتے ہیں، تاکہ فلسطینی مسلمانوں کو باور کرایا جائے کہ مسلم عوام آپکے ساتھ ہیں۔
4۔ یہ مظاہرے اس لئے کئے جاتے ہیں، تاکہ فلسطین نامی مسلمانوں کی مملکت کا نام دنیا کے نقشے سے مٹا نہ دیا جائے، کیونکہ کل وہ مسلمان جو زبانی کلامی ہی سہی انٹرنیشل فورمز پر فلسطین کی حمایت کرتے تھے، آج امریکی سازش کا حصہ بن کر فلسطین پر غاصب صہیونی ریاست سے سفارتی تعلقات اور اقتصادی تعاون کی باتیں کر رہے ہیں۔ امریکہ نے شہر قدس شریف میں اپنا سفارت خانہ منتقل کرکے اسے اسرائیل کا دارالحکومت قرار دینے کا اعلان کر دیا ہے۔
5۔ یوم القدس کے دن مسلسل کئی دہائیوں سے محاصرے میں زندگی بسر کرنے والے غزہ کے مسلمانوں اور 70 سال سے کیمپوں کی زندگیاں گزارنے والوں کو حق دلوانے کے کیس کی حمایت کی جاتی ہے۔

آیئے اب یہ جانتے ہیں کہ یوم القدس منانے کا آغاز کب سے ہوا!؟
*یوم القدس کا آغاز*
جب فلسطین پر قبضہ ہوا اور صہیونی ریاست کی بنیاد رکھی گئی تو  پورے جہان اسلام میں ایک شور اٹھا، عرب اور مسلمان حکومتیں حرکت میں آئیں، مسلمانوں نے اسرائیل کے خلاف پچاس، ساٹھ اور ستر کی دہائیوں میں ملکر تین جنگیں لڑیں، لیکن اسرائیل کو امریکہ اور یورپ کی پشت پناہی حاصل تھی، چنانچہ جنگوں کے نتیجے میں فلسطین کے ہمسایہ ممالک کے کچھ علاقوں پر بھی اسرائیل نے قبضہ کر لیا۔ مسلمانوں نے امت مسلمہ کو متحد کرنے کے لئے او آئی سی اسلامی ممالک کے تعاون کی تنظیم کی بنیاد رکھی، جس میں  فلسطین اور قدس ہر اجلاس کے ایجنڈے میں ایک محوری حیثیت رکھتا تھا۔ اچانک مصر کے صدر انور سادات نے ستر کی دہائی میں عرب اور مسلمانوں کی متحدہ جدوجہد چھوڑ کر اسرائیل کو قبول کر لیا اور اسکے ساتھ معاہدے پر دستخط کئے، جس سے فلسطینی کاز کو بہت دھچکا لگا۔

چند سال بعد جب ایران میں انقلاب اسلامی حضرت امام خمینی کی رھبری میں کامیاب ہوا تو انہوں نے فلسطین اور قدس کی اہمیت کے پیش نظر اگست 1979ء میں آنے والے ماہ رمضان مبارک کے آخری جمعہ کو یوم القدس کے طور پر دنیا بھر میں منانے کا اعلان کر دیا اور ساتھ ہی تہران کے اسرائیلی سفارت خانے کو فلسطینیوں کے حوالے کیا اور اس پر فلسطین کا پرچم لہرا دیا گیا۔ امام خمینی (رہ) کے اس جرتمندانہ اقدام اور فرمان سے فلسطین اور قدس شریف کاز کو بہت تقویت ملی اور آج دنیا بھر کے مسلمان اس دن کو بھرپور انداز سے مناتے ہیں۔ انقلاب اسلامی کی کامیابی کے بعد فلسطینی آزادی کی تحریک کو ایک مضبوط سہارا ملا۔ عرب حکمران انور سادات کے بعد پس پردہ فلسطین اور قدس کو بیچ کر اسرائیل سے تعلقات بنانے لگے، لیکن دوسری طرف انقلاب اسلامی ایران کے بعد فلسطین میں عوامی مقاومت کو تقویت ملی اور پھر آہستہ آہستہ پورے خطے میں اسرائیلی ظلم و تجاوزات و ناجائز قبضوں اور امت مسلمہ کے خلاف معاندانہ رویے کا مقابلہ کرنے کے لئے مقاومت کا بلاک وجود میں آیا۔ اس کے نتیجے میں وہ اسرائیل جو فرات سے نیل تک قبضہ کرنے کا اعلان کرچکا تھا، آج مقاومت کے خوف سے اپنے شہروں کے گرد دیواریں کھڑی کر رہا ہے۔ یوم القدس کی برکت سے فلسطینی کاز پر پوری دنیا کے مسلمان متحد ہو کر مظلوم فلسطینیوں سے اظہار یکجہتی کرتے   ہیں۔ يوم القدس وحدت امت اسلامی کا شاندار مظہر بن چکا ہے۔
خبر کا کوڈ : 730287
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش