0
Friday 8 Jun 2018 02:40

يوم القدس، اسرائيل کی نابودی کا دن ہے

يوم القدس، اسرائيل کی نابودی کا دن ہے
تحریر: محمد حسن جمالی

چالیس سال سے رہبر کبیر انقلاب حضرت امام خمینی (رح) کے فرمان پر لبیک کہتے ہوئے مسلمانان جہان ماہ رمضان کے آخری جمعے کو یوم قدس مناتے آ رہے ہیں یعنی اس دن غاصب اسرائیل کے خلاف اور ملت مظلوم فلسطین کی حمایت میں مسلمانان جہان میدان میں نکل کر تظاہرات کرتے ہیں، بر علیہ اسرائیل شعار بلند کرتے ہیں اور مختلف اجتماعات میں مقررین اپنے اجتماع میں شریک مسلمانوں کی نمائندگی کرتے ہوئے ملت مظلوم فلسطین اور اسرائیل دونوں کو الگ الگ پیغامات دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ فلسطینی مسلمانوں کو اظہار ہمدردی کا پیغام دیتے ہیں۔ ان سے کہتے ہیں کہ اے ملت فلسطین کے مسلمان بھائیو بہنو ہم آپ سے غافل نہیں ہیں،  آپ پر ہونے والے ظلم و ستم کو دیکھ کر ہم اشکبار رہتے ہیں، ہمارے سینوں میں آپ کی محبت موجزن رہتی ہے، ہمیں آپ کے دکھ درد کا بڑا احساس ہے، آپ خود کو تنہا ہرگز محسوس نہ کریں، ہم آپ کے ساتھ ہیں اور ساتھ رہیں گے، ہم ہر وقت آپ کے دفاع میں آواز اٹھاتے رہیں گے، ہم آپ کی استقامت کو سلام کرتے ہیں، آپ یقینا غاصب اسرائیل کے نابکار درندوں کے مقابلے میں پامردی اور استقامت کا مظاہرہ کر رہے ہیں اور اسرائیلی فوج کی توپوں اور گولیوں کا مقابلہ پتھر سے کر رہے ہیں، آپ کی دلیری شجاعت اور استقامت بہت جلد رنگ لائے گی، آپ کو غاصب اسرائیل پر فتح ملنے کا وقت نزدیک ہو چکا ہے، عنقریب آپ قدس شہر میں فتح اور جشن کے شادیانے بجائیں گے، ہم آپ سے یہ عہد کرتے ہیں کہ جب تک ہمارے جسم میں جان باقی ہے ہم آپ کی دادرسی کرتے رہیں گے اور آپ کو تنہا نہیں چھوڑیں گے۔

دوسری طرف سے غاصب اسرائیل کو یہ پیغام دیتے ہیں کہ اے غاصب ظالم اسرائیل تم کب تک ملت فلسطین پر ظلم کے پہاڑ گراتے رہو گے، ستر سال سے ملت فلسطین تمہاری بربریت کا شکار ہے، اس عرصے میں تمہاری فوج کے ہاتھوں ملت مظلوم فلسطین کے سینکڑوں افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں اور بےشمار جوان زندگی کے عین بہار میں داعی اجل کو لبیک کہنے پر مجبور ہو چکے ہیں، تم نے فلسطین کی سرزمین پر بے گناہوں کا خون بہت بہا چکا ہے، لاتعداد انسانوں کو اپنی وحشت و درندگی کا نشانہ بنا چکا ہے، لیکن ياد رکھو کہ ظلم جب حد سے بڑھ جاتا ہے تو ظالم مٹ جاتا ہے، ستم کرنے والے نیست و نابود ہو جاتے ہیں اور اے غاصب اسرائیل تمہاری نابودی کا وقت آ پہنچا ہے، اگر تمہاری پشت پناہی کے لئے شیطان بزرگ امریکہ اور اس کا زرخرید غلام سعودی عرب ہے تو ملت فلسطین کے مسلمانوں کی مدد کے لئے ہم سب حاضر ہیں، اے غاصب اسرائیل؛ یہ بھی یاد رکھو کہ ہم قبلہ اول کو تمہارے قبضے سے آزاد کرا کے ہی دم لیں گے، ہم تمہارے وجود کو ہی نجس و ناجائز سمجھتے ہیں تو یہ کیسے ممکن ہے کہ ہم مسئلہ قدس پر خاموش رہیں، ہم قدس کی آزادی کے لئے آواز بلند کرتے رہیں اور پوری دنیا میں تم اور تمہارے ہمفکر ظالموں و جابروں کے بھیانک چہرے عیاں کرتے رہیں گے ان شاءاللہ....

يوم قدس کی اہمیت اور عظمت کو سمجھنے کا منبع اور سرچشمہ امام راحیل (رح) کے فرامین و إرشادات ہیں۔ اس سلسلے میں حکمتوں سے بھرپور امام خمینی (رح) کے بہت سے اقوال ہمیں پڑھنے کو ملتے ہیں، یوم القدس کو آپ کی بصیرت اور دور اندیشی سے ہی وجود ملا یعنی امام خمینی نے ہی رمضان کے آخری جمعے کو قدس شریف کی آزادی اور ملت فلسطین کے مظلوم مسلمانوں کے حق اور حمایت میں مسلمانان جہان کو میدان میں نکل کر آواز بلند کرنیکا امر فرمایا اور آپ نے ہی منابع اصیل اسلام سے اس کی شرعی سیاسی اور قانونی حیثیت متعین کرکے اسے مسلمانوں کا ایک بڑا وظیفہ قرار دیا، فرمایا "یوم القدس يوم اللہ ہے"، امام خمینی (رح) کے نزدیک قدس کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ جب اسلامی انقلاب کامیابی سے ہمکنار ہوا، امریکہ و إسرائيل کے پٹھو رضا شاہ کی حکومت زمین بوس ہوئی تو امام خمینی نے ایران سے اسرائیلی سفارتخانے کے اوپر سے اسرائیل کا جھنڈا اتروا کر اسے فلسطینی سفارتخانہ قرار دیتے ہوئے اس کے اوپر فلسطینی جھنڈا نصب کرنے کا حکم دیا، یوں رہبر کبیر انقلاب نے دنیا والوں کے سامنے عملی طور پر قبلہ اول کی اہمیت و عظمت نمایاں کرنے میں کردار ادا کیا ہے اور اپنی حیات مبارکہ کے آخری لمحات تک آپ قدس شریف کی آزادی اور فلسطینی مسلمانوں کے بارے میں فکرمند رہے، ہماری ذمہ داری بنتی ہے کہ ہم جس راہ پر چلنے کا امام خمینی (رح) نے حکم دیا ہے اس راہ پر چلیں اور ہر حال میں یوم القدس کی حفاظت کریں اور نسل کو یوم القدس کی اہمیت سمجھائیں -

 سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہر سال فقط يوم القدس کی ریلی میں شرکت کرنا ہی کافی ہے یا ضروری ہے کہ مسلمان سال بھر اس اہم مسئلے سے غافل نہ رہیں اور آزادی قدس کے لئے اپنے اپنے حصے کی ذمہ داری انجام دیتے رہیں؟ اسی طرح یہ سوال بھی ہمارے ذہنوں میں ابھرتا ہے کہ مسئلہ فلسطین سمیت مسئلہ کشمیر کے بارے میں ہماری انفرادی اور اجتماعی ذمہ داری کیا ہے؟ ان سوالوں کے جوابات کماحقہ سمجھنے کے لئے یوم القدس کی ریلی میں عوام کی شرکت کے اسباب و عوامل پر غور کرنا ضروری ہے۔ توجہ رہے اس کے مختلف دلائل ہیں یہاں اختصار کے پیش نظر فقط ان چار دلیلوں کی طرف مختصر اشارہ کروں گا، جنہیں تہران کے امام جمعہ، مایہ ناز خطیب آیت اللہ احمد خاتمی نے جمعے کے خطبے میں بیان کئے، انہوں نے قدس کی ریلی میں عوام کی شرکت کی پہلی دلیل کے طور پر بیان کیا کہ یوم القدس کی ریلی ظلم اور ظالم قوتوں کے خلاف جدوجہد ہے۔ دوسری دلیل یہ ہے کہ امت مسلمہ ایک امت ہے۔ مسلمانوں کی سرزمینوں میں سے ایک سرزمین 67 سال قبل ظلم اور جارحیت کا نشانہ بنی اور وہاں کے باسیوں کو نکال باہر کر دیا گیا۔ ہم ایک امت واحدہ ہونے کے ناطے اس ظلم سے چشم پوشی اختیار نہیں کر سکتے۔ فلسطین ایک بین الاقوامی اسلامی ایشو ہے، ہم اجازت نہیں دیں گے کہ مسئلہ فلسطین صرف عرب مسئلے تک محدود کر دیا جائے۔

تیسری دلیل قرآن کریم کی رو سے استکبار سے نفرت پر مبنی ہے۔ استکبار سے نفرت نہ صرف ہمارے دین میں شامل ہے بلکہ تمام الٰہی ادیان میں اس پر تاکید کی گئی ہے۔ لہٰذا تمام انبیاء الٰہی نے خدا کی بندگی پر زور دینے کے ساتھ ساتھ طاغوت کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے پر بھی تاکید کی ہے۔ امام خمینی (رح) اور امام خامنہ ای کے بقول امریکہ طاغوت اعظم ہے اور اسرائیل کی غاصب صیہونی رژیم اس کی ناجائز اولاد ہے۔ لہٰذا "مردہ باد اسرائیل" درحقیقت وہی "مردہ باد امریکہ" ہے۔چوتھی دلیل "بغض فی اللہ" ہے یعنی ہر باایمان شخص کو چاہئے کہ وہ خدا کی راہ میں دشمنان خدا سے بیزاری اور نفرت کا اظہار کرے۔ پانچویں دلیل ولی فقیہہ کی بیعت ہے۔ یوم القدس کے بانی امام خمینی رح تھے اور امام خامنہ ای نے بھی اس کی اہمیت پر بہت زیادہ تاکید کی ہے لہذا امت مسلمہ ولی فقیہہ کی اطاعت کے طور پر یوم القدس کے جلوسوں میں شرکت کو اپنا دینی فرض سمجھتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ یوم القدس درحقیقت "امر جامع" کا مصداق ہے۔ امر جامع ایسا امر ہے جس میں تمام مسلمانوں کی شرکت ضروری ہے۔(1)

ہماری جو اہم اجتماعی ذمہ داریاں بنتی ہیں وہ یہ ہیں کہ:
1۔ مسئلہ فلسطین و قدس کی آزادی کے لئے پائیدار اتحاد کے ساتھ آواز بلند کریں، مسلمان اپنی صفوں میں اتحاد کو یقینی بنائیں، مختلف تنظیمیں اور مکاتب فکر آپس میں سرجوڑ کر قدس کی آزادی کے بارے میں لائحہ عمل طے کریں اور مختلف ممالک میں موجود دیگر تنظیمیں ایک دوسرے کے ساتھ مکمل رابطے میں رہیں، ایک دوسرے کے بارے میں تعمیری سوچ رکھیں، اپنا مسلک بےشک نہ چھوڑیں مگر دوسروں کا مسلک لازم ہے کہ نہ چھیڑیں اور مسئلہ فلسطین کو کسی مسلک سے جوڑنے کے بجائے تمام مسلمانوں کا مشترکہ مسئلہ ہونے پر یقین رکھیں، نیز جس طرح ایران امام خمینی کی برسی پر مختلف ممالک سے مختلف فکر کے لوگوں کو بلاتا ہے اور عالمی اسلامی برادری کیلئے وحدت کا ایک عملی نمونہ لوگوں کے سامنے پیش کرتا ہے یہاں تک کہ مدعوین کو باقاعدہ سرکاری پروٹوکول دیا جاتا ہے اور سرکاری مہمانوں کی طرح ان کی خاطر و مدارت کی جاتی ہے، جس کا مدعوین بہت اچھا تاثر لے کر جاتے ہیں۔ اسی طرح فلسطین اور کشمیر کے مسئلے پر تمام اسلامی ممالک باقاعدہ منصوبہ بندی کریں، ہر وہ تعمیری طریقہ اپنائیں جس سے قدس کی آزادی کو نشوونما ملتی ہو اور ہر وہ تخریبی طریقہ رد کر دیا جائے، جس سے مسئلہ قدس کے بارے میں منفی خیالات پیدا ہونے کا خطرہ ہو۔

2۔ تمام اسلامی ممالک ملکر اپنا ایک اقوام متحدہ بنا لیں کیونکہ موجودہ اقوام متحدہ تو صرف امریکہ کی لونڈی ہے یہ جس مقصد کے لئے بنا تھا اس سے وہ مقصد پورا نہیں ہو رہا، مختلف ممالک کے بارے میں اس کے انصاف کا معیار ایک نہیں رہا، خصوصا اسلامی ممالک علی الاخص مسئلہ فلسطین و قدس کے حوالے سے اس کا رویہ معاندانہ ہے، مسلمان ممالک اسلامی کانفرنس کے زیر سایہ ایک متفقہ لائحہ بنائیں جس کے مطابق ہر ملک سے نمائندے اکٹھے ہو کر مسئلہ قدس پر کام کریں، اس کی حیثیت ایک تحقیقی ادارے کی ہو جو مسلسل اس موضوع پر جرائد اور کتابیں لکھے اور اخبارات یعنی پرنٹ میڈیا اور ریڈیو و ٹیلیویژن اور انٹرنیٹ یعنی الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے نشر و اشاعت کا سلسلہ کرے۔

3۔ مسئلہ فلسطین و قدس کی آزادی کے لئے نیز اتحاد مسلمين کے لئے اسلامی ممالک ملکر ایک سیٹلائٹ تیار کریں جو ایک طرف سے اسلامی ممالک کے درمیان ایک موثر رابطے کا ذریعہ بنے اور دوسری طرف مغرب کے منفی پروپیگنڈا کے موثر جواب دینے کے اہتمام کا ایک ذریعہ ثابت ہو اسلام کے خلاف مغرب کے بڑھتے ہوئے تہزیبی اور ثقافتی یلغار اور ہتھکنڈوں کا مکمل جائزہ لے کر اس پر دستاویزی پروگرامات نشر کرے تاکہ مغرب کو مسلمانوں کے درمیان فرقہ بندی اور اختلافات پیدا کرنے کا موقع نہ ملے اور مغربی میڈیا کے ثقافتی یلغار کا منہ توڑ جواب دیا جا سکے۔ (2)
 
5۔ وہ لوگ جو مسئلہ فلسطین و قدس کی اہمیت کو کم رنگ کرتے ہیں یا انہیں ایک خاص مسلک سے مختص مسائل ثابت کرنے میں فعال ہیں ان کی حوصلہ شکنی کرنے کے لئے باقاعدہ منصوبہ بندی کریں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یوم القدس غاصب اسرائیل کی نابودی کا دن ہے۔
.............................................
حوالہ جات
1۔ http://urdu.shiitenews.org/index.php?option=com_k2&view=item&id=41773:2016-07-02-07-45-18&Itemid=230
2۔ موجودہ صدی میں مسلمانوں کے اتحاد میں امام خمینی کا کردار۔ مقالہ نگار: امان اللہ شادیزئی
خبر کا کوڈ : 730289
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش