0
Saturday 9 Jun 2018 05:37

یوم القدس اور خاموش انقلاب

یوم القدس اور خاموش انقلاب
تحریر: لیاقت تمنائی

قائد انقلاب اسلامی امام خمینی نے جب رمضان کے آخری جمعہ کو یوم القدس کے طور پر منانے کا اعلان کیا تو اس کے اثرات کا اندازہ صیہونی ریاست کو بخوبی تھا، اسی لئے صدام کے ذریعے امریکہ، صیہونی اور عرب ممالک کی جانب سے زبردستی ٹھونسی گئی جنگ کے ذریعے جہاں اسلامی انقلاب کا جغرافیہ محدود کرنے کی بھرپور سازشیں کیں، وہاں انقلاب کے اثرات کو ایرانی سرحدوں کے اندر قید کرنے کی بھی کوشش کی گئی۔ یہی وجہ تھی کہ اسلامی انقلاب کی کامیابی کے فوری بعد ایران سمیت دیگر اسلامی ممالک میں انقلاب مخالف تنظیموں، ٹی وی اور ریڈیو چینلوں کا قیام عمل میں لایا گیا اور ان کی سرکاری طور پر سرپرستی کی گئی، ان تنظیموں کا کام ہی انقلاب مخالف پراپیگنڈے کے ذریعے فرقہ وارانہ بنیادوں پر لوگوں کو تقسیم کرنا تھا (یہ سلسلہ محدود پیمانے پر اس وقت بھی جاری ہے)۔

صیہونیوں کی ایک سازش جو جنگ کی شکل میں تھی، دوسری سازش دیگر مسلم ممالک میں شیعہ سنی تفریق پیدا کرنے اور ایرانی انقلاب کو صرف شیعوں کا انقلاب ثابت کرنے اور اس انقلاب کے آفٹرشاکس سے عرب ممالک کو ڈرانے کی شکل میں تھی۔ اسلامی انقلاب سے سب سے زیادہ فلسطین کے مظلومین کو حوصلہ ملا اور ایک نئی امید پیدا ہوئی، کیونکہ امام خمینی نے استکبار کے مقابل تمام حریت پسندوں کو ایک نیا جوش و ولولہ فراہم کیا۔ صیہونی اشرافیہ نے اس بات کو محسوس کیا، جب یوم القدس کا اعلان کیا گیا تو صیہونی لابی کی بھرپور کوشش رہی کہ اس یوم کو کسی خاص مکتب کا لیبل چڑھا کر مسلمانوں کے دیگر مسالک سے دور رکھا جائے، تاکہ یوم القدس کسی خاص مکتب اور سرحد تک محدود ہو کر رہے۔ پاکستان میں کم از کم دو عشرے تک یہی صورتحال رہی۔ یہ صورتحال دیگر ممالک میں بھی تھی، لیکن یہ سلسلہ زیادہ دیر تک نہیں چلا۔ یوم القدس کو ایک مسلک سے منسوب کرنے کی تمام تر کوششیں رائیگاں گئیں، آج یہ دن کسی خاص فرقے یا گروہ کا نہیں ہے، یہ عالم اسلام کا مشترکہ دن ہے۔

ہم دیکھتے ہیں کہ کل ہی پورے عالم اسلام نے یوم القدس پورے جوش و جذبے کے ساتھ منایا، ماضی کے مقابلے میں اس وقت یوم القدس کی الگ شناخت واضح ہوکر سامنے آرہی ہے۔ پاکستان کی مثال ہی لیجئے، کل ہی منائے جانے والے یوم القدس میں تمام مذاہب کے لوگوں نے شرکت کی، ملی یکجہتی کونسل (جس میں تمام مسالک کی نمائندگی ہے) کے زیر اہتمام کئی شہروں میں القدس ریلیاں نکالی گئیں۔ دوسری طرف جماعت اسلامی نے بھی جمعۃ الوداع کو باقاعدہ یوم القدس کے طور پر ہی منایا، اس طرح پہلی مرتبہ جماعت اسلامی نے اپنے ایجنڈے میں یوم القدس کو شامل کر لیا ہے۔ جماعت اسلامی نے لاہور سمیت کئی شہروں میں القدس ریلیاں نکالیں، یہی صورتحال دوسرے ممالک میں بھی ہوگی، نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ یوم القدس عالمگیر تحریک بن کر سامنے آرہا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ لوگوں کو امام خمینی بت شکن کے ایک عظیم فیصلے کی اہمیت کا اندازہ ہونے لگا ہے، کیونکہ وقت کا بھی تقاضا ہے کہ پورے عالم اسلام یک زباں ہو اور مشترکہ تحریک کا آغاز کیا جائے، یوم القدس اس تحریک کا بنیادی پلیٹ فارم ہے۔

یوم القدس کے دو اہم اثرات سامنے آرہے ہیں:
1۔ ناجائز ریاست کے بارے میں نئی نسل میں شعور پیدا ہو رہا ہے اور اس طرح نئی نسل مستقبل کی کسی بھی تحریک کیلئے بھرپور آمادہ ہوگی، صیہونی اشرافیہ کی جانب سے انتھک کوشش کی جا رہی ہے کہ مسلم دنیا اسرائیل کی متنازعہ حیثیت کو بھول جائے اور دیگر ممالک کی طرح بین الاقوامی سفارتی اصولوں کے مطابق رابطے استور کئے جائیں۔ دو ریاستی نظریئے کے ذریعے کوشش کی گئی کہ فلسطینیوں کو ایک مدت تک کیلئے خاموش کرایا جاسکے۔ لیکن یوم القدس کی عالمگیر تحریک نے صیہونیوں کے اس خواب کو چکنا چور کر دیا ہے، یوم القدس کے ذریعے ہر سال صیہونیوں کے مظالم کو بے نقاب کیا جاتا ہے اور صیہونیت کا اصل چہرہ دنیا کے سامنے عیاں ہو جاتا ہے۔ یوم القدس صیہونی مظالم کو چھپنے نہیں دے گا۔

2۔ اب چونکہ یہ پورے عالم اسلام کی مشترکہ تحریک بنتی جا رہی ہے تو مستقبل میں یہ عالمگیر تحریک بھی بن سکتی ہے، کیونکہ خود یہودیوں کی بہت بڑی تعداد بھی ناجائز صیہونی ریاست کے خلاف ہے اور وہ اس ناجائز ریاست کے خاتمے کے حق میں ہیں، افریقہ اور یورپ میں لوگوں کی اکثریت صیہونی ریاست سے نفرت کرتی ہے اور کئی دانشور اور سیاسی لیڈر کھل کر اسرائیل پر تنقید کرتے ہیں۔ یوم القدس کی عالمگیر تحریک میں ایسے صیہونی مخالف مغربی عناصر کو ایک بہترین پلیٹ فارم مہیا کرتی ہے۔ وہ وقت دور نہیں جب امریکہ اور یورپ میں یوم القدس کی ریلیاں نکلیں گی، کیونکہ اسرائیل کیلئے ہر دور میں ٹرمپ نہیں ملتا۔ گویا یوم القدس نے صیہونیت کیخلاف ایک خاموش انقلاب کو جنم دیا ہے اور یہ سلسلہ ابھی جاری ہے۔
خبر کا کوڈ : 730443
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش