2
0
Saturday 9 Jun 2018 11:28

اٹھو کہ دشمن بہت قریب پہنچ چکا ہے

اٹھو کہ دشمن بہت قریب پہنچ چکا ہے
تحریر: ڈاکٹر سید شفقت شیرازی

عقلمند آدمی کبھی دشمن سے غافل نہیں رہتا، کوئی مانے یا نہ مانے جہان اسلام اس وقت دشمنوں میں گھرا ہوا ہے، امریکہ اور اسرائیل پورے جہانِ اسلام کے دشمن ہیں۔ البتہ پاکستان کا امریکہ و اسرائیل کے ساتھ ساتھ ہندوستان کے ساتھ بھی ٹکراو ہے، یعنی پاکستان کو بھارت جیسے ایک اضافی دشمن کا بھی سامنا ہے۔ اس وقت مصر، شام، اردن، عراق، ایران، ترکی اور پاکستان کی افواج ان دشمنوں کا مشترکہ ہدف ہیں۔ اب  مصر اور اردن کی فوجیں امریکہ کی غلامی میں جا چکی ہیں۔ ترکی کی فوج کی گردن بھی امریکہ نے معاہدے کے تحت سول ڈکٹیٹر شپ کے ہاتھ میں دے دی ہے اور عراق کی فوج کو امریکہ تحلیل کرچکا ہے۔ اب اس وقت پاکستان کو اکیلے تین مکار دشمنوں کا مقابلہ کرنا پڑ رہا ہے۔ مسٹر ٹرامپ کھل کر انڈیا اور اسرائیل کے ساتھ کھڑا ہے اور پھر پاکستان کو دھمکیاں بھی دے رہا ہے، پاکستان کے اندر اپنے مہروں کو بھی پاک فوج کے خلاف استعمال کر رہا ہے۔ ہمیں بحیثیت قوم اس حقیقت کو سمجھنا چاہیے کہ اگر ماضی میں ہماری آرمی سے کچھ غلطیاں ہوئی بھی ہیں یا اس وقت بھی کچھ لوگ فوج سے ناراض ہیں تو یہ وقت ہمارا پاک فوج کے ساتھ درگیر ہونے اور انتقام لینے کا نہیں ہے۔ ہمیں وقت کی نزاکت کا احساس کرتے ہوئے ملکی سلامتی اور وطن کے دفاع کے لئے اپنی آرمی کے ساتھ مکمل تعاون کرنا چاہیے۔

2013ء سے اب تک میں متعدد کالمز میں اس خطرے کی طرف متوجہ کرتا رہا ہوں کہ جہان اسلام کی مسلح افواج دشمن کے نشانے پر ہیں۔ تقریباً 100 سال پہلے سلطنت عثمانیہ کے خاتمے کے بعد جہان اسلام کی سابقہ سرحدیں اور ممالک کی تقسیم برطانیہ نے کی تھی، کیونکہ اس زمانے میں وہ سپر پاور تھا۔ پھر جب امریکہ سپر پاور بنا تو اس نے نئے مشرق وسطیٰ کا پلان بنایا۔ جب 9/11 کے بعد امریکہ اس خطے میں وارد ہوا تو اس کا ہدف جہان اسلام کو ٹکڑے ٹکڑے کرنا تھا اور نئے شرق الاوسط کے نقشے کے مطابق نئی سرحدوں کو خونی سرحدوں کا نام دیا گیا اور کہا گیا کہ ہمارے پاس وقت نہیں کہ ہم مختلف ممالک اور اقوام کو پہلے قائل کریں کہ ہم قومی، لسانی، نسلی اور دینی و مذہبی بنیاد پر خطے کے ممالک کو تقسیم کرنا چاہتے ہیں اور واضح جارحانہ انداز اپنایا کہ ہم نے یہ فیصلہ کر لیا ہے اور اس کی راہ میں ہمیں جتنی تعداد میں لوگوں کو قتل کرنا پڑا، کریں گے، حتی کہ نیا شرق الاوسط جنم لے سکے۔

اس مرحلے کے لئے جہان اسلام میں مذہبی فتنوں کو ہوا دینے کی ذمہ داری وہابیت کی تھی، سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کے بقول ہم نے امریکہ کے کہنے پر وہابیت کی ترویج کی اور اس کی نرسریاں سعودی فنڈز و مدارس کے ذریعے پورے جہان اسلام میں لگائی گئیں اور 20 سال کی مسلسل محنت کے بعد کھیپ بھی تیار ہوگئی اور انہیں چند سال افغانستان میں اقتدار کا چسکا بھی چکھا دیا گیا۔ یوں اس امریکی فنڈڈ اور وہابی طبقے کی افغانستان میں مختصر عرصے کے لئے حکومت قائم کروا کر انہیں علاقے ویران کرنے اور عزتیں لوٹنے کی پریکٹس بھی کروا دی گئی۔ جہاد افغانستان کے عنوان پر پورے جہان اسلام سے مجاہدین کو اکٹھا کیا گیا اور آئندہ کے لئے پورے جہان اسلام میں مذہبی جنگ کو لیڈ کرنے والی لیڈرشپ بھی افغان کیمپوں میں تیار کی گئی۔

9/11 کا ڈرامہ کیا گیا، پھر اسکی بنیاد پر 2001ء کو اس تکفیری جہادی تیار شدہ کھیپ کو پورے جہان اسلام میں منتشر کرنے کے لئے ان کے بیس کیمپ پر حملہ کرکے تباہ کر دیا گیا اور انکی منہ بولی خلافت کا خاتمہ کر دیا گیا۔ اگلے راونڈ کے لئے عراق میں اوپنر کے طور پر ابو مصعب الزرقاوی اترا۔ وہ افغان جہاد کا تربیت یافتہ تھا۔ لیبیا میں عبدالحکیم بلحاج کو بھیجا گیا، جس نے کرنل قذافی کے خلاف اٹھنے والی شورش کی قیادت کی۔ وہ بھی افغان جہاد کا تربیت یافتہ تھا۔ سوریہ میں کمانڈنگ رول عدنان عرعور کو دیا گیا، وہ بھی جہاد افغان کا تربیت یافتہ تھا۔ اسی طرح مصر کے ابوحمزہ مھاجر، ایمن الظواہری اور باقی بہت سے نام جن میں ابوبکر البغدادی، ابو محمد جولانی، ابو محمد عدنانی، ابو علی انباری اور عدنان علوش وغیرہ وغیرہ جہادی گروہوں کے امیر بن کر ابھرے اور انٹرنیشنل میڈیا کی زینت بنے۔

2003ء کو عراق پر حملہ کیا گیا، باقی سارے جرائم اپنی جگہ لیکن عراق کے خلاف سب سے زیادہ بھیانک اقدام یہ کیا گیا کہ امریکی وائسرائے بول بریمر نے عراق کی فوج جو کہ عرب دنیا کی مضبوط اور تجربہ کار فوج تھی اسے تحلیل کر دیا اور پھر دکھاوے کے لئے ایک کاغذی فوج بنائی کہ جس کی حقیقت اس وقت عیاں ہوئی جب چند سو داعشیوں نے موصل پر حملہ کیا تو ہزاروں کی تعداد میں فوجی پسپا ہوگئے. فوجی چھاؤنیوں میں گھس کر داعشیوں نے ان ہزاروں فوجی جوانوں کے گلے کاٹے، جو ہتھیار ڈال چکے تھے. امریکہ کی تیار کردہ فوج پر اگر عراقی قوم اعتماد کرتی تو آج نجف اشرف اور کربلا معلٰی اور عراق کے دیگر تمام مقدس مقامات کو تباہ کیا جا چکا ہوتا۔ عوامی رضا کار فورس حشد الشعبی کہ جو تمام ادیان و مذاہب کے لوگوں سے مرجعیت کے فتوے کے مطابق تشکیل پائی اور انکی تربیت ایرانی سپاہ اور حزب اللہ لبنان کی لیڈرشپ نے کی ہے، انہوں نے عراق کو داعش کے شر سے پاک کیا اور مقدسات اسلام کی حفاظت کی

2003ء کو امریکی وزیر خارجہ کولن پاؤل نے شام کے صدر سے ملاقات کی اور کہا کہ اب ہم عراق پر قابض ہوچکے ہیں، آپ فیصلہ کریں کہ آپ نے ہمارا ساتھ دینا ہے یا فلسطینی و لبنانی مقاومت اور ایران کا ساتھ دینا ہے۔ شام کے صدر نے دو ٹوک الفاظ میں امریکہ سے تعاون سے انکار کیا، اس کے بعد امریکہ نے ان سے انتقام کی ٹھان لی۔ 2005ء میں شام کو لبنان سے نکالنے اور لبنانی و فلسطینی مقاومت کو تنہا کرنے کے لئے اسرائیل کے ذریعے لبنان کے وزیراعظم رفیق الحریری کو قتل کروایا اور اس کا الزام  شام اور حزب اللہ پر عائد کیا۔ شام کی فوج اب چونکہ امریکہ کا ہدف تھی تو لبنان میں شام آرمی کے خلاف وہ ماحول بنایا گیا کہ اقوام متحدہ کے فیصلے کے مطابق لبنان میں قیام امن کے لئے تعینات شام کی فوج لبنان سے نکلنے پر مجبور ہوگئی۔ 2006ء میں امریکی سازش کے تحت کہ جس میں خلیجی بادشاہ بھی شامل تھے، اسرائیل نے اچانک لبنان پر حملہ کر دیا۔ انکا ہدف حزب اللہ کا مکمل طور پر خاتمہ اور نئے مشرق وسطیٰ کے منصوبے کو عملی شکل دینا تھا۔ حزب اللہ نے اس جنگ میں اسرائیل کی عسکری برتری اور طاقت کے غرور کو خاک میں ملایا۔ امریکی نئے شرق الاوسط کے منصوبے پر یہ سب سے پہلی کاری ضرب تھی۔

دوسری کاری ضرب عراقی رضا کار فورس حشد الشعبی نے لگائی، جب داعش کی حکومت کا خاتمہ کیا اور موصل سمیت عراق کو مکمل طور پر آزاد کروایا، بلکہ فتنہ کردستان اور تقسیم عراق کو بھی دفن کر دیا۔ تیسری کاری ضرب پہلے القصیر اور پھر حلب کی فتح تھی، جس پر امریکہ اور امریکہ و اسرائیل نواز قوتوں کی امیدوں پر پانی پھرا اور شام کی جنگ کا نقشہ بدلا۔ اب داعش کی پسپائی اور مقاومت فورسز کے غلبے کا دور شروع ہوا۔ امریکہ جس جنگ کو لبنان و شام و عراق سے شروع کرکے فتوحات کے ذریعے ایران و دیگر ہمسایہ ممالک سے گزرتے ہوئے پاکستان تک پہنچانا چاہتا تھا اور پاکستان کے بلوچستان اور پختونخوا علاقوں کو پاکستان سے جدا کرنا چاہتا تھا، اس نے عراق و شام کی شکست کے بعد داعش اور تکفیری دہشتگردوں کو وہاں سے افغانستان منتقل کرنے کا منصوبہ بنا لیا ہے اور سعودیہ نے اس کے نقل و انتقال اور تسهیلات کے اخراجات ادا کر دیئے ہیں۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان کا اگلا ہدف پاکستان کی آرمی کیوں ہے!؟ چونکہ تقسیم پاکستان کے سامنے سب سے بڑی رکاوٹ پاکستان کی فوج ہے۔ لہذا دشمن بری طرح اس مقدس فوج کے درپے ہے۔

دشمن اچھی طرح جانتا ہے کہ پاکستان کے ایٹمی ہتھیاروں تک رسائی پاک فوج کی موجودگی میں ممکن نہیں، جبکہ اسرائیل، انڈیا اور امریکہ کو پاکستان کا ایٹمی طاقت ہونا ہرگز قبول نہیں۔ پاکستان آرمی پاکستان میں وحدت کی سب سے بڑی علامت ہے اور اس میں شیعہ سنی یا پنجابی اور پٹھان کی بھی کوئی تفریق نہیں، لہذا دشمن جانتا ہے کہ جب تک پاکستان آرمی موجود ہے، اس کی چالیں کامیاب نہیں ہوسکتیں۔ پاک فوج کی موجودگی میں پاکستان میں کسی بھی قسم کی خانہ جنگی وہ خواہ شیعہ و سنی کی ہو یا مقامی و مہاجر یا سندھی و پنجابی کی  ممکن نہیں۔ پاک فوج ان تمام سازشوں اور چالوں کے مقابلے میں ایک مضبوط ڈھال ہے۔ اسی طرح پاکستان آرمی اپنے ہمسایہ ممالک خصوصاً چین اور ایران کے خلاف بھی اپنی سرزمین کو استعمال نہیں ہونے دیتی، جس کا دشمن طاقتوں کو شدید رنج ہے۔ چینی و پاکستانی اقتصادی تعاون اور سی پیک منصوبہ پاک فوج کے ہوتے ہوئے سبوتاژ نہیں ہوسکتا،  چونکہ اسکی گارنٹی بھی فوج نے دی ہے۔

دشمن جانتا ہے کہ اسی فوج کی وجہ سے 17 سال سے ناٹو فورسز افغانستان میں خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں کرسکیں۔ پاکستانی فوج امریکہ اور سعودیہ کی مرضی کے مطابق یمن کی جنگ میں کھل کر شریک بھی نہیں ہوئی، سعودی اور اماراتی شہزادے بھی پاکستان کے اس موقف پر انتقام کی دھمکیاں دے چکے ہیں۔ پاکستانی فوج انڈیا کی آنکھوں میں کانٹے کی طرح چبھتی ہے۔ انڈیا کیونکہ کھل کر امریکہ اسرائیل اور سعودیہ و امارات کا قریبی دوست اور مشترکہ منصوبوں میں شریک ہے، تو وہ پاکستان کے خلاف اور پاک فوج کے خلاف ماحول سازی اور سازشوں میں ہمہ وقت مصروف رہتا ہے اور نقصان دینے میں ہر فرصت سے استفادہ کرتا ہے۔ بے شک ہم محسوس کر رہے ہیں کہ دشمن تیزی سے ہمارے قریب آرہا ہے، تاہم دشمن کو یہ یاد رکھنا چاہیے کہ ملت پاکستان، افواجِ پاکستان کے ساتھ کندھا ملا کر کھڑی ہے اور ملت پاکستان کی طرف سے کسی بھی سازش کا منہ توڑ جواب دیا جائے گا۔
خبر کا کوڈ : 730622
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Iran, Islamic Republic of
سلام علیکم: آپکے جملے "چونکہ تقسیم پاکستان کے سامنے سب سے بڑی رکاوٹ پاکستان کی فوج ہے۔ لہذا دشمن بری طرح اس مقدس فوج کے درپے ہے۔"
نے ہمیں مقدس ہونے کا معنی سمجھانے میں کافی مدد دی ہے۔ کچھ عرصے سے آپ اور آپ کے لیڈر کی فوج سے قربتوں کی باتیں زبان زدہ عام ہیں لیکن حقیقت کیا ہے خدا جانتا ہے؟ شائد آپ نے سوچا ہو کہ اس طرح کے چند ایک کالم لکھ کر پاکستان میں اپنی پروفائل کچھ بہتر کروالیں؟ یا کچھ مشاورین نے کہا کہ ہو اب اس قسم کی باتوں کی ضرورت ہے ۔ ۔ ۔ ۔
میرے آپ سے چند ایک سوال ہیں ، انشاء اللہ جس تسلسل سے آپ نے فوج کے خلاف ہونے والی سازشوں کا عندیا دینے کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے، ان چند سوالوں کے جواب بھی دیں گے؛
پہلی بات آپ سینہ چاک کرکے عراق اور شام میں حشد الشعبی اور حزب اللہ کے داعش کے خلاف انجام دینے والے اقدامات کو اس طرح بیان کرتے ہیں کہ گویا آپ سے بڑا ان کا ترجمان کوئی نہیں، آپ کے لیڈر نے کراچی میں تقریر کرتے ہوئے اپنے سینہ پر مکہ مار کر کہا کہ شام میں ہم نے تکفیریوں کو شکست دی۔۔۔۔۔ آیا آپ کو علم ہے کہ آپ ہی کے ملک سے بھی متعدد شیعہ باغیرت نوجوان شام میں ان تکفیریوں کا مقابلہ کرتے ہوئے حرم اہلبیت ع کے دفاع میں شہید ہوئے ہیں، آیا آپ نے آج تک ان کی بات کی؟ یا پھر یہاں فوج کی سیاست کا خیال آگیا؟؟؟
دوسری بات یہ ہے کہ اس وقت پاکستان میں ایک سو سے زائد شیعہ نوجوان بے بنیاد الزاموں کی بنیاد پر اسی مقدس فوج کے ہاتھوں کال کوٹھریوں میں اپنی زندگی گذار رہے ہیں، آپ اور آپ کے لیڈر جو شیعہ نمائندے ہونے کا دعوی کرتے ہیں، آج تک آپ نے اس "مقدس فوج" سے ان بے گناہ نوجوانوں کے بارے میں بات کی؟؟؟
آخری سوال اگر کبھی فرصت ہو اور مناسب سمجھیں تو اسکا جواب دے دیجئے گا کہ آج جس تکفیری جرثومے کی وجہ پوری دنیا میں بے چینی پھیلی ہوئی ہے اور خصوصاً پاکستان میں ملک کا سب سے بڑا دشمن سمجھا جا رہا ہے، اس تکفیری جرثومے اور آپ کی مقدس فوج کا رابطہ کیا ہے؟؟؟ ان کو کس نے پیدا کیا؟ کس نے پروان چڑھایا؟ اور اب بھی ان کے سہولت کار کا کردار کون ادا کر رہا ہے؟؟ ڈیرہ اسماعیل خان میں ہر روز شہید ہونے والے شیعہ جوانوں کے قاتلوں کا اس مقدس فوج کے سایہ تلے ٹھاٹھ باٹھ کی زندگی گزارنا آپ اور آپ کے لیڈر کی کس سیاست کے ساتھ مساوی ہے۔؟؟؟؟؟؟
حسنین زیدی
Pakistan
فوج کے اتنے قریب بھی نہ جاؤ کہ وہ تمہیں نگل لے اور اتنے دور بھی نہ ہوں کہ تھوک دے۔۔۔۔ اچھے لوگوں کی تعریف کرنا چاہیے اور بروں کی مذمت۔۔۔
ہماری پیشکش