0
Monday 11 Jun 2018 11:06

انتخابات سے قبل خیبر پختونخوا کی سیاسی صورتحال

انتخابات سے قبل خیبر پختونخوا کی سیاسی صورتحال
رپورٹ: ایس علی حیدر

صوبے میں نگران سیٹ اپ کا قیام آخر کار الیکشن کمیشن کے ذریعے ہو ہی گیا۔ خیبر پختونخوا کے علاہ پنجاب اور بلوچستان کے نگران وزرائے اعلٰی کی تقرری بھی الیکشن کمیشن کے ذریعے ہوئی گویا ملک بھر میں 5 نگران وزرائے اعلٰی میں سے 3 کا فیصلہ سیاسی قوتیں نہیں کر سکیں جو سیاسی جماعتوں کیلئے لمحہ فکریہ ہونا چاہیئے۔ الیکشن کمیشن کی طرف سے نامزدگی کے بعد نگران وزیراعلٰی دوست محمد خان حلف اٹھا چکے ہیں اور نگران کابینہ کیلئے ناموں پر مشاورت جاری ہے۔ الیکشن کمیشن کا فیصلہ تمام سیاسی جماعتوں کو قابل قبول رہا اور سب نے نگران وزیراعلٰی کی نامزدگی کا خیر مقدم کیا۔ دوست محمد خان چونکہ صوبہ میں بطور جج ہائیکورٹ کافی عرصہ گزار چکے ہیں، اس لئے ان سے توقع رکھی جا رہی ہے کہ 2 ماہ کی مختصر مدت میں اپنی صلاحیتوں کی بنیاد پر شفاف الیکشن کیلئے سازگار ماحول فراہم کرنے میں کامیاب رہیں گے۔ دوسری طرف مختلف سیاسی جماعتوں کے امیدواروں اور بعض متوقع امیدواروں کی طرف سے کاغذات نامزدگی جمع کرانے کا سلسلہ ابھی بھی جاری ہے۔ الیکشن کمیشن ترمیمی شیڈول کے مطابق کل بھی کاغذات نامزدگی وصول کریگا، تاہم اسوقت تک حالت یہ ہے کہ انتخابی مہم کا ٹیمپو نہیں بن سکا ہے۔

ظاہر ہے کہ جب ٹکٹوں کی تقسیم کا مرحلہ مکمل ہو گا اور امیدواروں کی حتمی فہرست جاری ہو گی، تب ہی کھل کر امیدوار میدان میں کودنے کے قابل ہو سکیں گے۔ اگر ضلع پشاور اور پوری وادیِ پشاور کی بات جائے تو یہاں پر گذشتہ تین انتخابات کے دوران تین مختلف سیاسی قوتوں نے مینڈیٹ حاصل کیا۔ گویا یہاں کی سیاسی تاریخ بن چکی ہے کہ 5 سال حکومت کرنے والی سیاسی قوت اگلے الیکشن میں بری طرح سے ناکام رہتی ہے۔ ایم ایم اے اور اے این پی کا جو حشر ہوا وہ سب کے سامنے ہے، اس کے باوجود پی ٹی آئی رہنماء یہ دعوٰی کرتے رہے ہیں کہ اس بار پی ٹی آئی صوبے کی سیاسی روایت بدلتے ہوئے ایک بار پھر شاندار کامیابی حاصل کریگی، لیکن اب جبکہ پی ٹی آئی کی ٹکٹوں کا اعلان ہو چکا ہے تو پارٹی کے اندر ایک بڑی اور سنگین بغاوت کے آثار صاف دکھائی دینے لگے ہیں۔ پہلے تو اس قسم کی صورتحال سے سابق وزیراعلٰی پرویز خٹک کامیابی کے ساتھ نمٹ لیتے تھے مگر اب انکی پوزیشن بھی پہلی جیسی نہیں رہی کیونکہ جن لوگوں کے ساتھ کمیٹمنٹ کر کے پی ٹی آئی میں لائے تھے ان میں سے اکثر کو ٹکٹ دلوانے میں ناکام رہے ہیں، جبکہ پی ٹی آئی کی ضلعی اور ریجنل قیادت تو ایک عرصے سے منظر عام سے ہی غائب ہے۔

ایسے میں اگر کوئی بڑی بغاوت پھوٹتی ہے تو اس کو ڈی یوز کرنے کی صلاحیت کا حامل فی الوقت کوئی نظر نہیں آتا جس سے پشاور میں پی ٹی آئی کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ مخالفین نے پہلے ہی بی آر ٹی کی وجہ سے شہر کی تباہی کو اپنی اپنی انتخابی مہم کا مرکزی نقطہ بنایا ہوا ہے، جس کے بعد پی ٹی آئی کے موجودہ امیدواروں کو ممکنہ بغاوت کی صورت میں خاصی پریشان کن صورتحال سے دوچار ہونا پڑے گا۔ پارٹی میں اس وجہ سے بےچینی پائی جا رہی ہے کہ بعض رہنما تو مکمل طور پر نظر انداز ہو گئے ہیں، جبکہ بااثر اور منظور نظر رہنما اپنے لئے دو دو ٹکٹس حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔ سابق وزیراعلٰی پرویز خٹک، سابق اسپیکر صوبائی اسمبلی اسد قیصر، سابق صوبائی وزراء شاہ فرمان، عاطف خان اور علی امین گنڈہ پور نے اپنے اپنے لئے قومی اور صوبائی اسمبلی کے ٹکٹ کنفرم کر لئے، یہ تمام رہنما ریجنل پارلیمانی بورڈ کے اراکین تھے۔ اسی طرح سوات سے سابق صوبائی مشیر ڈاکٹر امجد علی دو صوبائی نشستوں پر الیکشن لڑیں گے۔ پارٹی میں اپنے متحرک رہنماؤں علی محمد خان اور شہریار آفریدی کو پہلے مرحلے میں ٹکٹوں کی دوڑ سے باہر رکھا گیا تھا، تاہم بعد میں شہریار آفریدی کو ٹکٹ جاری کر دی گئی، لیکن علی محمد خان اب بھی محروم ہیں۔، جو ان کے ساتھ زیادتی ہے، پھر بھی ان کا بڑا پن ہے کہ انہوں نے کہا کہ انہوں نے وزارتوں کیلئے پی ٹی آئی جوائن نہیں کی تھی۔

اسی طرح ضلع ناظم ارباب عاصم اور نائب ناظم سید قاسم شاہ کو بھی ٹکٹ نہیں دیا گیا۔ سابق ایم پی اے فضل الٰہی کا حلقہ عین موقع پر تبدیل کردیا گیا جس پر انہوں نے ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے مرکزی قیادت کے سامنے معاملہ اٹھانے کا فیصلہ کیا ہے، اسی طرح کرک سے سابق ایم پی اے گل صاحب خٹک کو آؤٹ کر کے ان کی جگہ فرید طوفان کو ٹکٹ دے دیا گیا ہے، اس سے ساتھ ہی ارباب نجیب اللہ کو بھی نظر انداز کردیا گیا ہے، جبکہ صوبائی حکومت کی بھرپور ترجمانی کرنے والے شوکت یوسفزئی کو بھی پہلے مرحلے میں محروم رکھا گیا تھا، جس پر پارٹی کے نظریاتی کارکنوں نے گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔ پی ٹی آئی نے NA-27 پشاور سے نور عالم خان، NA-28 سے ارباب عامر ایوب، NA-29 سے شاہ فرمان، NA-30 سے شیر علی ارباب، NA-31 سے حاجی شوکت علی کو ٹکٹ دیئے ہیں، جبکہ صوبائی اسمبلی کیلئے محمود جان 1 PK-66، ارباب محمد وسیم خان PK-67 پشاور 2، ارباب جہانداد خان PK-68 پشاور 3، سید محمد اشتیاق PK-69 پشاور 4، شاہ فرمان PK-71 پشاور 6، فضل الٰہی PK-72 پشاور 7، تیمور سلیم خان جھگڑا PK-73 پشاور 8، پیر فدا محمد PK-74 پشاور 9، ملک واجد خان PK-75 پشاور 10، آصف خان PK-76 پشاور 11، کامران بنگش PK-77 پشاور 12، محمد عرفان PK-78 پشاور 13، ناصر موسٰی زئی PK-79 پشاور 14، پارٹی کے امیدوار ہونگے، جن میں سے صرف 5 ہی پارٹی کے سابق امیدوار اور ایم پی ایز رہے ہیں، باقی 9 امیدوار نئے ہیں جن میں سے بعض کو پیراشوٹر بھی قرار دیا جا رہا ہے، جن کے خلاف محاذ بنانے کی کوششیں جاری ہیں۔

پی ٹی آئی نے اندرونی کشمکش کی وجہ سے تاحال صوبے سے قومی اسمبلی کی 14 اور صوبائی اسمبلی کی 18 نشستوں پر پارٹی امیدواروں کا اعلان نہیں کیا، اس حوالے سے مشاورت جاری ہے اور اگلے دنوں میں فیصلے کا اعلان متوقع ہے۔ دوسری طرف متحدہ مجلس عمل کو بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، دیر پائیں سے شروع ہونے والے اختلافات رفتہ رفتہ دیگر اضلاع تک پھیل گئے ہیں، مالاکنڈ ڈویژن اور جنوبی اضلاع میں ایم ایم اے کی دونوں بڑی جماعتوں نے تاحال بے لچک رویئے اختیار کر رکھے ہیں، جس کی وجہ سے تاحال ایم ایم اے کے کارکنوں میں بے یقینی پھیلی ہوئی ہے، جبکہ سابقہ فاٹا میں بھی ایم ایم اے کا انتشار جاری ہے۔ خیال تھا کہ اسوقت پی ٹی آئی کو ایم ایم اے ہی ٹف ٹائم دے سکے گی، مگر پہلے تو تنظیم سازی کے معاملے میں تاخیر نے وقت ضائع کیا اور اب ٹکٹوں کی تقسیم کے معاملے پر حالات اس کے قابو میں نہیں آرہے۔ حالانکہ ایم ایم اے کے صوبائی صدر مولانا گل نصیب خان نے بروقت اور مستحسن قدم اٹھاتے ہوئے مرکز اسلامی جاکر جماعت اسلامی کے صوبائی امیر کو صوبائی کابینہ کا حصہ بننے کی دعوت دی جو انہوں نے قبول بھی کرلی اور بعد ازاں ان کو سینئر نائب صوبائی صدر بھی مقرر کر دیا گیا۔ مگر تاحال بداعتمادی برقرار ہے۔

مولانا گل نصیب خان کی طرح مشتاق احمد خان کا شمار بھی ان رہنماؤں میں ہوتا ہے جو ایم ایم اے کی بحالی کے سب سے بڑے داعی تھے اور چاہتے ہیں کہ دینی جماعتوں کا یہ اتحاد بھرپور تیاریوں کے ساتھ میدان میں اترے۔ اس لئے دونوں رہنما بعض مقامات پر اپنی اپنی جماعتوں کی طرف سے قربانی بھی پیش کر رہے ہیں، مگر لگتا ہے کہ ایم ایم اے کی تاخیر سے بحالی اور بعد ازاں مہم شروع کرنے میں مزید تاخیر نے کارکنوں کے درمیان بداعتمادی کی خلیج نہیں کر سکی، جس کے آفٹر شاکس اب پوری شدت کے ساتھ محسوس کئے جانے لگے ہیں۔ اگر مولانا گل نصیب حان اور مشتاق احمد خان اپنی اپنی ہارڈ لائنز کو قابو کرنے میں کامیاب نہ ہو سکے تو ایم ایم اے کو شدید مشکلات اور پریشانی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ عام طور پر الیکشن سے قبل سیاسی اتحاد تشکیل پا جاتے تھے یا پھر انتخابی ایڈجسٹمنٹ ہو جایا کرتی تھیں، مگر اس بار تاحال ایسی صورتحال بنتی دکھائی نہیں دیتی۔ لگتا ہے کہ اس حوالہ سے بعض جماعتیں جلد ہی سرگرم ہونے والی ہیں۔ چارسدہ کی بات کی جائے تو اگر قومی وطن پارٹی کے ساتھ عوامی نیشنل پارٹی یا متحدہ مجلس عمل کی ایڈجسٹمنٹ ہو جاتی ہے تو کلین سیویپ کی راہ ہموار کی جا سکتی ہے۔ پشاور میں بھی اگر کسی بھی 2 جماعتوں نے آپس میں ایڈجسٹمنٹ کی راہ اختیار کی تو دونوں فائدے میں رہیں گی۔

اسوقت اے این پی کو صوبہ بھر میں یہ فوقیت حاصل ہے کہ سب سے پہلے انتخابی امیدواروں کا اعلان کرنے کی وجہ سے اس کے اکثر امیدوار کئی ماہ قبل سے اپنی اپنی انتخابی مہم چلانے میں مصروف ہیں۔ ویسے بھی اے این پی اس پر کافی محنت کر رہی ہے، اس کے کارکن پُر امید ہیں کہ الیکشن میں حیران کن نتائج دیں گے۔ مسلم لیگ (ن) نے صوبے میں اپنی انتخابی مہم میں جان ڈالنے کیلئے پارٹی کے مرکزی صدر شہباز شریف کو خیبر پختونخوا سے بھی الیکشن لڑوانے کا فیصلہ کیا ہے۔ وہ ممکنہ طور پر شانگلہ سے قومی اسمبلی سے امیدوار ہونگے، اگر ایسا ہو جاتا ہے تو (ن) لیگ باآسانی مرکزی قائدین کو صوبہ میں زیادہ سے زیادہ جلسوں پر قائل کر سکیں گے، جس کا فائدہ 25 جولائی کو اٹھانے کی کوشش کی جائے گی۔ پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان NA-35 بنوں سے بھی الیکشن لڑیں گے جس وقت یہ حلقہ آبادی کے لحاظ سے ملک کا قومی اسمبلی کا سب سے بڑا حلقہ ہے، جس پر 2002ء سے جے یو آئی (ف) کامیابی حاصل کرتی رہی ہے، اسی حلقے سے مولانا فضل الرحمٰن 2008ء سے 2013ء تک قومی اسمبلی میں نمائندگی کر چکے ہیں، اب اس بار سابق وزیراعلٰی اور سابق وفاقی وزیر اکرم درانی اور عمران خان کے درمیان دلچسپ اور کانٹے دار مقابلے کی توقع کی جا رہی ہے۔ ماضی میں یہ حلقہ اکرم خان درانی کے زیرِ اثر رہا ہے اور انہوں نے حلقے کے لوگوں کے ساتھ قریبی تعلق ہمیشہ سے برقرار رکھا ہوا ہے، جس کی وجہ سے جے یو آئی (ف) کا حلقہ ابھی سے دعوٰی کر رہا ہے کہ پورے ملک سے عمران خان کو اس حلقے میں بھاری اکثریت سے شکست ہوگی، تاہم پی ٹی آئی والے اس بار بنوں میں تبدیلی لانے کے دعوے کر رہے ہیں، ان دعووں سے قطع نظر جیتے گا وہی جو بھرپور انتخابی مہم چلائے گا، اس کا انحصار اب امیدواروں پر ہے۔
خبر کا کوڈ : 730856
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش