2
Thursday 14 Jun 2018 00:08

امریکہ و شمالی کوریا سربراہی ملاقات پر ایک نظر

امریکہ و شمالی کوریا سربراہی ملاقات پر ایک نظر
تحریر: عرفان علی

امریکہ و شمالی کوریا کی تاریخ میں اب تک جو نہیں ہو پایا تھا، وہ موجودہ امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ اور شمالی کوریا کے جواں سال سربراہ مملکت کم جونگ ان نے کر دکھایا۔ 12 جون 2018ء منگل کے روز سنگاپور کے خوبصورت جزیرے سینٹوسا کے ایک ہوٹل میں جب یہ دونوں سربراہان حکومت و مملکت ملے تو یہ ان دونوں ملکوں کے حکمرانوں کی پہلی ملاقات تھی، اس لئے اس پہلو سے یہ ایک تاریخ ساز ملاقات تھی۔ دونوں کی ملاقات میں ہونے والی گفتگو اپنی جگہ اہم ہوگی، لیکن دنیا کے سامنے اس ملاقات کا ماحصل ایک مشترکہ بیان کی صورت میں جاری کیا گیا، جو صرف نو پیراگراف پر مشتمل تھا اور کام کی بات صرف چار نکات پر مشتمل تھی۔ پہلا نکتہ یہ کہ امریکہ و شمالی کوریا نے اپنے ملکوں کے عوام کی خواہش برائے امن و خوشحالی کے تحت دو طرفہ تعلقات قائم کرنے کا عہد کیا۔ دوسرا نکتہ یہ کہ دونوں ملک خطہ کوریا میں دائمی و مستحکم امن کے لئے کوششوں میں شریک ہوں گے۔ تیسرا نکتہ یہ کہ جنوبی کوریا کے ساتھ مشترکہ پنمونجن اعلامیہ مورخہ 27 اپریل 2018ء کے تحت شمالی کوریا خطہ کوریا کو نیوکلیئر اسلحہ سے مکمل پاک کرنے کے عہد پر باقی ہے۔ چوتھا نکتہ یہ ہے کہ امریکہ و شمالی کوریا نے جنگی قیدیوں اور گمشدہ فوجیوں (یا انکی لاشوں) کو تلاش کرنے اور جن کی شناخت ہوچکی ہے، انہیں فوری طور ان کے ملک بھجوانے کا عہد کیا۔ پہلے تین پیراگراف انہی چار نکات کا خلاصہ ہیں، جس میں اضافی نکتہ یہ ہے کہ امریکہ نے شمالی کوریا کو سلامتی کی ضمانتیں فراہم کرنے کا عہد کیا ہے۔

باوجود اس حقیقت کے کہ دونوں ملکوں کی پہلی سربراہی ملاقات ہونے کی وجہ سے اسکی اہمیت بہت زیادہ تھی، اور تقریباً تین ہزار صحافی اس اہم ترین ملاقات کی کوریج کر رہے تھے، یہ ملاقات نتیجہ خیز نہیں تھی، کیونکہ خطہ کوریا کو نیوکلیئر اسلحے سے پاک کرنے کا زبانی کلامی عزم ظاہر کر دینا، شمالی کوریا کا پرانا موقف ہی ہے، اس پر پہلے بھی بیانات دیئے جا چکے ہیں۔ مشترکہ بیان میں کہیں ٹائم فریم نہیں لکھا ہے کہ شمالی کوریا کتنے سالوں میں نیوکلیئر اسلحہ تلف کر دے گا۔ دوسرا مبہم پہلو ہے کہ امریکی صدر ٹرمپ نے شمالی کوریا کی سلامتی کی کونسی ضمانتیں فراہم کرنی ہیں؟ بیان کی حد تک یہ ہے کہ جب تک دونوں ملکوں میں اعتماد سازی کے اقدامات کے لئے مذاکرات کا عمل جاری رہے گا، امریکہ جنوبی کوریا کے ساتھ مشترکہ فوجی مشقیں نہیں کرے گا۔ یقیناً شمالی کوریا کے مطالبے پر امریکہ کی جانب سے یہ یقین دہانی کرائی گئی ہے۔ لیکن خطہ کوریا ہی نہیں بلکہ اس کے وسیع تر پڑوس پر مشتمل پورے خطے میں امریکہ کی فوجی موجودگی بھی ایک ایسا معاملہ ہے، جس پر شمالی کوریا کے سب سے بڑے اتحادی و دوست چین کو بھی اعتراض ہے، خواہ وہ ساؤتھ چائنا سمندر کی حدود ہو یا جاپان و جنوبی کوریا میں امریکی فوجی اڈے۔ تو کیا امریکہ جنوبی کوریا سے مکمل فوجی انخلاء کرے گا؟ حتیٰ کہ جنوبی کوریا کے ساتھ مشترکہ فوجی مشقیں ملتوی کرنے کے حوالے سے جنوبی کوریا کی حکومت اور خود امریکی وزارت دفاع (پینٹاگون )کو پیشگی اعتماد میں نہیں لیا گیا ہے۔

وہاں کم جونگ ان کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس میں شمالی کوریا کو دی جانے والی ضمانتوں سے متعلق سوال کے جواب میں ٹرمپ نے جو کچھ کہا اس پر امریکہ سمیت پوری دنیا متذبذب ہے، کیونکہ انہوں نے کہا کہ جنوبی کوریا میں 32 ہزار امریکی فوجی موجود ہیں، جنہیں ملک واپس بلوا لیا جائے گا، البتہ اس وقت یہ موضوع مذاکراتی عمل میں شامل نہیں ہے، لیکن مستقبل میں ایسا بھی کیا جاسکتا ہے اور جنوبی کوریا کے ساتھ اس وقت تک مشترکہ فوجی مشقیں معطل رہیں گی، جب تک کہ شمالی کوریا کے ساتھ امریکی مرضی کے مطابق مذاکرات آگے بڑھتے رہیں گے۔ یعنی یہ مشروط رعایت ہے، لیکن اقتدار کے امریکی ایوانوں میں یا خارجہ پالیسی اسٹیبلشمنٹ میں موجود نقادوں نے اس ملاقات و مشترکہ بیان میں جو سب سے بڑی خامی پائی ہے، وہ یہ ہے کہ شمالی کوریا کی جانب سے جو یقین دہانی کرائی گئی ہے کہ خطہ کوریا کو نیوکلیئر اسلحے سے پاک کر دیا جائے گا، اس کے ساتھ دو الفاظ یعنی قابل تصدیق اور ناقابل تبدیل(ڈی نیوکلیئرائزیشن) کا نہ لکھا جانا ہے۔ یعنی ان کی نظر میں شمالی کوریا سے یہ لکھوایا جانا چاہئے تھا کہ نیوکلیئر اسلحے سے خطے کو پاک کرنے کے عمل کی ایٹمی توانائی کا بین الاقوامی ادارہ آئی اے ای اے تصدیق کرے اور ایک مرتبہ جب اسلحہ تلف کر دیا جائے تو آئندہ کبھی بھی شمالی کوریا دوبارہ نیوکلیئر اسلحہ تیار نہ کرے۔

امریکہ میں قانون ساز ادارے کانگریس یعنی سینیٹ و ایوان نمائندگان ملی جلی رائے کا اظہار کر رہے ہیں۔ ری پبلکن پارٹی سے وابستہ اراکین ٹرمپ کی ملاقات کو تاریخی کہہ کر سراہنے کے باوجود شمالی کوریا کو ناقابل اعتماد قرار دے رہے۔ وہ قابل تصدیق و ناقابل تبدیلی ڈی نیو کلیئرائزیشن کا مطالبہ بھی کر رہے ہیں۔ ایوان نمائندگان کے اسپیکر ری پبلکن رہنما پاؤل رائن اس رائے کے حامی ہیں۔ ری پبلکن سینیٹر مارکو روبیو نے ٹرمپ کی اس بات سے اتفاق نہیں کیا کہ کم جونگ ان ’’ٹیلنٹڈ ‘‘ آدمی ہے۔ سینیٹ میں اکثریت کے قائد (پاکستانی اصطلاح میں قائد ایوان) ری پبلکن سینیٹر مک کونیل نے کہا کہ وہ امریکی حکومت کے بیان کردہ ہدف قابل تصدیق اور ناقابل تبدیل ڈی نیوکلیئرائزیشن کی حمایت کرتے ہیں، جیسا کہ وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے بیان دیا تھا۔ سینیٹ کی خارجہ تعلقات کمیٹی کے سربراہ ری پبلکن سینیٹر بوب کورکر نے کہا کہ اب وزیر خارجہ پومپیو کو سینیٹ کی کمیٹی میں آکر آگاہ کرنا چاہئے کہ امریکہ کے اگلے اقدامات کیا ہوں گے۔ ایوان نمائندگان کی خارجہ تعلقات کمیٹی کے چیئرمین ایڈ رائس کے خیال میں کم جونگ ان نے اس پہلے قدم سے ہی بہت کچھ حاصل کر لیا۔ سینیٹر چک گراسلے خطہ کوریا سے امریکی افواج کے انخلاء کی بات کو ہضم نہیں کر پا رہے کہ ٹرمپ نے کیوں یہ بات کی۔ یہ ٹرمپ کی اپنی موجودہ حکمران ری پبلکن پارٹی کی رائے ہے، جس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ حکمران طبقہ بھی محتاط ہے، کھل کر حمایت نہیں کر رہا، جبکہ ڈیموکریٹک پارٹی کے اراکین واضح طور کہتے ہیں کہ امریکہ کی نسبت شمالی کوریا نے اس سربراہی ملاقات سے بہت کچھ حاصل کرلیا ہے۔

سینیٹ خارجہ تعلقات کمیٹی میں ڈیموکریٹک کے نمائندے بوب مینینڈیز نے ٹرمپ و کم جونگ ان کے مشترکہ بیان کو کمزور ترین بیان قرار دیا ہے۔ ایوان نمائندگان میں اکثریت کی قائد نینسی پیلوسی نے کہا ہے کہ ٹرمپ نے مبہم وعدوں کے بدلے شمالی کوریا کو رعایتیں فرام کر دی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ معاہدے کی جلد بازی میں ٹرمپ نے شمالی کوریا کا مقام و مرتبہ امریکہ کے برابر کر دیا ہے، جبکہ شمالی کوریا کا اسٹیٹس کو برقرار ہے۔ خاتون ڈیموکریٹک سینیٹر فیئنسٹائن نے بھی تنقید کرتے ہوئے کہا کہ شمالی کوریا کی صورت میں اب بھی وہ صاف اور موجودہ خطرہ دیکھتی ہیں اور اس معاہدے سے امریکہ نے کچھ زیادہ حاصل نہیں کیا ہے۔ سینیٹ میں قائد اقلیت ڈیموکریٹک چک اسکمر نے کہا ہے کہ جو کچھ شمالی کوریا نے حاصل کیا ہے، وہ واضح اور دوررس ہے اور جو کچھ امریکہ نے حاصل کیا ہے، وہ مبہم اور ناقابل تصدیق ہے۔ ڈیموکریٹک سینیٹر مارک وارنر کی رائے یہ ہے کہ کم جونگ ان جو چاہتا تھا، سنگاپور سے وہ سب کچھ لے کر لوٹا ہے۔ سب سے بہترین بیان ڈیموکریٹک سینیٹر کوری بوکر کا ہے کہ وہ اس مشترکہ بیان کو معاہدہ نہیں کہیں گے بلکہ ان کی نظر میں یہ پریس ریلیز تھی جو سنگاپور میں جاری کی گئی۔ امریکی حکام کی یہ روش بہت پرانی ہے کہ وہ بغیر کچھ دیئے سب کچھ حاصل کرنا چاہتے ہیں اور اس نوعیت کے بیانات کی بھرمار سے مخالف فریق کو بے وقوف بناتے ہیں۔

خطہ کوریا جاپانی سلطنت، سوویت سامراج کے توسیع پسندانہ ایجنڈا کا شکار رہا۔ جب دوسری جنگ عظیم کے نتیجے میں جاپانی سلطنت کا خاتمہ ہوا اور سوویت سامراج و امریکی سامراج کے مابین دنیا کو دو محوروں میں تقسیم کر دیا گیا تو شمالی و جنوبی کوریا کا محاذ گرم ہوا، کیونکہ جنوبی کوریا میں امریکی افواج داخل ہوگئیں تو شمالی کوریا پر سوویت سامراج کا کنٹرول ہوا۔ جاپان امریکی بلاک کا حصہ و اتحادی بن گیا۔ کوریا میں جاپان کے بارے میں مثبت رائے نہیں، کیونکہ وہ انکی نظر میں ماضی کا سامراج ہے اور جاپان نے کوریا کو نوآبادی بنا رکھا تھا۔ کوریا جنگ کے نتیجے میں یہاں انسانی المیے نے جنم لیا۔ ایک ہی قوم تقریباً سات عشروں سے دو حصوں میں دشمنوں کی طرح تقسیم ہے اور امریکہ نے ایک طویل المدت منصوبے کے تحت یہاں فوجی پڑاؤ ڈال رکھا ہے۔ جنوبی کوریا و جاپان سمیت کئی ممالک میں اسکی افواج موجود ہیں۔ سوویت یونین کے بعد شمالی کوریا چینی بلاک کا حصہ بن گیا۔ جولائی 1953ء میں جب کوریا کی جنگ ختم کرنے کا معاہدہ ہوا تب تک اس جنگ میں 25 لاکھ افراد مارے جاچکے تھے۔ جنگ بندی کے معاہدے پر شمالی کوریا، چین اور امریکہ کے دستخط ہیں، جبکہ امریکہ نے اس خطے میں جاپان اور جنوبی کوریا کو اہم اتحادی بنا رکھا ہے۔ اب تھوڑا سا آگے بھارت بھی امریکہ کا اہم ترین اتحادی بن کر سامنے آیا ہے کہ امریکہ نے اپنی فوجی کمانڈ کا نام ہی انڈو پیسیفک رکھ دیا ہے۔

شمالی و جنوبی کوریا ہی نہیں بلکہ دنیا کے دیگر تنازعات حل کرنے میں بھی جو بنیادی رکاوٹ ہے، وہ دنیا کی بڑی طاقتوں کا دہرا معیار ہے۔ ماضی میں نیوکلیئر اسلحے کے حامل پہلے پانچ ممالک اقوام متحدہ کی سکیورٹی کاؤنسل کے مستقل اراکین بن کر دنیا کے فیصلے کرنے لگے اور جہاں مرضی ہوئی فیصلوں کو ویٹو یعنی مسترد کر دیا۔ جب دیگر ممالک یعنی بھارت و پاکستان نیوکلیئر طاقت بنے تو ان پر پابندیاں لگا دیں، یہی سب کچھ شمالی کوریا کے ساتھ کیا۔ لیکن امریکہ کے سامراجی مفادات نے اسے مجبور کیا کہ پاکستان کے ساتھ بھی تعلقات ختم نہیں کئے اور نائن الیون کے بعد اسے نان نیٹو اتحادی کا درجہ دے دیا جبکہ بھارت سے سول نیوکلیئر ٹیکنالوجی کا معاہدہ کر لیا۔ اس قسم کے دوغلے و منافقانہ طرز عمل کو دیکھتے ہوئے شمالی کوریا کیونکر اپنا نیوکلیئر اسلحہ تلف کرے گا؟ عالمی سطح کے جو معاہدے ہیں، اس کے مطابق پوری دنیا سے ہی نیوکلیئر اسلحہ تلف کرنا یے، جس میں اقوام متحدہ کی سلامتی کاؤنسل کے پانچ مستقل اراکین بالخصوص امریکہ کا نیوکلیئر اسلحہ بھی تلف کرنا شامل ہے۔ یہ ممالک تو خود ان معاہدوں پر عمل نہیں کرتے تو شمالی کوریا جیسا ملک کیوں کر اس پر عمل کرے گا۔ لہٰذا اطلاعات یہ ہیں کہ شمالی کوریا عالمی معاہدوں کے تحت ہی نیوکلیئر ڈس آرمامینٹ پر راضی ہوگا کہ جس کے تحت سارے ہی اپنا اپنا نیوکلیئر اسلحہ تلف کریں ورنہ پھر امریکہ سے یہ چاہے گا کہ اسے بھی بھارت و پاکستان کی طرح ڈی فیکٹو نیوکلیئر طاقت تسلیم کر لیا جائے۔

ٹرمپ چین و جاپان و جنوبی کوریا کی تعریف کر رہے ہیں، لیکن چین شمالی کوریا کا ساتھ دیتا رہے گا، کیونکہ اس خطے میں جہاں اس کی ایک سرحد پر بھارت اور دوسری پر جاپان امریکی اتحادیوں کی صورت میں موجود ہیں، وہاں وہ کبھی نہیں چاہے گا کہ اس کا وفادار اتحادی کمزور ہو۔ باوجود اس کے کہ اقوام متحدہ کی سکیورٹی کاؤنسل میں چین نے شمالی کوریا کے خلاف پابندیوں کو ویٹو نہیں کیا، لیکن امریکہ کو بھی معلوم ہے کہ شمالی کوریا پر پابندیوں کے باوجود چین کے ساتھ اس کے معاملات جوں کے توں چل رہے ہیں۔ ٹرمپ نے شمالی کوریا کے ساتھ تعلقات کے لئے پہلا قدم اٹھایا ہے، امریکی حکام تاحال منقسم ہیں کہ آیا یہ درست سمت میں اٹھایا جانے والا پہلا قدم ہے یا نہیں؟ جبکہ کم جونگ ان نے کم از کم وقتی طور پر عالمی سطح پر یا یوں کہیں کہ 
ین الاقوامی برادری میں ایک قسم کیlegitimacy حاصل کرلی ہے کہ اب دیگر مغربی ممالک کے سامنے بھی امریکی مثال موجود ہوگی، اگر وہ شمالی کوریا کے ساتھ اچھے تعلقات قائم کرنا چاہیں تو۔ ٹرمپ اور کم جونگ ان دونوں ہی پاگل مشہور تھے، لیکن پہلی ملاقات نے یہ تاثر دور کر دیا ہے۔ البتہ ٹرمپ واقعی عجیب و غریب امریکی صدر ہیں، جو امریکہ کے پرانے اتحادیوں کو ناراض کر رہے ہیں اور ان سے تجارتی جنگ پر آمادہ ہیں جبکہ ازلی دشمن سے ہاتھ ملا رہے ہیں۔ واقعی ٹرمپ کی اس حرکت نے ایک اور مرتبہ جرمنی کے نامور مدبر بسمارک کا یہ قول درست ثابت کیا ہے کہ سیاست ممکنات کا ہنر ہے، جو قابل حصول بھی ہے۔
خبر کا کوڈ : 731586
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش