0
Wednesday 20 Jun 2018 21:59

بلوچستان کی حتمی حلقہ بندیاں میرٹ کیمطابق ہوئیں!

بلوچستان کی حتمی حلقہ بندیاں میرٹ کیمطابق ہوئیں!
رپورٹ: نوید حیدر

حالیہ مردم شماری کے بعد الیکشن کمیشن کی جانب سے پہلی مرتبہ جو نئی حلقہ بندیاں کی گئیں، ان کے خلاف ملک بھر سے 1286 اعتراضات جمع کرائے گئے۔ الیکشن کمیشن نے ان اعتراضات کو مدنظر رکھتے ہوئے دو ہفتے کے اندر ان میں ترامیم لا کر انہیں نمٹا دیا اور حتمی حلقہ بندیوں کا اعلان بھی کر دیا۔ یہ کوئی آسان عمل نہیں‌ تھا، کیونکہ پارلیمنٹ کو آئین میں ترمیم کرتے ہوئے آرٹیکل 51 (3) کے تحت صوبوں اور وفاقی علاقوں کے لئے مختص نشستوں کی تعداد تبدیل کرنے کے علاوہ الیکشن کمیشن کو مردم شماری کے ابتدائی نتائج کے ساتھ کام کرنے کا اختیار بھی دینا پڑا تھا۔ اس کام میں چیلنجز بھی تھے اور متعلقہ اداروں کی صلاحیت و نیت پر ہر قدم پر شک کیا گیا، مگر انہوں نے اس اہم امتحان میں کامیاب ہونے کے لئے تمام مشکلات کو عبور کیا اور تمام ڈیڈ لائنز سے گزرے۔ اتنی ہی اہم یہ حقیقت بھی ہے کہ اس پورے مرحلے میں تمام ضوابط کا خیال رکھا گیا۔ درحقیقت الیکشنز ایکٹ 2017ء کی حلقہ بندیوں سے متعلق شقوں پر عمل کرنے کے لئے ضوابط پہلی بار تیار کئے گئے تھے۔ ابتدائی تجاویز پر اعتراضات سننے کا عمل بھی اپنے مقاصد میں کامیاب رہا۔ اعتراضات پر سماعتیں عوام کے لئے کھلی تھیں اور الیکشن کمیشن نے کاز لسٹ جاری کرتے ہوئے اپنے ضلعی اور ڈویژنل اسٹاف کو مقامی تجاویز کے حصول کے لئے بلوایا۔ بھلے ہی ابتدائی اور حتمی حلقہ بندیوں کے درمیان فرق کا مطالعہ کرنے کے لئے کافی وقت اور کوشش درکار ہے، مگر قرائن سے یہ واضح ہے کہ الیکشن کمیشن نے اعتراضات کو میرٹ پر حل کیا ہے۔

دیگر صوبوں کی طرح الیکشن کمیشن کو ابتدائی تجاویز پر صوبہ بلوچستان کے کئی مقامی سیاستدانوں کی جانب سے بھی اعتراضات موصول ہوئے۔ بلوچستان میں حلقہ بندیوں سے متعلق ابتدائی تجاویز میں نصیر آباد ڈویژن کے 5 اضلاع نصیر آباد، جعفر آباد، کچھی، جھل مگسی اور صحبت پور کو 3 نشستیں دی گئی تھیں۔ یہ غیر معمولی تھا، کیونکہ ڈویژن کا آبادی میں حصہ 2.1 نشستوں کے برابر تھا۔ اس کی وجہ سے بہت چھوٹے سائز کے دو حلقے بنے۔ یعنی این اے 260 نصیر آباد نشستوں کی اوسط آبادی کے صرف دو تہائی برابر تھا، جبکہ این اے 262 کچھی کم جھل مگسی آدھے سے تھوڑا کم۔ حتمی حلقہ بندیوں میں دونوں حلقوں کو ملا کر ایک ہی حلقہ این اے 260 نصیر آباد کم جھل مگسی کم کچھی بنا دیا گیا ہے۔ نصیر آباد ڈویژن کے پاس اب 2 قومی حلقے این اے 260 اور این اے 261 جعفر آباد کم صحبت پور ہیں۔ نصیر آباد ڈویژن سے بچنے والی نشست اب بلوچستان کے مرکزی علاقوں کو دے دی گئی ہے، جو رقبے میں کافی وسیع اور کم آبادی رکھنے والے ہیں۔ اس علاقے کے 9 اضلاع، جو کہ کوئٹہ اور قلات ڈویژن میں آتے ہیں، انہیں ابتدائی تجاویز میں 2 نشستیں این اے 268 اور این اے 270 دی گئی تھیں۔ ملک کے انتہائی مغربی ضلعوں کا کُل جغرافیائی علاقہ 149,635 کلو میٹر ہے۔ اس بڑے رقبے کی وجہ سے اس علاقے میں نمائندگی کا معیار گر جاتا ہے، کیونکہ اتنے بڑے علاقے میں مہم چلانا اور اس کے لوگوں کی توقعات پر پورا اترنا ناممکن ہوتا۔

حتمی حلقہ بندیوں میں ان 9 اضلاع کو 3 قومی حلقوں میں بانٹ دیا گیا ہے۔ مستونگ، شہید سکندرآباد اور قلات کے ضلعے اب این اے 267، چاغی، نوشکی اور خاران این اے 268 اور پنجگور، واشک اور آواران این اے 270 کا حصہ بن گئے ہیں۔ ان حلقوں کی آبادی صوبائی اوسط سے 10 سے 20 فیصد کم ہے، جو ان کے رقبے کو مدنظر رکھتے ہوئے اچھا سمجھوتہ ہے۔ اس طرح کوئٹہ کے جنوبی اضلاع جن میں بلوچی بولنے والے افراد کی اکثریت ہے، ان کے پاس 7 قومی نشستیں ہیں، جبکہ ابتدائی تجاویز میں صرف 6 تھیں۔ ان 9 میں سے تمام اضلاع کو ابتدائی تجاویز میں ایک ایک صوبائی نشست دی گئی تھی، مگر خاران اور واشک ضلعوں کو ملا کر ایک صوبائی حلقہ بنا دیا گیا تھا۔ 48 ہزار مربع کلومیٹر کے رقبے کے ساتھ خاران اور واشک مجموعی طور پر جغرافیائی لحاظ سے سب سے بڑا صوبائی حلقہ ہوتا، جبکہ اس کی آبادی صوبائی اوسط سے 37 فیصد زیادہ ہوتی اور یہ قابلِ قبول نہیں تھا۔ چنانچہ حتمی حلقہ بندیوں میں اس حلقے کو تقسیم کرکے خاران اور واشک دونوں ضلعوں کو ایک ایک صوبائی نشست دے دی گئی ہے۔ صیر آباد ڈویژن کے لئے صوبائی اسمبلی کی نشستیں 7 ہی رہیں۔ مگر جھل مگسی ضلعے پر مشتمل ایک بہت چھوٹا حلقہ بنانے کے بجائے اسے کچھی کے حصوں سے ملا دیا گیا ہے، جبکہ باقی کے کچھی کو مستونگ ضلع کی تحصیل دشت سے ملاتے ہوئے پی بی 17 کا حلقہ تشکیل دیا گیا ہے۔ چنانچہ ان حلقوں کے سائز بڑی حد تک برابر ہوگئے ہیں۔

اسی طرح حلقہ پی بی 27 جو کہ شیعہ ہزارہ قوم کا مرکز تصور کیا جاتا ہے، اتبدائی تجاویز میں اس حلقے میں علمدارروڈ کے علاوہ جناح ٹاؤن کے علاقے کو بھی شامل کیا گیا تھا، جس سے نہ صرف صوبائی اسمبلی میں شیعہ ہزارہ قوم کی نمائندگی ختم ہونے کا خطرہ تھا، بلکہ حلقہ بندیوں کے قوانین کے برخلاف انتہائی وسیع حلقہ بھی تشکیل پاتا، جس میں پشتون قوم اکثریت میں آجاتی۔ لیکن اب حتمی فیصلے کے مطابق حلقہ پی بی 27 کا سائز بھی الیکشن کمیشن قوانین کے مطابق بن چکا ہے۔ ایک اور بہت چھوٹے ضلع شیرانی کو ابتدائی تجاویز میں ایک پوری صوبائی نشست پی بی 1 دے دی گئی تھی۔ حتمی حلقہ بندیوں میں اسے پی بی 4 موسٰی خیل کے ساتھ ملا دیا گیا ہے، جس کی آبادی صوبائی اوسط سے 30 فیصد کم تھی۔ شیرانی اور موسٰی خیل اب مشترکہ طور پر پی بی 1 کا حصہ ہیں۔ جس طرح بلوچستان میں حلقہ بندیوں سے متعلق میرٹ پر فیصلے کئے گئے، اسی طرح عوام کو بھی چاہیئے کہ آنے والے انتخابات میں اپنا قیمتی ووٹ ایک دیانتدار اور اہل امیدوار کو دیں، تاکہ پاکستان بھر کی طرح بلوچستان میں بھی جمہوری اور سیاسی پختگی کے خواب کو شرمندہ تعبیر کیا جاسکے۔
خبر کا کوڈ : 732553
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش