0
Friday 22 Jun 2018 17:54

شانگلہ سیاسی میدان میں سرگرم

شانگلہ سیاسی میدان میں سرگرم
رپورٹ: ایس علی حیدر

شانگلہ میں عام انتخابات کے کیلئے سرگرمیاں عروج پر پہنچ گئیں۔ رہنماؤں کی طرف سے کارنر میٹنگز کا سلسلہ بدستور جاری ہے، جبکہ کارکنوں میں نہایت جوش و خروش پایا جاتا ہے۔ ساتھ ہی عوام نے الیکشن سے توقعات وابستہ کرلی ہیں کہ شاید ان کے دیرینہ مسائل حل ہونے کا کوئی راستہ نکل آئے۔ اس کے علاوہ وہ چہرے بھی دوبارہ منظر عام پر آنے لگے ہیں، جو گذشتہ انتخابات کے بعد پس منظر میں چلے گئے تھے اور عوام ان کی راہ تک رہے تھے۔ ایک طرف ماضی کے حریف انجینئر امیر مقام اور حاجی سدید الرحمٰن پھر آمنے سامنے آگئے ہیں، تو دوسری طرف نواز محمود یا وقار احمد خان میں سے تحریک انصاف کا ووٹ کس کو ملے گا، یہ ایک معمہ بن کر رہ گیا ہے۔ پی ٹی آئی کے سرگرم کارکنوں میں چہ میگوئیاں شروع ہوگئیں ہیں۔ ٹکٹ کیلئے درخواست دینے والے نواز محمود، وقار احمد خان اور انجینئر عبدالتواب نے نواز محمود کے فیصلے کی تائید کر دی کہ ٹکٹ جس کسی کو بھی ملے کارکن بلے کے نشان کو ووٹ دیں۔ تینوں رہنما ٹکٹ کی وصولی کیلئے تگ و دو میں مصروف ہیں۔ گذشتہ روز نواز محمود نے اپنے کارکنوں سے برملا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ ٹکٹ کے حصول میں پارٹی کے اندر کسی قسم کا کوئی اختلاف نہیں ہونا چاہیئے۔

پارلیمانی بورڈ کے فیصلوں کا احترام کیا جائے گا، جس پر وقار احمد خان اور انجینئر عبدالتواب نے اس فیصلے کی تائید کر دی۔ شانگلہ کے پہلے صوبائی حلقے سے تحریک انصاف نے شوکت یوسف زئی کو میدان میں اتارا ہے، جبکہ دوسرے حلقے میں سابق رکن جن کو سپریم کورٹ نے نااہل قرار دے دیا تھا، عبدالمنعم کے بھائی عبدالمولٰی کو ٹکٹ دیکر میدان میں لے آئے ہیں۔ شانگلہ میں صرف اور صرف اس وقت مسلم لیگ (ن) اور عوامی نیشنل پارٹی کا کانٹے دار مقابلہ متوقع ہے، جہاں ایک طرف یہ دونوں جماعتیں رمضان کے آخری عشرہ میں اپنی انتخابی مہم چلا رہی ہیں تو دوسری طرف ایک خاموش اکثریت رکھنے والی جماعت تحریک انصاف کے اندر ٹکٹوں کی تقسیم پر اختلافات اگرچہ بظاہر نہیں مگر موجود ہیں، جو پارٹی کو نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ عوامی نیشنل پارٹی جو شروع سے ہی قومی و صوبائی نشستوں سے کامیابی حاصل نہ کرسکی، تاہم مسلسل رننگ پوزیشن رکھ کر میدان میں ڈٹ کر مقابلہ کرتی رہی۔

اس وقت عوامی نیشنل پارٹی میں نئی شمولیت اختیار کرنے والے متوکل خان ایڈووکیٹ کے بعد عوامی نیشنل پارٹی کی قوت میں نمایاں اضافہ ہوا ہے، جو مسلم لیگ (ن) کیلئے خطرے کی گھنٹی ہے۔ عوامی نیشنل پارٹی کے حاجی سدید الرحمٰن شانگلہ میں قومی اسمبلی کی نشست پر انجینئر امیر مقام کے مدِمقابل ہونگے، جو اس وقت بھی ایک مضبوط پوزیشن رکھتے ہیں۔ شانگلہ میں ویسے پیپلز پارٹی، متحدہ مجلس عمل، عوامی ورکر پارٹی اور قومی وطن پارٹی سرگرم عمل ہیں۔ مگر وہ مسلم لیگ (ن) اور عوامی نیشنل پارٹی کی دوڑ میں کافی پیچھے ہیں۔ شانگلہ کے پہلے صوبائی حلقے پی کے 23 شانگلہ 1 میں شوکت یوسف زئی کی انٹری سے عوامی نیشنل پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کیلئے بھی چناؤ لڑنا مشکل ہوگیا۔ یاد رہے کہ شوکت یوسف زئی نے اپنے دور حکومت میں یہاں سے منتخب نہ ہونے کے باوجود ایک بہت بڑی خطیر رقم اس حلقے میں خرچ کی ہے۔ عوام کے ذہنوں میں یہ سوال بھی ہے کہ وہ یہاں سے تو منتخب ہی نہیں تھے اور اتنا بڑا فنڈ استعمال کیا، اگر وہ یہاں سے منتخب ہوتے ہیں تو اس سے کئی زیادہ لے کر آئیں گے۔

موجودہ حالات میں اس حلقے سے مسلم لیگ (ن) کے محمد ارشاد، عوامی نیشنل پارٹی کے متوکل خان ایڈووکیٹ اور تحریک انصاف کے شوکت یوسف زئی کے درمیان مقابلہ سخت مقابلہ متوقع ہے، جبکہ اسی حلقے سے کُل 21 امیدوار آمنے سامنے ہیں جن میں آزاد اراکین بھی شامل ہیں۔ شانگلہ کی قومی نشست این اے 10 کی بات کی جائے تو یہاں بھی پوزیشن واضح ہے۔ مسلم لیگ (ن) کے امیر مقام، عوامی نیشنل پارٹی کے حاجی سدید الرحمٰن اور تحریک انصاف کا جو بھی امیدوار ہوگا، تینوں میں کانٹے دار مقابلہ ہوگا۔ قومی اسمبلی کی نشست کیلئے دیگر جماعتوں پیپلز پارٹی، متحدہ مجلس عمل سمیت درجنوں افراد میدان میں ہیں۔ شانگلہ کے دوسرے صوبائی حلقے پی کے 24 شانگلہ 2 سے حاجی عبدالمنعم کی نااہلی کے بعد اس حلقے کی سیاست میں خلا پیدا ہوا ہے، جو ان کے بھائی عبدالمولٰی پورا نہیں کر سکتے، جو اس وقت تحریک انصاف کے اس حلقے سے صوبائی امیدوار بھی ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کے پیر محمد خان، عوامی نیشنل پارٹی کے فیصل زیب اور پی ٹی آئی کے عبدالمولٰی کے درمیان اس حلقے میں مقابلہ ہوگا جبکہ اس حلقے سے 30 امیدواروں نے کاغذات نامزدگی جمع کروا دیئے ہیں، جس میں آزاد حیثیت سے بھی افراد شامل ہیں۔

25 جولائی کو شانگلہ کے عوام کو اپنے ووٹ کے ذریعہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ وہ 5 سال پھر سے مسلسل پسماندگیوں، اندھیروں، کچی سڑکوں، پینے کے گندے پانی، ویران اسکولوں، کوئلہ کانوں میں مسلسل اموات، صحت کی ناقص صورتحال سمیت بنیادی سہولیات کے فقدان جیسے مسائل کے حل کیلئے کس پر اعتماد کرتے ہیں۔ ایک مرتبہ پھر شانگلہ ک عوام کیلئے 25 جولائی کے عام انتخابات کسی امتحان سے کم نہیں، کیا یہ لوگ اس امتحان میں پاس ہو کر حقیقی لیڈر کا انتخاب کریں گے یا پھر ماضی کی طرح صرف کھوکھلے دعوؤں، محض وعدوں اور جھوٹے اعلانات کے شکنجے میں آکر اپنے 5 سال کی تقدیر کا فیصلہ کریں گے۔ اب 25 جولائی کو ہی فیصلہ ہوگا، تاہم حالات کو دیکھتے ہوئے یہ کہنا مشکل نہیں کہ عوام سوچ سمجھ کر فیصلہ کریں گے اور پرفارمنس کو مدِنظر رکھ کر ہی امیدواروں کا انتخاب کریں گے۔
خبر کا کوڈ : 732841
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش