0
Saturday 23 Jun 2018 03:32

گلگت بلتستان سیاحوں سے بھر گیا، عوام کیا حاصل کرسکتے ہیں؟

گلگت بلتستان سیاحوں سے بھر گیا، عوام کیا حاصل کرسکتے ہیں؟
تحریر: لیاقت تمنائی

گلگت بلتستان سیاحوں سے بھر گیا، ہر طرف سیاحوں نے ڈیرے ڈال لئے ہیں۔ گلگت، ہنزہ، نگر، غذر میں روزانہ سینکڑوں گاڑیاں داخل ہو رہی ہیں۔ توقع ہے کہ رواں سال 20 لاکھ سے زائد سیاح گلگت بلتستان آئیں گے جبکہ گذشتہ سال سرکاری ریکارڈ کے مطابق 16 لاکھ سیاح آئے تھے، بلتستان میں ملکی و غیر ملکی سیاحوں نے ڈیرے ڈال لئے ہیں۔ جس کے باعث چاروں اضلاع خاص طور پر سکردو شہر میں رش بہت بڑھ گیا ہے۔ دکانوں اور ہوٹلوں کے صحن میں بھی سیاحوں نے راتیں گزارنا شروع کی ہیں، کئی سیاح ہوٹلوں میں جگہ نہ ملنے کے باعث اپنی گاڑیوں کی چھتوں پر راتیں گزار رہے ہیں۔ سیاح عوام کی مہمان نوازی، اخلاق اور پیار محبت سے بڑے خوش دکھائی دیتے ہیں، البتہ بجلی بحران اور انٹر نیٹ سروس کی سست رفتاری سے پریشان دکھائی دیتے ہیں۔ کئی سیاحوں نے کہا کہ بلتستان زمین پر جنت کا ایک ٹکڑا ہے، تاہم یہاں حکومت توجہ نہیں دے رہی ہے، بجلی اور انٹر نیٹ کا مسئلہ حل ہو تو سارے سیاح بلتستان آئیں گے۔ یہاں کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ لوگ بڑے شریف النفس اور محبت کرنے والے ہیں، جگہ جگہ پر ہمیں محبتیں ملیں، تحائف پیش کئے، مسائل دریافت کئے، ہر طرح سے ہماری رہنمائی کی گئی۔ ہم بلتستان سے امن، مہمان نوازی اور پیار کا پیغام لے کر جا رہے ہیں۔ اگر حکومت نے توجہ دی تو بلتستان سیاحوں کا مرکز بن سکتا ہے اور لوگ معاشی طور پر بڑے خوشحال ہوں گے۔

ادھر غذر کی سیاحتی وادیاں پھنڈر، یاسین، گوپس، اشکومن اور پونیال مقامی اور غیر مقامی سیاحوں سے بھر گئی ہیں۔ روزانہ سیاحوں کی سینکڑوں گاڑیاں غذر میں داخل ہو رہی ہیں۔ گاہکوچ شہر کے علاوہ تمام وادیوں میں قائم ہوٹل سیاحوں سے کچھا کھچ بھر گئے ہیں۔ غذر کی خوبصورت وادی پھنڈر میں سیاحوں کی آمد کے ساتھ علاقے کی رونقیں بڑھ گئی ہیں۔ غذر میں ٹراؤٹ فش، چیری، خوبانی اور دیگر مقامی فروٹس کی مانگ میں اضافہ ہوچکا ہے، جس سے علاقے میں روزگار کے ذرائع بھی بڑھ گئے ہیں۔ غذر کے مقامی افراد نے سیاحوں کی آسانی کے لئے سیاحتی مقامات کو بغیر کسی معاوضے کے واگزار کیا ہے، جہاں سیاح کیمپنگ کر رہے ہیں۔ مقامی لوگوں نے سیاحوں سے اپیل کیا ہے کہ وہ جہاں کیمپنگ کر رہے ہیں، وہاں قدرتی ماحول کو گندگی سے پاک کرنے کی کوشش کریں اور دریا میں گندگی ڈالنے کے علاوہ سیاحتی مقامات پر کچہرہ پھیلانے سے گریز کریں، تاکہ قدرتی ماحول کو صاف و شفاف رکھا جاسکے۔ اسی طرح ہنزہ اور نگر بھی سیاحوں نے ڈیرے جما لئے ہیں۔

دریں اثناء قائد ملت جعفریہ گلگت بلتستان سید راحت حسین الحسینی نے کہا ہے کہ سیاح ہمارے مہمان ہیں، ان سے عزت و احترام کے ساتھ پیش آنا اور مثبت رویہ اپنانا ہماری ذمہ داری ہے۔ نماز جمعہ کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے آغا سید راحت حسین الحسینی نے کہا کہ گلگت بلتستان آنے والے سیاحوں کی خوب مہمان نوازی کی جائے، ان کے ساتھ اخلاق سے پیش آتے ہوئے انہیں آسانیاں اور سہولیات فراہم کی جائیں۔ اگر کسی بھی سیاح کو مناسب جگہ نہ ملے اور سڑک پر رات بسر کرنے کی نوبت آئے، تو ایسے سیاحوں کو عوام اپنے گھروں میں جگہ دیں۔ انہوں نے کہا کہ مہمان رحمت کی مانند ہوتے ہیں، سیاحوں کے ساتھ مثبت رویہ اپناتے ہوئے محبت و خلوص سے پیش آنے کی ضرورت ہے اور اگر کسی سیاح سے کوئی غلطی بھی سرزد ہو جائے تو صبرو تحمل کا عملی مظاہرہ کرتے ہوئے غلطی کو در گزر کرتے ہوئے انہیں معاف کیا جائے۔آغا راحت نے کہا کہ گلگت میں امن و امان کے مکمل قیام کی وجہ سے ترقی و خوشحالی ہے اور اکثر لوگوں کے پاس اپنی ذاتی گاڑیاں ہیں، موجودہ موسم میں سیاحوں کا رش ہے، لہذا گلگت بلتستان کے عوام ان دنوں اپنے سفر کو محدود رکھیں اور فضول میں گاڑیوں کو سڑکوں پر لا کر سیاحوں کے لئے رکاوٹ کا باعث نہ بنیں، تاکہ سیاحوں کو سفر کے دوران کوئی مشکل پیش نہ آسکے۔

خصوصاً دکاندار حضرات خرید و فروخت کے دوران مناسب قیمت وصول کریں، تاکہ سیاح اس علاقے کے عوام کی مہمان نوازی کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہوئے اچھا تاثر لے کر واپس جا سکیں۔ آغا راحت نے کہا کہ سیاحوں کے رش کی وجہ سے گلگت بلتستان کی معیشیت پر بھی واضح طور پر مثبت اثرات مرتب ہوئے ہیں، ہوٹلز اور گیسٹ ہاؤسز قائم کرکے عوام باعزت روزگار کما رہے ہیں، جبکہ روزگار کے ذرائع بھی بڑھ رہے ہیں، جس کی وجہ سے غربت و بے روزگاری میں کمی اور ترقی و خوشحالی میں اضافہ ہو رہا ہے۔ لہذا عوام سیاحوں سے تعاون کریں اور ان کو سہولیات فراہم کرتے ہوئے ان کے لئے کسی قسم کی بھی پریشانی کا باعث نہ بنیں۔ گلگت بلتستان سیاحت کے لحاظ سے جنت سے کم نہیں، یہاں دنیا کی بلند ترین چوٹیاں، گلیشیئرز، وادیاں اور میدان واقع ہیں۔ گلگت بلتستان کی خاص اہمیت اس لحاظ سے بھی ہے کہ اس خطے میں سال کے چاروں موسم پائے جاتے ہیں، گرمی بھی خوب ہوتی ہے اور سردی بھی جم کر، معتدل موسم بھی دیکھنے کو ملے گا، اگر ہم گلگت بلتستان میں سیاحت کے تناظر میں دیکھا جائے تو دیکھنے میں آتا ہے کہ پچھلے تین سے چار سالوں میں گلگت بلتستان کی طرف سیاحوں کا سیلاب آنا شروع ہوا ہے، اس کی کئی وجوہات ہیں۔

ایک یہ کہ یہاں کا امن پورے ملک میں مثالی ہے جبکہ مثالی مذہبی بھائی چارگی بھی پائی جاتی ہے۔ ماضی میں گلگت میں امن ایک بھیانک خواب تھا، فرقہ واریت زوروں پر تھی، گلگت کے چھوٹے سے علاقے میں نوگوایریاز بنے ہوئے تھے، بعد میں عوام اور سیاسی و مذہبی رہنماؤں خصوصاً عوامی ایکشن کمیٹی کے ساتھ ساتھ پاک فوج نے امن کے قیام کو حقیقت کا روپ دیا اور گلگت میں نوگوایریاز ختم ہوگئے، مثالی امن کی وجہ سے سیاحت نے ترقی کی۔ دوسری اہم وجہ خطے کی جغرافیائی خدوخال اور معتدل موسم کے ساتھ ساتھ مناظر قدرت کے عظیم شاہکار ہیں، جو یہاں دیکھنے کو ملتے ہیں۔ سیاحت گلگت بلتستان کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے۔ اسی ایک شعبے پر خاص توجہ دے کر گلگت بلتستان کی تقدیر بدلی جاسکتی ہے، کیونکہ سیاحوں کے سیلاب نے خطے میں سیاحت سے مربوط کئی اہم شعبوں میں ان گنت مواقع پیدا کئے ہیں، سوال یہ ہے کہ عوام سیاحت کے بے پناہ مواقع سے کس طرح فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔

منصوبہ بندی
کسی بھی کام کیلئے منصوبہ بندی لازم ہوتی ہے، کوئی بھی منصوبہ پلاننگ کے بغیر کامیاب نہیں ہوسکتا، گلگت بلتستان میں سیاحوں کا توقع سے زیادہ رش ہے، جس پر مکمل سروے رپورٹ تیار کرکے منصوبہ بندی مرتب کرنے کی ضرورت ہے کہ کس طرح ایک عام آدمی سیاحت کے مواقع سے فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ سیاحت کے سیزن میں صرف فائیوسٹار ہوٹلوں کے علاوہ گراس روٹ لیول پر کیا فوائد حاصل کئے جا سکتے ہیں۔ دوسری جانب ایک اہم نکتہ یہ بھی ہے کہ عوام کے ساتھ ساتھ حکومت بھی کیا کچھ حاصل کرسکتی ہے؟ جس کیلئے بھی پلاننگ اہم ہے، سیاحت کے ماہرین کی تجاویز کی روشنی میں نہ صرف عوام کو روزگار کے مواقع ملیں گے بلکہ حکومت بھی خاطر خواہ ریونیو میں اضافہ کرسکتی ہے، جس کا فائدہ بھی عوام کو ہی ہوگا۔

ہوٹل انڈسٹری
دنیا کی بلند ترین چوٹی ماؤنٹ ایوریسٹ نیپال میں موجود ہے، بس اس کے علاوہ اور کوئی نہیں۔ کہا جاتا ہے کہ نیپال کی جی ڈی پی کا 40 فیصد ایک ماؤنٹ ایوریسٹ سے حاصل ہوتا ہے۔ دوسری جانب گلگت بلتستان میں دنیا کی دس میں سے پانچ بلند ترین چوٹیاں، آئس لینڈ کے بعد دنیا کا سب سے بڑا گلیشیئر، دنیا کا سب سے بلند سطح مرتفع یعنی میدان موجود ہے۔ اس کے باؤجود بھی یہاں کی معیشت میں سیاحت کا وہ کردار نہیں جو ہونا چاہیے۔ سیاحت اور ہوٹل لازم و ملزوم ہیں، سرکاری اعداد و شمار کے مطابق رواں سال گلگت بلتستان میں 20 لاکھ سے زائد سیاحوں کی آمد متوقع ہے، یہ پورے خطے کی مجموعی آبادی سے بھی زیادہ ہے۔ کثیر تعداد میں سیاحوں کی آمد سے ہوٹل انڈسٹری آباد ہوگی، جس کیلئے ضروری ہے کہ حکومت ہوٹل انڈسٹری کے فروغ کیلئے خصوصی پیکج متعارف کرائے۔ مثلاً آسان شرائط پر قرضوں کا اجراء وغیرہ، سیاحوں کے سیلاب کے باؤجود گلگت بلتستان میں ہوٹل انڈسٹری نہ ہونے کے برابر ہے، کیونکہ سیاحوں کی تعداد کے مطابق ہوٹل موجود نہیں ہیں، یہی وجہ ہے کہ سیاح ٹینٹ لگا کر کھلے آسمان تلے، ہوٹلوں کی چھتوں اور اپنی گاڑیوں میں راتیں گزارنے پر مجبور ہیں۔ گلگت بلتستان کے لوگ ہوٹل انڈسٹری پر توجہ دے تو صرف گرمیوں کے تین چار ماہ میں ہی کثیر زرمبادلہ کمایا جاسکتا ہے۔

سہولیات
گلگت بلتستان آنے والے سیاحوں کو مری کی طرح یہاں کوئی شکایت نہیں، تاہم انٹرنیٹ اور بجلی کے حوالے سے کافی پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ سیاحتی مقامات تک شاہراہوں کی تعمیر بھی اہم ہے، اس کیلئے گلگت بلتستان میں سڑکوں کے نیٹ ورک کو توسیع دینے کی ضرورت ہے۔ سیاحوں کیلئے تین چیزیں اہم ہوتی ہے، بجلی، پانی اور شاہراہیں۔ ناجائز منافع خوری کے ذریعے سیاحوں کو لوٹنے والے عناصر پر کڑی نظر رکھنا نہ صرف حکومت کی ذمہ داری ہے بلکہ معاشرے کے ہر فرد کی بھی انفرادی ذمہ داری ہے۔ ایسے عناصر کو لگام دینے کی ضرورت ہے، ورنہ خطے کے بارے میں برا تاثر ابھرے گا۔ اسی طرح سکیورٹی، امن و امان کا تسلسل برقرار رکھنے سمیت دیگر اقدامات بھی سیاحت کے فروغ کیلئے ضروری ہیں۔
خبر کا کوڈ : 732918
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش