0
Sunday 24 Jun 2018 13:52

انہدام جنت البقیع اور وہابیت کا سیاہ چہرہ

انہدام جنت البقیع اور وہابیت کا سیاہ چہرہ
تحریر: سیدہ ایمن نقوی

جنۃ البقیع، بقیع الغَرقَد، مدینہ کا سب سے پہلا اور قدیم اسلامی قبرستان ہے۔ شیعہ اماموں میں سے چار آئمہ(ع)، حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا اور تابعین میں سے کئی اکابرین اسلام اسی قبرستان میں مدفون ہیں۔ آئمہ(ع) اور بعض دوسرے اکابرین کی قبروں پر گنبد و بارگاہ موجود تھی، جسے پہلی بار تیرہویں صدی ہجری اور دوسری بار چودہویں صدی ہجری میں وہابیوں نے منہدم کیا، جس پر ایران اور ہندوستان سمیت مختلف ممالک کے شیعہ اور سنی علماء اور عوام نے شدید ردعمل کا اظہار کیا۔ قبرستان بقیع میں موجود چار آئمہ معصومین (ع) اور حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا کی قبور پر موجود گنبد جو بیت الاحزان کے نام سے معروف تھا، وہابیوں کے پہلے حملے ہی میں منہدم ہو گئے۔ (1) عبدالرحمن جَبَرتی کے بقول وہابیوں نے پہلے حملے کے ایک سال بعد مدینہ کا محاصرہ کر کے قحط سالی ایجاد کی اور مدینہ منورہ میں داخل ہو گئے اور مسجد النبی کے علاوہ باقی تمام گنبدوں کو مسمار کر دیا۔ (2)

8 شوال 1344 قمری میں سعودیہ عربیہ کے اس وقت کے چیف جسٹس شیخ عبداللہ بلیہد کے حکم سے قبور کی زیارت کا شرک اور بدعت ہونے کے بہانے قبرستان بقیع کے تمام تاریخی آثار منہدم کر دیئے۔ (3) قبور پر گنبد کی تعمیر وہابیت کے اعتقادات کے برخلاف اکثر مسلمانوں اعم از شیعہ اور اہلسنت کے ہاں نہ فقط اسلامی اصول اور فروعات کے ساتھ متضاد نہیں ہے بلکہ ان کے ہاں بزرگان اور اولیاء الٰہی کے قبور کی زیارت کرنا ایک مستحب عمل بھی ہے اور اسلام میں اس عمل کی ایک طویل تاریخ بھی موجود ہے۔ (4) جنۃ البقیع میں موجود اماکن اور مذہبی مقامات علاوہ بر شناخت مذہبی، مسلمہ تاریخی حیثیت رکھتے تھے اور مسلمانوں کیلئے اپنی تاریخی ہویت کا منہ بولتا ثبوت تھے۔ موجودہ حالات کا اگر جائزہ لیا جائے تو عالمی سامراج امت محمدی کے درمیان اختلاف اور اسلامی امت کے الٰہی مقدسات کی توہین، اور ان کے عقائد کی تضعیف کی غرض سے  باطل فرقہ کو اسلامی ممالک میں پھیلانے کی مذموم کوشش کر رہا ہے، قتل و غارت اور اسلامی مقدسات کی توہین سے بھری ہوئی وہابیوں کی شرمناک تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ اس باطل فرقہ کا مقصد مسلمانوں میں پھوٹ ڈال کر اسلامی عقائد کی بیخ کنی اور استعماری طاقتوں کے ناپاک عزائم کو پایہ تکمیل تک پہنچانا ہے، وہابیت کے کالے کرتوت اس حقیقت کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔

جن مسائل میں وہابیت بہت زیادہ حساس ہے ان میں سے ایک قبور کی تعمیر اور پیغمبروں، اولیاء اور خدا کے نیک و برگزیدہ بندوں کی قبروں پر عمارت بنانا ہے۔ اس مسئلے کو سب سے پہلے ابن تیمیہ کے مشہور و معروف شاگرد ابن القیم  نے چھیڑا اور اولیاء خدا نیز پیغمبروں کی قبروں پر عمارت بنانا حرام قرار دیا، اور ان کے انہدام کا فتوٰی دیا۔ وہ اپنی کتاب "زاد المعاد فی ھدمی خیر العباد کے صفحہ۶۶۱پر لکھتا ہے،" یَجِبُ ھَدْمُ الْمَشاھِدِ الَّتِیْ بُنِیَتْ عَلیٰ الْقبُوْرِ، وَلاَ یَجُوْزُ اِبْقَاءُھَا بَعْدَ الْقُدْرَۃِ عَلیٰ ھَدْمِھَا وَ ابْطَالِھَا یَوْماً وَاحِدا"۔ قبروں پر تعمیر شدہ عمارتوں کو ڈھانا واجب ہے، اگر انہدام اور ویرانی ممکن ہو تو ایک دن بھی تاخیر کرنا جائز نہیں ہے۔ 1344ھ  میں جب آل سعود نے مکہ و مدینہ کے گرد و نواح میں اپنا پورا تسلط جما لیا تو مقدس مقامات، جنت البقیع اور خاندان رسالت مآب (ص) کے آثار کو صفحہ ہستی سے محو کر دینے کا عزم کیا، اس سلسلے میں انہوں نے مدینہ کے علماء سے فتوے لئے تاکہ تخریب کی راہ ہموار ہو جائے۔ نجد کے قاضی القضات ''سلیمان بن بلیہد'' کو مدینہ روانہ کیا تاکہ وہ ان کے من پسند فتوے، علمائے مدینہ سے حاصل کرے، لہٰذا اس نے ان سوالات کو اس طرح گھما پھرا کر پوچھا کہ ان کا جواب بھی انہی سوالات میں موجود تھا، لہٰذا مفتیوں کو یہ سمجھا دیا گیا کہ ان سوالات کے وہی جوابات دیں جو خود ان سوالات میں موجود ہیں ورنہ تمھیں بھی مشرک قرار دے دیا جائے گا۔ سوال اور جوابات مکہ سے شائع ہونے والے رسالہ " ام القراء" ماہ شوال 1344ھ میں منتشر ہوئے۔ مدینہ کے پندرہ علماء سے فتوٰی لینے اور اسے حجاز میں نشر کرنے کے بعد فورا خاندان رسالت کے آثار کو اسی سال آٹھویں شوال کو محو کرنا شروع کر دیا۔ جنت البقیع میں آئمہ علیہم السلام کے روضوں کی گراںبہا اشیاء لوٹ لی گئیں اور قبرستان بقیع ایک کھنڈر اور ویرانے میں تبدیل کردیا گیا۔

سوالات میں سے ایک سوال بطور نمونہ قارئین کے پیش خدمت ہے، جن میں جواب بھی موجود تھا۔ ''سلیمان بلیہد'' اپنے سوال کو یوں بیان کرتا ہے، "کیا فرماتے ہیں علماء مدینہ منورہ کہ جنکے علم و دانش میں خداوند عالم روز افزوں ترقی عطا فرمائے، قبروں پر تعمیر و عمارت اور وہاں مسجد بنانا جائز ہے یا نہیں؟ اگر جائز نہیں ہے اور اسلام نے بڑی شدت سے اس کی ممانعت کی ہے تو کیا انہیں منہدم کرنا اور وہاں نماز پڑھنے سے روکنا ضروری اور واجب ہے یا نہیں؟ کیا بقیع جیسی وقف شدہ زمین پر بنائی گئی قبریں، عمارتیں اور گنبد، جن کی وجہ سے بعض حصوں سے استفادہ نہیں کیا جا سکتا، وقف کے بعض حصہ کے غصب کے مترادف نہیں ہے؟ انہیں جتنا جلدی ہو سکے ختم کیا جائے تاکہ مستحقین پر جو ظلم ہوا ہے رفع ہو جائے۔ اب اگر دیکھا جائے تو سوال، سوال کم ہے جبکہ اس کے اندر جواب موجود ہے اور انداز سے واضح ہے کہ جواب کیا ہونا چاہیئے۔ مدینہ کے علماء نے خوف و ہراس کے عالم میں شیخ  کے سوال کا یوں جواب دیا، "قبروں پر عمارت بنانا، احادیث کی روشنی میں اجماعی طور پر منع ہے اسی لئے بہت سے علماء نے اس کے انہدام کے وجوب کا فتویٰ دیا ہے اور اس سلسلے میں حضرت امام علی علیہ السلام سے ابی الہیاج کی نقل کردہ ایک روایت کا سہارا لیتے ہیں کہ "حضرت علی علیہ السلام نے مجھ سے فرمایا کہ میں تمھیں ایسے کام پر مامور کرتا ہوں جس پر رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مجھے مامور کیا تھا وہ یہ کہ جو تصویر بھی نظر آئے اسے ختم کرو اور جس قبر کو بھی دیکھو اسے برابر کر دو"۔

مرحوم آقا بزرگ تہرانی اپنی کتاب '' الذریعۃ" کی آٹھویں جلد کے صفحہ 261 پر یوں تحریر فرماتے ہیں کہ "وہابی" 15 ربیع الاول 1343ہجری کو حجاز پر قابض ہوئے اور 8 شوال 1343 ہجری کو جنت البقیع میں آئمہ کے مزاروں اور صحابہ کی قبروں کو منہدم کر دیا حالانکہ رسالہ ام القراء نے استفتاء اور جواب کو شوال 1344ہجری میں نشر کیا ہے اور علماء مدینہ کے جوابات کی تاریخ 25 رمضان ذکر کی ہے، لہٰذا یہ کہنا چاہیئے کہ وہابیوں کا قبضہ اور تخریب دونوں ہی 1344ہجری میں انجام پائے۔ مرحوم محسن امین نے ان کے مکمل قبضے اور تخریب جنت البقیع کی تاریخ 1344ہجری ہی لکھی ہے۔ لغت کے اعتبار سے "بقیع" کے لغوی معنی "ایک وسیع و عریض سرزمین ہے کہ جس میں بڑے بڑے درخت اگے ہوئے ہوں"۔ ماضی میں بقیع کے ساتھ (عرقد) لفظ بھی استعمال کیا جاتا تھا کیونکہ اس میں موجود درختوں پر بہت زیادہ کانٹے ہوا کرتے تھے۔ اسلام اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت سے قبل یثرب بالخصوص اوس، خزرج اور دیگر قبائل کے مردے یہاں پر دفن کئے جاتے تھے۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مدینہ کی طرف ہجرت اور بدر و احد کی جنگوں کے بعد آنحضرت نے ان جنگوں کے بعض شہداء کو اس مقام پر دفن فرمایا تھا۔ سرزمین بقیع ایک ایسی سرزمین ہےکہ جس میں بہت سے صحابہ اور اہل بیت عصمت و طہارت کی کچھ شخصیات دفن ہیں۔ امام حسن علیہ السلام وہ پہلے امام ہیں کہ جنہیں اس زمین میں دفن کیا گیا تھا اور ایک نقل کے مطابق اس جگہ پر عقیل کا گھر ہوا کرتا تھا اور جو آہستہ آہستہ وسیع ہوتا گیا اور پھر اس میں امام زین العابدین علیہ السلام، امام محمد باقر علیہ السلام اور انکے بعد امام صادق علیہ السلام بھی اسی سرزمین پردفن کئے گئے۔

آئمہ اطہار علیہم السلام سے پہلے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چچا عباس بھی اس جگہ پر دفن تھے اور آج بھی آئمہ اطہار علیہم السلام کی قبور مطہر کے سامنے ان کی قبر کو دیکھا جا سکتا ہے۔ اسی طرح اسی مقام پر حضرت امیرالمومنین علیہ السلام کی والدہ گرامی حضرت فاطمہ بنت اسد سلام اللہ علیہا سے منسوب ایک قبر بھی موجود ہے، البتہ یہ ساری قبریں تقریبا 37 سے 40 میٹر کے رقبے میں موجود ہیں۔ ایک نقل کے مطابق بقیع میں آئمہ اطہار علیہم السلام کے دفن سے قبل پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دس سے بارہ ہزار سے زائد صحابہ اور تابعین بھی اسی سرزمین میں دفن تھے، بنابریں اس زمین میں اولیائے الٰہی کی قبروں کے پیش نظر اہلبیت علیہم السلام کے چاہنے والے اور اہلسنت بھی اس مقام پر خصوصی توجہ دیتے تھے، وہابیت ان تمام اسلامی آثار کو مٹانے کے درپے تھی کیونکہ بقیع میں موجود آئمہ اطہار علیہم السلام کی قبروں کی علاوہ دیگر بزرگوں کی قبریں بھی موجود تھیں کہ جن پر حملے کئے گئے تھے۔ ان میں حضرت ابوالفضل العباس علیہ السلام کی والدہ گرامی حضرت ام البنین علیہا السلام، امام صادق علیہ السلام کے بیٹے حضرت اسماعیل کی قبر، پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ آلہ وسلم کے اٹھارہ مہینے کے بیٹے حضرت ابراہیم کی قبر بھی موجود تھی کہ جنہیں وہابیوں نے منہدم کردیا تھا، بنابریں اس مطلب پر توجہ دینی چاہیئے کہ وہابیت نہ فقط شیعوں اور اہلبیت علیہم السلام کے چاہنے والوں بلکہ تمام مسلمانوں اور اسلام کی اقدار کی مخالف اور ان سے دشمنی رکھتی ہے، وہ لوگ جنت البقیع کو منہدم کرنے پر اکتفاء نہیں کر رہے تھے بلکہ وہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کےحرم مطہر کو بھی منہدم کرنے کا ارادہ رکھتے تھے لیکن علمائے اسلام، مدینہ کے علماء اور ایران سمیت اسلامی ممالک کے علماء کی مخالفت کی وجہ سے وہ یہ کام انجام نہیں دے سکے۔

البتہ اپنے اس کام کی توجیہ اس طرح بیان کرتے ہیں کہ چونکہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبر ان کی زوجہ کے گھر میں تھی اور اس سے قبل یہ مقام ایک گھر تھا، لہٰذا ہم وہاں پرحملہ نہیں کریں گے اور ہماری مراد وہ قبریں ہیں کہ جن پر بعد میں بارگاہ اور گنبد بنائے گئے ہیں۔ اہلبیت علیہم السلام کی قبور کے علاوہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عظیم صحابی عثمان بن مظعون، فاطمہ بنت اسد، سعد بن معاذ، پیغمبر کے چچا عباس اور حلیمہ سعدیہ کی بھی قبروں کو بھی منہدم کر دیا گیا ہے۔ عثمان بن مظعون پہلے مہاجر تھے کہ جنہوں نے وفات پائی تھی اور روایات کے مطابق آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کے چہرے سے کفن ہٹا کر چہرے پر بوسہ دیا تھا اور اسی طرح سعد بن معاذ بھی وہ عظیم صحابی تھے کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جن کے بارے میں فرمایا تھا کہ سعد، کفار کے گلے کی ہڈی تھے۔ جنت البقیع میں ان تمام بزرگوں کے روضے موجود تھے کہ جنہیں وہابیوں نے منہدم کر دیا تھا۔ وہابیوں نے مدینہ سے باہر بھی اس قسم کے مظالم ڈھائے ہیں کہ جن میں سے ایک مقام احد کا قبرستان تھا اور وہاں پر حضرت حمزہ علیہ السلام کی قبر تھی۔ یہ مقامات، اولیائے الٰہی کی قبریں تھیں اور یہ ایسی شخصیات ہیں کہ جن کی شخصیت اور اہمیت سے چشم پوشی نہیں کی جا سکتی ہے، کیونکہ یہ ایسی شخصیات ہیں کہ جن کی زندگی اور موت کے بعد بھی جن کے وسیلے سے اللہ تعالٰی کی عنایات اور لطف و کرم لوگوں کے شامل حال ہوتا ہے۔ آئمہ اہل بیت علیہم السلام کے علاوہ  دس سے بارہ ہزار صحابہ اور تابعین بھی بقیع میں دفن ہیں کہ جنکے روضوں کو مسمار کر دیا گیا ہے۔

منبع و ماخذ:
1۔ عجائب الآثار، ج3، ص91۔
2۔ عجائب الآثار، ج3، ص 91۔
1۔ البقیع قصۃ التدمیر، ص۱۱۳-۱۳۹؛ بقیع الغرقد، ص 49۔ 
2۔ التاریخ الامین، ص۴۳۱-۴۵۰؛ بقیع الغرقد، ص 12۔
خبر کا کوڈ : 733158
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش