0
Sunday 24 Jun 2018 15:41

انہدام بقیع سے انعدام یمن تک

انہدام بقیع سے انعدام یمن تک
تحریر: فدا حسین عابدی

آٹھ شوال کی تاریخ ایک وحشتناک  جنایت کی یاد دلاتی ہے۔ آج سے ۹۵ سال قبل، ۱۳۴۴ (ھ ج) آل سعود کے حکم پر قبور آئمہ بقیع کو ویران کیا گیا۔ بقیع کو "بقیع الغرقد" کہا جاتا تھا،جس کے معنی ہے "غرقد" کے درختوں کا باغ۔  اس باغ میں قرن سوم، تین شعبان کو مسلمانوں کے وفات یافتہ افراد کی تدفین کا سلسلہ شروع ہوا، انصار سے پہلا مسلمان، اسعد بن زرارہ اور مہاجرین میں سے عثمان بن مظعون دفن ہوئے۔ اس طرح یہ مقام مسلمانوں کا قبرستان قرار پایا۔ پیغمبر اسلامﷺ کے فرزند گرامی حضرت ابرہیم کی رحلت ہوئی تو آنحضرتﷺ نے انہیں بقیع میں دفن کرنے کا حکم دیا اس کے بعد سے سارے مسلمانوں نے ترجیح دی اپنے مردوں کو یہاں دفن کریں اس طرح ۱۴ سو سالوں سے یہ قبرستان  تمام مسلمانوں کے لئے مقدس مقام سمجھا جاتا ہے۔  تاریخی لحاظ سے یہ مقام بہت اہمیت کے حامل ہے "بقیع المرقد" چار آئمہ ہدیٰ (امام حسن مجتبیٰ (ع)، امام علی بن الحسین (ع)، امام محمد باقر(ع)، امام جعفر صادق (ع)) دیگر نبی اکرم ﷺکے خاندان کی  اہم شخصیات، بعض ازواج آنحضرت، اصحاب کرام اور اولیائے عظام کی تدفین کے بعد "جنت البقیع" کہلانے لگا۔
"جنت البقیع"  فقط ایک قبرستان نہیں ہے در حقیقت اسلامی اور عالم اسلام کا ایک عظیم گنجینہ ہے جو یہاں محفوظ ہے۔  آج سے ٹھیک ۹۵ سال قبل آل سعود کے حکم پر "جنت البقیع" کے صدیوں پرانے قبے اور ضریحوں کو ڈھایا گیا اور قبور آئمہ اور دوسری شخصیات کی قبروں کو ویران کرکے زمین بوس  کر دیا گیا۔  اب ایک  قرن سے ان قبروں پر کوئی سائبان تک نہیں ہے۔ ان قبروں پر چراغ تک نہیں جلایا جاتا ہے!

حرم "جنت البقیع" کی تاریخ:
بنی امیہ کے دور میں "جنت البقیع" کو کوئی خاص توجہ نہیں دی گئی لیکن ان کے ظالمانہ دور کے بعد جب بنی عباس کا دور آیا تو "جنت البقیع"  شیعیان اور موالیان اہل بیت ؑ کی توجہ کا مرکز بنا اور قرن پنجم میں اس کی تعمیرات شروع ہوئی۔ قبور آئمہ پر باقاعدہ قبے اور ضریح نصب کئے گئے۔ اس طرح یہ حرم آٹھ سو سال تک ضریح اور قبے کی وجہ سے ایک منفرد مقام کے حامل رہا۔ کہا جاتا ہے سلجوقی کے دور میں مجد الملک کے حکم پر ۴۸۴ سے ۴۹۴ (ھج) تک یہ قبے بنے جس کی طرف نامدار مورخ ابن اثیر نے اشارہ کیا ہے۔ تاریخی شواہد کے مطابق حرم آئمہ بقیع کی پہلی تعمیر (519 ھ ق) خلیفہ عباسی مسترشد باللہ کے حکم پر  ہوا۔ دوسری بار (623 ھ) میں مستنصر باللہ کے زمانے میں تعمیر ہوئی۔ تیرھویں صدی میں  سلطان محمود عثمانی کے دور میں تیسری بار تعمیر ہوئی۔ تاریخ میں حرم بقیع میں ضریح کے نصب کا ذکر  پہلی بار ابن جبیر متوفی 614 ھج نے کی ہے۔  ان کا کہنا ہے کہ" آئمہ اور دوسری شخصیات کی قبریں دوسری قبروں سے سطح زمین سے بلند، لکڑی  سے بنے ہوئی ضریح جو فن و ہنر کا بہترین شاہکار اور نمونہ تھے اور ان پر مس سے بنے ہوئے نقوش اس کی زیبائی اور رونق کو دوبالا کئے ہوئے تھے۔" ابن بطوطہ نے بھی اپنی سفری رویداد میں اس مطلب کی طرف اشارہ کیا ہے۔ سلطنت عثمانی کے دور میں حرم بقیع پر تعمیرات جاری رہی اس طرح گذشتہ ۱۲ سو سال سے "جنت البقیع" کا قبرستان ایک قابل احترام مقام، مسلمانوں کی زیارتگاہ  اور عالم اسلام کی توجہ کا مرکز و محور رہا ہے۔

وہابیت کی ابتدا جنایت کی انتہا!
۱۳ویں صدی میں، حجاز کے سیاسی حالات بدل گئے اور "جنت البقیع"بھی اس کی زد میں آگئی۔ اگر ہم وہابیت کی تاریخی حالات کا جایزہ لینا چاہیں تو پتہ چلتا ہے کہ اس کا ریشہ احمد بن حنبل کے نظریات میں دیکھا جا سکتا ہے۔ تفکر وہابیت کی ابتدائی غذا فقہ حنفی میں تلاش کی جا سکتی ہے۔ جیساکہ ابو الاعلی مودودی نے بھی اس مطلب کی تصریح کی ہے"محمد ابن عبدالوہاب کے پیرو دراصل حنبلی طریقہ کے لوگ ہیں۔ ان کی فقہ اور ان کے عقائد وہی ہیں جو امام احمد بن حنبل کے تھے۔" یہ نظریہ قرن ہشتم میں ابن تیمیہ کے ذریعے احیا ہوا اور قرن ۱۲ میں محمد بن عبد الوہاب کی کوششوں سے پروان چڑھا اور قرن ۱۴ میں باقاعدہ ایک نظریہ فکری و نظام سیاسی  کے عنوان سے  منصہ شہود پر نمودار ہوا۔ وہابیت کا آغاز بدعت کے مقابلے کے نعرہ کے ساتھ ہوا۔ نجد میں ۱۱۱۵ (ھج) کو شیخ محمد بن عبد الوہاب تمام مسلمانوں سے الگ ایک نظریہ کے ساتھ ظاہر ہوا، جس کی بنیاد ان کے عقیدے کے خلاف جو بھی مسلمان عمل کرے وہ بدعتی اور کافر ہے اس کا خون مباح ہے۔ اس کے اس عقیدے کے خلاف سب سے پہلے ان کے اپنے والد عبد الوہاب اور بھائی شیخ سلیمان  اٹھے۔ ان کے بھائی شیخ سلیمان نے اس کے خلاف کتاب بھی لکھی جس کا نام ہے"الصواعق الالہیہ فی رد الوہابیہ"۔ شیخ سلیمان اپنی دوسری  کتاب "فصل الخطاب فی الرد علی محمد بن عبد الوہاب" میں اپنے بھائی کے افکار و نظریات کی سختی سے تردید کرتے ہیں۔ کہا جاتا ہےکہ ایک دن شیخ سلیمان نے اپنے بھائی محمد سے پوچھا اسلام کے ارکان کتنے ہیں؟ انہوں نے جواب دیا، پانچ ہیں۔ سلیمان نے کہا لیکن تم نے انہیں چھ قرار دے دیا ہے! چونکہ تم کہتے ہو جو شخص تمہاری پیروی نہ کرے اور تمہارے افکار و نظریات کو نہ مانے وہ کافر ہے۔ بارہویں صدی ہجری کے بعد سے اب تک عالم اسلام کے شیعہ سنی اکابر علماء نے شیخ محمد بن عبد الوہاب کے افکار و نظریات کی رد میں دسیوں کتابیں لکھی ہیں، اہل مطالعہ ان کی طرف رجوع کرسکتے ہیں۔

ابن وہاب کے نظریات کے اہم نکات مندرجہ ذیل ہیں:
 الف۔ شرک کے ساتھ جنگ، خالص توحید اور سلف صالح کے اسلام کی طرف بازگشت۔
ب۔ تفسیر قرآن، اجتہاد، فلسفہ، عرفان اور نئی انسانی ایجادات کی مخالفت۔
ج۔ دینی عربی خلافت کی حمایت اور عثمانی حکومت کی مخالفت۔
د۔ شیعہ اثنا عشری کے ساتھ دشمنی۔
ابن وہاب اپنے انحرافی نظریات کے پرچار کی بنا پر حجاز سے نکالا گیا اور ایک عرصہ دوسرے شہروں میں اسی انحرافی نظریات کی تقویت اور پرچار کے بعد دوبارہ واپس حجاز آیا اور محمد بن سعود نے اسے اپنے قبیلہ میں پناہ دی۔ محمد بن سعود اور شیخ محمد بن عبد الوہاب کے مابین ایک معاہدہ ہوا جس کے مطابق انہوں نے ملکر حجاز کے ایک وسیع علاقہ پر قبضہ کیا۔ محمد بن عبد الوہاب اس مقبوضہ علاقہ کا قاضی مقرر ہوا۔ محمد بن سعود نے وہابی مذہب کو حجاز کا رسمی مذہب قرار دیا۔  درحقیقت مذہبی جنون اور قدرت کے نے جنون ملکر ایک طاقتور لشکر کی شکل اختیار کی اور حجاز کے مذہبی شہر مکہ و مدینہ پر حملہ آور ہوئے اور تمام مذہبی مقامات کو ویرانہ میں تبدیل کردیا۔ محمد بن سعود کے انتقال کے بعد اس کا بھائی عبدالعزیز بن سعود برسر اقتدار آیا تو اس نے بھی اسی معاہدہ کو برقرار رکھا اور لشکر کشی کا سلسلہ بھی جاری رہا۔

انسویں اور بیسویں قرن میں اسلامی دنیا میں مختلف تحریکیں چلیں۔ سوڈان میں مہدویت، لیبیا میں سنوسی، نائجیریا میں فلافی، اندونیشیا میں پادری اور ہندوستان میں احمدیہ یا قادیانیت  کی تحریکیں قابل ذکر ہے۔ درحقیقت دنیائے اسلام میں ایک یہودی سازش تھی کہ مسلمانوں کے درمیان فکری اور سیاسی انتشار پھیلایا جائے۔ اس ضمن میں برطانیہ کے جاسوس ہمفرے کے اعترافات قابل غور ہیں۔ وہابیت در حقیقت شوم مثلث (برطانیہ، ابن وہاب اور محمد بن سعود) کے گٹھ جوڑ کا نتیجہ ہے۔ ۱۹۳۶ء میں ابن سعود نے حجاز پر حاکمیت کا اعلان کردیا تو مدینہ منورہ پر حملہ کردیا اور راستے میں جتنے مقدس مقامات منجملہ مساجد و ضریح اور قبے آئے سب کو خراب کر دیا لیکن عالم اسلام کی مخالفت اور قیام کے خوف سے حرم پیغمبر کے قبہ کو گرانے کی جسارت نہ کرسکے۔ وہابیوں کی یہ جسارت اور جنایت نے ایک دفعہ عالم اسلام میں ہلچل مچا دی تمام مذاہب اسلامی ان کے خلاف اکٹھے ہوئے لیکن صد افسوس! زمانے کے گزرنے کے ساتھ ساتھ اس اہم مسئلہ کو خاموشی اور سکوت کے حوالہ کردیا گیا۔ وہابیت کا ہدف صرف ایک گروہ یا فرقہ نہیں تھا بلکہ ان کا مقصد عالم اسلام پر کاری ضربہ لگانا تھا۔ جس کا تذکرہ ہمفرے نے اپنے اعتراف میں کیا ہے جس کے اہم نکات یہ ہیں:
1۔ خانہ کعبہ کی ویرانی۔
2۔ خلیفہ عثمانی کی کارفرمانی کی کوشش۔
3۔ مقدس مقامات کے گنبد اور ضریحوں کو خراب اور نابود کرنا۔
4۔ تمام مسلمانوں کے خلاف کفر کا فتوا لگانا۔
5۔ اسلامی ممالک میں ہرج و مرج پھیلانا۔
۶۔ تحریف شدہ قرآن مجید کو منتشر کرنا۔
خانہ کعبہ اور قرآن کے علاوہ باقی تمام اہداف پر وہابیت نے کام کیا اور اپنے پلید مقاصد میں وہ ایک لحاظ سے کامیاب بھی ہوئے لیکن عالم اسلام کے مقابل میں وہ قرآن اور کعبہ پر ہاتھ ڈال نہ سکی لیکن ان کے عقیدے کے مطابق خانہ کعبہ بھی بت کدہ ہے! نعوذ باللہ من  ذالک۔

فرقہ انحرافی وہابیت کی جنایتیں:
وہابیت کی جنایتوں سے تاریخ کے اوراق سیاہ ہیں۔ جب سے یہ فرقہ تشکیل پایا ہے اس کے پیروکاروں کے ہاتھ مسلمانوں کے خون سے رنگین ہے۔ یہ اپنے علاوہ سب کو کافر و بدعتی اور واجب قتل سمجھتے ہیں اور انہوں نے دنیا کو بلاد اسلامی اور بلاد کفر میں تقسیم کر رکھا ہے۔ جو بھی ان کے عقیدے کے مطابق چلے اور ان کے عقاید کو قبول کرے تو وہ مسلمان اور جو بھی اس نظریئے کے خلاف ہو وہ بلاد کفر کے زمرے میں آتا ہے ان سے مقابلہ اور مبارزہ کرنے کو واجب سمجھتے ہیں۔ وہابیت کے وجود میں آنے سے اب تک ان کی جنایات کا سلسلہ جاری ہے۔ ایک سو سال گزرنے کو ہے پوری دنیا میں ان کے قتل و غارت کے داستانیں زبان زد خاص و عام  ہے۔ مکہ و مدینہ پر حملہ اور اس راہ میں رکاوٹ بننے والے ہر شخص اور ہر شہر کو نابود کیا گیا۔ بچوں کو ماؤں کے سینوں پر ذبح کیا گیا۔ حاملہ عورتوں  کے پیٹوں کو چاک کرکے بچوں کو ان کی ماں کے ساتھ قتل کیا گیا۔ کربلا معلٰی پر حملہ کرکے ہزاروں مرد و زن کو قتل کرنے کے علاوہ ان کے مال و دولت کو غارت کیا گیا۔ حرم امام حسین ؑکی بےحرمتی کے بعد اس میں موجود ثقافتی ورثوں اور سونے چاندی دیگر جواہرات جن کی قیمت اربوں میں ہے، بعنوان مال غنیمت غارت کیا گیا۔ اب دنیا میں اسی منحرف فرقے کے ماننے والے مختلف ناموں اور مختلف روپ میں دنیا میں قتل و غارت کا یہ سلسلہ جاری و ساری رکھے ہوئے ہیں۔ اس وقت سوریہ، عراق، افغانستان اور پاکستان ان کے زد میں ہیں۔

اسلام اور نظام اسلام کے نام پر ان کی جنایتوں سے بنی امیہ، بنی عباس، ہٹلر اور ہلاکو خان بھی شرمندہ ہیں۔ البتہ اس وقت یمن کے مظلوم اور کمزور عوام سب سے زیادہ مظلوم واقع ہو رہے ہیں۔ ان کے خلاف ریاستی دہشت گردی ہو رہی ہے۔ یہ بھی قابضین مکہ و مدینہ، حرمین شریفین کے دفاع کے نام پر دنیا کو دھوکہ ے رہے ہیں! درجنوں اسلامی ممالک کا اتحاد بناکر امریکہ و اسرائیل کے اہداف کو پورا کرنے کے لئے اس مظلوم ملت کو ہر طرف سے محاصرہ کیا ہوا ہے۔ اس وقت یمنی عوام سخت دور سے گزر رہے ہیں، الحدیدہ پر حملہ اور اس پر قبضہ کا مطلب یمنی عوام کو غذائی بندش کے ذریعے مروانا ہے۔ یہ واحد راہ ہے جس کے ذریعے یمن دوسری دنیا سے مرتبط ہے۔ یہ راستہ کٹ جانے کے بعد یمن کا دنیا سے تعلق ختم ہوگا اور وہ بھوک اور پیاس سے نابود ہونے کا خطرہ لاحق ہے لیکن یمنی عوام اور خصوصا انصاراللہ نے خارجی اور لشکر فیل کو عبرت شکست سے دوچار کر دیا ہے۔ رپوٹ کے مطابق اس جنگ میں مرنے والوں میں عرب امارات، امریکہ، اسرائیل اور فرانس کے فوجی بھی شامل ہیں، اس کا مطلب ہے دنیا کے استکبار اور تکفیری لشکر ایک بار پھر اکٹھے ہوگئے ہیں۔ لیکن ان شاءاللہ خدا کا وعدہ ایک بار پھر سرزمین حجاز پر پورا ہونے والا ہے۔" يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِن تَنصُرُوا اللَّهَ يَنصُرْكُمْ وَ يُثَبِّتْ أَقْدَامَكُمْ " "کم من فئۃ قلیلۃ غلبت فئۃ کثیرۃ باذن اللہ"

یمن پر حملے کے اہداف:
آل سعود کے ظالم حکمران عالم اسلام کو دھوکہ دینے کے لئے حرمین شریفین کی حفاظت اور دوسرے ممالک کو جمہوری اور قانونی صدر کی حکومت کی بحالی کا جھانسہ دینے کی کوشش کی ہے لیکن دنیا جانتی ہے اس کے پشت پردہ کیا کیا اہداف پنہان ہیں؟ آل سعود اپنے ہمسایہ میں یمن کے عوام کو ہمیشہ کمزور کر کے اپنی غلامی کی زنجیروں میں جکڑ کر رکھنا چاہتا ہے، اسی لئے علی عبداللہ صالح کی کٹھ پتلی حکومت کی چار عشرے سے پشت پناہی کرتے رہے لیکن وہ عوامی طاقت کے سامنے ٹہر نہ سکا تو ایک اور مستبد کو اپنی جگہ پر بٹھا کرخود گیا۔ اس کے خلاف بھی عوام اٹھے تو وہ بھی سعودی عرب بھاگ گئے۔ منصور ہادی عبدربہ  قانونی طور استعفٰی دیکر گیا تھا تو وہ آئینی طور پر صدر نہ رہا اس کے باجود سعودی حکمران اس کی حکومت کی بحالی کے بہانے یمنی مظلوم عوام پر تین سالوں سے ہوائی اور زمینی حملے کر رہے ہیں اور اب الحدیدہ میں ظلم و بربریت کی انتہا ہورہی ہے۔ اس حد تک کے مظالم کے پیچھے کیا اہداف ہیں اور حقوق بشر کے علمبردار کیوں خاموش ہیں؟ یہ ایک اہم سوال ہے! در حقیقت سعودی حکومت ایک آلہ کار ہے اس کے پس پردے استکباری قوتوں خصوصا امریکا کے  مندرجہ ذیل اہداف ہیں:
۱۔ اسرائیل کی امنیت کی حفاظت۔
2۔ یمن میں بیداری اسلامی کو روکنا۔
۳۔ انقلاب یمن کو اصلی اہداف سے ہٹانا۔
۴۔ یمن میں موجود تیل کے ذخیروں پر قبضہ جمانا۔
۵۔ انصار اللہ کے انقلابی تفکر روکنا۔
۶۔ انقلاب اسلامی کے پیغام  پھیلنے سے روکنا۔
۷۔ مکتب اہل بیت اور تشیع کے افکار کو روکنا۔
۸۔ آل سعود کے اثر و رسوخ کو قائم رکھنا۔

آل سعود کی شکست کے اسباب:
آل سعود نے یہ خیال کیا تھا کہ یمن کے عوام نہتے ہیں اور وہ خود سر سے پیر تک مسلح، استکباری قوتوں کی پشت پناہی، ۴۲ اسلامی ممالک کا اتحاد اور سب سے بڑھ کر حرمین شریفین کی حفاظت کا بہانہ۔ اس بنا پر انہوں نے سوچا تھا کہ زیادہ سے زیادہ ایک مہینہ کے اندر وہ یمن کو فتح کرلیں گے اور یمن کے مجاہدین کو زمین بوس کرلیں گے۔ یہ سارے خام خیال، ثابت ہوئے! یمنیوں نے ایسی جرات اور استقامت کا مظاہرہ کیا کہ آل سعود اور اس کی پشت پناہی کرنے والوں نے سوچا تک بھی نہیں تھا۔ یہ بات صاف ظاہر ہے آل سعود اور اس کی پشت پناہی کرنے والے عراق اور شام کی طرح یمن میں ذلیل ہوں گے۔ یمنی مستضعفین کے ہاتھوں ان کی ناک زمین پر رگڑ دی جائیگی۔ یہ خدا کا وعدہ ہے روی زمین پر آخر میں کمزورں کا راج ہوگا۔ " وَ نُرِيدُ أَن نَّمُنَّ عَلَى الَّذِينَ اسْتُضْعِفُوا فِي الْأَرْضِ وَ نَجْعَلَهُمْ أَئِمَّةً وَ نَجْعَلَهُمُ الْوَارِثِينَ" وعدہ الٰہی اور قانون الٰہی ہے استقامت اور حق کی ہمیشہ جیت ہوگی اور یہ وعدہ الٰہی ایک بار پھر یمن میں پورا ہوتا ہوا دیکھ رہے ہیں انشاءاللہ۔

آخر ہماری کیا ذمہ داری ہے؟
ایک انسان ہونے کے ناطے یمن میں انسانیت کا قتل ہو رہا ہے اس قتل عام سے روکنا تمام انسانوں کی ذمہ داری ہے"من قتل نفسا فقد قتل الناس جمیعا و من احیاھا فقد احیا الناس جمیعا" اسلامی نقطہ نظر سے سے دیکھا جائے تو قاتل اور مقتول و ظالم اور مظلوم دونوں ظاہرا مسلمان ہیں تو ظالم کو ظلم سے روکنا اور مظلوم کی حمایت کرنا واجب ہے۔ "وَلَا تَقْتُلُوا النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللَّهُ إِلَّا بِالْحَقِّ  وَمَن قُتِلَ مَظْلُومًا فَقَدْ جَعَلْنَا لِوَلِيِّهِ سُلْطَانًا فَلَا يُسْرِف فِّي الْقَتْلِ  إِنَّهُ كَانَ مَنصُورًا" جیسا کہ امیرالمؤمنین نے فرمایا:"کونا لظالم خصما وللمظلوم عونا" اس وقت ہم اور کچھ بھی نہ کرسکے تو ان مظلومین کی کامیابی اور ظالمین کی نابودی کے لئے دعا کر سکتے ہیں۔ یمن کے مظلومین کی آواز دنیا کو پہنچانے کے لئے سوشل میڈیا سے استفادہ کرسکتے ہیں۔ سیمنار اور مختلف کانفریس کے انعقاد کے ذریعے ان کی مظلومیت کا پرچار کرکے عالمی ضمیروں کو جھنجوڑنے کی کوشش کرسکتے ہیں۔ مظلومین یمن کے حق میں جلسے اور جلوس نکال کر ان کی حمایت کا اظہار کرنے کی ضرورت ہے۔ یوم انہدام بقیع یوم قدس اور یوم کشمیر کی طرح "عالمی یوم انہدام جنت البقیع" کے عنوان سے منانے کی ضرورت ہے۔ خدائے منان مظلومین عالم کا ناصر و حامی ہو انشااللہ۔
خبر کا کوڈ : 733312
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش