0
Sunday 24 Jun 2018 22:35

یمن۔۔۔۔ایک نہ ختم ہونیوالی جنگ

یمن۔۔۔۔ایک نہ ختم ہونیوالی جنگ
تحریر: نذر حافی
nazarhaffi@gmail.com


محل وقوع کے اعتبار سے یمن سعودی عرب کے جنوب میں، عمان کے مغرب میں، بحیرہ احمر کے مشرق میں اور خلیج عدن کے شمال میں واقع ہے۔ یہ مغربی ایشیاء میں مشرقِ وسطیٰ کا دو کروڑ آبادی پر مشتمل انتہائی اہم ملک ہے۔ موجودہ صدی میں مصر کے جمال عبدالناصر نے  بھی 1962ء میں یمن پر حملہ کرکے وسیع پیمانے پر انسانی قتلِ عام کیا تھا، لیکن وہ تو ہمارا ہیرو ٹھہرا، لہذا ہم کیوں اس کے خلاف بولتے، اسی طرح 1994ء میں شمالی اور جنوبی یمن کے درمیان زبردست کشت و کشتار ہوئی، لیکن عالمی برادری کو اس سے کیا غرض ہوسکتی ہے۔ یمن کے رہنے والوں کا قصور یہ ہے کہ یمن کی پٹرول اور گیس سے لبریز 1800 کلو میٹر سرحد سعودی عرب کے ساتھ ملتی ہے۔ اس کے علاوہ باب المندب کا دریائی علاقہ جنوب کی طرف سے دریائے احمر کو  خلیج عدن اور اوقیانوس ہند سے جوڑتا ہے، یوں سعودی عرب، افریقا اور مصر کی شہ رگ اس کے کنٹرول میں ہے۔ یہ کوئی وہابی و شیعہ یا دیوبندی و زیدی یا نجدی و حوثی کا مسئلہ نہیں بلکہ معدنی ذخائر کی خاطر مضبوط ممالک کی ایک کمزور ملک پر جارحیت ہے۔ یمن میں آبادی کے لحاظ سے 50 فی صد شافعی اہل سنت ہیں جبکہ 40 فی صد شیعہ ہیں اور اس کے علاوہ  اسماعیلی اور صوفی مسلک کے لوگ بھی پائے جاتے ہیں۔

حوثیوں کی تحریک کا آغاز 1990ء میں سید حسین الحوثی کے ہاتھوں سے ہوا۔ 2005ء میں حکومت یمن نے اس تحریک پر کاری ضرب لگائی اور اس کے بانی کو شہید کر دیا، اس کے بعد سید حسین الحوثی کے والد بدرالدین حوثی نے اپنے بیٹے کے راستے پر سفر جاری رکھا اور اپنی وفات تک اس پر کاربند رہے، ان کی وفات کے بعد سید حسین کے بھائی سید عبدالمالک حوثی نے اس ذمہ داری کو سنبھالا۔ یاد رہے کہ ماضی میں سعودی عرب یمن کو قطر کی طرح اپنی بغل بچہ بادشاہت کے طور پر دیکھتا تھا۔ سعودی عرب کا منصوبہ تھا کہ داعش اور القاعدہ کے اسٹریکچر کو یمن میں مضبوط کیا جائے، جیسے ماضی میں افغانستان و روس کی جنگ میں پاکستان کی سرزمین اور لوگوں کو استعمال کیا گیا تھا۔ بالکل اسی طرح مشرقِ وسطیٰ میں یمن کو بھی استعمال کرنے کا ارادہ تھا، سعودی عرب کے اس منصوبے کو  یمنی حکومت نے تو قبول کر لیا لیکن حوثیوں نے اس منصوبے کی مخالفت کی اور اپنے ملک کو غیروں کے لئے استعمال نہ ہونے دینے پر اصرار کیا۔ یمن کے سابق صدر علی عبداللہ صالح نے صورتحال کی نزاکت کو بھانپتے ہوئے سعودی عرب کا دورہ کیا اور ملک عبداللہ کو درپیش مشکلات سے آگاہ کیا، چنانچہ حوثیوں کو کچلنے کے لئے سعودی عرب نے القاعدہ کے لشکر یمن بھیجے اور یوں یمن میں ایک خانہ جنگی شروع ہو گئی۔

 بعد ازاں اس خانہ جنگی سے سعودی عرب کو اپنے مقاصد پورے ہوتے نظر نہیں آئے تو سعودی عرب مستقیماً اس جنگ میں کود پڑا۔ یمن کے سابق صدر علی عبداللہ صالح  1997ء میں یمن کے صدر بنے، انہوں نے ایسے وقت میں یمن کی صدارت سنبھالی کہ جب ان سے پہلے یمن کے دو صدور ایک سال سے بھی کم عرصے میں دہشت گردی کا شکار ہوگئے تھے۔ علی عبداللہ صالح نے تمام تر مشکلات کے باوجود 23 سال تک یمن پر حکومت کی۔ 1990ء سے پہلے وہ صرف شمالی یمن کے صدر تھے، تاہم انہوں نے شمالی اور جنوبی یمن کو متحد کرنے میں کامیابی حاصل کی اور 1994ء میں یمن کی داخلی جنگ کو آسانی سے نمٹانے میں بھی  کامیاب ہوگئے،  اس کے بعد 1999ء کے انتخابات میں  متحدہ یمن کے پہلے صدر منتخب ہوئے۔ 2011ء میں عوامی جلسوں اور احتجاجات کے پیشِ نظر انہوں نے اپنی صدارت سے استعفٰی دے دیا، انہوں نے کچھ عرصہ اپنے تعلقات حوثیوں کے ساتھ بھی اچھے رکھے، لیکن  1990ء کے بعد انہوں نے سعودی عرب کے ساتھ اپنے تعلقات مضبوط کرنے شروع کر دیئے۔ موصوف نے  ایک سیاسی چال کے طور پر عبدربه منصور هادی کے مقابلے میں کچھ عرصہ انقلابیوں کی زبانی حمایت بھی کی، لیکن پھر کھلم کھلا سعودی عرب کو ہی اپنا سیاسی قبلہ بنا لیا اور انقلابیوں کی مخالفت شروع کر دی۔ بعد ازاں 4 دسمبر 2017ء کو انہیں قتل کرد یا گیا۔

اس وقت یمن پر سعودی حملے کے مندرجہ ذیل اہداف ہیں:
1۔ یمن کو سعودی عرب کا بغل بچہ بنا کر یمن کی سرزمین کو دہشت گردوں کی جنت کے طور پر استعمال کیا جائے۔
2۔ مشرقِ وسطیٰ کی تمام عرب ریاستوں کو امریکہ کی قیادت میں متحد کیا جائے۔
3۔ خطے سے ایران اور حزب اللہ کا رعب ختم کیا جائے۔
4۔ یمن کے معدنی ذخائر پر سعودی عرب کا مکمل تسلط قائم کیا جائے۔
یہ جنگ کسی طور پر بھی دینی و مذہبی نہیں ہے بلکہ ایک آزاد اور خود مختار ملک کے خلاف استعماری مفادات کی تکمیل کے لئے ننگی جارحیت ہے۔ جب تک دنیا، استعمار کے خلاف ردعمل نہیں دکھاتی، یہ جنگ جاری رہے گی۔ جو اقوام آج خاموشی کے ساتھ یمن کا تماشا دیکھ رہی ہیں، انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ استعمار کا پیٹ کسی ایک ملک کو ہڑپ کرنے سے نہیں بھرتا، آج اگر یمن پر بارود کی بارش ہو رہی ہے تو کل کو کسی اور کی باری آئے گی۔
خبر کا کوڈ : 733406
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش