0
Tuesday 26 Jun 2018 13:45

یمن میں کوئی انسان نہیں رہتا

یمن میں کوئی انسان نہیں رہتا
تحریر: نذر حافی
nazarhaffi@gmail.com


ریاض، سعودی عرب کا دارالحکومت ہے، جی ہاں یہ وہی مقام ہے، جہاں کچھ عرصہ پہلے مسٹر ٹرمپ اور شاہ سلمان نے ایک دوسرے کی بانہوں میں بانہیں ڈال کر رقص کیا تھا۔ گذشتہ روز انصاراللہ یمن نے ریاض پر متعدد بیلسٹک میزائل داغے، انصار اللہ کے مطابق تمام میزائل ہدف پر لگے جبکہ سعودی ذرائع کے مطابق حملہ ناکام بنا دیا گیا۔ ہم جانتے ہیں کہ حالتِ جنگ میں اس طرح کی متضاد اطلاعات معمول کی بات ہیں۔ انصاراللہ کے زیر کنٹرول المسیرہ ٹی وی کے مطابق میزائلوں نے اپنے اہداف کو درستگی کے ساتھ نشانہ بنایا ہے۔ اسی طرح برطانوی خبر رساں ادارے کے مطابق ریاض کے اوپر فضا میں زبردست روشنی کے ساتھ چھ زوردار دھماکے ہوئے اور متعدد مقامات سے دھواں بھی اٹھتے ہوئے دکھائی دیا۔ یاد رہے کہ یہ دسمبر 2017ء سے اب تک ریاض پر ہونے والا چھٹا میزائل حملہ ہے۔

قابلِ توجہ بات یہ ہے کہ یہ میزائل حملہ ایک ایسے وقت میں کیا گیا ہے، جب یمن کی مغربی بندرگاہ الحدیدہ پر متحدہ عرب امارات کی قیادت میں سعودی اتحاد کا ایک بڑا حملہ جاری ہے اور اس حملے کو سنہری فتح کا نام دیا گیا ہے۔ 13 جون 2018ء سے الحدیدہ پر جاری اس حملے میں ابھی تک سعودی اتحاد سوائے انسانی جانوں کے زیاں کے اور کوئی ہدف پورا نہیں کرسکا، لیکن دوسری طرف انصاراللہ کے میزائل ریاض کی فضاوں میں پھٹ چکے ہیں، عرب ٹی وی کے مطابق متحدہ عرب امارات کے وزیر مملکت برائے خارجہ امور انور قرقاش نے حوثیوں کے اسلحہ اور ان کے ماہر نشانہ بازوں کے بارے میں سامنے آنے والی رپورٹس کے بعد ٹوئٹر پر جو متعدد ٹویٹس کئے ہیں، ان سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس وقت سعودی اتحاد کے اوسان خطا ہوچکے ہیں۔

سعودی عرب نے اب تک شام، عراق، بحرین اور یمن میں جہاں بھی مداخلت کی ہے، وہاں عمارتوں کے کھنڈرات اور انسانی لاشوں کے سوا کسی مقصد کو حاصل نہیں کیا ہے، یا بنی نوعِ انسان کو کوئی فائدہ نہیں پہنچایا ہے۔ اس وقت پوری دنیا میں سعودی عرب کے تیار شدہ القاعدہ، طالبان اور داعشی ٹولے بری طرح ناکام اور پسپا ہوچکے ہیں۔ سعودی اتحاد اپنی سابقہ شکستوں کی روشنی میں یہ بخوبی جانتا ہے کہ وہ یمن پر اپنا تسلط کسی صورت بھی قائم نہیں کرسکتا، تاہم مغرب اور خصوصاً امریکہ کو مطمئن کرنے کے لئے اس نے اس وقت یمن کو تختہ مشق بنا رکھا ہے۔ دوسری طرف اب امریکہ و مغرب کو بھی اچھی طرح معلوم ہے کہ سعودی اتحاد کی کارروائیوں سے کوئی کامیابی حاصل ہونے والی نہیں۔ چنانچہ یمن پر حملے کے حوالے سے خود امریکہ و مغرب پر بھی مایوسی کی کیفیت طاری ہے۔ سعودی عرب کے سامنے مندرجہ ذیل اہم اہداف ہیں، جو جنگ کے ذریعے کسی طور بھی پورے ہوتے دکھائی نہیں دے رہے:
1۔ یمن کو سعودی عرب کا بغل بچہ بنا کر یمن کی سرزمین کو دہشت گردوں کی جنت کے طور پر استعمال کیا جائے۔
2۔ مشرقِ وسطیٰ کی تمام عرب ریاستوں کو امریکہ کی قیادت میں متحد کیا جائے۔
3۔ خطے سے ایران اور حزب اللہ کا رعب ختم کیا جائے۔
4۔ یمن کے معدنی ذخائر پر سعودی عرب کا مکمل تسلط قائم کیا جائے۔

اربابِ دانش جانتے ہیں کہ جنگ مزید تباہی و بربادی تو پھیلا سکتی ہے، لیکن اس سے سعودی اتحاد کو کوئی کامیابی ملنے والی نہیں، اب سعودی عرب ایک ایسی مشکل میں گرفتار ہے کہ وہ نہ ہی تو یمن میں آسانی کے ساتھ ٹھہر سکتا ہے اور نہ ہی یمن سے باعزت طور پر نکل سکتا ہے، سعودی عرب اگر دیگر ممالک کی طرح یمن سے بھی شکست خوردہ ہوکر نکلتا ہے تو ساری دنیا خصوصاً امریکہ و مغرب کی نگاہوں میں اس کی رہی سہی ساکھ بھی ختم ہو جائے گی اور دوسرا مسئلہ جو کہ اس سے بھی بڑا ہے، وہ یہ ہے کہ اب سعودی عرب کے پیچھے ہٹنے سے انصاراللہ رسماً پورے یمن کی مالک بن جائیگی اور سعودی اتحاد کے مقاصد کے برعکس منطقے میں ایران اور حزب اللہ کی مقبولیت میں مزید اضافہ ہوگا۔ ریاض کی فضاوں میں پھٹتے ہوئے میزائل جہاں سعودی عرب کی شکست پر مہر تصدیق ثبت کرتے ہیں، وہیں اقوامِ عالم کو بھی اپنا فریضہ انجام دینے کی یاد دہانی کراتے ہیں۔ سعودی اتحاد کی اس رسوائی اور پسپائی کے عالم میں عالمی برادری کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ یمن میں بسنے والے دو کروڑ  سے زائد انسانوں کی حفاظت کے لئے آواز بلند کرے۔ یمن میں اس وقت جو انسانیت سوز حالات ہیں، ان کے پیشِ نظر عالمی برادری کو یا تو بھرپور احتجاج کرنا چاہیے اور یا پھر یہ اعلان کر دینا چاہیے کہ یمن میں کوئی انسان نہیں رہتا۔
خبر کا کوڈ : 733757
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش