0
Wednesday 27 Jun 2018 17:19

حدیدہ، پانچ ممالک کی افواج کو ایک قوم سے شکست

حدیدہ، پانچ ممالک کی افواج کو ایک قوم سے شکست
تحریر: ڈاکٹر سعداللہ زارعی

حدیدہ کی جنگ آہستہ آہستہ ایک "جنگ کے معیار" میں تبدیل ہوتی جا رہی ہے۔ کئی ممالک کی ایک قوم کے خلاف محدود علاقے میں جنگ لیکن اس کے باوجود فتح اس قوت کو نصیب ہوتی ہے جسے اصولی طور پر شکست کا سامنا کرنا چاہئے تھا! الحدیدہ کی جنگ ایک نئی تشکیل پانے والی فوجی طاقت کے خلاف پانچ افواج کا شدید اور جدید معرکہ تھا۔ جدید ہتھیاروں کی ہاتھ سے بنے قدیمی ہتھیاروں کے خلاف جنگ اور نمرودوں اور قارونوں کی ننگے پاوں اویس قرنیوں کے خلاف جنگ ہے۔ ایک مظلوم قوم کے خلاف شان و شوکت کے حامل عالمی اور علاقائی آرمی اسٹافس، تنظیموں اور اداروں کی جنگ ہے۔ اس کے باوجود ایک ارادے کے تحت یہ طے پایا کہ جدید افواج اور اسلحہ جات ایک مومن اور مجاہد گروہ کے مقابلے میں مغلوب واقع ہوں۔ حدیدہ کی جنگ درحقیقت ایک "جنگ کا معیار" ہے جس نے بہت سے سوالات کا جواب فراہم کر دیا ہے۔ اس بارے میں چند اہم نکات درج ذیل ہیں:
 
1)۔ تازہ ترین اندازے کے مطابق اس وقت سعودی، اماراتی، امریکی، برطانوی اور فرانسیسی افواج اور دیگر ممالک سے کرائے کے فوجیوں کی کم از کم 6 ڈویژنز یا دوسرے الفاظ میں 20 بریگیڈز صوبہ حدیدہ کے عوام کے سامنے کھڑے ہیں۔ ان کا مقصد یمن کے اس ساحلی صوبے کا رابطہ شمالی حصے سے کاٹنا ہے تاکہ اسے یمن میں فرقہ وارانہ جنگ شروع کرنے کیلئے استعمال کر سکیں۔ البتہ انہوں نے جتنی کوشش کی اس مقصد کے حصول میں ناکامی کا شکار رہے۔ سعودی، اماراتی اور ان کے حامی حکام کا خیال تھا کہ جب صوبہ حدیدہ کے شافعی اہلسنت مسلمانوں پر جنگ تھونپی جائے گی تو وہ انصاراللہ سے دور ہو جائیں گے اور مخالفین کی صف میں شامل ہو جائیں گے۔ یہ حکام اس باطل خیال کا شکار تھے کہ شافعی اہلسنت مسلمانوں کی انصاراللہ سے وابستگی صرف سیاسی حد تک ہے اور اس میں گہرائی نہیں پائی جاتی۔ لہذا وہ توقع کر رہے تھے کہ جنگ کے پہلے ہفتے میں ہی صوبہ حدیدہ میں انصاراللہ کے خلاف عوامی احتجاج شروع ہو جائے گا اور یہ اسٹریٹجک صوبہ ملک کے شمالی حصے سے جدا ہو جائے گا یا کم از کم انصاراللہ اور صوبہ حدیدہ کے باشندوں کے درمیان خانہ جنگی شروع ہو جائے گی جس کے نتیجے میں یہ خانہ جنگی ملک کے دیگر ایسے سات صوبوں تک بھی پھیل جائے گی جہاں شافعی اہلسنت مسلمانوں کی اکثریت آباد ہے۔
 
ہمیں ایسی خبریں موصول ہوئی ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ سعودی حکام نے ایسی متوقع صورتحال سے بہت امیدیں وابستہ کر رکھی تھیں۔ انہوں نے اسی بنیاد پر سیکرٹری جنرل اقوام متحدہ کا نمائندہ کہلوانے والے اور درحقیقت امریکہ، برطانیہ اور فرانس کے نمائندے مارٹن گریفیتھس سے یہ کہا تھا کہ ایک دو ہفتے تک انصاراللہ ایسی بری صورتحال کا شکار ہو گی کہ اسے جو پیشکش کی جائے گی آسانی سے قبول کر لے گی۔ لیکن سعودی حکام کی توقعات کے برعکس صوبہ حدیدہ کی عوام نے پانچ ممالک کی جارحیت کے خلاف ڈٹ کر مقابلہ کیا اور اس صوبے کو دشمن کے مقابلے میں ایک مضبوط مورچے میں تبدیل کر ڈالا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان کی جانب سے اپنی سرزمین کا دفاع انصاراللہ یا کسی دوسرے گروہ سے سیاسی معاہدے پر منحصر نہیں بلکہ یہ دفاع ان کے اعتقادات پر استوار ہے۔ ان کیلئے اہم ہے کہ اس صوبے پر کس کی حکمرانی ہو، انصاراللہ یمن کی، سعودی عرب کی یا سیکرٹری جنرل اقوام متحدہ کی۔ لہذا الحدیدہ کے شافعی اہلسنت باشندوں کی جانب سے بیرونی جارحیت کا شجاعانہ انداز میں مقابلہ کرنا درحقیقت ایک ساتھ دو قسم کے موقف کا اظہار تھا؛ انصاراللہ یمن کی حمایت اور اس کی آواز پر لبیک کہنا اور دوسری طرف سعودی رژیم کی مخالفت اور اس کی آرزووں پر پانی پھیرنا۔
 
اگر الحدیدہ کی عوام نے صرف سیاسی حد تک انصاراللہ سے الحاق کیا ہوتا تو سخت حالات میں جب انصاراللہ کا ساتھ دینے کی بھاری قیمت چکانے کی باری آتی تو وہ پانچ طاقتور ممالک اور افواج کی جارحیت سے محفوظ رہنے کیلئے انصاراللہ کا ساتھ چھوڑ کر سعودی رژیم کے ساتھ مل جاتے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ انہوں نے جارح قوتوں کے مقابلے میں بھرپور مزاحمت کا مظاہرہ کر کے آل سعود رژیم کو نہ کا پیغام دیا ہے۔ یمن کے صوبہ حدیدہ کی غیرت مند عوام اپنی سرزمین پر مغربی جارح قوتوں اور کرپٹ عرب قارونوں کا قبضہ برداشت نہیں کر سکتی۔ الحدیدہ کی عوام اس سے پہلے ایک بار اس غلطی کا ارتکاب کر چکی ہے جب 1960ء سے 1967ء تک مصر کے مقابلے میں اور اسی طرح ڈیڑھ سو سال پہلے عثمانی افواج کے مقابلے میں مزاحمت نہیں کی اور یہ ساحلی علاقہ ان کے حوالے کر دیا۔ لیکن اب وہ گذشتہ تین سال سے سعودی جارحیت کا ڈٹ کر مقابلہ کر رہے ہیں اور خاص طور پر گذشتہ چند ہفتوں کے دوران انہوں نے پانچ مغربی اور عرب ممالک کی فوجی جارحیت کے مقابلے میں حدیدہ شہر کو مضبوط قلعہ بنا رکھا ہے۔
 
2)۔ حدیدہ کے شافعی فرقے سے تعلق رکھنے والے اہلسنت مسلمانوں کی جانب سے پانچ جارح افواج کے مقابلے میں شاندار مزاحمت نے اس غیر انسانی جنگ کو ایک مذہبی اور فرقہ وارانہ جنگ میں تبدیل ہونے سے بچانے کے ساتھ ساتھ یہ بھی ثابت کر دیا ہے کہ انصاراللہ یمن شافعی اہلسنت عوام کے اندر بھی بہت زیادہ محبوبیت کی حامل ہے۔ "مجلس علماء شافعی حدیدہ" کی جانب سے حدیدہ کی عوام کو جارح قوتوں کے مقابلے میں مزاحمت اور جہاد کی دعوت دی گئی تھی جس کے نتیجے میں حدیدہ شہر اور اردگرد دیہاتوں میں اںصاراللہ کے حق میں اور مغربی عربی محاذ کے خلاف وسیع پیمانے پر عوامی احتجاجی مظاہرے برپا ہوئے۔ اسی طرح یمن میں یوم القدس کی مناسبت سے ریلی میں لاکھوں افراد کی شرکت سے ظاہر ہوتا ہے کہ یمنی عوام متحد ہو کر انصاراللہ کی حمایت میں مصروف ہے۔ یہ امر یمنی عوام کے گہرے شعور اور مذہبی جوش و جذبے کا عکاس ہے۔ صوبہ حدیدہ اور اس کے اردگرد واقع صوبوں میں مقیم شافعی اہلسنت مسلمان اچھی طرح اس حقیقت سے آگاہ ہیں کہ اگر یمن اس جنگ میں شکست کھا جاتا ہے تو ان کا ملک ایک لمبے عرصے کیلئے آل سعود کے تسلط میں چلا جائے گا۔ حدیدہ میں مقیم افراد خود کو اصل عرب اور "قحطانی عرب" کے بانیوں میں شمار کرتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ خطے اور اس کے آس پاس موجود عرب باشندوں کی اصل اور اساس وہ ہیں لہذا سعودی رژیم کے تسلط کو اپنے لئے ذلت تصور کرتے ہیں۔ یمنی عوام خاص طور پر حدیدہ کی عوام کا خیال ہے کہ موجودہ سعودی حکمران نسلی اعتبار سے ان سے پست درجے کے ہیں لہذا انہیں یمنی عوام پر حکمرانی کرنے کا کوئی حق حاصل نہیں۔
 
3)۔ جنگ کے تناظر میں یہ کہنا درست ہو گا کہ سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، امریکہ، برطانیہ اور فرانس کا پانچ رکنی اتحاد بحیرہ احمر کی سکیورٹی صورتحال کو شدید متاثر کر چکا ہے۔ انصاراللہ نے گذشتہ تین سالوں کے دوران ہمیشہ اس بات پر زور دیا ہے کہ وہ اس اہم بین الاقوامی آبی گزرگاہ میں امن و امان کو اپنی ذمہ داری سمجھتی ہے اور اس میں کسی قسم کی فوجی کاروائی سے پرہیز کرے گی۔ لیکن سعودی امریکی فوجی اتحاد نے حدیدہ میں شدید فوجی کاروائی کر کے بہت بڑی اسٹریٹجک غلطی کا ارتکاب کیا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس جنگ میں یا تو سعودی امریکی اتحاد کامیاب ہو گا یا انصاراللہ یمن۔ اگر اس جنگ میں انصاراللہ یمن کامیاب ہو جاتی ہے جس نے اب تک بھرپور مزاحمت کا مظاہرہ کیا ہے تو وہ بحیرہ احمر کی سکیورٹی صورتحال سے متعلق اپنی پالیسی پر نظرثانی کرے گی جس کے نتیجے میں سعودی اتحاد کو بھاری تاوان دینا پڑے گا۔ دوسری طرف اس سے انصاراللہ یمن کی طاقت میں بھی اضافہ ہو جائے گا۔
 
اور اگر حدیدہ کی جنگ میں سعودی امریکی فوجی اتحاد کامیاب ہو جاتا ہے انصاراللہ پسپائی اختیار کرنے پر مجبور ہو جاتی ہے تو ایسی صورت میں انصاراللہ یمن یقینی طور پر بحیرہ احمر سے متعلق زیادہ شدید حکمت عملی اختیار کرے گی۔ اس صورت میں انصاراللہ یمن کیلئے بحیرہ احمر میں تجارتی بحری جہازوں کی آزاد نقل و حرکت کی کوئی اہمیت نہیں رہے گی اور وہ کھل کر اس آبی گزرگاہ میں فوجی کاروائیاں انجام دے گی۔ اگر الحدیدہ شہر پر سعودی امریکی اتحاد کا قبضہ ہو جاتا ہے تو انصاراللہ یمن یقینی طور پر بحیرہ احمر میں بحری جہازوں کی آزاد آمدورفت میں رکاوٹ ڈالنے کی کوشش کرے گی اور یہ اس کا فطری حق بھی بنتا ہے۔ ایسی صورت میں فرانسیسی، برطانوی اور امریکی جنگی کشتیاں جن کی تعداد 30 سے زیادہ ہے بحیرہ احمر میں آمدورفت کے قابل نہیں رہیں گی۔ آئل ٹینکرز کی عظیم جسامت کے باعث ان کی آمدورفت کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ لہذا حدیدہ میں مغربی اور عرب ممالک کی فوجی جارحیت انتہائی احمقانہ ہے جس کا خود انہیں بہت زیادہ نقصان اٹھانا پڑے گا۔ گذشتہ چند ماہ کے دوران انصاراللہ یمن نے سعودی عرب کی طرف جو میزائل فائر کئے ہیں ان کی رینج 150 کلومیٹر سے بھی زیادہ ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ بحیرہ احمر کا ہر نکتہ انصاراللہ یمن کے میزائلوں کی رینج میں ہو گا۔
 
4)۔ جنگ کا نتیجہ ان بہادر جوانوں کا عزم اور ارادہ تعین کرے گا جو اپنی سرزمین اور عزت کے دفاع کیلئے مسلح جدوجہد میں مصروف ہیں۔ وہ جنگجو جو سعودی اور اماراتی ڈالر حاصل کرنے کیلئے میدان جنگ میں اترے ہیں، چاہے سوڈان سے ہوں چاہے امریکہ، برطانیہ اور فرانس کی اسپشل فورسز کے افراد ہوں، اس جنگ پر یقین نہیں رکھتے اور انصاراللہ یمن سے دشمنی اور کینہ بھی نہیں رکھتے۔ یہ افراد اپنے کمانڈرز کو کرپٹ سمجھتے ہیں اور اپنی جان قربان کرنے کے خواہاں نہیں۔ دوسری طرف انصاراللہ کے حامی زیدی اور شافعی مجاہدین سعودی عرب اور اس کے مغربی اتحادیوں کے خلاف لڑنے کا جذبہ رکھتے ہیں، ان سے شدید متنفر ہیں اور اس راستے میں اپنی جان قربان کر دینے کیلئے پوری طرح تیار ہیں۔ سعودی عرب اور امریکہ کی سربراہی میں بڑی تعداد میں فوجیوں کا ایک چھوٹے سے حصے میں جمع ہو جانا جو ایک اندازے کے مطابق 6 ڈویژنز پر مشتمل ہے ان کا آسان ہدف بن جانے کا باعث بنا ہے۔ لہذا ایک ہفتے کے اندر اندر ان کے 1500 سپاہی ہلاک اور 5000 زخمی ہو گئے ہیں جبکہ کم از کم 300 فوجی جن میں فرانسیسی فوجی بھی شامل ہیں قیدی بنا لئے گئے ہیں۔
 
دوسری طرف متحدہ عرب امارات کا چیف آف آرمی اسٹاف، یمن میں متحدہ عرب امارات کا آپریشنل کمانڈر اور الحدیدہ آپریشن میں متحدہ عرب امارات کا چیف کمانڈر بھی مارے گئے ہیں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ متحدہ عرب امارات، سعودی عرب اور ان کے اتحادیوں کے پاس معقول فوجی حکمت عملی موجود نہیں۔ فوجی حکمت عملی کے فقدان کا واضح ثبوت سعودی امریکی اتحاد میں شامل فوجیوں کا باریک ساحلی پٹی پر دسیوں کلومیٹر لمبے فوجی کاروان کی صورت میں چل پڑنا ہے جس کے باعث وہ انصاراللہ یمن کے ماہر جنگجووں کے سامنے آسان شکار میں تبدیل ہو گئے ہیں۔ الحدیدہ جنگ کا نتیجہ ابھی سے واضح ہے۔ وہ طاقت جو فوجی حکمت عملی کے تحت دشمن پر وار کرتی ہے اور اسے بھاری جانی اور مالی نقصان پہنچاتی ہے اور اپنی فورسز کو انتہائی محدود پیمانے پر میدان میں اتارتی ہے اور ان کی حفاظت کرتی ہے میدان جنگ کی یقینی فاتح قوت ہوتی ہے۔ ماضی میں حزب اللہ لبنان نے اسرائیل کے خلاف 33 روزہ جنگ میں یہی حکمت عملی اختیار کی اور اسرائیل کی عظیم فوجی مشینری کو زمین، ہوا اور پانی میں نشانہ بنا کر اسے پسپائی پر مجبور کر دیا تھا۔
 
خبر کا کوڈ : 734030
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش