1
0
Friday 29 Jun 2018 11:42

پاکستان گرے لسٹ میں شامل، اپنوں نے ہی بجلی گرا دی

پاکستان گرے لسٹ میں شامل، اپنوں نے ہی بجلی گرا دی
تحریر: تصور حسین شہزاد

فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کے اجلاس میں پاکستان کو دہشت گردوں کی مالی معاونت کرنیوالے ملکوں کی گرے لسٹ میں شامل رکھنے کا فیصلہ کر لیا گیا ہے۔ پیرس میں ہونیوالے ایف اے ٹی ایف کے اجلاس میں نگران وزیر خزانہ ڈاکٹر شمشاد اختر کی قیادت میں وفد نے پاکستان کا موقف پیش کیا۔ ڈاکٹر شمشاد اختر نے اینٹی منی لانڈرنگ، دہشتگردی کی مالی معاونت روکنے اور کالعدم تنظیموں اور دیگر گروہوں کیخلاف کئے گئے اقدامات سے آگاہ کیا۔ پاکستانی حکام نے موقف اختیار کیا کہ دہشتگردوں کی مالی معاونت روکنے کیلئے پہلے سے موجود قوانین میں بہتری لانے کیساتھ ساتھ ان پر عملدرآمد بھی بہتر طریقے سے یقینی بنایا گیا ہے۔ اس حوالے سے نگران وزیر داخلہ اعظم خان نے کہا کہ ایف اے ٹی ایف امریکہ اور بھارت کے دباؤ میں ہے اور دونوں ملکوں نے ترکی، سعودی عرب اور چین پر بھی دباؤ ڈالا۔ فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کے اجلاس میں امریکہ، برطانیہ، جرمنی اور فرانس نے پاکستان کو گرے لسٹ میں شامل کرنے کے حق میں ووٹ دیا، جبکہ پاکستان کے حلیف ممالک تصور کئے جانے والے ممالک ترکی، چین اور سعودی عرب نے بھی اس کی حمایت کی۔

اطلاعات ہیں کہ پاکستان کو گرے لسٹ میں ڈالنے کا فیصلہ فروری میں کیا جا چکا تھا، لیکن پاکستان کو دہشتگردی کیلئے مالی وسائل کی روک تھام کیلئے اقدامات کرنے کا بھی کہا گیا تھا۔ جن پر عملدرآمد کی صورت میں پاکستان اس لسٹ میں آنے سے بچ سکتا تھا، لیکن پاکستان رکن ممالک کو ان اقدامات سے مطمئن نہیں کرسکا۔ پاکستان کی ٹیم میں ماہرین اور تجربہ کار افراد شامل نہیں تھے، جس کے باعث نگران حکومت کی بھیجی جانیوالے ٹیم ٹاسک فورس کے ارکان کو قائل کرنے میں ناکام رہی۔ فرانس نے پاکستان کو گرے لسٹ میں شامل کرنے کی بات اس لئے کی کہ فرانس کی طرف سے پاکستان میں حافظ سعید کیخلاف کارروائی کرنے کے لئے دباؤ تھا، لیکن اس کے باوجود حافظ سعید کی کالعدم تنظیم کو مختلف نام سے انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت دیدی گئی ہے۔ پاکستان کو بین الاقوامی برادری کی طرف سے بھی بعض شدت پسند تنظیموں کیخلاف موثر کارروائی نہ کرنے کی وجہ سے تنقید کا سامنا رہا ہے۔

ایف اے ٹی ایف کا اگلا اجلاس ستمبر میں ہوگا اور خدشہ ہے کہ پاکستان کو موثر اقدامات نہ کرنے پر بلیک لسٹ بھی کیا جا سکتا ہے۔ جس سے پاکستان کو نہ صرف معاشی طور پر نقصانات کا سامنا ہوسکتا بلکہ بین الاقوامی سطح پر پاکستان کے تشخص کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ یاد رہے کہ رواں سال فروری میں فنانشل ایکشن ٹاسک فورس نے پاکستان کو تادیبی اقدامات کرنے کیلئے 3 ماہ کا وقت دیا تھا۔ پاکستان نے 25 اپریل کو ہونیوالے ایف اے ٹی ایف اجلاس میں 27 صفحات پر مشتمل اینٹی منی لانڈرنگ اور اینٹی ٹیرر فنانسگ اقدامات پر رپورٹ پیش کی تھی، تاہم 22 مئی کو بنکاک کے غیر رسمی اجلاس میں اس رپورٹ کو غیر تسلی بخش قرار دے دیا گیا تھا۔ فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کے ارکان کی تعداد 37 ہے، جس میں امریکہ، برطانیہ، چین، بھارت اور ترکی سمیت 25 ممالک، خلیج تعاون کونسل اور یورپی کمیشن شامل ہیں۔ تنظیم کی بنیادی ذمہ داریاں عالمی سطح پر منی لانڈرنگ اور دہشتگردوں کی مالی معاونت روکنے کیلئے اقدامات کرنا ہیں۔ عالمی واچ لسٹ میں پاکستان کا نام شامل ہونے سے اسے عالمی امداد، قرضوں اور سرمایہ کاری کی سخت نگرانی سے گزرنا ہوگا، جس سے بیرونی سرمایہ کاری متاثر ہوگی اور ملکی معیشت پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ اس سے قبل 2012ء سے 2015ء تک بھی پاکستان ایف اے ٹی ایف واچ لسٹ میں شامل تھا۔

پاکستان کی کمزور خارجہ پالیسی کے باعث آج اسے یہ دن دیکھنا پڑا ہے۔ جن پہ تکیہ تھا وہی پتے ہوا دینے لگے ہیں۔ افسوسناک امر تو یہ ہے کہ ترکی، چین اور سعودی عرب نے بھی پاکستانی موقف کو جسٹی فائی کرنے میں مدد نہیں دی بلکہ پاکستانی موقف پر عدم اعتماد کر اظہار کرتے ہوئے پاکستان کی مخالفت کی ہے۔ یہ وہی سعودی عرب ہے جو حقیقی معنوں میں حافظ سعید سمیت دیگر جہادی تنظیموں کا ’’خالق‘‘ ہے اور امریکی ایماء پر ہی جہادی تنظیموں کو معرضِ وجود میں لایا گیا تھا۔ آج وہی امریکہ ایف اے ٹی ایف میں بیٹھ کر پاکستان کو دہشتگردوں کا سرپرست قرار دے رہا ہے۔ پاکستان کے سابق وزیراعظم نواز شریف نے شائد مودی کی دوستی میں اپنا وزیر خارجہ ہی نہیں بنایا اور پاکستان کی خارجہ پالیسی اتنی کمزور ہوچکی ہے کہ آج معمولی سے معمولی تنظیم بھی اُٹھ کر پاکستان پر انگلی اٹھا دیتی ہے۔ آج کشمیر کے محاذ پر بھی پاکستان کو سبکی کا سامنا ہے۔ پاکستان کی ناکام خارجہ پالیسی کے باعث ہی کشمیر ابھی تک آزاد نہیں ہوسکا۔ آج سعودی عرب کے گیت گانے والے اور ترکی کو جپھیاں ڈالنے والوں کیلئے لمحہ فکریہ ہے کہ ہوا کا رخ دیکھ کر وہ سارے ہمارے دوست، دشمنوں کی صفوں میں کھڑے ہوگئے ہیں۔

یہاں سعودی عرب کے نمک خوار ہر موقع پر سڑکوں پر نکل آتے ہیں، حرمین شریفین کو خطرہ کا بے بنیاد بہانہ بنا کر یہاں پروپیگنڈہ بھی کیا گیا، مگر اب وہ برساتی مینڈک باہر نہیں آئیں گے، کیونکہ انہیں پاکستان کی نسبت شائد سعودی مفاد زیادہ عزیز ہے۔ عمران خان کی جانب سے ایک ولی اللہ کی چوکھٹ پر عقیدت کے اظہار پر ایک طوفان اٹھانے پر تو پورے پاکستان نے سوشل میڈیا پر طوفان برپا کر رکھا ہے، جبکہ یمن میں مرنے والے ہزاروں افراد، بچے، تباہ ہونیوالی مساجد اور سکول و ہسپتالوں کے انہدام پر کوئی نہیں بول رہا۔ سعودی عرب کے حکمرانوں کی دوستی مسلم دینا کی نسبت یہودیوں سے زیادہ ہے۔ سعودی عرب نے کبھی بھی مسلم دنیا کے مفاد کی بات نہیں کی، جس کی حالیہ مثال واضح ہے کہ ایف اے ٹی ایف کے اجلاس میں تمام ممالک نے پاکستان کو بھی ہدف تنقید بنایا ہے۔ اس حوالے سے پاکستان کی سیاسی جماعتوں کو اپنی خارجہ پالیسی کے حوالے سے غور کرنا ہوگا۔ نواز حکومت نے جس خارجہ پالیسی کو تباہ کر دیا ہے، اسے ازسر نو ترتیب دینا ہوگا۔ ہم نے اپنی خارجہ پالیسی کا ازسر نو تعین نہ کیا تو خدانخواستہ دنیا میں تنہا ہوسکتے ہیں۔
خبر کا کوڈ : 734401
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Iran, Islamic Republic of
مختلف جگہوں سے خبریں اٹھاکر چورن بنایا گیا ہے۔
ہماری پیشکش