2
Saturday 30 Jun 2018 14:38

مظہر العلوم، امام جعفر صادق علیہ السلام

مظہر العلوم، امام جعفر صادق علیہ السلام
تحقیق و ترتیب: آئی اے خان

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سلسلہ معصومین کی آٹھویں کڑی اور چھٹے امام (ع) ہیں۔ حضرت امام جعفر صادق (ع) کا نام جعفر، کنیت ابو عبداللہ اور صادق لقب تھا۔ آپ امام محمد باقر علیہ السلام کے بیٹے اور حضرت امام زین العابدین علیہ السلام کے پوتے اور شھید کربلا حضرت امام حسین علیہ السلام کے پر پوتے ہیں۔ آپ کی والدہ حضرت محمد بن ابی بکر کی پوتی تھیں۔

ولادت باسعادت اور سلسلہ عزا
آپ (ع) 83 ھ میں 17 ربیع الاول کو اپنے جد بزرگوار حضرت رسول خدا (ص) کی ولادت کی تاریخ کو ہی اس دنیا میں تشریف لائے۔ خاندان آل محمد (ص) میں اس اضافہ کا انتہائی خوشی سے استقبال کیا گیا۔ بارہ برس آپ نے اپنے جد بزرگوار جضرت امام زین العابدین علیہ السلام کے زیر سایہ تربیت پائی۔ واقعہ کربلا کو ابھی صرف بائیس سال گزرے تھےکہ امام جعفر صادق علیہ السلام نے آنکھ کھولی تو اسی غم و اندوہ کی فضا میں شب و روز شھادت امام حسین علیہ السلام کا تذکرہ اور اس غم میں گریہ و بکا کی آوازوں نے ان کے دل و دماغ پر وہ اثر قائم کردیا تھا کہ جیسے وہ خود واقعہ کربلا میں موجود تھے چنانچہ اس کے بعد ہمیشہ اور عمر بھر امام جعفر صادق علیہ السلام نے جس جس طرح اپنے جد مظلوم امام حسین علیہ السلام کی یاد قائم رکھنے کی کوشش کی ہے وہ اپنے آپ ہی مثال ہے۔

دور امامت
114 ھ میں امام محمد باقر علیہ السلام کی وفات ہوئی۔ اب امامت کی ذمہ داریاں امام جعفر صادق علیہ السلام کی طرف عائد ہوئیں اور اس وقت دمشق میں ھشام بن عبدالملک کی سلطنت تھی۔ اس ‍ زمانہ سلطنت میں سیاسی خلفشار بہت زیادہ ہو چکا تھا اس کے باوجود آپ نے ان فرائض کو جو اشاعت علوم اھلبیت (ع) اور نشر شریعت کے قدرت کی جانب سے آپ کے سپرد تھے برابر جاری رکھا تھا۔

انقلاب سلطنت
بنی امیہ کا آخری دور ہنگاموں اور سیاسی کشمکشوں کا مرکز بن گیا تھا اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ جلدی جلدی حکومتوں میں تبدیلیاں ہو رہی تھیں۔ اسی لۓ امام جعفر صادق علیہ السلام کو بہت سی دنیوی سلطنتوں کے دور سے گزرنا پڑا۔ ھشام بن عبدالملک کے بعد ولید بن عبد الملک پھر یزید بن ولید بن عبدالملک اسکے بعد ابراھیم بن ولید بن عبدالملک اور آخر میں مروان حمار جس پر بنی امیہ کی حکومت کا خاتمہ ہو گیا۔ حضرت امام صادق (ع) عبدالملک بن مروان (پانچواں اموی خلیفہ) کے زمانے میں پیدا ہوئے اور اسکے بعد باقی 8 بنی امیہ خلفاء اور دو عباسی خلفاء کے ہمعصر تھے جن کا نام ذیل ہیں اور حضرت نے ان میں سے اکثر کی طرف سے مصائب اور مظالم برداشت کئے۔
1 ۔ ولید بن عبدالملک
2 ۔ سلیمان بن عبدالملک
3 ۔ عمر بن عبدالملک
4 ۔ یزید بن عبدالملک
5 ۔ ھشام بن عبدالملک
6 ۔ ولید بن یزید
7 ۔ یزید بن ولید
8 ۔ مروان بن محمد
9 ۔ ابوالعباس سفاح
10 ۔ منصور دوانقی


اخلاق و اوصاف
آپ کے اخلاق و اوصاف زندگی کے ہر شعبہ میں معیاری حیثیت رکھتے ہیں۔ مثلاً مہمان نوازی، خیر و خیرات، مخفی طریقہ پر غربا کی خبر گیری، عزیزوں کے ساتھ حسن سلوک، عفو، صبر و تحمل وغیرہ ہیں۔ آپ کا قاعدہ تھا کہ آپ مالداروں سے زیادہ غریبوں کی عزت کرتے تھے، مزدوروں کی بڑی قدر کرتے تھے، خود تجارت کرتے تھے اور اکثر اپنے باغوں میں بہ نفس نفیس محنت کرتے تھے۔ ایک مرتبہ آپ بیلچہ لیۓ باغ میں کام کر رہے تھے اور پسینہ سے تمام جسم تر ہو گیا تھا کسی نے کہا کہ یہ بیلچہ مجھے دے دیجئے میں یہ خدمت انجام دوں، امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا طلب معاش میں دھوپ اور گرمی کی تکلیف برداشت کرنا عیب نہیں ہے۔ آپ علیه السلام فرماتے ہیں کہ نماز کو ہلکا سمجھنے والے ہم اہلبیت کی شفاعت سے محروم رہیں گے اور چار خصلتیں انبیاء کے اخلاق کامظہر ہیں، نیکی کرنا، سخاوت، مصیبت پر صبر کرنا، مومن کے حقوق کی رعایت کرنا۔

علمی جلالت
تمام عالم اسلام میں آپ کی علمی جلالت کا شہرہ تھا، دور دور سے لوگ تحصیل علم کے لۓ آپ کی خدمت میں حاضر ہوتے تھے، یہاں تک کہ آپ کے شاگردوں کی تعداد چار ہزار تک پہنچ گئی۔ ان میں فقہ کے علماء بھی تھے، تفسیر کے متکلمین و ناظرین بھی تھے۔ آپ کے دربار میں مخالفین مذھب آ آ کر سوالات پیش کرتے تھے اور آپ کے اصحاب سے ان سے مناظرے ہوتے تھے جن پر کبھی کبھی نقد بھی فرماتے تھے اور اصحاب کو ان کی بحث کے کمزور پہلو بھی بتاتے تھے تاکہ آئندہ وہ ان باتوں کا خیال رکھیں کبھی آپ خود بھی مخالفین مذہب اور بالخصوص دہریوں سے مناظرے فرماتے تھے۔ علوم فقہ و کلام وغیرہ کے علوم عربیہ جیسے ریاضی اور کیمیا وغیرہ کی بھی شاگردوں کو تعلیم دیتے تھے۔ آپ کے اصحاب میں سے بہت سے بڑے فقہا تھے، جنھوں نے کتابیں تصنیف کیں۔ جن کی تعداد سینکڑوں تک ہے۔ تشنگانِ علم و حکمت دور درواز سے آتے اور امام جعفر صادق سے فیضیاب ہوا کرتے تھے۔ مورخین آپ سے روایت کرتے اور دانشور کتابی صورت میں آپ کے فرمودات جمع کرتے تھے حتیٰ کہ حفاظ اور محدثین جب کچھ بیان کرتے تو امام جعفر صادق کے ارشادات کا حوالہ دیتے۔

جدید علوم کے بانی
مورخین اس بات پر متفق ہیں امام جعفر صادق نے کسی مدرسہ میں تعلیم حاصل نہیں کی اور نہ کسی اْستاد کے سامنے زانوئے اَدب تہہ کیا۔ آپ کا علم نسل در نسل آپ کے سینے میں منتقل ہوا جس سے ثابت ہو اکہ امام صادق نے جس علم کی روشنی بکھیری وہ دراصل عِلمِ مصطفوی و مرتضوی ہی ہے۔ چار ہزار سے زائد شاگردوں نے بیک وقت اور ایک ہی دور میں آپ کی بارگاہ سے کسب علوم اور نقل روایت کا شرف حاصل کیا۔ جن علوم کی تعلیم آپ کی درسگاہ سے دی جاتی ان میں فقہ کے علاوہ ریاضی فلکیات فزکس کیمسٹری سمیت تمام جدید علوم شامل تھے۔ آپ کی درسگاہ کے فیض سے جہاں قدیم علوم کا احیاء ہوا وہاں جدید علوم کی بھی بنیاد رکھی گئی۔ مسلمانوں میں نابغہ روزگار ہستیاں پیدا ہوئیں۔ احادیث و معرف دین و شریعت میںامام جعفر صادق کے وضع کردہ چار سو اصول ہی کتب اربع کا منبع و مدرک ہیں۔ امام جعفر صادق کے گراں قدر، بیانات، فرمودات، ارشادات نے جہالت اور گمراہی و ضلالت کے پردوں کو چاک کیا۔

آپ نے پیغمبر اسلام کے الہامی و آفاقی دستور حیات کو لوگوں کے سامنے اس طرح پیش فرمایا کہ لوگوں میں دین و شریعت کی پیروی بڑھتی گئی۔
آپ کے ممتاز شاگردوں میں ہشام بن حکم، محمد بن مسلم ، ابان بن تفلب، ہشام بن سالم، مفصل بن عمر اور جابربن حیان کا نام خاص طور سے لیا جا سکتا ہے۔ ان میں سے ہر ایک نے بڑا نام پیدا کیا مثال کے طور پر ہشام بن حکم نے اکتیس کتابیں اور جابربن حیان نے دو سو سے زائد کتابیں مختلف علوم و فنون میں تحریر کی ہیں۔ جابربن حیان بابائے علم کیمیا کے نام سے مشہور ہیں۔ الجبرا کے بانی ابو موسی الخوارزمی نے بھی بالواسطہ امام جعفر صادق کی تعلیمات سے فیض حاصل کیا۔ اہل سنت کے چاروں مکاتب فکر کے امام بلاواسطہ یا بالواسطہ امام جعفر صادقؒ کے شاگردوں میں شمار ہوتے ہیں خاص طور پر امام ابوحنیفہؒ نے تقریباً دو سال تک براہ راست آپ سے کسب فیض کیا۔

آپ (ع) کی علمی منزلت کا اعتراف
آپ (ع) کے علمی مقام کا اعتراف کرتے ہوئے امام ابوحنیفہ نے کہا ہے "میں نے جعفر ابن محمد (ع) سے زیادہ عالم کوئی اور شخص نہیں دیکھا۔"۔ ایک اور مقام پر امام ابوحنیفہ نے امام جعفر صادق کی خدمت میں گزارے ہوئے دو سالوں کے بارے میں کہا ’’اگر یہ دوسال نہ ہوتے تو نعمان ہلاک ہو جاتا‘‘ مالک بن انس حضرت امام جعفر صادق کی علمی اور اخلاقی عظمت کے بارے میں کہتے ہیں کہ میں ایک مدت تک جعفر ابن محمد کی خدمت میں زانوئے ادب تہہ کیا کرتا تھا آپ مزاح بھی فرمایا کرتے تھے ہمیشہ آپ کے لبوں پر تبسم رہتا تھا۔ جب آپ کے سامنے رسول اللہ (ص) کا نام مبارک لیاجاتا تو آپ کے چہرے کا رنگ سبز اور زرد ہو جاتا تھا۔ میں نے نہیں دیکھا کہ انہوں نے رسول اللہؐ سے حدیث بیان کی ہو اور وضو سے نہ ہوں۔ میں جب تک ان کے پاس آیا جایا کرتا تھا میں نے نہیں دیکھا کہ وہ ان تین حالتوں سے خارج ہوں یا وہ نماز پڑھتے رہتے تھے، یا قرآن کی تلاوت کررہے ہوتے تھے یا پھر روزہ سے ہوتے تھے۔ مالک بن انس حضرت امام جعفر صادق (ع) کی عظمت کے بارے میں ان خیالات نے سمندر کو کوزے میں بند کردیا کہ ’’کسی آنکھ نے نہیں دیکھا، کسی کان نے نہیں سنا اور نہ کسی انسان کے دل میں خیال آیا کہ کوئی جعفر ابن محمد سے بھی افضل ہوسکتا ہے۔‘‘

ابن خلکان لکھتے ہیں کہ امام صادق (ع) کیمیا میں ید طولی رکھتے تھے، ابوموسی جابر بن حیان طرطوسی ان کے شاگردوں میں سے ہیں۔ جابر نے ایک ہزار ورق پرمشتمل ایک کتاب لکھی ہے جس میں جعفر ابن محمد کی تعلیمات تھیں۔ ان کے سامنے بہت سے لوگوں نے زانوے ادب تہ کیا ہے اور ان سے علمی فیض حاصل کیا ہے۔ ان میں ان کے بیٹے موسی کاظمؒ، یحی بن سعید انصاری، یزید بن عبداللہ، ابو حنیفہ، ابان بن تغلب،، ابن جریح ، معاویہ بن عمار، ابن اسحاق، سفیان، شبعہ ، مالک، اسماعیل بن جعفر، وھب بن خالد، حاتم بن اسماعیل، سلیمان بن بلال، سفیان بن عینیہ، حسن بن صالح، حسن بن عیاش، زھیر بن محمد، حفص بن غیاث، زید بن حسن، انماطی، سعید بن سفیان اسلمی، عبدالہ بن میمون، عبدالعزیز بن عمران زھری، عبدالعزیز درآوری، عبدالوہاب ثقفی، عثمان بن فرقد، محمد بن ثابت بنانی، محمد بن میمون زعفرانی، مسلم زنجی، یحی قطان، ابو عاصم نبیل سمیت ہزاروں شامل ہیں۔

شہاب الدین ابوالعباس احمد بن بدرالدین شافعی معروف بہ ابن حجر ہیتمی امام صادق کے بارے میں لکھتے ہیں کہ لوگوں نے آپ سے بہت سے علوم سیکھے ہیں اس یہ علوم مدینہ آنے والے زائرین و حجاج کے ذریعے ساری دنیا میں پھیل گئے اور ساری دنیا میں جعفر ابن محمد کے علم کا ڈنکا بجنے لگا۔ اہل سنت کے بزرگ علماء میں سے ایک میر علی ہندی حضرت امام جعفر صادق کی علمی اور اخلاقی عظمت کے بارے میں کہتے ہیں ’’اس زمانے میں علم کی ترقی نے سب کو کشتہ بحث و جستجو بنا دیا تھا اور فلسفیانہ گفتگو ہر جگہ رائج ہو چکی تھی۔ قابل ذکر ہے کہ اس فکری تحریک کی رہبری اس مرکز علمی کے ہاتھ میں تھی جو مدینہ میں پھل پھول رہا تھا اور اس مرکز کا سربراہ علی ابن ابی طالب کا پوتا تھا جس کا نام جعفر صادق تھا۔ وہ ایک بڑے مفکر اور سرگرم محقق تھے اور اس زمانے کے علوم پر عبور رکھتے تھے وہ پہلے شخص تھے جنہوں نے اسلام میں فلسفے کے مدارس قائم کئے۔ ان کے درس میں صرف وہ لوگ شرکت نہیں کرتے تھے جو بعد میں فقہی مکاتب کے امام کہلائے بلکہ فلاسفہ، فلسفہ کے طلبہ بھی دور دراز سے آکر ان کے درس میں شرکت کرتے تھے۔‘‘

ڈاکٹر حامد حنفی جو عربی ادب کے استاد گردانے جاتے ہیں ایک کتاب کے مقدمہ میں لکھتے ہیں کہ ’’20 سال سے زیادہ زمانہ بیت گیا میں تاریخ فقہ و علوم اسلامی کی ترتیب کر رہا ہوں خانوادہ کرامت نبوی (ع) کے طاہر فرزند حضرت امام جعفر صادق (ع) کی نمایاں ترین شخصیت نے مجھے خاص طور پر اپنی جانب متوجہ کیا۔ میں اس نظریے پر پہنچا ہوں کہ آپ علوم اسلامی کے موجد اور موسس رہنما ہیں۔ ‘‘ علامہ ابن ِ حجر مکی نے صواعق محرقہ میں بیان کیا ہے کہ ''تمام بلادِ اسلامیہ میں ان کے علم و حکمت کا شہرہ تھا۔'' علامہ شبلی نعمانی سیرۃ النعمان میں رقمطراز ہیں کہ ’’حضرت امام ابو حنیفہ لاکھ مجتہد ہی سہی لیکن امام جعفر صادق کے شاگر دتھے۔‘‘ مسیح عالم عارف ثامر استاد دانش کدہ مباحث شرقی قاہرہ رقمطراز ہے ’’جو شخص بے غرض غیر متعصب ہوکر امام جعفر بن محمد الصادق کی شخصیت کے بارے میں جدید علمی اصول کی پیروی کرتے ہوئے ہر قسم کے تعصبات سے بے نیاز ہوکر علمی و حقیقی تحلیل و تجزیہ میں مشغول ہوگا تو اس کیلئے اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ اس بات کااعتراف کرے کہ امام کی شخصیت ایسا فلسفی مجموعہ ہے جسے اپنے اوپر اعتماد و بھروسہ ہے جو بہت سے نظریات، خیالات، فکریات کا سرچشمہ ہیں جو نئے افکار و خیالات و جدید احکامات کے نہ صرف موسس ہیں بلکہ نئی نئی راہیں دکھائی ہیں‘‘

ابن خلکان کہتے ہیں ’’آپ سادات اہلبیت میں سے تھے اور آپ کی فضیلت کسی بیان کی محتاج نہیں‘‘ اسی طرح بیان کرتے ہیں ’’حضرت امام جعفر صادق کے مقالا ت علم کیمیا اور علم جفر و فال میں موجود ہیں اور جابر بن حیان صوفی طرطوسی آپ کے شاگر تھے جنہوں نے ایک ہزار صفحات کی کتا ب مرتب کی‘‘۔ انسائیکلو پیڈیا آف اسلامک ہسٹری میں ہے ’’استاد اعظم جابر بن حیان بن عبد اللہ کوفہ میں پیدا ہوا، امام باقر اور امام جعفر صادق کے فیض صحبت سے خود امام ہو گیا‘‘۔ علامہ فرید وجدی دائر ۃ المعارف القرآن الرابع عشر میں رقم طراز ہیں کہ ’’جابر بن حیان نے امام جعفر صادق کے پانچ سو رسائل کو جمع کرکے ایک ہزار صفحہ کی کتاب تالیف کی تھی‘‘ فرید مولف دائرۃ المعارف مزید لکھتا ہے ’’جعفر ابن محمد کے علم و دانش کا گھر روزانہ جید علماء سے بھر جاتا تھا۔ وہ علماء و دانشمند علم حدیث، تفسیر، کلام و فلسفہ کے حصول کے خواہشمند تھے۔ آپ کے حلقہ دروس میں مشہور و معرف علماء میں سے اکثر اوقات میں تین سے چار ہزار افراد تک شرکت فرماتے تھے۔‘‘ سٹراسبرگ میں 25 مغربی محققین نے امام جعفر صادق ؑ کی علمی و سائنسی خدمات پر ایک مقالہ مرتب کیا جو ’سپر مین ان اسلام‘کے عنوان کے تحت شائع ہواہے اس مقالہ میں ان دریافتوں کا احاطہ کیا گیا ہے جن کی بنیاد امام جعفر صادقؑ کے دروس سے آشکار ہوئی۔

امام (ع) کیساتھ بد سلوکیاں
منصور نے امام جعفر صادق علیہ السلام کی علمی عظمت کا اثر عوام کے دل میں کم کرنے کیلۓ ایک تدبیر یہ کی کہ امام جعفر صادق علیہ السلام کے مقابلہ میں ایسے اشخاص کو بحیثیت فقیہ اور عالم کے کھڑا کر دیا جو آپ کے شاگردوں کے سامنے بھی زبان کھولنے کی قدرت نہ رکھتے تھے ۔ امام جعفر صادق علیہ السلام کو پانچ مرتبہ مدینہ سے دربار شاہی میں طلب کیا گیا جو آپ کے لۓ سخت روحانی تکلیف کا باعث تھا۔ یہ اور بات ہے کہ کسی مرتبہ آپ کے خلاف کوئی بہانہ اسے نہ مل سکا کہ آپ کے قید یا قتل کا حکم دیتا بلکہ اس سلسلے میں عراق کے اندر ایک مدت کے قیام سے علوم اھلبیت (ع) کی اشاعت کا حلقہ وسیع ہوا اور اس کو محسوس کرکے منصور نے پھر امام جعفر صادق علیہ السلام کو مدینہ بھجوا دیا۔ اس کے بعد بھی آپ ایذا رسانی سے محفوظ نہ رہے یہاں تک کہ ایک مرتبہ آپ کے گھر میں آگ لگا دی گئی۔ خدا کی قدرت تھی کہ وہ آگ جلدی ہی خاموش ہو گئی اور آپ کے متعلقین اور اصحاب میں سے کسی کو کوئی نقصان نہیں پہنچا۔

شہادت
حضرت امام موسٰی کاظم علیہ السلام بیان فرماتے ہیں کہ ایک بار منصور نے میرے والد کو طلب کیا تا کہ وہ انھیں قتل کرے۔ اس کے لئے اس نے شمشیر اور بساط بھی آمادہ کر رکھی تھی۔ ربیع (جو منصور کے درباریوں میں سے تھا) کو اس بات کا حکم دیا کہ جب ''جعفر بن محمد'' علیہ السلام میرے پاس آئیں اور میں ان سے گفتگو کرنے لگوں تو جس وقت میں ہاتھ کو ہاتھ پر ماروں اس وقت تم ان کی گردن اڑا دینا۔ امام علیہ السلام وارد ہوئے منصور کی نظر جیسے ہی امام پر پڑی بے اختیار اپنی جگہ سے کھڑا ہوگیا اور امام کو خوش آمدید کہا۔ اور اس بات کا اظہار کیا کہ میں نے آپ کو اس لئے بلایا ہے کہ تا کہ آپ کے قرضوں کو چکا دوں۔ اس کے بعد خوش روئی سے امام کے اعزاء و اقارب کے حالات دریافت کرکے ربیع کی طرف رخ کرکے کہنے لگا تین روز بعد امام کو ان کے اعزا و اقارب کے پاس پہنچا دینا۔ آخر منصور امام (ع) کو برداشت نہ کرسکا جن کی امامت کا آوازہ اور رہبری شہرہ ملتِ اسلامیہ کے گوشہ گوشہ میں تھا۔ شوال 148ھ؁ میں امام (ع) کو زہر دیا۔ امام علیہ السلام نے 15 شوال کو 65 برس کی عمر میں شہادت پائی۔ آپ کے جسم اطہر کو قبرستان بقیع میں امام محمد باقر علیہ السلام کے پہلو میں دفن کیا گیا۔
روشن جو کر رہا تھا زمانے کو علم سے
افسوس وہ چراغ بھی گُل کر دیا گیا
خبر کا کوڈ : 734636
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش