0
Thursday 5 Jul 2018 21:42

پرویز خٹک کیوجہ سے نوشہرہ میں تحریک انصاف کیلئے کامیابیوں کا حصول مشکل یا ناممکن؟

پرویز خٹک کیوجہ سے نوشہرہ میں تحریک انصاف کیلئے کامیابیوں کا حصول مشکل یا ناممکن؟
رپورٹ: ایس علی حیدر

ملک بھر میں 25 جولائی 2018ء کو ہونے والے عام انتخابات کیلئے سرگرمیاں پورے زور و شور سے جاری ہیں۔ سیاسی اکابرین اور الیکشن لڑنے والے تمام امیدواروں نے اپنی اپنی حکمت عملیوں کو آخری شکل دیدی ہے، اگر ماضی اور مستقبل پر ایک نظر دوڑائی جائے تو یہ انتخابات گذشتہ الیکشنز سے مختلف دکھائی دے رہے ہیں۔ الیکشن کی تاریخ کے اعلان کے باوجود ایک غیر یقینی صورتحال کی فضا قائم ہے، بعض سیاسی پنڈت یہ پیشنگوئی کرتے ہیں کہ الیکشن مقررہ وقت پر نہیں ہونگے، لیکن تمام تر غیر یقینی صورتحال کے باوجود اب یہ ظاہر ہے کہ الیکشن اپنے وقت پر ہونگے۔ کاغذات نامزدگی جمع کرانے اور الیکشن کی تیاریوں کے سلسلے میں کئی دوسرے مرحلے مکمل ہوچکے ہیں۔ سیاسی جماعتوں نے الیکشن لڑنے والے تمام امیدواروں کو ٹکٹ دے دیئے ہیں اور یہ بالکل واضح ہے کہ کون کہاں سے اور کس کے خلاف الیکشن لڑے گا۔؟

ملک میں اسوقت 2 بڑی سیاسی جماعتیں ہیں، جن میں مسلم لیگ (ن) اور پی ٹی آئی شامل ہیں، لیکن مسلم لیگ (ن) کئی مسائل سے دوچار ہے اور ٹکٹوں کے مسئلے پر کئی اہم لوگ مسلم لیگ (ن) کو خیرباد کہہ گئے اور کئی اہم شخصیات آزاد حیثیت سے الیکشن لڑ رہی ہیں۔ پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان ہمشہ کی طرح یہ دعویٰ کرتے چلے آرہے ہیں کہ وہ الیکشن میں بھرپور کامیابی حاصل کرکے چاروں صوبوں اور مرکز میں حکومت بنائیں گے اور عوام کیلئے نئے پاکستان کا خواب شرمندہ تعبیر ہوگا۔ یہ کہنے میں تو بڑا آسان لگتا ہے لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کی پوزیشن برقرار نہ رہی لیکن ہم یہ یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ پہلے ہمارے ملک میں دو بڑی سیاسی جماعتیں یقینی طور پر پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی ہی تھیں، لیکن اب پی ٹی آئی بھی اس دوڑ میں شامل ہوچکی ہے، یعنی پی ٹی آئی ایک بڑی قومی سیاسی جماعت کے طور پر ابھری ہے اور اس کے ذمہ دار پی ایم ایل این اور پی پی پی کے سرکردہ رہنما ہیں۔

انہوں نے قومی مفادات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اپنے مفادات کو ترجیح دی، ملک اور قوم کی فلاح و بہبود کیلئے وہ کام نہیں کئے، جن کی اشد ضرورت تھی۔ ہماری سیاست کے اس منفی پہلو سے انکار ممکن نہیں، ہمارے ممبران اسمبلی کامیابی کے بعد ایوانوں میں بیٹھ کر عوام کو بھول جاتے ہیں، لیکن جب الیکشن قریب آتے ہیں تو ان کو ووٹوں کا خیال آتا ہے اور ان کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ ووٹروں کو سبز باغ دکھا کر دوبارہ ووٹ لے لیں۔ اس عمل کیلئے باقاعدہ حکمت عملیاں تیار کی جاتی ہیں کہ عوام کو باور کرنے پر آمادہ کیا جائے، تاکہ وہ ان کے کھوکھلے نعروں اور وعدوں پر یقین کریں۔ الیکشن سے قبل موسمی پرندوں نے اپنے پر تولتے ہوئے ہواؤں کے رُخ کا ساتھ دیا، سیاسی وفاداریاں تبدیل کیں، یا رہنما جس سیاسی پارٹی میں شامل ہوئے اسے اپنی بڑی کامیابی سمجھی لیکن جو سیاسی جماعت اپنی پارٹی میں لے آئی وہ ان پر فخر کر رہی ہے۔

ایسے واقعات ہمارے ملک میں بار بار ہوئے اور مستقبل میں بھی رہیں گے۔ الیکشن سے قبل والے ماحول کو دیکھتے ہوئے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ زیادہ سے زیادہ موسمی پرندے پی ٹی آئی میں شامل ہوئے۔ عمران خان کے مطابق یہ انکی جماعت کی کارکردگی کے نتائج ہیں اور احوال سیاسیت کے باعث ہی ممکن ہوا، لیکن اس ناگفتہ بہ صورتحال کو دیکھتے ہوئے پی ٹی آئی کے کئی رہنما حیران بھی ہوئے ہیں اور وہ افسردگی کے عالم میں رونما ہونے والا تماشہ دیکھ رہے ہیں، کہ اس صورتحال نے ان کو اس بات پر مجبور کیا کہ وہ خاموش تماشائی کی طرح حالات کا تماشا کریں۔ خیبر پختونخوا میں الیکشن مہم ایک نئے جوش و جذبے کے ساتھ جاری ہے، اب سوال یہ ہے کہ خیبر پختونخوا میں کون برسرِ اقتدار آئے گا؟ یہ یقین سے کہنا قبل از وقت ہے۔ سابقہ ریکارڈ اور الیکشن میں لوگوں کے موڈ کو دیکھ کر ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ کم از کم پی ٹی آئی کیلئے الیکشن جیتنا انتہائی مشکل ہوگا، کیونکہ سابق وزیراعلٰی پرویز خٹک نے پشاور کو کھنڈرات میں تبدیل کر دیا۔

ضلع نوشہرہ میں کوئی میگا پراجیکٹ نہیں بنایا گیا، جبکہ انہوں نے 5 سالہ دورِ حکومت میں ڈنگو سولر سسٹم بور، دریا کے کنارے بند کی تعمیر سمیت کئی تعمیری کام کئے اور ان لوگوں کو مالا مال کیا، جو پرویز خٹک گروپ میں شامل تھے۔ انہوں نے 5 سالوں میں خوب دولت کمائی اور آج وہ بڑی بڑی گاڑیوں کے مالک ہیں۔ لیکن پرویز خٹک یہ بات بھول گئے تھے کہ ووٹ غریبوں کے پاس ہوتا ہے، نہ کہ ٹھیکیداروں کے پاس، کیونکہ غریب لوگ کسی امیر آدمی کے کہنے پر ووٹ نہیں دیتے۔ اس لئے اب الیکشن کا وقت قریب ہے، سابق وزیراعلٰی پرویز خٹک اپنے دوستوں، ضلعی ممبران اور تحصیل ممبران کو منانے میں مصروف ہیں کہ اب کیا کریں؟ جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔ نوشہرہ میں 2 قومی اور 5 صوبائی حلقوں کے امیدواروں کے کاغذات نامزدگی منظور ہونے کے بعد حتمی فہرست جاری کر دی گئی ہے۔

قومی اسمبلی حلقہ کے حلقے این اے 25 سے پی ٹی آئی کے امیدوار سابق وزیراعلٰی پرویز خٹک، مسلم لیگ (ن) کے سراج خان، پاکستان پیپلز پارٹی کے خان پرویز، عوامی نیشنل پارٹی کے ملک جمعہ خان، ایم ایم اے کے پیر ذوالفقار باچا، آزاد امیدوار احرار خٹک جو اے این پی سے ناراض ہو کر آزاد حیثیت سے الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں، شامل ہیں۔ قومی اسمبلی کے دوسرے حلقے این اے 26 سے پی ٹی آئی کے امیدوار سابق وزیراعلٰی کے داماد ڈاکٹر عمران خٹک، پاکستان پیپلز پارٹی کے میاں فیروز جمال شاہ، پاکستان مسلم لیگ (ن) کے حاجی نواب خان، اے این پی کے جمال خٹک اور ایم ایم اے کے حافظ لقمان قاضی شامل ہیں۔ اسی طرح صوبائی اسمبلی کی 5 نشستوں کیلئے درج ذیل امیدواروں کے درمیان مقابلہ ہوگا۔ پی کے 61 سے اے این پی کے پرویز احمد خان، ایم ایم اے سے حاجی عنایت الرحمٰن، پی ٹی آئی سے سابق وزیراعلٰی پرویز خٹک، پاکستان پیپلزپارٹی کے پیر اسلم، آزاد امیدوار ساجد مشوانی ناراض گروپ پی ٹی آئی شامل ہیں۔

پی کے 62 سے ایم ایم اے سے انجینئر امیر عالم، انجینئر نہال مسلم لیگ (ن)، اے این پی سے خلیل عباس خٹک، پی ٹی آئی سے ادریس خٹک، پاکستان پیپلز پارٹی سے میجر (ر) بصیر خٹک اور آزاد امیدوار مفتی فضل معبود کے درمیان مقابلہ ہوگا۔ پی کے 63 سے پاکستان پیپلز پارٹی کے لیاقت شباب، پی ٹی آئی کے جمشید الدین کاکا خیل، بیرسٹر میاں سرور شاہ آزاد امیدوار، ایم ایم اے سے قربان علی خان، مسلم لیگ (ن) سے اختیار ولی خان، اے این پی کے شاہد خٹک کے درمیان مقابلہ ہے۔ پی کے 64 سے پاکستان پیپلز پارٹی سے میاں یوسف جمال، اے این پی سے شاہد خٹک، مسلم لیگ (ن) سے ظہور کاکاخیل، سابق وزیراعلٰی پرویز خٹک، جبکہ ایم ایم اے کے امیدوار الحاج پرویز خٹک بھی اس حلقے سے الیکشن لڑ رہے ہیں۔ اسی طرح پی کے 65 سے اے این پی کے امیدوار سیکرٹری جنرل میاں افتخار حسین، پی ٹی آئی سے میاں خلیق الرحمٰن، ایم ایم اے طارق خٹک، تحریک لبیک سے پیر حیدر علی شاہ باچا، پاکستان پیپلز پارٹی سے داؤد خٹک، آزاد امیدوار جواد علی سینہ اور اختر علی اختر شامل ہیں۔ انتخابات کا حتمی فیصلہ 25 جولائی کو ہوگا اور پتہ چلے گا کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا۔؟
خبر کا کوڈ : 735846
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش