0
Sunday 8 Jul 2018 21:55

مقبوضہ کشمیر کی صحافت بھارتی انتہا پسندی کے نشانے پر

مقبوضہ کشمیر کی صحافت بھارتی انتہا پسندی کے نشانے پر
رپورٹ: جے اے رضوی

مقبوضہ کشمیر میں گزشتہ تین دہائیوں کے دوران صحافت اور صحافیوں کا رول کیا رہا ہے، اس سے نہ صرف ساری دنیا واقف ہے بلکہ ہر مرحلے پر اس کے رول اور خدمات کا کھلے بندوں اعتراف کیا جاتا رہا ہے۔ جمہوریت کے چوتھے ستون کی حفاظت کے لئے صحافت کے پیشے سے تعلق رکھنے والے طبقے نے کیسی قربانیاں پیش کی ہیں وہ اظہر من الشمس ہیں اور کسی بے ضمیر، بدعنوان اور بددماغ شخص یا ایسے حلقوں کی ہرزہ سرائی سے دن کی روشنی کو جھٹلا کر رات کی تاریکی قرار نہیں دیا جاسکتا۔ اختلاف کرنا ہر بنی نوع انسان کا حق ہے لیکن اگر اسے دھونس، دباؤ اور دھمکیوں کی صورت دے دی جائے تو یہ انسانیت اور جمہوریت کے مسلمہ اصولوں کی بیخ کُنی کا عمل بن جاتا ہے۔ مقبوضہ جموں و کشمیر کے سابق وزیر اور بھاجپا کے لیڈر لال سنگھ نے گزشتہ دنوں سرکردہ صحافی سید شجاعت بخاری کے بے دردانہ قتل کی روشنی میں پیدا شدہ ابتذالی منظرنامے میں کشمیر کی صحافتی برداری کے خلاف جو دھمکی آمیز لب و لہجہ اختیار کیا ہے وہ نہ صرف جمہوریت اور سیاست کے بنیادی اصولوں کے خلاف ایک اعلان جنگ ہے بلکہ اُن قوانین کی دھجیاں اُڑانے کے مترادف ہے، جو بھارتی آئین کا حصہ ہیں اور جن کی رو سے تحریر و تقریر کی آزادی ہر شہری کا حق ہے۔

جس طرح بھاجپا لیڈر لال سنگھ نے کشمیر کی صحافتی برادری کو دھمکی دی ہے وہ کُھلم کُھلا ایک مجرمانہ فعل ہے۔ جس لہجے میں لال سنگھ نے شجاعت بخاری کے قتل کا حوالہ دے کر صحافیوں کو ایسی حالت سے بچنے کے لئے اپنی راہیں اور خطوط متعین کرنے کا انتباہ دیا ہے اُس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ انہیں اس بے دردانہ قتل کی وجوہات اور کیفیات کا کسی نہ کسی صورت میں علم ہے اور حکومت کی جانب سے اس معاملے کی تحقیقات کرنے والے اداروں پر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ لال سنگھ سے اس معاملے پر تفتیش کرکے تفصیلات طلب کرے۔ یہ بدقسمتی کی بات ہے کہ مقبوضہ کشمیر کی سابق مخلوط حکومت میں وزارت کی کرسی پر براجمان ہونے کے دوران بھی اُنہوں نے نہ صرف کھلم کُھلا فرقہ پرستی کا مظاہرہ کیا بلکہ فرقہ وارانہ بنیادوں پر دھمکیاں دینے سے بھی احتراز نہ کیا۔

قابل ذکر ہے کہ کشمیری صحافیوں کے خلاف چودھری لال سنگھ کی دھمکی پر مقبوضہ کشمیر کی سیاسی، سماجی و صحافتی حلقوں نے سخت تنقید کرتے ہوئے مذکورہ بھاجپا لیڈر کے خلاف سخت کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔ اپنے ایک بیان میں پی ڈی ایف سربراہ اور ایم ایل ائے خانصاحب حکیم محمد یاسین نے بی جے پی رُکنِ اسمبلی چودھری لال سنگھ کے اس بیان کی زبردست مذمت کرتے ہوئے مذکورہ بیان کے تناظر میں چودھری لال سنگھ کے خلاف با ضابطہ ایف آئی آر درج کیا جانا چاہئے۔ اُنہوں نے کہا ہے کہ چودھری لال سنگھ جیسے نفرت پھیلانے والے اشخاص کے ساتھ کسی بھی طرح کی نرمی نہیں برتنی چاہئے جن کی وجہ سے لوگوں میں مذہب اور خطوں کی بُنیاد پر نفرت اور خلیج کے بوئے جا رہے ہیں۔ اس دوران محمد یوسف تاریگامی نے بی جے پی سے کہا کہ وہ لال سنگھ کی طرف سے کشمیری صحافیوں کو دھمکی کی وضاحت کریں۔  اس دوران بی جے پی لیڈر چودھری لال سنگھ کے حالیہ بیان کی سخت الفاظ میں مذمت کرتے ہویے ضلع جرنلسٹ ایسوسیشن پونچھ کے عہدداران نے لال سنگھ کے خلاف قانونی کارروائی کی اپیل کی ہے۔ ادھر جموں کشمیر گوجر بکروال کانفرنس کے جنرل سکریٹری چودھری محمد یاسین پسوال نے کہا کہ ریاست جموں کشمیر کے صحافی انتہائی مشکلات کے باوجود تمام ملک میں قابل قدر کام انجام دئے رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کشمیر کے صحافی بے زبانوں کی آواز ہیں اس معتبر آواز کے خلاف کسی بھی انسان کی جانب کوئی بھی قدم ناقابل قبول ہے۔

یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ کشمیر کے معروف صحافی اور تاریخ دان مرحوم صوفی محی الدین نے اپنی کتاب ”جموں و کشمیر میں اردو صحافت” میں لکھا ہے ”کشمیر میں پریس کے تئیں کسی حکومت نے کبھی بھی اپنی ذمہ داریوں کا احساس نہ کیا۔ یہاں کی حکومتوں نے پریس کو دبانا ہی اپنا فرض منصبی جان لیا۔ اس دباؤ میں کشمیر کا پریس کیونکر صحتمند کردار ادا کرسکتا ہے اور دیانت دارانہ تنقید کا فرض پورا کر پائے‘‘۔ صوفی محی الدین مزید رقمطراز ہیں ’’کشمیر کا پریس شخصی دور حکومت میں اور اس کے بعد عوامی حکومتوں کے دور تک ایک ہی قسم کے حالات سے دوچار رہا‘‘۔ عصر حاضر کو دور ابلاغ عامہ کہا جاتا ہے اور آج دنیا ترقی و کامرانی کی جس منزل پر کھڑی ہے اس کا سہرا ذرائع ابلاغ کے سر جاتا ہے۔ اس وسیع ترین دنیا کو ”میڈیا” نے ”گلوبل ولیج” میں تبدیل کیا ہے۔ ریاست جموں و کشمیر کی تعمیر و ترقی میں بھی یہاں کے اخبارات نے ایک اہم رول ادا کیا ہے لیکن اس کے عوض صحافت سے وابستہ افراد کو اگر کچھ ملا ہے تو وہ ہیں قابض فورسز کی گالیاں، لاٹھیاں اور گولیاں‘‘۔ کشمیری عوام کی طرف سے شروع کی گئی مزاحمتی تحریک کے دوران جہاں فورسز اور پولیس نے نوجوانوں کے خلاف طاقت کا بے تحاشہ استعمال کیا وہیں میڈیا سے وابستہ افراد کو بھی تشدد کا نشانہ بنانے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی۔ میڈیا کے لئے ایسے حالات پیدا کئے گئے کہ صحافیوں کے لئے اپنے فرائض کی ادائیگی مشکل ہی نہیں ناممکن بن گئی۔

مقام شکر ہے کہ کشمیر میں سید شجاعت بخاری جیسے صداقت شعار صحافی جوق درجوق موجود ہیں، اس لئے لال سنگھ کی دھمکیاں ان کو سچ بولنے سے روک سکتی ہیں نہ سچ لکھنے سے باز رکھ سکتی ہے۔ وہ ہرحال میں کشمیری مسلمانوں کا درد اُجاگر کرتے رہیں گے، ان کے حوصلے کبھی پست نہ ہوں گے، چاہے فسطائی عناصر کتنا بھی بھونکیں۔ فسطائیوں کی لاکھ فتنہ پرورانہ کوششوں کے باجود کشمیر کے حق گو صحافی حقائق کو سامنے لاتے رہیں گے بلکہ کڑوا سچ یہ ہے کہ صحافت کے میدان میں کام کرنا ان کی مادی ضرورت نہیں بلکہ مقصد زندگی بن چکا ہے۔ سید شجاعت بخاری کی شہادت نے نوجوان صحافیوں میں یہ جذبہ کوٹ کوٹ کر بھر دیا ہے کہ وہ تمام شرپسند اور سماج دشمن عناصر کو عوام کے سامنے ننگا کرنے کے لئے جان جھوکم میں ڈالیں گے اور حقائق کی جوت جگا کر ہی دم لیں گے۔ ان کا یہ مردانہ کردار اور خلوص ضرور رنگ لائے گا اور صحافتی دنیا میں کشمیری صحافیوں کا نام  اس بابت سر فہرست رقم ہوگا کہ انہوں نے جان کی پرواہ نہ کرتے ہوئے بھی سچائی کا دامن لمحہ بھر کے لئے بھی نہ چھوڑا اور کشمیر کے درد و کرب کو اظہار کی زبان دی۔

یہاں یہ بات بھی ذکر کرتے چلیں کہ آزادی صحافت کے لئے کام کرنے والی عالمی تنظیم آر ایس ایف (رپورٹرز ودآوٹ بارڈرز) نے کہا ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں پیشہ ورانہ امور کی انجام دہی میں صحافیوں کو مشکلات کا سامنا ہے کیونکہ بھارتی حکومت کی ایماء پر فورسز کی طرف سے مقامی صحافیوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔ آر ایس ایف کی سالانہ رپورٹ کے مطابق کشمیری صحافیوں کو کئی طرح کی مشکلات کا سامنا ہے، غیر ملکی صحافیوں کے کشمیر داخلے کی اجازت نہیں ملتی جبکہ مقامی صحافیوں کے لئے حالات سازگار نہیں ہیں، جموں و کشمیر میں انٹرنٹ بھی بند کر دیا جاتا ہے دوسری طرف بھارت میں انتہا پسندوں کی طرف سے بھی اخبار نویسوں کو دھمکیوں کا سامنا ہے۔ آر ایس ایف کی رپورٹ میں بھارت اور بنگلہ دیش کو آزادی صحافت کے حوالے سے بالترتیب 138ویں اور 146ویں نمبر پر رکھا گیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق، آزادی صحافت کو انتہا پسند گروپوں، دینی تنظیموں اور انٹیلی جنس اداروں کے ہاتھوں نشانہ بننے کا خدشہ لاحق رہتا ہے۔ واضح رہے کہ سید شجاعت بخاری مقبوضہ کشمیر میں 1990ء میں مسلح جدوجہد اور شورش شروع ہونے کے بعد قتل ہونے والے پندرہویں صحافی ہیں۔
خبر کا کوڈ : 736230
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

منتخب
ہماری پیشکش