0
Sunday 8 Jul 2018 00:38

سنگ میل بنو، سنگ راہ نہیں!!!

سنگ میل بنو، سنگ راہ نہیں!!!
تحریر: عظمت علی
Rascov205@gmail.com


امام جعفر صادق علیہ السلام باب علم و شہر حکمت سے تعلق رکھتے تھے۔ آپ کے خاندان کا طرہ امتیاز یہ تھا کہ انہوں نے کبھی بھی غیر کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ نہیں کیا، بلکہ مشہور زمانہ علماء بھی آپ کے در سے علمی خیرات مانگنے کو قابل صد افتخار سمجھتے۔ آپ کی چوکھٹ سے شب و روز علم کی خیرات تقسیم ہوتی۔ جو ان کے در سے متمسک ہوگیا وہ یا حبرالامۃ بنا یا امام اعظم۔۔۔ہر زمانہ میں آپ کے آباء و اجداد کی عظمت و وجاہت کا سکہ چلتا رہا ہے اور لوگوں کے دلوں پر ان کا علمی قبضہ رہا ہے۔ آپ سلسلہ علم و عصمت کی ایک کڑی  تھے، لہٰذا، دیگر فرزندوں کی بجائے آپ کے والدین اور دادا کی خاص توجہ کا مرکز آپ ہی کی ذات گرامی  رہی ہے چونکہ آپ غیر معمولی صلاحیتو ں کے حامل تھے۔ آپ کا عہد اتنا بےکیف اور گھٹن کا تھا کہ جہاں مشعل حق و حقانیت چراغ سحری کی طرح ٹمٹما رہی تھی۔ باطل کی تاریکیاں پوری فضاء کو اپنے حصار میں لئے ہوئی تھیں، لوگ مفاد پرستی اور شخصیت پرستی کے دریا میں غرق تھے عوام الناس منصب، اقتدار، تخت و تاج اور جاہ  و حشمت کی طمع میں اپنے قریبی حضرات کو بھی راستے کا پتھر سمجھ کر ہٹا دیتے تھے۔ انسانیت ظلم و استبداد کی چکی میں پس رہی تھی، یہ اس چھینا جھپٹی کا زمانہ تھا جب بنی امیہ کی حکومت کا چراغ مدہم ہو جانے کو تھا اور بنی عباس برسر اقتدار آنے کو تھے۔ امام اسلام دشمن حکومت کی دونوں نیرنگیاں مشاہدہ کررہے تھے۔

40ھ قائم جبروتی حکومت نے ہمیشہ آل اطہار پر تشدد و بربریت سے کام لیا، اس کی انتھک کوشش یہ ہوتی کہ خاندان رسول کو ہر آن شکنجوں میں رکھا جائے۔ اسی باعث جاسوسوں نے لمحہ لمحہ کی حرکات و سکنات کو اپنی نظر میں رکھا کہ کہیں لوگ آپ کے فضل و کمال کی بناء پر آپ کے ہمراہ نہ ہو جائیں اور ہماری ظالمانہ حکومت کی ناؤ ڈوب جائے! اس ظالم حکومت کے مظالم کا شمار کرنا محال نہ سہی مگر مشکل ضرور ہے لیکن امام حسن کے جنازے پر تیروں کی بارش، کربلا میں فرزندان اسلام کا قتل، مدینۃ الرسول کی بےحرمتی، بیت اللہ کی تاراجی، آئین اسلام کی پامالی اور شرعی قوانین کی توہین ۔۔۔ایسے شنیع و جگر خراش واقعات تھے جو لمحہ بہ لمحہ امت مسلمہ کے فکر و ذہن کو جھنجھوڑ رہے تھے۔ بالآخر! سوئی ہوئی فکریں بیدار ہوئیں، ان دلخراش سانحات کا مسلمانوں کے دلوں پر گہرا اثر پڑا اور اتنا گہرا اثر پڑا کہ مردہ بھی بول اٹھے! پھر کیا تھا۔۔۔؟ لوگوں نے برملا مخالفت شروع کر دی۔ بنی عباس نے اس موقع کی نزاکت کا بھرپور فائدہ اٹھایا، انہوں نے لوگوں کو حالیہ حکومت کے خلاف خوب بھڑکایا، کہاوت مشہور ہے کہ چڑھتے سورج کی دنیا پوجا کرتی ہے لہٰذا! عوام الناس نے شانہ بشانہ ہو کر حکومت وقت کی چولیں ہلا دیں اور بنی عباس "یالثارات الحسین "کا انقلابی نعرہ لگا کر بازی لے گئے۔

بالآخر! اموی حکومت کا چراغ گل ہوا، غاصب صاحبان اقتدار اپنی اپنی قبروں کو ہو چلے اور زمینی کیڑے مکوڑوں کی خوراک بن گئے اور ان کے نام پر تا صبح قیامت لعنت کی پھٹکار پڑتی رہے گی۔ گویا امام نے اقتدار کی ڈوبتی ناؤ کو ہچکولے لیتے اور صاحبان اقتدار کی آخری چیخ و پکار کو سنا ہے۔ بس یہ وہ دو دشمن حکومت کے باہمی اختلاف کا درمیانی وقفہ تھا جو امام صادق کے علوم نشر کرنے اور تبلیغ الٰہی کا بہترین زمانہ ثابت ہوا۔ آپ نے اس وقت کا بھرپور فائدہ اٹھایا۔ امام نے اپنے اعمال و کردار سے ذہن انسانی کو ایک علمی انقلاب کے لئے آمادہ کیا۔ لوگوں نے ابھی نور علم کی جھلک ہی دیکھی تھی کہ اس کے دلدادہ ہو گئے، اس لئے آپ نے ان کی خاطر مزید علمی راہیں ہموار کیں۔ آپ کی روش تعلیم کو دیکھ کر لوگوں  نے علمی میدان میں حصہ لینا شروع کیا، اب کئی اجتماعی پروگرام میں منطق و فلسفہ کی مباحث زیر بحث آنا شروع ہو گئیں۔ جب ان کے تاریک دلوں نے علم کی تابناک شمع  کا مشاہدہ کیا تو وہ دو قدم اور آگے بڑھے، اس طرح ہر قوم و قبیلہ کے افراد مسند علم سے نزدیک ہوتے گئے، لہٰذا، آپ نے بھی ان کے علمی رجحان کو خو ب سراہا۔ اسی سبب آپ کی درسگاہ میں دن دوگنی رات چوگنی ترقی ہوتی گئی یہاں تک کہ بیک وقت چار ہزار طالب علم مصروف تعلیم رہتے۔

امام جعفر صادق نے جدید علوم کے ایسے انوکھے  شگوفے وا کئے کہ آج تک سائنس دانوں کی عقلیں حیران ہیں کہ ہزار برس قبل ہزاروں شاگردوں کو مختلف جدید علوم و فنون کی تعلیم دینا کیا کسی  معجزے سے کم  ہے؟! آپ نے مردہ ضمیروں کو تقوای الٰہی کے نور سے اس طرح جلا بخشی کہ انہیں ہر آن یہ محسوس ہونے لگا کہ "فان الشاہد ھو  الحاکم" کہ (خدا ہمیں دیکھ رہا ہے)۔ دین اسلام نے ہمیشہ لوگوں کو یکجہتی کی طرف دعوت دی ہے۔ اس کا عملی ثبوت بھی آپ کی حیات طیبہ سے بالکل واضح نظر آ رہا ہے کہ آپ کے دسترخوان علم سے دیگر مذاہب اور مختلف ممالک کے حضرات بھی مستفید ہوتے۔ شب و روز یہی کوشش رہتی کہ معاشرہ میں رائج بے بنیاد اعمال و عقائد کی اصلاح کی جائے۔ اسی لئے یونان، روم، ہند اور ایران کے لادین فلسفی جو کہ مسلمانوں کے دلوں پر راج کر رہے تھے ان سے علمی سطح پر مقابلہ کی آسان راہیں ہموار کیں، آپ کا سب سے نمایاں کام مذہب تشیع کی بقا کے لئے جاویداں ثقافت کی تشکیل تھی، جو آج تمام مذاہب کو پیچھے چھوڑ کر بہت ہی تیزی سے اپنی منزل کمال کی طرف رواں دواں ہے اور ہنوز کم تعداد ہونے کے باوجود کسی غیر کے سامنے گھٹنے نہیں ٹیکے بلکہ اس کی حقانیت کے سامنے عالم دوراں کی زبانیں گنگ پڑی ہیں۔ المختصر! امام عالی مقام کی گرانقدر خدمات کا خلاصہ یہ ہے کہ سنگ میل بنو، سنگ راہ نہیں!
خبر کا کوڈ : 736314
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش