0
Saturday 7 Jul 2018 21:17

پاکستان مخالف طالبان کے خاتمے کا امریکی وعدہ یا لالی پاپ

پاکستان مخالف طالبان کے خاتمے کا امریکی وعدہ یا لالی پاپ
تحریر: ابو فجر لاہوری

امریکہ، پاکستان اور افغانستان کے درمیان طے پا گیا ہے کہ پاکستان میں دہشتگردانہ حملوں میں ملوث طالبان جو افغانستان کی سرزمین پر اور پاک افغان ملحقہ سرحدی علاقوں میں روپوش ہیں، ان کے خاتمے کیلئے امریکہ کوئی سمجھوتہ نہیں کرے گا۔ امریکی اسسٹنٹ سیکرٹری آف سٹیٹ ایلس ویلز نے گذشتہ دورہ پاکستان کے دوران یہ گارنٹی دی تھی کہ دونوں ممالک کے درمیان اعتماد کی فضا پیدا کرنے کیلئے نیٹو افواج کو کہا گیا ہے کہ وہ پاکستان کی فراہم کردہ دہشتگردوں کی فہرست کے مطابق طالبان دہشتگردوں کے خاتمے کیلئے تمام وسائل بروئے لائیں، تاکہ پاک امریکہ اور افغان حکومتیں مل کر طالبان اور داعش کے خاتمے کیلئے جدوجہد کریں۔ اس حوالے سے معروف سکالر مائیکل جیف ہیمین کا کہنا ہے کہ پاکستان کی ملڑی اسلٹبلشمنٹ کیساتھ امریکہ کے مذاکرات کامیاب رہے ہیں۔ پاک فوج نے واضح کیا تھا کہ ہم سے ڈو مور کا مطالبہ کرنے کی بجائے افغانستان میں چھپے طالبان دہشتگردوں کیخلاف کارروائی کرنا امریکہ کا فرض ہے۔

چنانچہ امریکہ نے پاکستان کا اعتماد بحال کرنے کیلئے مولوی فضل اللہ، عمر رحمان عرف فاتح اور حافظ گل بہادر کے اہم ساتھی عبداللہ داوڑ کو ڈرون حملے میں مار کر پاکستان کو دوستی کا پیغام دیا ہے۔ ڈاکٹر تھامس گراہم کا کہنا ہے کہ پینٹاگون کی ایک رپورٹ میں ٹرمپ انتظامیہ کو کہا گیا تھا کہ طالبان کے خاتمے کیلئے ضروری ہے کہ پاکستان کیساتھ نرم رویہ رکھا جائے اور اعتماد کی فضا پیدا کی جائے، اگر ایسا نہ کیا گیا تو داعش کا مرکزی ہیڈ کوارٹر افغانستان بن جائے گا۔ امریکی تحقیقاتی اداروں نے بھی افغانستان کی سرزمین کو خطرناک قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ روس، چین اور دیگر کئی عالمی طاقتیں اب افغانستان میں موجود مختلف دہشتگرد گروپوں کو امداد فراہم کر رہی ہیں۔ ان طاقتوں کا مقصد صرف یہی ہے کہ امریکہ کو افغانستان سے نکلنے نہ دیا جائے اور اس کے وسائل کو اسی جنگ میں ضائع کیا جائے۔

جہاں تک امریکہ کے رویئے کی بات ہے تو امریکہ نے ہمیشہ پاکستان کے حوالے سے دوہرے معیار کا مظاہرہ کیا ہے۔ امریکی انتظامیہ کی صورتحال یہ ہے کہ اگر کوئی امریکی پاکستان کے دورے پر آئے تو اس کی زبان بدل جاتی ہے، اسلام آباد میں کھڑے ہو کر اسے پاک فوج کی قربانیاں بھی یاد آجاتی ہیں اور دہشتگردی کیخلاف جنگ میں پاکستان کا نمایاں کردار بھی وہ تسلیم کرتے ہیں، لیکن جیسے ہی وہ پاکستان کی سرزمین سے نکلتے ہیں ان کی ’’ٹون‘‘ ہی تبدیل ہو جاتی ہے۔ پاکستان کو دہشتگردی سے متاثرہ ملک کی بجائے ’’دہشتگرد ملک‘‘ قرار دیتے ہیں۔ واشنگٹن میں بیٹھ کر پاکستان پر بے بنیاد الزام تراشی اور غلیظ پروپیگنڈا کیا جاتا ہے۔ واشنگٹن بھی دہلی کی زبان بولنے لگتا ہے۔ تشویشناک امر یہ ہے پاکستان کی اشرافیہ اور ایوان اقتدار کے باسیوں کو پھر بھی امریکہ کے کھلے تضادات دکھائی نہیں دیتے۔ پاکستان حکمرانوں نے ہمیشہ امریکہ کی چوکھٹ پر سجدہ کیا ہے اور جواب میں امریکہ نے پاکستان کو سوائے ملامت کے کچھ نہیں دیا، جبکہ پاکستان کے برعکس بھارت نے امریکہ میں بھی اپنا اثر و رسوخ بڑھایا ہے اور دنیا میں بھی اس وقت بھارت کا ہی طوطی بولتا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ پاکستانی حکمران امریکہ کے حوالے سے کیا پالیسی اختیار کرتے ہیں۔

پاکستان میں عام انتخابات ہونے جا رہے ہیں، کہا جا رہا ہے کہ انتخابات کے بعد غالب امکان ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت بنے گی۔ پی ٹی آئی امریکہ کے حوالے سے واضح پالیسی رکھتی ہے، جبکہ یہ بھی اطلاعات ہیں، امریکہ نہیں چاہتا کہ پاکستان میں عمران خان کی حکومت آئے۔ عمران خان کے حوالے سے ہمارے ہی ’’جمہوری حکمرانوں‘‘ نے امریکہ کے کان میں یہ بات ڈال رکھی ہے کہ عمران خان ’’کلین شیو‘‘ طالبان ہے جبکہ عمران خان کے بابائے طالبان مولانا سمیع الحق کیساتھ تعلقات اس الزام کی دلیل کے طور پر پیش کئے جاتے ہیں، جبکہ عمران خان بھی امریکہ کے حوالے سے کوئی اچھی رائے نہیں رکھتا۔ اس صورتحال میں آئندہ کے انتخابات میں پی ٹی آئی کی فتح کو روکنے کیلئے امریکی پاکستان میں کوشاں ہیں جبکہ ’’پی ٹی آئی نواز طاقتیں‘‘ یہ چاہتی ہیں کہ عمران خان ہی اقتدار میں آئے۔ اس حوالے سے الیکشن نتائج ثابت کریں گے کہ پاکستان 2018ء کے آخر میں امریکہ کا دوست رہتا ہے یا راستے جدا کر لیتا ہے۔ اس حوالے سے امریکی بھی انتخابات پر نظریں گاڑے ہوئے ہیں اور پاکستان کی محافظ قوتیں بھی اس کی استحکام کیلئے سب کچھ کرنے کیلئے تیار ہیں۔ صورتحال جو بھی ہو بہرحال پاکستان کو امریکی چالوں سے محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔
خبر کا کوڈ : 736353
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش