0
Sunday 22 May 2011 21:09

پاکستان پر امریکی حملہ، مزید انکشافات

پاکستان پر امریکی حملہ، مزید انکشافات
تحریر:مرزااسلم بیگ 
امریکی صدر کی ہدایات کے تحت سی آئی اے نے 2 مئی 2011ء کو ایبٹ آباد میں اسامہ کو قتل کرنے کا دعوی کیا اور اسی دن لاش کو سمندر برد کر دیا۔ اس کہانی میں بے شمار خامیاں ہیں جو اس کے جھوٹے ہونے کی دلالت کرتی ہیں۔ یہ کاروائی دراصل پاکستان کی خودمختاری پر براہ راست حملہ ہے جس پر تبصرہ کرتے ہوئے میں نے دو مئی کو پاکستانی میڈیا سے کہا تھا؛ "یہ ڈرامہ ہے، جھوٹ ہے، نائن الیون کے فریب کا تسلسل ہے۔ اسامہ کو دو سال پہلے ہی قتل کیا جا چکا ہے۔ اسامہ کے اہل خاندان غالباً ایبٹ آباد میں رہتے تھے۔ حملہ آور تربیلہ بیس سے آئے تھے اور اسامہ کے ہم شکل کو ان کے بچوں کے سامنے قتل کر کے لاش افغانستان لے گئے۔" اس واقعہ سے متعلق جو حقائق سامنے آئے ہیں وہ میرے بیان کو سچ ثابت کرتے ہیں، "اسامہ کو 2009ء میں افغانستان میں قتل کیا گیا اور مقتول کی تصویر بھی شائع کی گئی اور یہی تصویر دوبارہ 2 مئی 2011ء کو شائع کی گئی اور غلطی کا اعتراف کرتے ہوئے اس تصویر کو واپس لے لیا گیا۔ ایران کے صدر جناب محمود احمدی نژاد نے بھی اس بات کی تصدیق کی ہے کہ، "اسامہ کو کئی سال قبل گرفتار کر لیا گیا تھا لیکن امریکی موقع کی تلاش میں تھے تاکہ کسی موزوں وقت پر انہیں قتل کر کے اس سے فائدہ اٹھایا جا سکے اور اب جبکہ انتخابات قریب ہیں تو اوبامہ اسے کیش کرانا چاہتے ہیں۔"
امریکہ کا یہ کہنا کہ حملہ آور افغانستان (باگرام) سے آئے، قطعاً غلط ہے۔ چشم دید گواہوں کے بیانات، جو ہمارے معتبر صحافیوں نے شائع کئے ہیں وہ گواہی دیتے ہیں کہ حملہ آور تربیلہ سے آئے تھے” کالا ڈھاکا کے گاﺅں کنڈر حسن زئی کے مکینوں نے دعویٰ کیا ہے کہ 2 مئی کی شب ایبٹ آباد آپریشن کے دوران کھیتوں میں لینڈ کرنے والے امریکی ہیلی کاپٹر تربیلا کیمپ کی جانب سے آئے تھے جو تربیلہ جھیل اور دریائے سندھ کے اوپر نچلی پرواز کرتے ہوئے گاﺅں کنڈر حسن زئی پہنچے اور مناب خان، نامی زمیندار کے کھیتوں میں اترے تھے۔ وہاں پر ان کا قیام ایک محتاط اندازے کے مطابق تیس منٹ کا تھا۔ اس کے بعد وہ دریا کے اوپر بہت نیچی پرواز کرتے ہوئے مانسہرہ کی طرف پرواز کر گئے۔ ایبٹ آباد کے مقامی لوگوں نے بتایا کہ "دونوں ہیلی کاپٹر اس گھر کے اوپر آ کر رکے تو خالی احاطہ کی دیوار کے ساتھ کسی چیز کو آگ لگ گئی جو پندرہ بیس منٹ بعد خود بخود ہی بجھ گئی"۔ جیسا کہ امریکی دعوی کر رہے ہیں کہ ان کا ایک ہیلی کاپٹر گرا تھا جو درست نہیں، کیونکہ ہیلی کاپٹر کو لگنے والی آگ پندرہ بیس منٹ میں خود بخود کیسے بجھ گئی جبکہ فائر بریگیڈ امریکیوں کے جانے کے نصف گھنٹہ بعد پہنچا۔
جس گھر پہ حملہ کیا گیا اور جہاں مبینہ طور پر اسامہ کو قتل کیا گیا اس سے متعلق بھی چشم دید گواہوں کے بیانات ملاحظہ فرمائیے، ایبٹ آباد کے رہائشی سکول ٹیچر محمد آصف نے پورے اعتماد سے بات کی کہ "یہاں کے لوگ یہ بات تسلیم کرنے کو تیار ہی نہیں کہ اسامہ بن لادن یہاں گزشتہ پانچ چھ سال سے مقیم تھے۔ آصف کا کہنا تھا کہ یہ سب ڈرامہ ہے جو کسی خاص مقصد کیلئے رچایا گیا ہے لیکن مقصد سے وہ بھی لاعلم تھے۔" ساڑھے سات مرلہ کے اس مکان کے دائیں بائیں دو اضافی احاطے اسے منفرد بناتے ہیں۔ عقل اس بات کو تسلیم کرنے سے قاصر ہے کہ دنیا کا مطلوب ترین ٹارگٹ (High Value) اس مکان میں پناہ لئے ہوئے تھا جو کسی طرح بھی محفوظ نہیں تھا۔ بلال ٹاﺅن کے ایک اور رہائشی مشتاق جدون گذشتہ آٹھ سال سے فیملی کے ساتھ یہاں رہ رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ "انہوں نے گھر کی تعمیر اور اس کے بعد اس مکان کے رہائشیوں کے حوالے سے کوئی غیر معمولی بات نہ کبھی دیکھی نہ محسوس کی"۔ مقامی لوگ اس بات کو تسلیم کرنے سے قطعاً انکاری ہیں کہ اسامہ بن لادن وہاں رہ رہے تھے۔ انہوں نے اسے امریکی ڈرامہ قرار دیتے ہوئے یکسر مسترد کر دیا۔
ایبٹ آباد کے لطیف اکبر کے مطابق "اس رات حسب معمول ساڑھے گیارہ بجے بجلی بند تھی کیونکہ یہاں لوڈشیڈنگ کے اوقات مقرر نہیں۔ اسی دوران سوا بارہ بجے کے قریب ہیلی کاپٹر کی آواز آئی اور ختم ہو گئی۔ بارہ، پندرہ منٹ بعد دو ہیلی کاپٹروں کی آوازیں آئیں اور یہ مغربی سمت یعنی کاکول اکیڈمی کی طرف سے آ رہے تھے۔ ان میں سے ایک ہیلی کاپٹر نے روشنی کے گولے پھینکے جس سے (ٹھنڈا چوا) بلال ٹاﺅن کی آبادی روشن ہو گئی۔ ہم نے پہلے اسے معمول کی کاروائی سمجھا لیکن پھر جب دونوں ہیلی کاپٹر اس گھر کے اوپر آ کر ٹھہر گئے تو ہم پریشان ہو کر گھروں سے باہر نکل آئے۔ اس دوران ایک ہیلی کاپٹر سے بیس پچیس فوجی گھر کی بیرونی دیواروں کے باہر اترے، دوسرے ہیلی کاپٹر سے احاطے کی اندرونی جانب رسوں سے لٹک کر فوجی اترنے لگے۔ عین اسی وقت جب اوپر سے اترنے والے فوجی مذکورہ گھر کے باہر پوزیشنیں لے رہے تھے، تو اس گلی میں جو اس گھر کی جانب جاتی ہے، ہم ۵۲ تا ۰۳ لوگ جمع ہو چکے تھے، اچانک بجلی آ گئی اور تمام گھروں کی اندرونی بتیاں اور گلی میں لگے بلب روشن ہو گئے۔ اس وقت ان فوجیوں میں سے ایک نے پشتو میں اونچی آواز میں کہا "لائٹ آف لکا" یعنی بجلی بند کرو اور چند سیکنڈ کے بعد ہی بجلی بند ہو گئی۔ اس موقع پر ٹھنڈا چوا کی جانب سے آنے والی گلی میں چند افراد پہنچ چکے تھے اور واقعات کا نظارہ کر رہے تھے، کچھ اور افراد بھی اپنے گھروں سے نکل آئے تھے جو اسامہ بن لادن کے مبینہ گھر کے باہر اندھیرے میں موجود فوجیوں کی موجودگی سے بے خبر تھے، اور دوڑ کر گھر کے سامنے پہنچ گئے۔ اس دوران بغیر روشنی کے دو تین بڑے دھماکے ہوئے جس سے قریبی گھروں کے شیشے ٹوٹ گئے اور اس گھر کے بیرونی احاطہ کی دیوار کا ایک حصہ بھی گر گیا جہاں سے چند افراد اندر داخل ہو گئے۔ یہ لوگ مدد کی غرض سے اندر گئے کیونکہ وہ سمجھ رہے تھے کہ پاک آرمی کے کسی ہیلی کاپٹر کو حادثہ پیش آیا ہے۔ ان میں سے چند افراد ڈر کر باہر آگئے، کچھ افراد کو امریکی فوجی ہیلی کاپٹر میں ساتھ لے گئے، جن کا اس گھر سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ یہ کاروائی ڈیڑھ بجے رات تک جاری رہی اور اندر سے اکا دکا فائرنگ کی آوازیں بھی آتی رہیں۔
یہ بات انتہائی قابل افسوس ہے کہ حکومت پاکستان اور ہمارے مقتدر اداروں نے امریکی فریب میں آ کر بلا سوچے سمجھے اپنی ناکامی کا اعتراف کر لیا اور ان سوالات کا جواب تلاش کرنے کی کوشش ہی نہیں کی جو اس جھوٹ کو بے نقاب کر سکتے تھے:۔
٭ 2009ء میں جب اس گھر پر کمانڈو ایکشن کرتے ہوئے ابولفراج کو گرفتار کیا گیا تو اس وقت اسامہ اور اس کے اہل خانہ جو امریکہ کے بقول 2006ء سے وہاں رہ رہے تھے، انہیں کیوں گرفتار نہیں کیا گیا؟
٭ اگر اسامہ 2006ء سے اس گھر میں رہ رہا تھا تو ہماری سکیورٹی ایجنسیاں اس کے گرد گھیرا تنگ کرکے اسے کچھ عرصہ پہلے کیوں نہ پکڑ سکیں؟ اتنا عرصہ انتظار کی کیا ضرورت تھی؟
٭ جیسا کہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ہماری فضائیہ کے دو لڑاکا طیارے تیس منٹ کے اندر اندر فضا میں بلند ہو چکے تھے تو وہ کیوں کوئی کاروائی نہ کر سکے، کیا رکاوٹ تھی؟
٭ شہری اور دیہی علاقوں میں انٹیلی جنس کی ذمہ داری آئی بی، سی آئی ڈی اور ایس اے سی (Special Anti Crime) یونٹس کی ہے۔ اس حوالے سے ان اداروں کا کیا کردار ہے اور سارا الزام صرف آئی ایس آئی پر ہی کیوں ڈال دیا گیا؟
٭ امریکہ گذشتہ نصف صدی سے ہمارا اتحادی ہے اور ہمیں "اہم اتحادی اور غیر نیٹو اتحادی" ہونے کا خطاب بھی عطا کیا گیا ہے تو اس کے باوجود دوستی کی آڑ میں ہماری پیٹھ پر وار کرنے اور ہمارے اداروں کو اپنی حفاظت میں ناکام ٹھہرانے کا الزام دینے کا کیا مقصد ہے؟
سینیٹر جان کیری پاکستان آیا اور پہلا اعلامیہ جاری ہو چکا ہے جو ہماری سفارتی بدحواسی کا مظہر ہے کہ "پاکستان اور امریکہ آئندہ ایسے اقدامات مل کر کیا کریں گے۔" یعنی ڈرون حملوں کی طرح ہماری خودمختاری پر حملے ہوتے رہیں گے،  بے گناہ پاکستانیوں کا قتال ہوتا رہے گا اور قومی غیرت پامال ہوتی رہے گی۔ اسامہ کے بعد اب ایمن الظواہری کا مطالبہ کیا گیا ہے، کل کسی اور کا ہو گا اور یہ دباﺅ جاری رہے گا۔ ان سے کیوں نہیں کہہ دیا جاتا کہ بند کرو یہ کھیل، جو اسامہ کے قتل کے بعد ختم ہو چکا ہے۔ سیدھی بات کرو کہ اب پاکستان اور امریکہ کے تعلقات اخلاقی اور سفارتی اصولوں کی بنیاد پر قائم ہوں گے نہ کہ آقا و غلام کی سطح پر۔ دہشت گردی تو اس دن سے شروع ہوئی جب امریکہ نے افغانستان پر قبضہ کیا تھا اور اس دن ختم ہو گی جس دن قابض فوجیں افغانستان سے نکلیں گی۔
خبر کا کوڈ : 73712
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش