0
Tuesday 24 Jul 2018 16:42

انتخابی مہم اختتام پذیر، کراچی سمیت سندھ بھر میں امیدواروں کو شدید عوامی ردعمل کا سامنا رہا

انتخابی مہم اختتام پذیر، کراچی سمیت سندھ بھر میں امیدواروں کو شدید عوامی ردعمل کا سامنا رہا
رپورٹ: ایس جعفری

پاکستان بھر میں اس وقت سیاسی انتخابی مہم اپنے اختتام کو پہنچ چکی ہے، اس دوران ہر طرف گرما گرمی نظر آئی، کہیں جلسہ جلوس تو ہیں ریلیاں، کہیں منشور کا اعلان ہوا، تو کہیں ملک و قوم کی خدمت کے عہد و پیماں باندھے گئے، کہیں نعرے لگے تو کہیں تالیاں بجیں، ہر انتخابی موسم میں ایسے ہی مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں، تاہم یہ بھی ماننا چاہیے کہ اس جدید دور کی آسائشوں اور الیکٹرونک آلات نے اس کھیل کی رونق کا رنگ ایک حد تک تو ضرور بدل کر رکھ دیا ہے۔ کہیں یہ رنگ دوبالا ہوگیا اور کہیں تہ و بالا۔ انتخابات کے نتائج کیا ہوں گے، اس بارے میں سیاسی جماعتیں اپنا اپنا مؤقف اپنے اپنے انداز اور دلائل کے ساتھ پیش کر چکی ہیں، لیکن سیاسی صورتحال کے بارے میں اس بار عوامی شعور بھی ذرا مختلف انداز سے کام کرتا ہوا نظر آیا۔ اس شعور کا اظہار مختلف شکلوں میں ہوا۔ اس کی ایک صورت یہ دیکھنے میں آئی کہ سیاسی رہنما و امیدوار اپنے انتخابی حلقوں میں گئے، تو لوگوں نے ان کے سامنے پوری جرأت کے ساتھ اپنی شکایات پیش کیں، ان پر اعتراضات اُٹھائے، ان سے تُند و تیز سوالات کیے کہ وہ فلاں بات کا جواب دیں یا فلاں مسئلے کی وضاحت کریں۔ بعض حلقوں میں عوامی غصہ بھی دیکھنے میں آیا، جہاں سیاسی شخصیات کا استقبال غصے اور ردِعمل کے اظہار کے ساتھ کیا گیا۔ شکایت اور ردِعمل کے یہ مظاہرے تحریک انصاف، پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم مسلم لیگ (ن) جیسی اہم اور خاص ووٹ بینک رکھنے والی سیاسی جماعتوں کے سلسلے میں دیکھے گئے۔

اس حقیقت کے اعتراف میں کوئی تامل نہیں ہونا چاہیے کہ عوام نے اس مرحلے تک آنے میں بہت وقت لگایا۔ یہ کام تو اس سے کہیں پہلے شروع ہو جانا چاہیے تھا، اگر ہو جاتا تو بحیثیت قوم وہ قیمت ادا نہ کرنی پڑتی، جو گذشتہ نصف صدی میں ادا کرنی پڑی۔ آج پاکستان کا بچہ بچہ قرض کی دلدل میں دھنسا ہوا ہے۔ یقیناً یہ سب ہمارے سیاستدانوں کا کیا دھرا ہے، لیکن اس میں خود عوام نے بھی ایک کردار ادا کیا ہے۔ عوامی کردار یہ ہے کہ اس نے سیاست کو صرف اور صرف کچھ لوگوں پر چھوڑ دیا اور کبھی ان جاگیردار، وڈیرے قسم کے سیاست دانوں کا احتساب نہیں کیا۔ گذشتہ چھے دہائیوں سے ملک میں سیاست کچھ خاندانوں تک محدود ہو کر رہ گئی ہے۔ نسل در نسل ملک کی باگ ڈور اور عوام کا مستقبل انھی خاندانوں کے ہاتھ میں رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سیاست ہمارے یہاں طاقت اور پیسے کا مکروہ اور گھناﺅنا کھیل بن کر رہ گئی ہے۔ ان خاندانوں کے اقتداری دور میں دیکھا جائے، تو یوں محسوس ہوتا ہے جیسے یہ اس قوم اور ملک کو موروثی جائیداد کا حصہ سمجھتے ہیں، اس لیے عوام کی فلاح، ترقی اور خوش حالی کے بارے میں بھی نہیں سوچتے، بلکہ یہ دیکھتے ہیں کہ وہ ان کے ذریعے کیا کیا فائدے اٹھا سکتے ہیں اور اپنی دولت میں کب، کیسے اور کتنا اضافہ کر سکتے ہیں۔ بہرحال عوام کے بگڑے تیور دیکھ کر شہر کراچی سے لیکر سندھ بھر کے الیکشن امیدواران کے ہاتھ پاﺅں پُھول گئے اور ان کیلئے اپنی انتخابی مہم چلانا مشکل ہوگیا تھا۔

ایم کیو ایم کے فاروق ستار ہوں یا تحریک انصاف کے علی زیدی، عارف علوی، فیصل واوڈا، یا پھر پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری ہوں یا سابق وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ یا دیگر سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں کو عوام کے سخت ردعمل کا سامنا کرنا پڑا، کراچی سے چلنے والی عوامی ردعمل کی یہ لہر اندرون سندھ بھی دکھائی دی، انتخابی  مہم کے اختتام سے چند روز قبل پی پی امیدوار حلقہ این اے 218 پیر حسن شاہ جیلانی نے انتخابی مہم کے سلسلے میں مقامی رہنما حنیف میمن اور دیگر کے ہمراہ شہر کے کاروباری مراکزکا دورہ کیا، جہاں ایک تاجر نے ان سے پوچھا کہ پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت آج تک عوام کو زندگی کی بنیادی سہولتیں کیوں فراہم نہ کر سکی، پیر حسن شاہ جیلانی اس سوال کا دُرست جواب نہ دے پائے۔ مقامی رہنما حنیف میمن شہر کے معروف تاجر کو منہ پر انگلی رکھ کر خاموش رہنے کا اشارہ کرتے رہے اور مصافحے کیلئے ہاتھ آگے بڑھایا، لیکن تاجر نے ہاتھ ملانے کے بجائے مضبوطی سے ہاتھ پکڑ لیا اور بنیادی سہولتوں کی عدم فراہمی اور پانچ برس بعد عوام سے رابطہ کرنے کا شکوہ کیا۔ تاجر کے پے درپے سوالات سے بوکھلاہٹ کا شکار پی پی امیدوار پیر حسن شاہ جیلانی اور مقامی رہنما حنیف میمن نے ہاتھ چھڑا کر بھاگنے میں عافیت جانی، جبکہ موقع پر موجود دیگر رہنما پانی کی عدم فراہمی کا ذمّہ دار قدرت کو ٹھہراتے رہے۔ اس واقعے کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہونے سے پیپلز پارٹی اور اسکے امیدوار کو شدید خفت کا سامنا کرنا پڑا۔

ایک اور واقعہ میں پی پی امیدوار حلقہ پی ایس 47 ہری رام کو بھی گذشتہ دنوں مقامی رہنماﺅں کے ہمراہ میرپورخاص کے علاقے آدم ٹاﺅن سمیت ملحقہ علاقوں کا دورہ کیا، جہاں شہریوں کا شدید منفی رد عمل دیکھتے ہوئے انہیں الٹے قدموں واپس لوٹنا پڑا۔ اسی طرح میرواہ گورچانی میں پی پی امیدوار میر منور تالپور کی انتخابی مہم کے دوران حلقے میں پانچ برس بعد آمد کا شکوہ کرنے پر جیالے بھڑک اٹھے اور انہوں نے الٹا علاقہ مکینوں کو شدید زدوکوب کیا۔ اس طرح مصطفیٰ کمال کی پاک سرزمین پارٹی کے امیدوار شبیر احمد قائم خانی ہیرآباد اور حمید پورہ کالونی میں انتخابی مہم کے دوران عوامی لاتعلقی دیکھ کر شدید مایوسی کے عالم میں یہ کہتے نظر آئے کہ ہم تو صرف رسم پوری کرنے آئے تھے، اس طرح شبیر احمد قائم خانی کی انتخابی مہم اپنے آغاز ہی سے ناکام ہوگئی۔ ان کی مایوسی دیکھ کر اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ انہوں نے عوامی رجحان کے مدنظر متوقع انتخابی نتائج کا ادراک کر لیا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسا کیوں ہو رہا ہے؟ مثلاً کراچی میں ایم کیو ایم، سندھ میں پیپلز پارٹی کے رہنماﺅں کو گھیر کر تُند و تیز سوالات پوچھے جا رہے ہیں، اس سے پہلے کیوں نہیں پوچھے جاتے تھے۔ غور کیا جائے تو اس سوال کا جواب کوئی اتنا مشکل نہیں۔

صوبہ سندھ کے لوگ پہلے اس لیے ان پارٹیوں سے سوالات نہیں کرتے تھے کہ ان کے رعب و دبدبے سے ڈرتے تھے، ان کی ظاہری چمک دمک اور بدمعاشیوں سے خوف کا شکار تھے۔ سندھ بھر میں ان جماعتوں کا ”سلوک“ کوئی نہیں بُھولا ہے۔ اب ان جماعتوں کو ان کے ”کرتوتوں“ کی وجہ سے جوتے پڑ رہے ہیں، ووٹ لیکر عوام کو کچھ نہ ڈلیور کرکے یہ اُن پر اپنا اعتبار کھو چکے ہیں، آج کمزور ہو کر سامنے آئے ہیں تو عوام کو ہمّت ہوئی ہے کہ وہ ان سے سوالات کرے اور پوچھے کہ انہوں نے ایسا کیوں کیا، کیوں ہمارے حقوق پائمال کئے، اب اس بار کس منہ سے ووٹ مانگنے آئے ہیں۔ اس بار اگر الیکشن میں اس بات کی اجازت دی جائے کہ جن پارٹیوں نے گذشتہ تین الیکشنز میں عوام سے ووٹ لیکر ان کے مسائل سے پہلو تہی کی، انہیں بے وقوف بنایا، عوام انہیں جوتے لگائے۔ عوام اپنے مسائل حل نہ ہونے کی وجہ سے اتنی پریشان ہے کہ اس بات کی اجازت ملتے ہی وہ ان پارٹیوں کے مرکزی رہنماﺅں کو بھی ان کے گھروں سے باہر نکال کر جوتے لگانے سے دریغ نہیں کرے گی۔ بہرحال عوام کا یہ روّیہ کل بروز بدھ 25 جولائی کو ہونے والے عام انتخابات کے نتائج پر کتنا اثرانداز ہوگا، یہ آئندہ چند دنوں میں واضح ہو جائیگا!
خبر کا کوڈ : 738204
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش