0
Wednesday 18 Jul 2018 19:08

ایرانی فوجی وفد کا دورہ پاکستان، داعش کا سدباب ہو سکے گا؟؟

ایرانی فوجی وفد کا دورہ پاکستان، داعش کا سدباب ہو سکے گا؟؟
تحریر: ابو فجر لاہوری

ایران کے ایک اعلیٰ عسکری وفد نے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے راولپنڈی میں ملاقات کی۔ مستونگ دھماکے کے بعد اُبھرنے والے سکیورٹی منظر نامے کے تناظر میں اس ملاقات کو پاکستان میں ماہرین انتہائی اہم قرار دے رہے ہیں۔ وفد کی قیادت ایرانی مسلح افواج کے چیف آف جنرل سٹاف میجر جنرل ڈاکٹر محمد باقری کر رہے تھے۔ پاکستان آرمی کے شعبہ تعلقات عامہ کے مطابق جنرل باجوہ نے اس موقع پر دونوں ممالک کے درمیان فوجی تعاون بڑھانے کی ضرورت پر زور دیا۔ پاکستانی آرمی چیف کا کہنا تھا کہ پاک ایران فوجی تعاون خطے میں امن و امان اور سکیورٹی صورتِحال پر مثبت اثر ڈالے گا۔ آئی ایس پی آر کے مطابق ایرانی وفد نے پاکستان میں دہشتگردانہ حملوں کی مذمت کی اور پاک ایران تعلقات میں بہتری کیلئے تعاون جاری رکھنے پر اتفاق کیا۔ آئی ایس پی آر کے اعلامیے کے مطابق اس ملاقات میں باہمی دلچسپی کے امور اور خطے کی سلامتی پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ پاکستان اور ایران کے درمیان دفاعی تعاون اور پاک ایران سرحدی صورتِحال پر بھی بات چیت ہوئی۔

ایران افغانستان میں داعش کی موجودگی پر پہلے ہی ہمسایہ ممالک کو آگاہ کرچکا تھا اور اب پاکستان میں اس دہشتگرد تنظیم کے حملوں پر بھی تہران نے تشویش کا اظہار کیا۔ خطے میں داعش کی بڑھتی ہوئی موجودگی پر ایران گہری نظر رکھے ہوئے ہے اور چینی، روسی اور پاکستانی حکام بھی اس عسکریت پسند تنظیم کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ پر پریشان ہیں۔ پاکستان، ایران، روس اور چین کے خفیہ اداروں کے حکام نے حال ہی میں اسلام آباد میں ایک اجلاس میں شرکت کی تھی اور اس کا موضوع بھی داعش تھا۔ خطے کے ممالک میں یہ تاثر ہے کہ بعض دوسرے ممالک جان بوجھ کر افغانستان میں داعش کو کھڑا کر رہے ہیں، تاکہ خطے کیلئے مسائل پیدا کئے جاسکیں۔

افغان طالبان کے برعکس کیونکہ داعش ایک بین الاقوامی دہشتگرد گروپ ہے، اس لئے ایران پاکستان اور خطے کے دوسرے ممالک کیساتھ مل کر اس خطرے سے نمٹنا چاہتا ہے۔ ایران اور پاکستان کے درمیان آنیوالے وقتوں میں سکیورٹی تعاون مزید بڑھتا ہوا دکھائی دے رہا ہے۔ ایرانی وفد پاکستانی آرمی چیف جنرل باجوہ کی دعوت پر آیا تھا، ابھی مزید وفود کے تبادلے ہوں گے اور اس بات کا امکان ہے کہ پاکستان اور ایران مشترکہ طور پر اس عسکریت پسند تنظیم داعش سے نمٹنے کیلئے کوئی پالیسی بنائیں گے۔ پاکستان میں حکام ایک عرصے تک اس بات کے انکاری رہے کہ ملک میں داعش کا کوئی وجود ہے، لیکن مستونگ حملے کے بعد اب اس بات میں کوئی شک نہیں کہ داعش کی پاکستان میں بہت منظم موجودگی ہے۔ زمینی حقائق یہ ہیں کہ مستونگ حملے نے خطے کے ممالک اور اسلام آباد میں خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے، پہلے ہم کہتے تھے کہ داعش موجود نہیں، لیکن اس حملے میں اس دہشتگرد تنظیم نے ریاست نواز سیاست دان کو ہدف بنا کر ریاستی اداروں کو یہ باور کرایا ہے کہ وہ ملک میں اپنا وجود رکھتی ہے، کیونکہ اس تنظیم کی موجودگی سے پاکستان اور ایران دونوں کو خطرہ ہے۔

لہذا یہ کہا جا سکتا ہے کہ ایرانی وفد کا دورہ اس مسئلے پر تعاون کرنے کی پیشکش ہے۔ پاکستان، ایران اور خطے کے دوسرے ممالک کو اس مسئلے سے نمٹنے کیلئے مشترکہ کوششیں کرنی پڑیں گی۔ اگر داعش پاکستان اور افغانستان میں مضبوط ہوتی ہے تو اس کا ٹارگٹ ایران ہوگا۔ ایران بلوچستان میں داعش کی بڑھتی ہوئی موجودگی سے بھی فکر مند ہے، کیونکہ بلوچستان کی سرحد ایرانی بلوچستان سے ملتی ہے، جہاں تہران کو پہلے ہی علیحدگی پسند تحریک کا سامنا ہے۔ کچھ عناصر ایران میں سنیوں کو تہران کیخلاف کھڑا کرنا چاہتے ہیں۔ ایسے میں اگر داعش بلوچستان میں موجود ہوگی تو فتنہ گر عناصر کے مضبوط ہونے کا امکان ہوسکتا ہے۔ ایران اس سازش کو ناکام کرنا چاہتا ہے اور پاکستان سے مل کر داعش کا قلع قمع کرنا چاہتا ہے، کیونکہ داعش پاکستان میں کئی حملے کرچکی ہے، پاکستان اس مسئلے پر ایران اور دوسرے ممالک سے تعاون کرے گا اور سعودی و امریکی حکام کی ناراضگی یا اعتراضات کو نظر انداز کرے گا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس مشترکہ خطرے سے نمٹنے کیلئے مشترکہ کوششوں کو بروئے کار لایا جائے۔ اس حوالے سے ایرانی حکام کے دورہ پاکستان کو مثبت قرار دیا جا رہا ہے۔

اطلاعات کے مطابق پاکستانی حکام نے ایران آرمی چیف کو داعش کے فتنے نے نمٹنے کیلئے مشترکہ حکمت عملی پر اپنی تجویز دی ہے، جسے ایرانی آرمی چیف نے قبول کر لیا ہے اور اس حوالے سے آئندہ بہت جلد اجلاس میں حکمت عملی طے کی جائے گی۔ اس حوالے سے طرفین کی جانب سے مذاکراتی ٹیمیں بھی تشکیل دے دی گئی ہیں، جو اس ایشو پر انٹیلی جنس شیئرنگ کریں گی اور افغانستان مین بھارت کے تعاون سے پنپنے والی داعش کا صفایا کیا جائے گا۔ ایران نے ہر مشکل گھڑی میں پاکستان کا ساتھ دیا ہے، مگر پاکستان کی جانب سے ہمیشہ ایران کو نظرانداز کیا گیا ہے۔ اس حوالے سے حکومت پاکستان کو اپنی خارجہ پالیسی پر نظرثانی کرنا ہوگی۔ ہم نے ہر بار ایران کے مقابلے میں امریکہ کو ترجیح دی لیکن امریکہ نے کبھی بھی مشکل وقت میں ہمارا ساتھ نہیں دیا، ہم ہر بار اسی سوراخ سے بار بار ڈسے جاتے ہیں جبکہ چند عرب ممالک کی جانب سے ایران مخالف بے بنیاد پروپیگنڈہ کا بھی ہم اکثر شکار ہوتے رہے ہیں مگر اب نہیں، اب نئے سرے سے خارجہ پالیسی تشکیل دینا ہوگی، پالیسی بدلنے سے ہی خطے میں ہم داعش جیسے عفریت کا مقابلہ کرسکیں گے، بصورت دیگر ہمارے دہشتگردی کیخلاف جنگ میں قربانی پانی کی بہہ کر ضائع ہو جائیں گی اور دنیا الٹا ہمیں ہی دہشتگرد کہے گی۔
خبر کا کوڈ : 738557
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش