0
Thursday 19 Jul 2018 14:11

شام کے جنوب میں درعا کی آزادی، اہمیت اور نتائج

شام کے جنوب میں درعا کی آزادی، اہمیت اور نتائج
تحریر: محمد رضا کلہر

2011ء میں شام کا انفرا اسٹرکچر تباہ کرنے اور صدر بشار اسد کی حکومت گرانے کی سازش کا آغاز ہوا اور اس سلسلے میں پہلا قدم شام کے جنوب میں واقع صوبہ درعا سے اٹھایا گیا۔ یہ بحران دھیرے دھیرے شام کے دیگر علاقوں تک پھیل گیا اور اس کے نتیجے میں مغربی عربی عبری اتحاد کے حمایت یافتہ دہشت گرد عناصر شام کے بڑے حصے پر قابض ہونے میں کامیاب ہو گئے۔ دوسری طرف شام آرمی نے اسلامی مزاحمتی بلاک کی مدد سے ان دہشت گرد عناصر سے مقابلے کا عزم کر لیا۔ لہذا اس نے تیزی سے خود کو منظم کیا اور دہشت گرد عناصر کے قبضے سے اپنے علاقے آزاد کروانے کیلئے گرینڈ آپریشن کا آغاز کر دیا۔ مارچ 2017ء میں دمشق کا نواحی علاقہ مشرقی غوطہ خاص طور پر "دوما" کا شہر آزاد کروا لیا گیا جبکہ اپریل 2017ء میں رقہ، دیر الزور اور مشرقی حلب کے علاقے بھی دہشت گرد عناصر سے چھڑوا لئے گئے۔ اس کے بعد شام آرمی نے جنوب کا رخ کیا اور اپنے صوبوں درعا اور قنیطرہ کو بھی آزاد کروانے کیلئے فوجی مہم کا آغاز کر دیا۔
 
اسٹریٹجک لحاظ سے شام کے دو صوبے درعا اور قنیطرہ خاص اہمیت کے حامل جانے جاتے ہیں۔ یہ صوبے ملک کے دارالحکومت دمشق کے قریب واقع ہونے کے ساتھ ساتھ اردن اور مقبوضہ فلسطین کی سرحد پر بھی واقع ہیں۔ اس وجہ سے ان کی اہمیت دوبالا ہو جاتی ہے۔ اس وقت شام میں دہشت گرد عناصر کے خلاف گھیرا بہت تنگ ہو چکا ہے اور اب دہشت گرد عناصر کے خلاف فوجی آپریشن اس علاقے تک پہنچ چکا ہے جہاں سے اس فتنے کا آغاز ہوا تھا۔ 26 جون 2018ء سے شام کے جنوبی حصے میں بھرپور فوجی کاروائی کا آغاز کیا جا چکا ہے۔ اگر یہ آپریشن کامیابی سے پایہ تکمیل تک پہنچ جاتا ہے تو اس کا مطلب شام میں سکیورٹی بحران کا خاتمہ ہو گا۔ شام کے جنوب میں شروع ہونے والا یہ فوجی آپریشن تکفیری دہشت گرد گروہ النصرہ فرنٹ اور اس سے ملحقہ مسلح گروہوں کے خلاف ہے۔ یہ آپریشن صوبہ درعا میں جاری ہے جس کا دائرہ درعا کے شمال میں واقع شہر سویدا اور اس کے اردگرد تک بھی پھیلا ہوا ہے۔
 
اس آپریشن میں شام آرمی کا حقیقی مقصد دہشت گرد عناصر کا مکمل خاتمہ ہے لہذا اس نے ہر گاوں اور قصبے سے دہشت گرد عناصر کے خاتمے پر توجہ مرکوز کر رکھی ہے۔ اسی طرح شام آرمی کے دیگر مقاصد میں اردن کی سرحد پر واقع "نصیب" تجارتی چیک پوسٹ کو کھولنا اور سرحدی علاقوں پر حکومتی کنٹرول قائم کرنا ہے۔ آخرکار جمعرات 12 جولائی کے روز شام آرمی پیشقدمی کرتی ہوئی صوبہ درعا کے مرکز درعا شہر تک پہنچ گئی اور اسے اپنے کنٹرول میں لے لیا۔ درعا شہر میں شام کی فوجی گاڑیاں داخل ہونے کے بعد اس شہر پر قومی پرچم لہرا دیا گیا۔ یاد رہے درعا کا شہر 2011ء سے اب تک تکفیری دہشت گرد عناصر کے قبضے میں تھا۔ اسی شہر کی مشہور مسجد "درعا البلدہ" سے شام حکومت کے خلاف بغاوت کا آغاز ہوا اور تکفیری دہشت گرد عناصر نے حکومت کے خلاف اعلان جنگ کیا تھا۔ درعا کے مختلف حصوں میں بچے کھچے دہشت گردوں نے ہتھیار پھینک کر خود کو شام آرمی کے حوالے کر دیا۔
 
درعا کی اہمیت
شاید درعا شہر کی اہمیت کی سب سے بڑی وجہ اس کی علامتی طاقت تھی۔ تکفیری دہشت گرد عناصر نے اس شہر سے اپنی حکومت مخالف مہم کا آغاز کیا تھا اور اسے اپنے مبینہ انقلاب کا گہوارہ قرار دیتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ اس شہر کی آزادی تکفیری دہشت گرد عناصر کے حوصلے ٹوٹنے اور ان کی مرکزیت کے خاتمے کا باعث بن سکتی ہے۔ درعا شہر کی اہمیت کی دیگر وجوہات میں اس کا اسٹریٹجک جغرافیائی محل وقوع، اس میں واقع چند اہم فوجی تنصیبات اور مراکز اور اس کا مقبوضہ فلسطین کے قریب واقع ہونا شامل ہیں۔ اسی طرح ممکنہ اسرائیلی فوجی جارحیت کا مقابلہ کرنے میں اس شہر کی اہمیت، فری ٹریڈ زون کی موجودگی، انڈسٹریل سٹی کی موجودگی اور اردن کی سرحد پر واقع ہونے کے ناطے اس ملک سے تجارت کا دروازہ قرار پانا بھی اس کی اہمیت کو دوبالا کر دیتے ہیں۔ درعا سے ایک بڑی ہائی وے دمشق سے ہوتی ہوئی حلب تک جا پہنچتی ہے۔ ماضی میں درعا شہر "حوران" علاقے کا مرکز تھا۔ یہ علاقہ شام کے جنوبی حصے اور اردن کے شمالی حصے پر مشتمل ہے۔
 
آج کے دور میں درعا شہر کی اہمیت کی بڑی وجہ مقبوضہ فلسطین اور مقبوضہ گولان ہائٹس کے قریب واقع ہونا اور غاصب صہیونی رژیم کی موجودگی ہے۔ امریکہ اور اسرائیل نے تکفیری دہشت گرد عناصر کے ذریعے جو سازش تیار کر رکھی ہے اس کے تناظر میں وہ درعا شہر کو اسرائیلی زیر قبضہ علاقے "حوض الیرموک" سے ملحق کرنے کا خواب دیکھ رہے تھے۔ وہ اس طرح گولان ہائٹس کی فائل ہمیشہ کیلئے بند کر دینا چاہتے تھے۔ اس سے پہلے امریکہ اور اسرائیل درعا کو شام سے علیحدہ کرنے کیلئے ایک اور سازش بھی کر چکے تھے جو ناکامی کا شکار ہو گئی تھی۔ انہوں نے اقوام متحدہ کے ذریعے اس علاقے کو "انسانی بنیادوں پر فری زون" قرار دینے کی کوشش کی تھی۔ اسی وجہ سے جب شام آرمی نے جنوبی علاقے میں فوجی آپریشن شروع کرنا چاہا تو امریکہ، اسرائیل اور ان کے اتحادی ممالک کی جانب سے مختلف قسم کی دھمکیاں آنا شروع ہو گئیں اور انہوں نے اس علاقے کی آزادی میں روڑے اٹکانا شروع کر دیئے۔ شام حکومت اس سازش سے اچھی طرح آگاہ تھی لہذا اس نے بھرپور انداز میں فوجی آپریشن شروع کیا اور امریکہ اور اس کے اتحادیوں کا دباو مسترد کر دیا۔ اس شجاعانہ اقدام کا نتیجہ درعا کی آزادی کی صورت میں ظاہر ہوا ہے۔
 
درعا کی آزادی کے نتائج
اب تک صوبہ درعا کا نوے فیصد حصہ دہشت گرد عناصر کے قبضے سے آزاد کروایا جا چکا ہے جبکہ یہ ٹارگٹ حاصل کرنے میں شام آرمی نے کم از کم نقصان برداشت کیا ہے۔ روسی وزارت خارجہ کی ترجمان ماریا زاخاروا نے اعلان کیا ہے کہ شام آرمی کم ترین نقصان کے ساتھ درعا کو مکمل طور پر آزاد کروانے میں کامیاب ہو چکی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ صوبہ درعا کی عوام نے سات سال تک تکفیری دہشت گرد عناصر کے زیر قبضہ رہنے کے باوجود شام آرمی کا پرتپاک استقبال کیا ہے جس سے اس فوجی آپریشن کے انتہائی مثبت نفسیاتی اثرات پیدا ہو سکتے ہیں۔ مزید برآں، درعا کی آزادی شام حکومت کیلئے انتہائی سیاسی اور اسٹریٹجک اہمیت کی حامل ہے۔ اس صوبے کی آزادی کے نتیجے میں دمشق کے سکیورٹی زون میں اضافہ ہوا ہے جبکہ دوسری طرف اسرائیل کی غاصب صہیونی رژیم بھی دہشت گرد عناصر کی حمایت جاری رکھنے کی صلاحیت کھو چکی ہے۔
 
دوسری طرف شام حکومت امریکہ پر زور دے رہی ہے کہ وہ اردن اور عراق کے ساتھ شام کی مشترکہ سرحد پر واقع "التنف" چیک پوسٹ اس کے حوالے کر دے۔ یہاں امریکہ نے ایک فوجی اڈہ قائم کر رکھا ہے جو امریکی اور برطانوی فوجی افسروں کے ذریعے دہشت گرد عناصر کی فوجی ٹریننگ کا مرکز بن چکا ہے۔ یوں درعا کی آزادی کا مطلب گولان ہائٹس کے ساتھ شام آرمی کی دوبارہ تعیناتی اور 2011ء سے پہلے والی صورتحال کی واپسی ہے۔ یعنی اسرائیل کے ساتھ 1974ء والے جنگ بندی معاہدے کی واپسی اور گولان ہائٹس واپس کرنے کے مطالبے کا احیاء۔ درعا میں شام آرمی کے کامیاب فوجی آپریشن کا ایک اور نتیجہ یہ نکلا ہے کہ اس شہر کی آزادی کے نتیجے میں دمشق عمان ہائی وے دوبارہ کھل گئی ہے اور شام سے اردن برآمدات کا سلسلہ بھی دوبارہ بحال ہو جائے گا۔
 
ایک اور اہم نکتہ یہ ہے کہ صوبہ قنیطرہ صوبہ درعا کے مغرب میں واقع ہے جہاں تکفیری دہشت گرد عناصر کی بڑی تعداد موجود ہے۔ اسی طرح گولان ہائٹس بھی درعا کے مغرب میں واقع ہیں جن پر اسرائیل کی غاصب صہیونی رژیم نے قبضہ کر رکھا ہے۔ ایسی صورتحال میں شام کا قومی پرچم اس مسجد پر لہرا دیا گیا ہے جہاں سے 2011ء میں تکفیری فتنے کا آغاز ہوا تھا۔ یوں شام میں دہشت گرد عناصر کے مبینہ انقلاب کے گہوارے اور انقلاب کے تابوت میں آخری کیل لگا دیا گیا ہے۔ اگر ہم یہ کہیں کہ درعا کی آزادی کے نتیجے میں سب سے بڑی ہار اسرائیل کی ہوئی ہے تو غلط نہیں ہو گا۔ گذشتہ سات سالوں کے دوران غاصب صہیونی رژیم نے شام کے جنوبی حصوں میں موجود تکفیری دہشت گرد عناصر کو منظم کر کے اپنے اور شام آرمی کے درمیان بفر زون قائم کرنے کی بھرپور کوشش کی ہے۔ لیکن درعا کی آزادی نے اسرائیل کی اس کھوکھلی دیوار پر کاری ضرب لگائی ہے جس کے نتیجے میں اب 2011ء بحران سے پہلے کی طرح اسرائیل ایک بار پھر اسلامی مزاحمتی فورسز کے مقابلے میں نہتا ہو چکا ہے۔
 
مجموعی طور پر درعا میں شام آرمی کے آپریشن کو شام کے جنوبی علاقوں میں دہشت گرد عناصر کے مکمل خاتمے کا آخری قدم قرار دیا جا سکتا ہے۔ دہشت گرد عناصر یہ امید لگائے بیٹھے تھے کہ وہ درعا سے دمشق پر قبضے کی کوئی راہ ڈھونڈ نکالیں گے لیکن اس شہر پر شام آرمی کے کنٹرول کے بعد ان کی تمام امیدوں پر پانی پھر گیا ہے۔ اس وقت شام آرمی اور اس کی اتحادی فورسز شمال میں واقع صوبہ ادلب کو دہشت گرد عناصر کے قبضے سے آزاد کروانے کیلئے گرینڈ آپریشن کی منصوبہ بندی میں مصروف ہیں۔ صوبہ ادلب ترکی کی سرحد پر واقع ہونے کے ناطے انتہائی درجہ اہمیت کا حامل ہے جبکہ موجودہ شواہد سے ظاہر ہوتا ہے کہ عوام کے دل شام حکومت کے ساتھ ہیں۔ ہو سکتا ہے درعا کی آزادی کو شام میں فوجی راہ حل کا آخری قدم قرار دیا جائے اور جس کا مطلب یہ ہو گا کہ شام آرمی اور اسلامی مزاحمتی بلاک تکفیری دہشت گرد عناصر اور ان کی حامی قوتوں کو مذاکرات کا راستہ اختیار کرنے پر مجبور کرنے میں کامیابی سے ہمکنار ہو چکے ہیں۔
 
خبر کا کوڈ : 738833
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش